اپنی تیز رفتاری سے بلے بازوں کو چکرا دینے والے میانک یادو: کیا انڈیا کو اپنی ’راولپنڈی ایکسپریس‘ مل گئی ہے؟

انڈین ٹیم اپنے بیٹسمینوں کی وجہ سے عام طور پر سرخیوں میں رہا کرتی تھی اور فاسٹ بولنگ کے معاملے میں اکثر مداح پاکستانی فاسٹ بولروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں میں تصویر بدل گئی ہے اور انڈین پیسرز نے اپنی موجودگی کو عالمی سطح پر درج کیا ہے۔
میانک یادو
Getty Images
میانک یادو نے اپنے پہلے دو مسلسل میچز میں پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے

انڈین ٹیم اپنے بلے بازوں کی وجہ سے عام طور پر سرخیوں میں رہا کرتی تھی اور فاسٹ بولنگ کے معاملے میں اکثر کرکٹ مداح پاکستانی فاسٹ بولروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں میں تصویر کچھ بدل گئی ہے اور انڈین پیسرز نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو احساس دلوایا ہے۔

انڈیا میں جاری آئی پی ایل کے 2024 کے سیزن میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے دہلی کے بولر میانک یادو اپنی تیز رفتار بولنگ کے لیے ان دنوں شہ سرخیوں میں ہیں۔ جب انھوں نے پنجاب کے خلاف 155.8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی تیز ترین گیند کروائی تو اسے جاری آئی پی ایل سیزن کی تیز ترین بال قرار دیا گیا۔

ان کی تیز رفتار بولنگ کا میچ کا پانسہ پلٹا اور اپنی تیز رفتاری ہی کی بدولت حاصل ہونے والی تین اہم وکٹوں کے عوض انھیں مین آف دی میچ قرار دیا گيا۔

ان کی گیند کی رفتار کو دیکھتے ہوئے سابق انڈین کرکٹر سنجے منجریکر نے انھیں ’راجدھانی ایکسپریس‘ کے خطاب سے نواز دیا اور سوشل میڈیا پر ان کے لیے بہت سے دیگر صارفین نے ’راجدھانی ایکسپریس‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

میانک یادو کی تیز رفتار بولنگ کو دیکھتے ہوئے کمنٹیٹر سنجے منجریکر نے کہا کہ ’پاکستان کے فاسٹ بولر شعیب اختر کو راولپندی ایکسپریس اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے شہر سے یہ ٹرین (راولپنڈی ایکسپریس) چلتی تھی۔ چونکہ میانک کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور وہاں سے راجدھانی ایکسپریس چلتی ہے اس لیے وہ راجدھانی ایکسپریس ہیں۔‘

شعیب اختر کا شہرہ ان کی تیز رفتار گیند بازی کی بدولت رہا اور ان کی جانب سے کروائی گئی تاریخی تیز رفتار گیند کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔

تیز رفتاری سے دھوکہ

شعیب اختر
Getty Images
شعیب اختر

شعیب اختر نے سنہ 2003 میں انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کر کے ریکارڈ بنایا تھا۔ ماضی میں آسٹریلین فاسٹ بولر بریٹ لی (2005 میں) اور پھر سنہ 2010 میں شوان ٹیٹ نے 161.1 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی گیند کروائی مگر وہ شعیب کے ریکارڈ کو توڑ نہ سکے۔

رواں سال آئی پی ایل میں میانک یادو نے پہلے پنجاب کے خلاف 155.8 کی رفتار سے گیند کرائی لیکن اس کے دو دن بعد جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر جیرالڈ کوئٹزی نے ممبئی انڈینز کی جانب سے کھیلتے ہوئے راجستھان رائلز کے خلاف ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں 157.4 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینک کر یادو کے رواں سال کے ریکارڈ کو توڑ دیا لیکن وہ شوان ٹیٹ کے ذریعے پھینکی گئی آئی پی ایل کی تیز ترین گیند کا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔

بہر حال گذشتہ رات بنگلور کی چناسوامی سٹیڈیم میں یادو نے ایک بار پھر تیز ترین گیندبازی کا مظاہرہ کیا اور اپنے ریکارڈ کو بہتر کرتے ہوئے 156.7 کی رفتار سے ایک گیند کرائی۔ انھوں نے اس بار 14 رنز کے عوض تین وکٹیں لیں۔

