’وہ جنگ کے لیے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور شاید کبھی واپس نہ آئیں‘

کراٹے چیمپیئنز ہوں یا میڈیکل سٹوڈنٹس میانمار میں نوجوان شہری زندگی چھوڑ کر جنگل میں مزاحمت کا حصہ بننے کے لیے جا رہے ہیں تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے لڑائی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ دیگر طریقوں سے انقلاب کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے۔
Maw Hpray Myar
BBC
ماؤ ہپرے مایار کیرنی کے جنگل میں بچوں کو موسیقی کی تعلیم دیتی ہیں

میانمار کی مشرقی ریاست کیرنی میں جنگلاتی قصبہ ڈیموسو میں انقلابی جوش و خروش کی ایک لہر دوڑ رہی ہے۔ قصبے کی مرکزی سڑک کے کناروں پر جلی ہوئی سرخ مٹی میں، ایک تبدیلی آ رہی ہے۔ بانس اور لکڑی سے بنی نئی دکانیں اور کیفے کھل گئے ہیں، اور ان سب میں ایک ہی چیز کی بات ہے جو ہے مزاحمت۔

کئی دہائیوں سے یہاں کے نسلی گروہ اس فوجی جنتا کے خلاف لڑتے رہے ہیں جو اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی حکمران ہے۔ تین سال قبل ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں جمہوریت کی طرف منتقلی کا عمل رکا اور اس کے بعد سے اس قصبے میں نوجوان جنگجو اور کارکن ایسے کھنچے چلے آئے جیسے لوہا مقناطیس کی جانب جاتا ہے۔

جمہوری آزادی کا پہلا ذائقہ چکھنے سے محروم کیے جانے کے بعد وہ سڑکوں پر نکل آئے اور سول نافرمانی کی کارروائیوں میں شامل ہو گئے جس کے نتیجے میں انھیں تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بہت سے لوگ ینگون (رنگون) اور دیگر بڑے شہروں کو چھوڑ کر اس دور دراز جنگل میں چلے گئے تاکہ وہ اس شورش میں شامل ہو سکیں جو دیہی علاقوں میں پھیل رہی ہے۔

لمبے بالوں والے 33 سالہ ریپر نووِم تھو کیرنی میں بنے ایک نئے شراب خانے ینگون وائبز میں موجود ہیں۔ یہاں کی خاص پیشکش برقی نیلے رنگ کی مارگریٹا ہے، لیکن نوویم تھو کی توجہ اس مشروب پر کم اور اس فضا پر زیادہ ہے جو باغیوں کی کامیابیوں کی باتوں سے گونج رہی ہے۔

’صرف ایک ہی مقصد ہے جو ہے فوج کی تباہی، کوئی متبادل مقصد نہیں‘ نویم مجھے بتاتے ہیں۔

وہ فوجی نہیں ہیں لیکن اپنا زیادہ تر وقت محاذِ جنگ پر عسکریت پسندوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا کام ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے‘۔ نووم کے مطابق ان کی موسیقی خوفزدہ کر دینے والی ہے اور وہ اپنی ویڈیوز میں ایک ہتھیار لہراتے ہیں جو ان کے بھائی کی کھلونا بندوق ہے۔

غروب آفتاب کے بعد فوج کے ڈرونز اور جنگی طیاروں سے بچنے کے لیے شراب خانے کی کھڑکیاں ڈھک دی گئیں۔ اس علاقے پر باقاعدگی سے بمباری کی جاتی رہی ہے۔ ایک انقلابی ریڈیو سٹیشن ، فیڈرل ایف ایم ، شہر کے باہر سے نشر ہوتا ہے اور فضائی حملوں کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے موبائل ٹرانسمیٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کیرنی کا زیادہ تر حصہ بجلی سے محروم ہے اور موبائل نیٹ ورک مشکل سے کام کرتا ہے۔ بجلی ہو یا مواصلاتی رابطے فوجی جنتا نے دونوں کو کاٹ دیا ہے لیکن یہ شراب خانہ ہو یا مرکزی سڑک پر کھلے کیفے سب سیٹلائٹ سروس سٹار لنک کی بدولت مفت انٹرنیٹ فراہم کرتے ہیں۔

New bar Yangon Vibes serves cocktails in the jungle
BBC
ینگون وائبز کی خاص پیشکش برقی نیلے رنگ کی مارگریٹا ہے

