غزہ اور سوڈان میں غذائی بحران: قحط کیا ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے

قحط اس وقت پڑتا ہے جب کسی ملک میں خوراک کی اتنی شدید قلت ہو جائے کہ اس کی آبادی کو شدید غذائی قلت، فاقہ کشی یا بھوک کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑے۔
غزہ میں خوراک کی قلت
Getty Images
آئی پی سی کی درجہ بندی کے مطابق غزہ کی نصف آبادی یعنی تقریباً 11 لاکھ لوگ، بھوک سے مر رہے ہیں

غزہ میں لاکھوں لوگ خوراک تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور قحط کے دہانے پر ہیں۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ کے 20 لاکھ شہری شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع بھی دنیا میں سب سے بڑے بھوک کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

قحط کیا ہوتا ہے اور اس کا اعلان کب ہوتا ہے؟

قحط اس وقت پڑتا ہے جب کسی ملک میں خوراک کی اتنی شدید قلت ہو جائے کہ اس کی آبادی کو شدید غذائی قلت، فاقہ کشی یا بھوک کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑے۔

کسی علاقے یا ملک کے قحط سے متاثر ہونے کا اعلان عام طور پر اقوام متحدہ کرتی ہے اور بعض اوقات اس کا فیصلہ متاثرہ ملک کی حکومت اور اکثر دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں یا انسانی ہمدردی کے اداروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔

کسی علاقے میں قحط پڑنے کا فیصلہ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن نامی اقوام متحدہ کے پیمانے کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

اس پیمانے کے تحت کسی ملک میں خوراک کی قلت یا غذائی عدم تحفظ کی شدت کی درجہ بندی پانچ مراحل میں کی جاتی ہے اور قحط پانچواں اور شدید ترین درجہ ہے۔

لیکن سرکاری طور پر قحط کا اعلان کرنے کے لیے، ایک مخصوص علاقے میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اول یہ کہ کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو۔ دوم یہ کہ کم از کم 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں اور تیسرا یہ کہ دس ہزار کی آبادی میں روزانہ دو بالغ یا چار بچے بھوک سے ہلاک ہوں۔

غزہ اور سوڈان میں قحط کا خطرہ کیوں ہے؟

سوڈان
Getty Images
سوڈان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میںشدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ میں مارچ سے مئی 2024 کے درمیان قحط کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔

آئی پی سی کی درجہ بندی کے مطابق غزہ کی نصف آبادی یعنی تقریباً 11 لاکھ لوگ، بھوک سے مر رہے ہیں اور بدترین صورتحال ہوئی تو غزہ کی پوری آبادی جولائی 2024 تک قحط کا شکار ہو جائے گی۔

دریں اثنا اقوام متحدہ کے حکام نے ہی خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع ملک کے لیے ’حالیہ تاریخ کے بدترین ڈراؤنے خوابوں میں سے ایک‘ ہے، جو دنیا میں بھوک کے سب سے بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اپریل 2023 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں سوڈان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس نے چھوٹے بچوں میں غذائی قلت کو ’بدترین اندازوں سے بھی زیادہ‘ دیکھا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ بچوں میں ہیضہ، خسرہ اور ملیریا بھی پھیل رہے ہیں۔

دیگر کن ممالک میں قحط کا خطرہ ہے؟

انسانی حقوق کی تنظیم ’ایکشن اگینسٹ ہنگر‘ کا کہنا ہے کہ دیگر کئی ممالک میں بھی ’بھوک کی سطح انتہائی تشویشناک‘ ہے۔

ان میں افغانستان، جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا کا علاقہ ٹائیگرے، پاکستان، صومالیہ، شام اور یمن شامل ہیں۔

مارچ 2024 میں، عالمی پروگرام برائے خوراک نے متنبہ کیا کہ ہیٹی، جو کہ گروہی تشدد کے درمیان ایک شدید سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، ’بھوک کے تباہ کن بحران کے کنارے پر ہے‘۔

وہاں تقریباً 14 لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں جبکہ 30 لاکھ ان سے ایک ہی درجہ نیچے ہیں۔ آئی پی سی کی ہیٹی کی غذائی تحفظ کی صورتحال کی درجہ بندی ’خطرناک‘ ہے۔

قحط کیوں پڑتا ہے؟

ایتھوپیا
Getty Images
خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا میں 1984 کے قحط کے دوران دس لاکھ لوگ بھوک سے مر گئے تھے۔

