چھ برس قبل انڈیا میں ’پاکستان کی جیت پر جشن منانے‘ کے الزام میں گرفتار ہونے والے 17 نوجوان، جن میں سے ایک نے خودکشی کر لی

یہ جون 2017 کی بات ہے جب مدھیہ پردیش کے اس گاؤں سے ہزاروں کلومیٹر دور لندن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کا میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان فاتح قرار پایا۔ چیمپئنز ٹرافی کے اس میچ کے بعد مدھیہ پردیش کے ضلع برہان پور کے گاؤں موہد کے رہنے والے 17 نوجوانوں اور 2 نابالغوں پر مقامی پولیس نے پاکستان کی جیت کا جشن منانے کا الزام لگا کر گرفتار کر لیاجو درحقیقت کرکٹ کے کھیل اور اس ہارجیت سے قطعی ناواقف تھے۔

مدھیہ پردیش کے مسلمان خاندان چھ برس بعد اس سال پرامن طریقے سے رمضان گزار رہے ہیں لیکن سنہ 2017 میں ہونے والے ایک واقعے نے اس گاؤں کے مسلمانوں سے جیسے سکون چھین لیا ہو اور وجہ بنی تھی پاکستان اور انڈیا کے دوران ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی کا ایک میچ، جس میں انڈیا کو شکست ہوئی تھی۔

اس میچ کے بعد مدھیہ پردیش کے ضلع برہان پور کے گاؤں موہد کے رہنے والے 17 نوجوانوں اور دو کمسن لڑکوں پر مقامی پولیس نے پاکستان کی جیت کا جشن منانے کا الزام لگا کر انھیں گرفتار کر لیا۔ جو درحقیقت کرکٹ کے کھیل اور اس ہار جیت سے قطعی ناواقف تھے۔

گرفتار کیے جانے والے ان 17 نوجوانوں اور دو کمسن لڑکوں کے لیے ان کی زندگی کا یہ ایسا لمحہ بن گیا کہ جسے یاد کر کے وہ اب بھی کانپ اٹھتے ہیں۔

اس تمام عرصے میں پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والوں کے اہل خانہ کو بھر ہراساں کیا جاتا رہا یہاں تک کے اس معاملے سے پریشان ہو کر ایک ملزم نے سنہ 2019 میں خودکشی بھی کر لی تھی۔

تاہم عدالت نے ان تمام افراد کو گذشتہ سال اکتوبر میں تمام الزامات سے بری کر دیا اور قرار دیا کہ پولیس نے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا اور گواہوں پر جھوٹے بیانات دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

’آج بھی وہ نہیں جانتا کہ کرکٹ میں کون کون کھلاڑی ہیں‘

یہ جون 2017 کی بات ہے ان دنوں دنیا بھر کے مسلمانوں کا مقدس سمجھا جانے والا ماہ صیام جاری تھا، جب مدھیہ پردیش کے اس گاؤں سے ہزاروں کلومیٹر دور لندن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کا میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان فاتح قرار پایا۔

اس میچ میں انڈیا کی شکست کے بعد گاؤں کے رہائشی اور چار بچوں کے باپ امام تڑوی ایک صبح اپنی بیٹی کو سکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ پولیس نے انھیں روک لیا۔

30 سالہ امامتڑوینے بتایا کہ سکول جاتے ہوئے پولیس نے ان کے ساتھ شدید بدتمیزی کی اور ان کی بیٹی کو دھکا بھی دیا جس کے نتیجے میں ان کے ناک پر چوٹ آئی۔

اس کے بعد پولیس انھیں اپنے ساتھ لے گئی جبکہ ان کی بیٹی کو کوئی اور مقامی فرد گھر واپس چھوڑنے گیا۔

امام کہتے ہیں کہ ’میں کرکٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی وجہ سے مجھے کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔‘

انھوں نے بتایا کہ پولیس کئی دنوں تک اہل خانہ کو ہراساں کرتی رہی جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔

امامتڑوی کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان کی بے عزتی اور تضحیک کی گئی جس کی وجہ سے خاندان نے کئی دن کسی اور کے کھیتوں میں سو کر گزارے۔

امام اب کھیتوں میں کام کرنے جا رہے ہیں اور انھیں 250 سے 300 روپے یومیہ اجرت ملتی ہے اور کیس میں بری ہونے کے بعد یہ ان کا پہلا رمضان ہے جب انھیں اپنے کیس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی نہیں جانتے کہ کرکٹ میں کون کون کھلاڑی ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں اس بے دردی سے نشانہ بنایا گیا۔

عمران شاہ کی کہانی

امام تڑوی کی طرح 32 سالہ عمران شاہ کو بھی پولیس نے اس دن گرفتار کیا تھا جب وہ ٹرک میں مکئی لوڈ کر رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے انھیں کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

