ماسکو حملے کے تاجک ملزم کے گاؤں میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ ’اسے اتنا مارا گیا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار ہو سکتا ہے‘

بی بی سی فارسی کے نامہ نگار سہراب ضیا نے تاجکستان کے اسگاؤں کا دورہ کیا ہے جو ماسکو حملے کے مشتبہ افراد میں سے ایک کا گھر ہے اور ان لوگوں سے بات کی جو ملزمفریدونی شمس الدین کو جانتے تھے۔ انھوں نےساتھ ہی روس جانے والے تاجک تارکین وطن افراد سے بات کی۔
فریدونی شمس الدین
Reuters
شمس الدین کا تعلق تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے تقریباً 40 کلومیٹردورلیوب نامی گاؤں سے ہے

ماسکو کے کروکس سٹی ہال پر حملے کے چار ملزمان کو اتوار کے روز روسی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 139 افراد مارے گئے تھے۔

عدالتی کارروائی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہچاروں ملزمان پر تشدد کیا گیا تھا اور وہ زخمی حالت میں تھے۔

عدالت میں ہونے والی سماعت کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے چاروں ملزمان، شمس الدین فریدونی، دلیردزون مرزویف، سیداکرمی مراد علی رجب علیزادے اور محمد صابر فیاضوف پر تشدد کیا گیا تھا اور وہ کمرہ عدالت میں اس حالت میں لائے گئے کہ انھیں سر اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔

روسی اہلکاروں کی جانب سے ان ملزمان پر تفتیش کے دوران کیے جانے والے شدید تشدد کی ویڈیوز بھی بظاہر خود سکیورٹی حکام نے افشا کیں اور اطلاعات کے مطابق کم از کم ایک شخص کو بجلی کے جھٹکے بھی دیے گئے۔

25 سالہ شمس الدین فریدونی پر، جن کا چہرہ بری طرح سوجا ہوا دکھائی دیا، الزام ہے کہ انھوں نے پیر کو گرفتار کیے جانے والے دیگر دو ملزمان کو بھی اس کام کے لیے ساتھ ملایا تھا۔

میں نے تاجکستان میں اس علاقے کا دورہ کیا جہاں شمس الدین کا خاندان رہتا ہے۔ ان کا تعلق تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے تقریباً 40 کلومیٹردور شمال مغرب میں واقع لیوب نامی گاؤں سے ہے۔

لیوب ایک پہاڑی گاؤں ہے جہاں زمین خشک ہے اور وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اور آس پاس کوئی دریا نہیں ہے۔ گاؤں کے نوجوان بنیادی طور پر زراعت، تعمیراتی شعبے یا مقامی بازار میں کام کاج کرتے ہیں۔

سنیچر کے روز تاجک سکیورٹی فورسز کو علاقے میں دیکھا گیا تھا جو ملزم کے والد کو مبینہ طور پر پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں۔

گاؤں کے ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شمس الدین کا بیٹا پہلی بار چھ ماہ قبل گاؤں کے درجنوں افراد کی طرحروس چلاگیا تھا۔

 لیوب نامی گاؤں
BBC
شمس الدین کا تعلق تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے تقریباً 40 کلومیٹردور شمال مغرب میں واقع لیوب نامی گاؤں سے ہے

شمس الدین روس منتقل ہونے والے ہزاروںافراد میں سے ایک ہیں۔ بہت سے تاجک ملک میں کم اجرت اور بےروزگاری کی بلند سطح کے باعث روس کا سفر کرتے ہیں۔

تاجک حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افراد روس گئے لیکن روسی حکام کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس مقامی شخص نے مزید بتایا کہ تین ماہ کے بعد شمس الدین روس سے ترکی گیا جہاں سے اس کی واپسی مارچ کے اوائل میں ہوئی تھی۔

میں نے گاؤں میں جس کسی سے بھی بات کی وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ 25 سالہ فریدونی ایسا 'دہشت گردانہ حملہ' کر سکتا ہے۔

انٹرنیٹ پر شمس الدین سے پوچھ گچھ کی فوٹیج دیکھنے کے بعد ایک دیہاتی نے مجھے بتایا کہ 'سکیورٹی افسران نے اسے اتنا مارا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو سکتا ہے۔'

