ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک لیکن ان کی موت پر جشن منانے والے کون ہیں؟

ایک جانب تو تبریز کی سڑکوں کے یہ مناظر کہ جہاں لوگ بڑی تعداد میں اپنے رہنما کی ہلاکت کے غم میں دکھائی دے رہے تھے تو دوسری جانب ایران میں ہی موجود کچھ افراد ایسے بھی تھے کہ جو رئیسی کی حمایت میں نہیں نکلے بلکہ اُن کی جانب سے سوشل میڈیا پر اُن کی موت کا جشن منایا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
iran
Getty Images

ایران کے اہم اور بڑے شہر تبریز سے ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہونے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور اُن کے قافلے میں شامل سات دیگر اہم ایرانی عہدیداروں کی آخری رسومات کا آغاز ہو گیا ہے۔

ہزاروں افراد اس شمال مغربی شہر کے ایک مرکزی مقام سے روانہ ہوئے اور وہ سب کے سب ایک بڑے ٹرک کے پیچھے تھے کہ جس میں اس حادثے میں ہلاک ہو جانے والے ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سمیت دیگر کے تابوت موجود تھے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز حکومت کی جانب سے پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا جس کا آغاز آج تبریز سے ہوا۔

کل ایران بھر میں چھٹی ہو گی اور ایران کے دارالحکومت تہران میں ممکنہ طور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اس جنازے کی امامت کریں گے۔

اس کے بعد جمعرات کو ابراہیم رئیسی کی تدفین ان کے آبائی شہر مشہد میں کی جائے گی۔

ایک جانب تو تبریز کی سڑکوں کے یہ مناظر کہ جہاں لوگ بڑی تعداد میں اپنے رہنما کی ہلاکت کے غم میں دکھائی دے رہے تھے تو دوسری جانب ایران میں ہی موجود کچھ افراد ایسے بھی تھے کہ جو رئیسی کی حمایت میں نہیں نکلے بلکہ اُن کی جانب سے سوشل میڈیا پر اُن کی موت کا جشن منایا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

سوشل میڈیا پر متعدد ایرانی ابراہیم رئیسی کے ماضی سے متعلق بات کر رہے ہیں۔

ایران میں سابق صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات کے بعد ایران میں ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔

ایران
Getty Images

ایک جانب تو فضا سوگوار ہے اور غم کا ماحول ہے تو دوسری جانب بہت سے لوگ اُن کی وفات کا جشن بھی منا رہے ہیں۔

یہ بات صرف کہنے کی ہی نہیں ہے بلکہ رئیسی کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر آنے والے ردِعمل میں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ابراہیم رئیسی کا انسٹاگرام پیج خراج عقیدت سے بھرا ہوا ہے۔ بہت سے صارفین نے ملک کے لیے ان کی خدمات پر اُن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

ایک صارف نے سوشل میڈیا پر رئیسی کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم سب کو آپ پر فخر ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ ایک عظیم شخصیت کے مالک انسان تھے اور آپ نے ایران کے لوگوں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر رکھا تھا۔‘

ایران کے عام شہریوں نے ہی نہیں بلکہ مُلک کے کچھ معروف فنکاروں اور کھلاڑیوں نے ابراہیم رئیسی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

فٹبالر کمال کامیابینیا نے سوشل میڈیا پر رئیسی کی ایک تصویر پوسٹ کی اور خراج عقیدت پیش کیا۔

ہیلی کاپٹر حادثے کی خبر کے بعد تہران میں حکومت کے حامی رئیسی کے لیے دعا مانگنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ تاہم ہر جانب ہی ایسی صورتحال نہیں تھی۔ ایران کی سڑکوں پر رئیسی کے اعزاز میں کُچھ لوگ تو جمع ہوئے تعداد میں کافی ہونے کے باوجود ہجوم نہیں تھا۔

اس سب صورتحال میں سوشل میڈیا پر متعدد ایسی پوسٹس سامنے آئیں جن میں رئیسی پر طنز کیا گیا یا یوں کہہ لیں کہ اُن کی پوسٹس میں خوشی جھلک رہی تھی۔

ایکس پر کچھ لوگوں نے رئیسی کی موت پر جشن کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں۔ ان ویڈیوز اور تصاویر میں لوگ آتش بازی کرتے اور میٹھائیاں تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ابراہیم رئیسی
Getty Images

خوشی کی خبر کس کے لیے؟

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی پوسٹس کے ساتھ ساتھ رئیسی کے انسٹاگرام پیج پر تبصروں میں بھی لوگوں نے ان کی موت کو ایک اچھی خبر قرار دیا۔

ایک شخص نے لکھا کہ ’مجھے اُمید ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں کسی درخت کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔‘

