ورلڈ ٹائٹل کے اہم ترین معرکے سے پہلے یہ سارے سوال پاکستان کے سامنے ہیں اور نووارد ہیڈ کوچ گیری کرسٹین کے پاس ان کا جواب دینے کو صرف یہ چار میچز ہیں۔ اگرچہ ان سے اس قدر دیرینہ سوالوں کا جواب اتنی جلدی مانگنا بے جا ہو گا مگر بہرحال ورلڈ کپ میں پاکستان کے امکانات کا دارومدار بھی انہی جوابوں پہ ہو گا۔

ورلڈ کپ کے سفر پر نکلی پاکستانی ٹیم اپنے رستے کا آخری پڑاؤ انگلینڈ میں ڈال چکی ہے اور پی سی بی کی حالیہ انتظامی اتھل پتھل کے بعد مقرر کردہ ہیڈ کوچ گیری کرسٹن بھی ٹیم کو جوائن کر کے اپنے کوچنگ کرئیر کے ایک تلخ امتحان میں قدم رکھ چکے ہیں۔
کرسٹن ہی کی طرح آئی پی ایل ڈیوٹی سے فراغت پا کر چنیدہ انگلش کرکٹرز بھی اپنے کپتان جاس بٹلر کے ہمراہ واپس آ چکے ہیں اور پاکستان کے مقابلے کو ایک بھرپور قوت سے لیس انگلش سکواڈ تیار ہے جسے جوفرا آرچر کی واپسی سے اضافی تقویت بھی میسر ہے۔
اگرچہ پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان فائنلسٹ تھا مگر اس ٹائٹل کی فاتح انگلش ٹیم کے برعکس پاکستان کی حالیہ کارکردگی قطعی یہ ظاہر نہیں کرتی کہ یہی ٹیم پچھلے میگا ایونٹ کی رنر اپ تھی۔
تاحال پاکستان نے اس ایونٹ کی تیاری کے لیے جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی ہے، وہ مسابقت اور موافقت کے اعتبار سے تشفی بخش نہیں رہی۔ نیوزی لینڈ کے دورے پر کھیلے گئے پانچوں ٹی ٹوئنٹی میچز تجربات کی رو میں گزرے اور ایک جامع شکست پاکستان کو نصیب ہوئی۔
کیویز کے خلاف ہوم سیریز مزید تجربات کی مصروفیت میں گزر گئی اور اولین انتخاب سے محروم کیوی ٹیم ایسی مسابقت سے سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوئی کہ خدشہ ہے اگر پہلا میچ بارش کی نذر نہ ہوتا تو شاید وہ سیریز ہی اپنے نام کر جاتی۔
آئرلینڈ اگرچہ بظاہر پاکستان کی رینکنگ سے کہیں کمزور ٹیم ہے مگر حالیہ سیریز میں پہلا میچ جیت کر وہ بھی پاکستان کے امکانات پر گہرا سوالیہ نشان چھوڑ گئی اور اب بحرانوں میں گھری پاکستانی ٹیم کے لیے آخری چار میچز ہیں کہ وہ بڑے ایونٹ سے پہلے اپنی شکل درست کرے اور اس صحیح کمبینیشن کی کھوج کر لے جو ورلڈ کپ میں اس کی نمائندگی کرے گا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو سوال دو برس پہلے اس ٹیم کو درپیش تھے، آج بھی پوری شدومد سے نہ صرف سامنے ہیں بلکہ ان میں کچھ اضافہ بھی ہو چکا ہے۔
کیویز کے خلاف حالیہ ہوم سیریز میں ہارے گئے میچز پر تو عجب مضحکہ خیزی کا سامان ہوا کہ جہاں کپتان اپنے بلے بازوں کا دفاع کرتے پائے گئے، وہیں عبوری کوچ بلے بازوں کی کوتاہ بینی کو ذمہ دار ٹھہراتے نظر آئے۔
پاور پلے میں جس سست روی کا سامنا بابر اعظم کی گزشتہ ورلڈ کپ ٹیم کو تھا، اب بھی جوں کی توں ہے اور بابر کی اولین ترجیح ابھی بھی پاور پلے میں وکٹیں بچانا ہی ہے۔
محمد رضوان اور بابر کا ٹاپ آرڈر میں کھیلنا بھی ٹیم کے لیے عجیب معمہ سا بن چکا ہے کہ بلاشبہ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک آخر تک میدان میں رہے تو وہ ٹیم کو بھی پار لے جاتا ہے مگر جب یہ دونوں مڈل اوورز میں پویلین لوٹ جاتے ہیں تو باقی ماندہ بیٹنگ آرڈر خلجان کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔
حالیہ تجربات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ چونکہ بیشتر بلے باز ایک ہی پوزیشن کی دوڑ میں تھے تو اپنے کردار سے آگہی میں تشنہ رہ گئے۔ ٹاپ آرڈر بھی اننگز کا اس قدر حصہ خرچ کر جاتا کہ مڈل آرڈر مدافعت اور جارحیت کے بیچ مخمصے میں بٹا رہ جاتا۔
اور بولنگ میں اگرچہ بظاہر پاکستان مستحکم نظر آتا ہے مگر کیریبئین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم تر ہو گا اور پاکستان ابھی اپنے دو حتمی سپنرز طے نہیں کر پایا جبکہ شاداب خان کی حالیہ بولنگ فارم الگ پریشانی کا سبب رہی ہے۔
ورلڈ ٹائٹل کے اہم ترین معرکے سے پہلے یہ سارے سوال پاکستان کے سامنے ہیں اور نووارد ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کے پاس ان کا جواب دینے کو صرف یہ چار میچز ہیں۔
اگرچہ ان سے اس قدر دیرینہ سوالوں کا جواب اتنی جلدی مانگنا بے جا ہو گا مگر بہرحال ورلڈ کپ میں پاکستان کے امکانات کا دارومدار بھی انہی جوابوں پر ہو گا۔