نمونیا سے اموات:’قوت مدافعت میں کمی پاکستانی بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے‘

عالمی ماہرین صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں کی جان کی دشمن چند بڑی بیماریوں میں شامل نمونیا ان بیماریوں میں سے ایک ہے جن سے حفاظتی ٹیکہ بچوں کو بچا سکتا ہے۔ حفاظتی ٹیکے جسم میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ قوت مدافعت کیا ہے اور اس کی کمی نمونیا جیسی بیماری کے ہاتھوں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی بچوں کی جان کیوں لے رہی ہے؟
نمونیا
Getty Images
(فائل فوٹو)

محکمہ صحت کے رجسٹر پر محض ایک نمبر کے طور پر پہنچنے سے پہلے گیارہ سالہ محمد زبیر (نام تبدیل کیا گیا ہے) ایک جیتے جاگتے انسان تھے۔ گذشتہ ماہ وہ لاہور کے جنرل ہسپتال میں سخت بیمار ہو کر پہنچے۔ ڈاکٹروں نے ان کے والدین کو بتایا کہ وہ نمونیا کا شکار ہیں۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور کے علاقے چنگی امر سدھو کے رہائشی محمد زبیر کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہیں اور یہی ہوا۔ کچھ وقت انتہائی نگہداشت میں گزارنے کے بعد وہ چل بسے۔

اس طرح محکمہ صحت پنجاب کے رجسٹر پر حالیہ سرما میں نمونیا سے مرنے والوں میں ایک نمبر کا اضافہ ہو گیا۔ اس سرما میں اب تک نمونیا ساڑھے چار سو سے زیادہ جانیں لے چکا ہے جن میں زیادہ تر دو سے بارہ سال کی عمر کے بچے شامل ہیں۔

لاہور کے جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں کو محمد زبیر کے حوالے سے یہ خوف کیوں تھا کہ وہ بچ نہیں پائیں گے؟ ڈاکٹر ماہم نور اسی ہسپتال میں بچوں کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں ان کی ڈیوٹی ایمرجنسی اور آئی سی یو میں رہی ہے۔

یہاں انھوں نے نمونیا کا شکار بہت سے بچے آتے ہوئے دیکھے ہیں۔ زیادہ تر ٹھیک ہو کر گھر واپس چلے گئے لیکن محمد زبیر کی طرح بہت سے بچے زندہ گھر نہیں جا سکے۔

ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں کو اس لیے ایسے بچوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ نمونیا ان کی جان لے لے گا کیونکہ ’ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان میں کوئی پہلے سے موجود بیماری ہوتی ہے جس سے ان کا جسم لڑ رہا ہوتا ہے۔‘

محمد زبیر بھی سیریبرل پالسی کا شکار تھے۔ یہ ایک دماغی بیماری ہے جس میں دماغ جسم کے پٹھوں کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ گیارہ سال کی عمر میں ان کا وزن صرف پندرہ کلو تھا۔ ڈاکٹروں کو یہ علم نہیں کہ محمد زبیر کو نمونیا سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگا تھا یا نہیں۔

ڈاکٹر ماہم نور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں بہت سے ایسے بچے جن کی نمونیا سے اموات ہوئیں انھیں حفاظتی ٹیکہ نہیں لگا تھا۔

’اور ساتھ ہی ان میں غذائیت کی کمی تھی اور وہ بہت ہی کمزور تھے یا پھر ان کی افزائش ان کی عمر کے مطابق نہیں تھی۔ اس تمام کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں قوت مدافعت کی کمی پیدا ہو چکی تھی۔‘

پنجاب اکیلا نہیں، صوبہ خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بھی سینکٹروں کی تعداد میں بچے نمونیا کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھے ہیں۔

عالمی ماہرین صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں کی جان کی دشمن چند بڑی بیماریوں میں شامل نمونیا ان بیماریوں میں سے ایک ہے جن سے حفاظتی ٹیکہ بچوں کو بچا سکتا ہے۔ حفاظتی ٹیکے جسم میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ یہ قوت مدافعت کیا ہے اور اس کی کمی نمونیا جیسی بیماری کے ہاتھوں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی بچوں کی جان کیوں لے رہی ہے؟

بچوں میں یہ کمی کیسے پیدا ہو رہی ہے اور کیا پاکستان میں بچے حفاظتی ٹیکوں تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے؟

نمونیا
Getty Images
(فائل فوٹو)

نمونیا بچوں کو کیسے مارتا ہے؟

لاہور جنرل ہسپتال کی ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ یہ بنیادی طور پر پھیپھڑوں کی انفیکشن ہوتی ہے جس میں پھیپھڑوں میں پس وغیرہ بھرنا شروع ہو جاتی ہے۔ بیکٹیریا اور وائرس دونوں قسم کے جراثیم یہ بیماری پیدا کرتے ہیں اور نمونیا ایک سے دوسرے شخص میں سانس کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔

دو سال سے چھوٹی عمر کے بچوں میں یہ بیماری لگنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ نمونیا میں مریض کو سانس لینے میں سخت دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انھیں مصنوعی تنفس دینے کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے۔