روسی سکیورٹی سروسز کی جانب سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی تین منٹ کی ویڈیو میں ملزمان کانپتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب کہ ایک فوجی ملزم کو بالوں کو پکڑے ہوئے ہے اور اپنا جوتا ملزم کے سر پر رکھے ہوئے ہے۔

روسی زبان میں بات کرتے ہوئے شمس الدین کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اس نے ماسکو میں کانسرٹ ہال پر قتل عام پانچ لاکھ روبل یعنی تقریباً 4200 پاؤنڈز کے عوض کیا۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک شرمناک اور خوفناک واقعہ قرار دیا ہے اور عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو بنیاد پرست گروہوں کے اثر سے بچائیں اور تاجک قوم کی نیک نامی کو داغدار نہ ہونے دیں۔'

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے کنسرٹ ہال پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور حملے کی فوٹیج جاری کی ہے جس کی بی بی سی نے تصدیق کی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے لیے مغربی اور یوکرینی انٹیلی جنس نے جہادیوں کی مدد کی تھی۔ اس دعوے کو یوکرین نے مسترد کر دیا ہے۔

تاجک صدر نے اتوار کے روز روسی صدر پوتن سے فون پر اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی کوئی قومیت، کوئی وطن اور کوئی مذہب نہیں ہے۔‘

ماسکو حملے کے بعد سوگواران
Reuters

یہ بھی پڑھیے

ایشیائی ممالک کے لوگوں کے لیے ویزا فری انٹری کو ختم کرنے کی تجویز

روس میں کام کرنے والے تاجک شہریوں کو جمعہ کے حملے کے بعد سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ماسکو میں ایک تاجک تارکین وطن کارکن نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے علاقے میں سکیورٹی کی موجودگی میں اضافہ دیکھا ہے، اور پولیس ایشیائی چہرے والے افراد کی دستاویزات کا معائنہ کرتی ہے جبکہ بغیر کاغذات کے ڈی پورٹ ہونے کا خطرہ بھی ہے۔

وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان دکھائی دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ’چونکہ حملے کے مجرموں کی شناخت تاجکستان کے شہریوں کے طور پرہوئی ہے، اس سے روسیوں کی تاجکوں کے لیے نفرت مزیدبڑھ سکتی ہے۔‘

تاجکستان میں تقریباً ہر خاندان کے ایک یا زیادہ افراد روزگار کے لیے روس چلے گئے ہیں۔ تاجک تارکین وطن کی طرف سے گھر بھیجی گئی رقم کو اس چھوٹے سے غریب وسطی ایشیائیملک کی معیشت میں استحکام کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے اور اس سے تاجکستان میں ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔

تعمیراتی کام سے وابستہ 40 سالہ ایراج اشوروف اپنے دو بھائیوں اور اپنے بیٹوں کے ساتھ کام کے لیے اکثر روس جاتے ہیں۔

وہ حال ہی میں تاجکستان میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے وطن واپس آئے لیکن وہ اس بارے میں پریشان ہیں کہ وہ ماسکو میں ہونے والے قتل عام کے بعد اب واپس روس جائیں یا نہیں۔

’میں ایک ماہ قبل روس سے واپس آیا تھا اور دوبارہ ماسکو جانے والا تھا۔ لیکن اس حالیہ واقعے کے بعد میں اپنے بھائیوں کی قسمت کے بارے میں فکر مند ہوں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عام طور پر ایسے معاملات میں نقل مکانی کر کے آنے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔‘

ولادیمیر پوتن کے اہم اتحادی روسی سیاست دان سرگئی میرونوف نے’قومی سلامتی کو مضبوط بنانے‘ کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کے لوگوں کے لیے ویزا فری انٹری کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ روسی حکومت کو دہشت گردی کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نقل مکانی کے عمل پر کنٹرولسخت کرنے کی ضرورت ہے۔

