الیکٹورل بانڈز: انڈیا میں سیاسی جماعتوں کو کِن کمپنیوں نے کتنی فنڈنگ دی؟

انڈیا کے الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کو ’الیکٹورل بانڈز‘ کے ذریعے ملنے والی رقم کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، جن کے مطابق سنہ 2019 سے 2023 تک مختلف کمپنیوں اور شہریوں نے 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے بانڈ خریدے، جس کا تقریباً 85 فیصد حصہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیا گیا۔
الیکٹورل بانڈز
Getty Images

انڈیا کے الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کو ’الیکٹورل بانڈز‘ کے ذریعے ملنے والی رقم کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، جن کے مطابق سنہ 2019 سے 2023 تک مختلف کمپنیوں اور شہریوں نے 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے بانڈ خریدے، جس کا تقریباً 85 فیصد حصہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیا گیا۔

کئی سماجی کارکنان کا الزام تھا کہ یہ طریقہ کار سیاسی فنڈنگ کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور حکمران جماعت کو یکطرفہ فائدہ پہنچاتا ہے۔

اسی سلسلے میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے حکومت اور ’سٹیٹ بینک آف انڈیا‘ کی مخالفت کے باوجود گذشتہ ہفتے حکم جاری کیا تھا کہ ’الیکٹورل بانڈ‘ کی تفصیلات کو عام کیا جائے۔

عدالت نے اس سکیم کو غیر قانونی نہیں کہا لیکن یہ ضرور کہا کہ ایک فعال جمہوریت میں سیاسی فنڈنگ کی شفافیت بہت اہم ہے۔

جمعرات کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے ساتھ ہی یہ تمام معلومات عام ہو گئی ہیں کہ انتخابی بانڈز کے ذریعے کس پارٹی نے کتنی رقم وصول کی۔

یہ ڈیٹا 12 اپریل 2019 سے 24 جنوری 2024 تک خریدے گئے انتخابی بانڈز کا ہے۔

الیکٹورل بانڈز کیا ہیں؟

انڈیا میں سنہ 2017 میں الیکٹورل بانڈز متعارف کرانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی سیاست میں استعمال ہونے والی غیر قانونی دولت کا راستہ روکا جا سکے۔

انڈیا میں سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے لیے الیکٹورل بانڈز متعارف کرائے گئے تھے اور ان بانڈز کے ذریعے دی جانے والی رقم پر سود نہیں لگتا یعنی ان میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی نہیں ہوتی۔

یہ بلاسود بانڈز ایک خاص مدت کے لیے جاری کیے جاتے ہیں جن کے تحت سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی رقم دی جا سکتی ہے۔

اس اقدام کے تحت انڈیا کا کوئی بھی شہری یا کمپنی سال کے مخصوص دنوں میں الیکٹورل بانڈز خرید کر اپنی پسند کی سیاسی جماعت کی مالی مدد کر سکتا ہے اور مذکورہ سیاسی جماعت 15 دن کے اندر یہ رقم کسی بھی سرکاری بینک سے نکلوا سکتی ہے۔

قانون کے مطابق ان بانڈز کے ذریعے کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کو پیسے دیے جا سکتے ہیں جس نے قومی یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک فیصد سے کم ووٹ نہ حاصل کیے ہوں۔

انڈین الیکشن کمیشن
Getty Images
انڈیا کے الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کو ’الیکٹورل بانڈز‘ کے ذریعے ملنے والی رقم کی تفصیلات جاری کی ہیں

کس جماعت کو کس کمپنی نے کتنی رقم دی؟

دو مرحلوں میں عام کی گئی ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اپریل 2019 سے جنوری 2023 تک مختلف کمپنیوں اور شہریوں نے 12 ہزار کروڑ سے زیادہ کے بانڈ خریدے ہیں، جس کا تقریباً 85 فیصد حصہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیا گیا۔

دوسرے نمبر پر بنگال کی علاقائی جماعت ترنمول کانگریس ہے جس کو 1610 کروڑ ملا ہے اور تیسرے نمبر پر کانگریس ہے جسے 1422 کروڑ روپے ملے۔

حیدرآباد کی میگھا انجینیئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ (ایم ای آئی ایل) نے بی جے پی کو 584 کروڑ روپے دیے، جو اس کی عطیہ کی ہوئی کل رقم کا ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ یہ کسی بھی کمپنی کی طرف سے کسی ایک جماعت کو دی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

اس کے علاوہ ’ایم ای آئی ایل‘ نے جنوبی ریاست تلنگانہ کی علاقائی پارٹی ’بھارت راشٹرا سمیتی‘ کو 195 کروڑ روپے دیے ہیں جو ان کے کل عطیہ کا 20 فیصد ہے۔

تامل ناڈو کی حکمراں جماعت ’ڈی ایم کے‘ کو ایم ای آئی ایل سے 85 کروڑ روپے ملے ہیں۔ اس کی ذیلی کمپنی ’ویسٹرن یوپی پاور ٹرانسمیشن کمپنی لمیٹڈ‘ نے کانگریس کو 110 کروڑ روپے اور بی جے پی کو 80 کروڑ روپے دیے۔

’لاٹری کنگ‘ کے نام سے مشہور سینٹیاگو مارٹن کے ’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پی آر‘ نے 1,368 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈز خریدے تھے اور انھوں نے بنگال کی جماعت ترنمول کانگریس کو 542 کروڑ روپے دیا ہے۔