ایسے بچے جو صحت مند ہوتے ہیں اور ان کو حفاظتی ٹیکے لگے ہوتے ہیں ان کا جسم آسانی سے اس بیماری کا مقابلہ کر لیتا ہے۔

’لیکن زیادہ تر جن بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہوتے یا ان میں نشوونما اور غذائیت کی کمی ہوتی ہے یا پھر ان کا جسم پہلے ہی سے کسی اور بیماری سے لڑ رہا ہوتا ہے ان میں اموات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ حالیہ موسم سرما میں بھی ان کے مشاہدے میں جن بچوں میں نمونیا کی وجہ سے اموات ہوئیں ان میں زیادہ تر یہی وجوہات موجود تھیں۔ یعنی اموات ان بچوں میں ہوئیں جن میں قوت مدافعت کی کمی تھی۔

’اس مرتبہ سموگ کا نمونیا میں بڑا کردار رہا‘

ڈاکٹر عرفان ملک یونیورسٹی آف لاہور کے کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کے پلمانالوجی کے شعبے کے سربراہ ہیں یعنی سانس کی بیماریوں کے ماہر ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ حالیہ سرما میں لاہور اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کا لوگوں کو سانس کی بیماریاں دینے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ سانس کی تکالیف کے ساتھ ہسپتالوں میں پہنچے ہیں۔

’لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ یہاں سموگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس مرتبہ سردی کے ساتھ ساتھ سموگ کا بھی نمونیا جیسی بیماریوں کو پیدا کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پہلے ہی سردی ہوتی ہے جس میں فضائی آلودگی انسان کے نظام تنفس کے اوپری حصے پر حملہ کرتی ہے۔ آلودگی کے ذرات پھیپھڑوں کے اندر تک جا کر سوزش پیدا کرتے ہیں۔ ان میں انفیکشن پیدا ہوتا ہے اور نمونیا کی شکل اختیار کرتا ہے۔

ڈاکٹر عرفان ملک کے خیال میں پہلے لوگوں کو آلودگی والے ’سخت سردی‘ کے اس موسم کا سامنا کم دورانیے کے لیے ہوتا تھا تو اب اس کا دورانیہ بڑھ کر دو یا تین ماہ ہو گیا ہے۔

ایل جی ایچ کی ڈاکٹر ماہم نور بھی کہتی ہیں کہ اس مرتبہ سموگ کی وجہ سے نمونیا جیسی بیماری میں زیادہ شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے میں وہ بچے جن میں قوت مدافعت نہیں ہوتی وہ نمونیا سے اپنی جانیں نہیں بچا پاتے۔

نمونیا
BBC
ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ماں کا دودھ بچوں کو سب سے زیادہ قوت مدافعت فراہم کرتا ہے

بچوں میں قوت مدافعت کیوں نہیں؟

لاہور جنرل ہسپتال میں بچوں کے امراض کے شعبے میں کام کرنے والی ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ان کے مشاہدے میں اس کی ایک وجہ بچوں میں غذائیت کی کمی ہے۔ غربت کی وجہ سے بچوں کو وہ خوراک نہیں ملتی جس کی ان کے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نشوونما رک جاتی ہے یا کم ہوتی ہے اور ان کے جسم میں قوت معدافعت کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر ماہم نور کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے پر توجہ نہیں دیتے۔ ’بچوں کو حفاظتی ٹیکے معمول کے مطابق وقت پر نہیں لگے ہوتے یا لگے ہی نہیں ہوتے۔ کئی والدین کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیا چیز ہے۔ وہ بچوں کو گھر لے کر بیٹھے رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے نمونیا اور وہ تمام بیماریاں جن کے خلاف حفاظتی ٹیکے حفاظت فراہم کرتے ہیں ان کے خلاف بچوں کے جسم میں قوت مدافعت پیدا نہیں ہو سکتی۔

یونیورسٹی آف لاہور سے منسلک ماہر پلمانالوجسٹ ڈاکٹر عرفان ملک کہتے ہیں کہ ’ہماری قوم میں پتا نہیں کیوں بدقسمتی سے ویکسین یا حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے بلا جواز شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ویکسین کے ذریعے آبادیوغیرہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا شاید ان کی وجہ سے اموات زیادہ ہو رہی ہیں جو سراسر غلط ہے۔

’مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلا رہیں‘

لاہور جنرل ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ان کے پاس ہسپتال میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماؤں کو یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلائیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ زیادہ تر مائیں بچوں کو فارمولا ملک یا ڈبے کا دودھ دیتی ہیں۔

’ان کو یہ آسان لگتا ہے۔ وہ فارمولا ملک دیتی ہیں اس سے بچے کا جی بھر جاتا ہے، پھر کچھ دیر بعد دوبارہ وہ اسے فیڈر کے ذریعے فارمولا ملک دے دیتی ہیں۔ ورنہ ماں کا دودھ دینے کے لیے انھیں ہر تھوڑی دیر بعد بچے کو فیڈ کرنا ہو گا۔ یہ انھیں مشکل لگتا ہے۔‘

ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ماں کا دودھ بچوں کو سب سے زیادہ قوت مدافعت فراہم کرتا ہے۔ جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ بہت سی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔

’فارمولا ملک ہم صرف اس صورت میں استعمال کرتے ہیں جب ماں بیمار ہو گئی ہو یا خود بچے کو دودھ پلانے کے قابل نہ ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی یہ رجحان بن گیا ہے کہ زیادہ تر مائیں بچوں کا اپنا دودھ نہیں پلا رہیں جو انھیں قوت مدافعت سے محروم کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عرفان ملک
BBC
ڈاکٹر عرفان ملک کے خیال میں پہلے لوگوں کو آلودگی والے ’سخت سردی‘ کے اس موسم کا سامنا کم دورانیے کے لیے ہوتا تھا تو اب اس کا دورانیہ بڑھ کر دو یا تین ماہ ہو گیا ہے

’اموات کی تعداد کوئی غیرمعمولی نہیں‘

صوبہ پنجاب کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اول تو مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے برعکس صوبے میں حالیہ موسم سرما کے دوران ’نمونیا کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد غیر معمولی یا حیران کن نہیں۔ ہر سرما میں اتنے بچے نمونیا سے مر جاتے ہیں۔‘

پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر ہلاکتوں کی تعداد چار سو سے بھی زیادہ ہو تو یہ غیر معمولی نہیں ہو گی کیونکہ ہر سال ویسے بھی پاکستان میں زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 62 مر جاتے ہیں۔‘

ان کا اشارہ نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح کی جانب ہے جس کو کم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کے لیے اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔

ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل کا اصرار ہے کہ اتنی تعداد میں بچے ہر سال سردی کے موسم میں نمونیا جیسی بیماریوں سے مرتے ہیں تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں میں قوت مدافعت کی کمی ہے جس کی وجہ سے ان میں اموات کا خطرہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں تمام بچوں تک حفاظتی ٹیکے کیوں نہیں پہنچتے؟

ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل یہ مانتے ہیں کہ بچوں میں قوت مدافعت کی کمی ہے تاہم ان کے خیال میں اس کی وجہ غربت اور بچوں میں نشوونما کی کمی ہو سکتی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ پنجاب میں قوت مدافعت پیدا کرنے والے حفاظتی ٹیکے لینے والوں کی تعداد میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران اضافہ ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ صرف نمونیا سے بچے مر جائیں۔ وہ اس وقت مرتے ہیں جب ان میں نشوونما کی کمی ہو یا ساتھ ان کو کوئی دوسری بیماری ہو۔‘

عالمی ادارہ صحت کے اہداف کے مطابق کسی ملک کے کم از کم پچانوے فیصد بچوں کو مکمل طور پر تمام ویکسین لگی ہونی چاہیے۔ یعنی وہ بارہ بیماریاں جن کے خلاف ویکسین حفاظت فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ تین برس قبل تک یہ شرح 80 فیصد سے کم تھی۔

ڈی جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر الیاس گوندل نے آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پنجاب اب یہ شرح 93 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

’لاہور میں اس کی شرح کم تھی جو دو سال پہلے 59 فیصد کے قریب تھی لیکن پھر ہم نے سٹریٹجی بنائی اور اب وہ ابھی 86 فیصد پر پہنچ گئی۔‘

ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل
BBC
ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل یہ مانتے ہیں کہ بچوں میں قوت مدافعت کی کمی ہے تاہم ان کے خیال میں اس کی وجہ غربت اور بچوں میں نشوونما کی کمی ہو سکتی ہے

کیا ویکسین لوگوں کو گھروں میں ملنی ہوتی ہے؟

ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر الیاس گوندل کہتے ہیں کہ پنجاب میں نہ تو ویکسین کی کمی ہے اور نہ ہی ویکسین لگانے والوں کی کمی۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ حفاظتی ٹیکے بچوں کو گھروں پر جا کر لگائے جائیں۔

دنیا میں ہر جگہ ایسا ہوتا ہے کہ گھروں کے قریب ایک مخصوص مراکز بنے ہوتے ہیں جہاں والدین بچوں کو لے جاتے ہیں اور پیدائش کے بعد بچوں کو شیڈول کے مطابق ویکسین لگوانا شروع کر دیتے ہیں۔

’ہم یہاں لوگوں کے گھروں میں بھی جا کر ان کی منت کرتے ہیں کہ بچوں کو ویکسین لگوا لیں پھر بھی آگے سے جواب ملتا ہے بچہ سو رہا ہے یا وہ کہیں گیا ہوا ہے۔‘

ڈاکٹر الیاس گوندل کے خیال میں جن بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگ پاتے یہ ان کے والدین میں تعلیم کی کمی یا شعور کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ غیر تعلیم یافتہ آبادی کو یہ شعور اور آگاہی دینا کس کی ذمہ داری ہے۔

ڈی جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر الیاس گوندل کے مطابق یہ ان کے محکمے کی ذمہ داری ہے اور ان کے خیال میں یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ پر مہمات کی شکل میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ حفاظتی ٹیکے کیسے ان کے بچوں کی جان بچا سکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.