داعش تاجکوں کو کیسے بھرتی کرتی ہے؟

داعش
AFP
تاجک حکومت کے مطابق 2014 سے 2016 تکاسلامک سٹیٹ میں شامل ہونے والے2000 شہریوں میں سے زیادہ تر کو روس میں بھرتی کیا گیا تھا

حالیہ برسوں میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) میں شامل ہونے والے زیادہ تر تاجک شہری روس میں تارکین وطن کارکن ہیں، جنھیں سوشل میڈیا یا ٹیلیگرام جیسی میسجنگ ایپس کے ذریعے بھرتی کیا گیا تھا۔

داعش کے حالیہ حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کچھ لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ کیا گیا تھا اور شمولیت کے عوض رقم کا وعدہ بھی کیا گیا۔

تاجک حکومت کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 سے سنہ 2016 کے درمیان اسلامک سٹیٹ میں شامل ہونے والے دو ہزار شہریوں میں سے زیادہ تر کو روس میں بھرتی کیا گیا تھا۔

دوشنبہ میں قائم سنٹر فار افغانستان سٹڈیز کے سربراہ قاسم شاہ اسکندروف کا خیال ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کارکن بنیاد پرست گروہوں کی جانب سے بھرتی کے لیے زیادہ حساس ہیں۔

حالیہ برسوں میں آئی ایس میں شامل ہونے والے زیادہ تر تاجک شہری روس میں تارکین وطن کارکن ہیں، جنھیں سوشل میڈیا یا ٹیلیگرام جیسی میسجنگ ایپس کے ذریعے بھرتی کیا گیا تھا اورداعش کے حالیہ حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کچھ لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان سے سوشل میڈیا کے دریعے رابطہ کیا گیا تھا اور انھیں پیسوں کی پیشکش بھی کی گئی۔

تاجک حکومت کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 سے سنہ 2016 کے درمیان داعش میں شامل ہونے والے 2,000 شہریوں میں سے زیادہ تر کو روس میں بھرتی کیا گیا تھا۔

دوشنبہ میں قائم سنٹر فار افغانستان سٹڈیز کے سربراہ قاسم شاہ اسکندروف کا خیال ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کارکن بنیاد پرست گروہوں کی جانب سے بھرتی کے لیے زیادہ حساس ہیں۔

انھوں نے اس حوالے سے ترکی کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا، جہاں تاجک اور روسی دونوں بغیر ویزے کے سفر کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ داعش کے لیے ایک حالیہ لاجسٹک مرکز ہے۔

تارکین وطن کارکنوں کو روس میں داخل ہونے کے بعد تین ماہ کے اندر رہائش اور ورک پرمٹ حاصل کرنا ہوگا، جس کی قیمت تقریباً 430 ڈالر ہے۔ کچھ تارکین وطن تین ماہ کی ڈیڈ لائن پوری کرنے سے پہلے ترکی کے لیے روس چھوڑ دیتے ہیں اور ادائیگی سے بچنے کے لیے دوبارہ روس میں داخل ہو جاتے ہیں۔

قاسم شاہ اسکندروف کا خیال ہے کہ اسلامک سٹیٹ گروپ کا بنیادی گڑھ افغانستان ہے اور وہاں تاجکوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔

افغانستان کا کردار

تاجکستان کی سرحد جنوب میں افغانستان سے ملتی ہے اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگست2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں آئی ایس اور القاعدہ جیسی تنظیموں اور گروپوں کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی تازہ ترین رپورٹ میں، افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی زیادہ تعداد کو اب بھی علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا ایک عنصر بتایا گیا ہے۔

کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او)، روس کی قیادت میں ایک فوجی بلاک، جس میں بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، آرمینیا (جس نے حال ہی میں اپنی رکنیت معطل کر دی ہے) اور تاجکستان شامل ہیں، نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اس نے آئی ایس کے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے۔ اور دیگر اسلامی عسکریت پسند تاجکستان کی جنوبی سرحدوں پر موجود ہیں۔

تنظیم کے مطابق ان گروپوں کے تربیتی کیمپوں کا نیٹ ورک بھی پھیل رہا ہے اور ان کے غیر ملکی جنگجوؤں کی اکثریت تاجکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے شمالی علاقوں میں مرکوز ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.