آئی پی سی کے مطابق قحط اور خوراک کے شدید بحران کی متعدد وجوہات ہیں، جن کی وجہ انسانی اقدامات یا قدرت یا دونوں کا مجموعہ ہو سکتی ہیں۔

ایکشن اگینسٹ ہنگر کا کہنا ہے کہ تنازعات ’دنیا بھر میں بھوک کا کلیدی محرک‘ ہیں۔

تنظیم نے سوڈان میں، خوراک کی ناکافی پیداوار اور اس کے نتیجے میں بلند قیمتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا اور یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں جاری تنازعے کی وجہ سے ہی زندگی بچانے والی خوراک، ایندھن اور پانی کو علاقے میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔

آئی پی سی نے انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی شمالی غزہ تک رسائی کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید موسمی واقعات کی وجہ سے خشک سالی اور فصلوں کی تباہی خاص طور پر مشرقی افریقہ میں خوراک کی وسیع قلت کا باعث بن رہی ہے۔

ال نینو آب و ہوا کا ایک ایسا نمونہ ہے جو بحر الکاہل کے پانی کی غیر معمولی حدت کو بیان کرتا ہے، اس نے پہلے ہی جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں خوراک کی فراہمی پر منفی اثر ڈالا ہے۔

قحط کے سرکاری اعلان سے کیا فرق پڑتا ہے؟

قحط کا اعلان کیے جانے سے کسی قسم کی مخصوص فنڈنگ کا اجرا تو نہیں ہوتا تاہم اس کے نتیجے میں اکثر اقوام متحدہ اور عالمی حکومتوں کی طرف سے ردعمل سامنے آتا ہے جو خوراک کی فراہمی اور ہنگامی فنڈنگ فراہم کر سکتی ہیں۔

کچھ انسانی امداد کے ادارے جیسے عالمی ریڈ کراس غذائی قلت کے علاج کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ آکسفیم نے غزہ میں شراکت داروں کے ساتھ کھانے اور حفظان صحت کی اشیا کے لیے واؤچرز اور نقد رقم تقسیم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام سوڈان میں سڑکوں اور سکولوں جیسے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کے پاس موبائل ریسپانس ٹیمیں بھی ہیں جو دور دراز علاقوں کے لوگوں تک خوراک اور دیگر امداد پہنچاتی ہیں۔

عام طور پر جب کسی ملک کو غذائی قلت کے حوالے سے تیسرا یا اس سے اوپر کا درجہ دیا جاتا ہے تو بہت سی ایجنسیاں عموماً قحط سے بچنے کے لیے قحط کا اعلان ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرنا اور امداد پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔

ہیٹی
BBC
ہیٹی میں بھی لاکھوں شہری خوراک اور پانی تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں

ماضی میں کہاں کہاں قحط پڑنے کا اعلان ہوا؟

آخری بار قحط کا سرکاری طور پر اعلان جنوبی سوڈان میں سنہ 2017 میں کیا گیا تھا۔

وہاں تین سال کی خانہ جنگی کے بعد تقریباً 80 ہزار افراد کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑا اور لاکھوں دیگر بھی قحط کے دہانے پر تھے۔

اس وقت اقوام متحدہ نے زراعت پر جنگ کے اثرات کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس جنگ کی وجہ سے کسانوں کے مویشی مارے گئے، فصلوں کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی اور مہنگائی بڑھ گئی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا میں سنہ 1984 کے قحط کے دوران دس لاکھ لوگ بھوک سے مر گئے تھے۔

ماضی میں 2011 میں جنوبی صومالیہ، 2008 میں جنوبی سوڈان، 2000 میں ایتھوپیا کے صومالی علاقے گوڈے، سنہ 1996 میں شمالی کوریا، 1991-1992 میں صومالیہ اور 1984-1985 میں ایتھوپیا مںی قحط پڑ چکا ہے۔

مزید ماضی کو کھنگالیں تو سنہ 1845 اور سنہ 1852 کے درمیان، آئرلینڈ کو فاقہ کشی، بیماری اور ہجرت کے دور کا سامنا کرنا پڑا جو عظیم قحط کے نام سے مشہور ہوا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس دوران تقریباً 10 لاکھ لوگ اس وقت مر گئے جب ملک کی آلو کی فصل بیماری کی وجہ سے تباہ ہو گئی لیکن برطانیہ کو آلو کی برآمد جاری رہی جو اس وقت پورے جزیرے پر حکمرانی کر رہا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.