تاہم رئیسی کے انسٹاگرام پر اُن کے خلاف آنے والے کچھ تبصروں کو بعد میں حذف کر دیا گیا تھا۔

تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایران میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیا سوچتی ہے اس کا اندازہ سوشل میڈیا سے نہیں لگایا جا سکتا۔

ایران میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایرانی حکومت اور انتظامیہ مخالف ہے اور وہ اس بات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے رہتے ہیں، اب رئیسی کی ہلاکت کے بعد یہی لوگ ایک مرتبہ پھر متحرک نظر آ رہے ہیں۔

ایران میں تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس اور انسٹاگرام پر پابندی عائد ہے۔ یہاں تک کہ حکومت میں بیٹھے بہت سے لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال ہیں۔

ایران میں پابندی کے باوجود زیادہ تر نوجوان ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یعنی وی پی این کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔

ایسے میں یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ جن ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کیا ہے انھوں نے ایران سے کیا ہے یا ایران سے باہر سے۔

رئیسی کو اُن کے 1980 کی دہائی کے اقدامات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب انھوں نے ایک کمیٹی کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے ہزاروں افراد کو موت کی سزا سنائی تھی۔

رئیسی اُس وقت اس کمیٹی میں ڈپٹی پراسیکیوٹر تھے۔ اس چار رکنی کمیٹی کو ڈیتھ کمیٹی بھی کہا جاتا ہے۔

اس کمیٹی نے ایران کے اس وقت کے رہبرِ اعلٰی آیت اللہ خمینی کے فتوے پر ہزاروں سیاسی قیدیوں کو پھانسی دی تھی۔

رئیسی
Getty Images

رئیسی کا ماضی

کچھ ایرانی سوشل میڈیا صارفین نے رئیسی کی ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے جس میں وہ ترکی کے صدر کے ساتھ معروف ایرانی شاعر حافظ کی ایک نظم کی مشہور سطر پڑھ رہے ہیں۔

رئیسی نے سطر فلسطینیوں کے لیے پڑھی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’خوش رہو کہ ظالم کبھی گھر نہیں پہنچے گا۔‘

کچھ لوگوں نے یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پرواز پی ایس 752 کو بھی یاد کیا کہ جس میں 167 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ اس مسافر طیارے کو ایران کے پاسداران انقلاب نے جنوری 2020 میں مار گرایا تھا۔

اس کے بعد پاسداران انقلاب نے کہا کہ اس نے غلطی سے یوکرین کے طیارے پر میزائل فائر کیا تھا۔

بعد ازاں ایران نے اس کیس کے سلسلے میں 10 افراد کو جیل بھیج دیا تھا لیکن متاثرین کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ یہ سبھی نچلے درجے کے اہلکار تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بنیادی طور پر اس حادثے کے ذمہ دار تھے انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

یوکرین کے طیارہ حادثے میں ایرانی شہری حماد اسماعیل نے اپنی بیٹی اور اہلیہ کو کھو دیا تھا۔

حماد اس وقت کینیڈا میں رہتا ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’رئیسی کو انسانیت کے خلاف جرائم کے لئے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے تھا۔‘

آخری رسومات
Getty Images

اسماعیلی اب ایک سرگرم کارکن ہیں، جو 1980 کی دہائی میں ایران میں ہزاروں افراد کو پھانسی دینے کا حوالہ دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ جب ایران نے یوکرین کا طیارہ مار گرایا تھا تب بھی رئیسی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن تھے۔

اسماعیلی کا کہنا ہے کہ متاثرین کو انصاف کا حق نہیں دیا گیا لیکن رئیسی کا نام تاریخ میں ہمیشہ جرائم سے جڑا رہے گا۔

لوگ 2022 میں مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں شروع ہونے والی بغاوت کا بھی حوالہ دے رہے ہیں۔

رئیسی اس سال ایران کے صدر بنے تھے جب 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت واقع ہوئی تھی۔

مہسا امینیکو حجاب کی خلاف ورزی پر 2022 میں اخلاقی پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان بھی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

ان کے ایک تبصرے کو دوبارہ پوسٹ کیا گیا ہے، جس میں انھوں نے ایک رپورٹر کو بتایا تھا کہ ’ایران میں مظاہروں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔‘

تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں 2022 کے مظاہروں میں 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایکس پر ایک معروف انفلوئنسر @Banafshehviola نے اتوار کی رات کہا تھا کہ اگر رئیسی کی موت ہو گئی تو وہ ایک برہنہ تصویر شیئر کریں گی۔

انھوں نے بعد میں لکھا ’اوہ، کیا واقعی وہ ہلاک ہو گئے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.