اس کے بعد تامل ناڈو کی ’ڈی ایم کے‘ پارٹی کو 503 کروڑ روپے ملے ہیں جبکہ آندھرا پردیش کی ’وائی ایس آر کانگریس پارٹی‘ کو 154 کروڑ روپے ملے ہیں۔

اس کمپنی نے وزیراعظم نریند مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی 100 کروڑ روپے دیے ہیں۔

مکیش امبانی کی ریلائینس کمپنی سے منسلک ’کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ ‘ نے بی جے پی کو 375 کروڑ روپے دیے اور ویدانتا لمیٹڈ نے 230.15 کروڑ روپے دیا۔

کانگریس پارٹی کو ویدانتا لمیٹڈ کی طرف سے 125 کروڑ روپے ملے ہیں۔

’ویسٹرن یوپی پاور ٹرانسمیشن‘ نے کانگریس کو 110 کروڑ روپے دیے ہیں اور ’ایم کے جے انٹرپرائزز‘ نے کانگریس کو 91.6 کروڑ روپے دیا۔

ناقدین اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی نے سرکاری تفتیشی ایجینسیوں کا غلط استعمال کر کے کپمنیوں کو مجبور کیا کہ وہ پارٹی کو رقم دیں تاہم بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

الیکٹورل بانڈز
Getty Images
کئی سماجی کارکنان کا الزام تھا کہ یہ طریقہ کار سیاسی فنڈنگ کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور حکمران جماعت کو یکطرفہ فائدہ پہنچاتا ہے

بڑی رقم دینے والی کمپنیاں کون ہیں؟

حیدرآباد میں مقیم ’میگھا انجینئرنگ‘ نے پانچ سال کی مدت میں کل 966 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔

اس کمپنی کا آغاز ایک چھوٹی کنٹریکٹنگ کمپنی کے طور پر ہوا تھا جو اب ملک کی سب سے بڑی انفراسٹرکچر کمپنیوں میں سے ایک بن کر ابھری ہے۔

یہ کمپنی بنیادی طور پر سرکاری پروجیکٹس پر کام کرتی ہے اور اس نے کئی اہم پروجیکٹس پر کم از کم 15 ریاستوں میں کام کیا۔

اس کمپنی کا آغاز 1989 میں پامیریڈی پچی ریڈی نے دس سے بھی کم لوگوں کے ساتھ کیا تھا اور ان کا تعلق ایک کسان خاندان سے تھا۔

کمپنی نے اپنا پہلا دفتر حیدرآباد میں کھولا تھا اور شروع میں کمپنی صرف پائپ لائن بچھانے کا کام کرتی تھی لیکن 2014 میں تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد کمپنی کی قسمت بدل گئی۔

اس کمپنی کو آبپاشی کے بڑے پروجیکٹس کے ٹھیکے ملے اور جلد ہی کمپنی پڑوسی ریاست آندھرا پردیش اور شمالی انڈین ریاستوں میں پھیل گئی۔

اس کمپنی کے علاوہ فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز کا نام عطیہ کرنے والی کمپنیوں میں اہم ہے۔

اس کمپنی نے اکتوبر2021 میں انتخابی بانڈز کی سب سے بڑی قسط خریدی جب اس نے 195 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈز خریدے۔

اس کمپنی نے جنوری 2022 میں دو بار 210 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈ خریدے۔ کمپنی کی تازہ ترین خریداری اس سال جنوری میں کی گئی تھی جب اس نے 63 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈز خریدے تھے۔

اس کمپنی کو 30 دسمبر 1991 میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ اس کا رجسٹرڈ پتہ ریاست تامل ناڈو کے کوئمبٹور میں ہے لیکن اس کے اکاؤنٹس کولکتہ میں ہے۔

اس کمپنی کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ انڈیا کی لاٹری انڈسٹری میں دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کے کاروبار کے ساتھ ایک اہم کھلاڑی ہے۔ 1991 میں اپنے آغاز کے بعد سے ہی یہ مختلف ریاستوں میں سرکاری روایتی کاغذی لاٹریوں کی تقسیم میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔

سینٹیاگو مارٹن اس کمپنی کے چیئرمین ہیں جنھیں ’لاٹری کنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

کمپنی کے مطابق مارٹن 13 سال کی عمر میں لاٹری کی صنعت میں داخل ہوئے اور انھوں نے پورے ملک میں لاٹری خریداروں اور بیچنے والوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا۔

مارٹن کا دعویٰ ہے کہ انھیں کئی بار ملک میں ’سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرنے والے کے خطاب سے نوازا جا چکا ہے۔‘

مارٹن چیریٹیبل ٹرسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کاروباری دنیا میں آنے سے پہلے مارٹن نے اپنے کیرئیر کا آغاز میانمار کے شہر ینگون میں ایک مزدور کے طور پر کیا تھا اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے معمولی تنخواہ حاصل کرتے تھے۔

بعد میں وہ انڈیا واپس آئے جہاں انھوں نے 1988 میں جنوبی ریاست تامل ناڈو میں اپنا لاٹری کا کاروبار شروع کیا جو کہ آہستہ آہستہ قریبی کرناٹک اور کیرالہ میں بھی پھیل گیا۔

انڈین قانون کے مطابق سایسی پارٹیوں کو دی گئی رقم پر حکومت کوئی ٹیکس عائد نہیں کرتی۔

یہ واضح کر دیں کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے جاری کی گئی فہرست میں ایسی کمپنیوں کے بھی نام ہیں جنھوں نے اپنی کمائی سے کئی گنا زیادہ رقم کسی سیاسی جماعت کو دی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.