عمران نے بی بی سی کو بتایا ’ہم اس وقت کو یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ اس وقت میرا پورا خاندان اتنا پریشان تھا کہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ مجھے توگرفتار کر لیا گیا لیکن میرے پورے خاندان کو بھی گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ پولیس گھر جا کر گھر والوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے۔ ہراساں کرنے پر گھر والوں نے جنگلوں میں چھپ کر پناہ لی۔

اس وقت عمران کا خاندان ان کے والدین بیوی اور تین بچوں پر مشتمل تھا۔ اس معاملے کی وجہ سے عمران نے ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض لیا، جس کا سود وہ اب تک ادا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک سال تک انھیں ہر ہفتے پولیس سٹیشن جانا پڑتا تھا جو انکے گاؤں سے 12 کلومیٹر دور تھا۔ اس دوران وہ مزدوری کرنے کے قابل بھی نہیں رہے تھے جس کے باعث انھیں خاندان کی گزر بسر کے لیے قرض لینا پڑا۔

عمران نے بتایا کہ ’ہمارے خاندان کو بھی اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑا جتنا اس دوران ہم نے برداشت کیا، پولیس والے کسی بھی وقت گھر آتے اور گھر والوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے اور انھیں ہراساں کرتے۔‘

معاملہ تھا کیا؟

چیمپیئنز ٹرافی کے اس میچ کے بعد مدھیہ پردیش کے برہان پور ضلع کے موہد گاؤں میں رہنے والے 17 نوجوانوں اور 2 نابالغوں پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے کا الزام لگا۔

ان پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے، پٹاخے پھوڑنے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کا الزام تھا۔

لیکن عدالت نے انھیں گزشتہ سال اکتوبر میں تمام الزامات سے بری کر دیا اور قرار دیا کہ پولیس نے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا اور گواہوں پر جھوٹے بیانات دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

اس معاملے سے پریشان ہو کر ایک ملزم نے 2019 میں خودکشی بھی کر لی تھی۔

ابتدائی طور پر ان تمام افراد کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن بعد میں پولیس نے اسے بدل کر آئی پی سی کی دفعہ 153A کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں ان افراد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

گواہ نے اپنا بیان واپس لے لیا

اس معاملے میں جن لوگوں کو پولیس نے گواہ بنایا ان کا بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی کیس نہیں ہوا تھا۔

اس گاؤں میں رہنے والے مسلمان زیادہ تر مزدور پیشہ ہیں اور عموماً یہ لوگ کھیتوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔

ان افراد کا مقدمہ لڑنے والے وکیل شعیب احمدنے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کیس میں گواہ اس حقیقت کو قبول نہیں کر رہے تھے کہ گاؤں میں ایسا کچھ ہوا ہے۔ گواہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ اس کے بعد عدالت نے ان کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ لوگ بہت غریب ہیں اور بمشکل زندہ رہ پاتے ہیں۔ نہ ان کے پاس جشن منانے کے پیسے ہیں اور نہ ہی ان کو کرکٹ کا کوئی علم ہے۔‘

تاہم عدالت نے اس معاملے میں پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی کا حکم نہیں دیا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو برسوں تک پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

شعیب احمد نے بتایا کہ ان لوگوں کی پہلی کوشش یہ تھی کہ اس کیس میں کسی بھی طرح بری ہو جائیں۔ یہ لوگ اتنے غریب ہیں کہ پولیس سے لڑنا بھی نہیں چاہتے۔

اس معاملے میں دو نابالغوں کو بھی ملزم بنایا گیا تھا، جنھیں جون 2022 میں عدالت نے بری کر دیا تھا۔

تاہم اس کے بعد ان کی زندگی کبھی درست پٹری پر نہیں آئی اور دونوں نے چھوٹی عمر میں ہی کام شروع کر دیا۔

انہی میں سے ایک شخص رباب نواب نے فروری 2019 میں خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

ان کے اہل خانہ کے مطابق انھوں نے یہ کام اپنے اوپر لگنے والے الزامات اور روزانہ کی تذلیل کے باعث کیا۔

نئی زندگی میں بھی پرانے زخم باقی

اس مقدمہ کے خاتمے کے بعد اب بقایا لوگ اپنی زندگی کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں اور مزدوری کر رہے ہیں لیکن برسوں کے لگنے والے زخم آج بھی انھیں بے چین کردیتے ہیں۔

اس کیس کے اہم گواہ سبھاش کولی نے واقعے کے چند دن بعد میڈیا کے سامنے آ کر کہا تھا کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوا تھا اور پولیس نے ان کے موبائل فون سے نمبر100 پر کال کرکے مقدمہ درج کیا تھا۔

جبکہ کولی اپنے پڑوسی انیس منصوری کو بچانے گیا تھا جسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کولی اب دنیا میں نہیں رہے اور وہ چند ماہ قبل کینسر کے باعث انتقال کر گئے تھے۔

پولیس افسران اس پورے معاملے پر ابھی بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس معاملے میں بھوپال کے حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.