انھوں نے جب کیمرن گرین کو بولڈ کیا تو آسٹریلین بیٹسمین کو ان کی تیز رفتاری نے دھوکا دے دیا۔ میانک یادو پہلے میچ کی طرح دوسرے میچ میں بھی پلیئر آف دی میچ قرار دیے گئے اور یہ اپنے آپ میں ایک منفرد اعزاز اور ریکارڈ ہے۔

انڈیا کا تیز ترین بولر کون؟

بہر حال وہ انڈیا کے اب تک کے تیز ترین بولر نہیں ہیں۔ لیکن ان کی ابتدا کو دیکھتے ہوئے ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں اور انھیں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم میں شامل کیے جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

اگر انڈین کھلاڑیوں کی تیز رفتاری کی بات کی جائے تو ریکارڈ کے مطابق عمران ملک نے سنہ 2022 میں 157 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ایک گیند کروائی تھی جبکہ اُسی سال انھوں نے 156 کی رفتار سے بھی گیند کرائی تھی۔وہ آئی پی ایل میں حیدرآباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ان کی رفتار کو دیکھتے ہوئے انھیں بھی ’راولپنڈی ایکسپریس‘ کی طرز پر ’کشمیر ایکسپریس‘ کہا جانے لگا کیونکہ ان کا تعلق کشمیر سے ہے۔ان کی رفتار پر پاکستان سپر لیگ کے نوجوان کھلاڑی احسان اللہ نے کہا تھا کہ وہ ان سے زیادہ تیز رفتاری سے بولنگ کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ سابق پاکستانی کرکٹر عبدالرزاق نے کہا تھا کہ احسان اللہ 160 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکنے کی کوشش کریں گے۔

گذشتہ سال عمران ملک نے سری لنکا کے خلاف 156 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کی تھی جو انڈیا کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے تیز گیند ہے۔

یہ دونوں کھلاڑی عمران ملک اور میانک یادو مسلسل 150 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اوپر کی گیندیں کروا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ عرفان پٹھان نے سنہ 2007 میں 153.7 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کروائی تھی۔ جبکہ محمد شامی نے سنہ 2014 میں 153.3 کی رفتار سے ایک گیند ڈالی اور جسپریت بمراہ نے 2018 میں 153.2 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کروا چکے ہیں۔

سابق انڈین کرکٹر اور کوچ وسیم جعفر نے ایکس پر یادو کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ شخص سنسنی خیز ہے۔ بہت پیس ہے اور لائن اور لینتھ پر اچھا کنٹرول ہے۔ یہ آئی پی ایل کا بہترین پہلو ہے کہ انڈیا کی طرف سے نہ کھیلنے والے کرکٹرز پر بھی دنیا بات کرتی ہے۔ میانک یادو کا نام یاد رکھیں۔‘

https://twitter.com/WasimJaffer14/status/1775210900435472577

اسی طرح کمنٹیٹر ہرش بھوگلے نے ٹویٹ کیا کہ ’سب کچھ چھوڑ کر میانک یادو کی بولنگ دیکھیں۔ مبارک ہو لکھنؤ سپر جاینٹس، آپ نے ایک ہیرا کھود نکالا ہے۔‘

سوجیت سومن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’خیال کریں کہ عمران ملک، میانک یادو، محمد شامی اور جسپریت بمراہ آسٹریلیا کے خلاف ایک ساتھ پرتھ میں بولنگ کر رہے ہیں۔ یہ نام کسی بھی بیٹسمین کے اعتماد کو ڈگمگانے کے لیے کافی ہیں۔ عمران ملک پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس جیسے کھلاڑی کو کھو نہیں سکتے۔‘

https://twitter.com/sujeetsuman1991/status/1774361322756653538

ہم نے سپورٹس صحافی آدیش کمار گپتا سے پوچھا کہ کیا انڈیا کو ’راولپنڈی ایکسپریس‘ مل گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی پی ایل اور انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انڈیا میں وکٹیں فاسٹ بولر کے لیے بنتی ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے فاسٹ بولروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔‘

’آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی انگلینڈ کی ٹیم آئی تھی تو ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ وہ ایک ہی فاسٹ بولر سے کھیل رہی تھی اور ٹیسٹ میچز میں اس کی جانب سے دوسرا ہی اوور سپنرز لے کر آ رہے تھے۔‘

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے آدیش کمار نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ میانک نے کہا کہ وہ اپنی فٹنس اور ڈائٹ (خوراک) پر دھیان دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے عمران ملک کسی آندھی کی طرح آئے تھے لیکن ٹیم میں زیادہ دنوں نہ ٹک سکے۔‘

ان کے مطابق ابھی میانک کو ڈومیسٹک کرکٹ اور بڑے فارمیٹ کے میچز میں اپنا دم خم دکھانا ہو گا، جس طرح جسپریت بمراہ، محمد شامی اور ان سے قبل ظہیر خان نے دکھایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں پچز ایسی بنائی جاتی ہیں کہ راولپنڈی ایکسپریس کے بجائے فاسٹ بولر پسنجر ٹرین بن جاتا ہے۔ میانک ابھی صرف چار اوورز پھینک رہے ہیں۔ جو محنت اور جس قدر محنت شعیب اختر نے کی ہے انٹرنیشنل کرکٹ میں ویسی ہمیں ہمارے یہاں نظر نہیں آتی ہے۔‘

پیس بیٹری کے معاملے میں انھوں نے کہا کہ جسپریت بمراہ انجری پرون ہو گئے ہیں، باقی اب صرف محمد شامی اور محمد سراج بچتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے بولرز جب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کی فاسٹ پچ پر انھیں بال کہاں ڈالنی ہے یہی سمجھنے میں دو تین ٹیسٹ نکل جاتے ہیں۔‘

میانک یادو کون ہیں؟

میانک یادو اور نوین الحق
Getty Images
میانک یادو افغان کرکٹر نوین الحق کے ساتھ

میانک یادو مغربی دہلی کے رہنے والے ہیں۔ ان کے والد پولیس کی گاڑیوں میں سائرن اور بتیاں فکس کرنے کا کام کرتے ہیں۔

میانک نے دہلی کے معروف سانٹ کلب سے کرکٹ کی شروعات کی اور انھوں نے دہلی کی ڈومیسٹک ٹیم میں جگہ بنائی۔ ’سپورٹس سٹار‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سانٹ کلب کے تارک سنہا نے ان کی صلاحیت کو پہچانا اور وہ میانک یادو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے کلب کے عہدیداروں سے کہا کہ وہ اس لڑکے سے کوئی فیس نہ لیں۔

تارک سنہا دو سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن ان کے نائب دیوندر شرما نے میانک یادو پر اپنی امیدیں ٹکائے رکھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہ کلب میں چھ سال قبل اپنے والد (پربھو) کے ساتھ آیا تھا اور اس کے بشرے سے دہلی کے لیے کھیلنے کا اس کا عزم جھلکتا تھا۔ سینئر گروپ نے اس کا نوٹس لیا اور اس نے انھیں اپنی تیز رفتاری سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہمیں ایک لاجواب ٹیلنٹ ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس نے استاد جی (سنہا) کی رہنمائی پر خود کو تیار کیا۔‘

جبکہ میانک کے والد پربھو یادو نے کہا وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے ان کا بیٹا تیز بولر کے طور پر کرکٹ کھیلے اور انھوں نے اپنے بیٹے میانک یادیو کو اپنے کرکٹ کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا۔

انھوں نے کہا: ’میں مغربی دہلی کے ایک کلب میں گیا جہاں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ پھر میں نے سونیٹ کلب کے بارے میں سُنا، جہاں مسٹر سنہا ایک غیرجانبدار کوچ ہونے کے لیے مشہور تھے۔ یہ میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا اور میں نے میانک کو مسٹر سنہا کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب میں اس کے ساتھ کلب گیا تھا کیونکہ مجھے یقین دلایا گیا کہ مسٹر سنہا اور دیویندر جی میرے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے بہترین لوگ ہیں۔‘

میانک سنہ 2022 سے ہی لکھنؤ ٹیم کے ساتھ ہیں۔ انھیں 20 لاکھ روپے میں خریدا گیا تھا لیکن وہ انجری کی وجہ سے کسی میچ میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ سنہ 2021 میں وجے ہزارے ٹرافی میں دہلی کی طرف سے دو میچوں میں شرکت کی تھی اور چھ وکٹیں لی تھیں۔

جب سنہ 2022 میں انھیں رنجی ٹرافی کے لیے منتخب کیا گیا تو ان کی انڈیا ٹیم میں جانے کی امید بڑھ گئی لیکن پھر انجری کے سبب وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ بہرحال اس دوران انھوں نے اپنی فٹنس پر سخت محنت کی جس کا اثر رواں سال آئی پی ایل میں نظر آ رہا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.