یہ ایک ایسی نسل ہے جو ایک دوسرے سے جڑے رہنا پسند کرتی ہے اور ایک ایسی نسل ہے جو جنگل کی آڑ سے مزاحمت کی تیز رفتار اور مؤثر جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ مزاحمت کئی دہائیوں میں میانمار میں فوجی حکمرانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس پر بہت کم رپورٹنگ ہوئی ہے۔ فوج آزادی صحافت پر قدغنیں لگاتی ہے اور سینکڑوں صحافیوں کو جیل میں ڈال چکی ہے۔ حکومت کے منظور شدہ دوروں کے ذریعے اس کہانی کے مزاحمتی پہلو کو جانا ہی نہیں جا سکتا۔

ہم نے میانمار کا سفر کیا اور ایک مہینہ ریاست کیرنی میں لڑنے والے مزاحمتی گروہوں کے ساتھ گزارا۔

ڈیموسو کے باہر ایک کچی سڑک پر ہم ایک خفیہ ٹھکانے پر پہنچے جو شہروں سے فرار ہونے والوں کے لیے ایک پناہ گاہ ہے۔ بانس کے اس چھوٹے سے کیمپ میں 15 سے 23 سال عمر کے آٹھ نوجوانوں کا ایک گروپ موجود ہے جو حال ہی میں یہاں پہنچے ہیں۔ بہت سے لوگ نے ینگون سے کچی سڑکوں پر رات کے وقت سفر کر کے یہاں آئے ہیں۔

فوج کے نئے قانون کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے میانمار کے اہم شہروں سےایک ’زیر زمین ریلوے لائن‘ قائم کی گئی ہے۔ یہ انھیں خفیہ راستوں سے، محفوظ گھروں اور ہینڈلرز کے ذریعے، کیرنی اور دیگر ایسے علاقوں تک پہنچاتی ہے جو مزاحمتی گروہوں کے زیرِ اثر ہیں۔

کچھ لوگ کار کے ذریعے آئے، کچھ موٹر سائیکل یا کشتی کے ذریعے اور اس دوران فوجی چوکیوں سے بچنے کی کوشش میں انھوں نے کئی راتیں کھلے آسمان تلے گزاریں۔ ایک موقع پر فوجیوں نے تمام نوجوانوں کو گاڑی سے باہر نکلنے کے لیے کہا اور پھر ان کے کاغذات کا معائنہ کیا اور ان کے فون دیکھے۔ نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ تھا اور انھوں نے اپنے فون سے کسی بھی قابل اعتراض مواد کو پہلے ہی حذف کر دیا تھا سو انھیں گزرنے کی اجازت دی گئی۔

Novem Thu
BBC
33 سالہ ریپر نووم تھو جنگجو نہیں ہیں لیکن اپنا زیادہ تر وقت محاذِ جنگ پر عسکریت پسندوں کے ساتھ گزارتے ہیں

وہ جدید فیشن کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اس بیابان میں تقریبا اجنبی دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے جدید لباس کو چھپا کر ایک دیہاتی کا روپ دھارا تاکہ شناختی چوکیوں پر انھیں پہچان نہ لیا جائے۔

تھورا کہتے ہیں کے یہ سفر مشکل تھا۔ ’مجھے وہ رات خوف کے ساتھ سوتے ہوئے گزارنی پڑی۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں میں کبھی نہیں گیا تھا اور نہ ہی جانتا تھا۔ اس کے بعد، انھوں نے مجھے صبح اٹھایا اور مجھے بحفاظت یہاں لے آئے۔‘

جن لوگوں نے ہم سے بات کی ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی شہروں میں اپنے اہلخانہ کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ان کے ذہنوں میں دھوکہ دیے جانے کا ایک سلگتا ہوا احساس ہے۔ ان کی پرورش میانمار میں جمہوریت کی منتقلی کے عمل کے دوران ہوئی، جس کا آغاز نصف صدی سے زیادہ فوجی حکمرانی کے بعد 2015 میں ہوا تھا لیکن آزادی کا وعدہ 2021 میں فوجی بغاوت کے ساتھ چھین لیا گیا، جس نے آنگ سان سوچی کی زیرِ قیادت شہری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس گروپ کے زیادہ تر ارکان نے مسلح حزب اختلاف کے گروپ کیرنی نیشنلٹیز ڈیفنس فورس (کے این ڈی ایف) کی جانب سے دی جانے والی ایک ماہ کی بنیادی فوجی تربیت مکمل کر لی ہے۔

کے این ڈی ایف کا قیام فوجی بغاوت کے بعد عمل میں آیا تھا اور کیرنی کے مزاحمتی اور نسلی گروہوں پر مشتمل یہ تنظیم فوجی جنتا کے فوجیوں کو ریاست کے 90 فیصد حصے سے باہر دھکیل دینے کا دعویٰ کرتی ہے۔

میں نے تھیہا نامی ایک جنگجو سے پوچھا کہ اس نے ہتھیار اٹھانے کا انتخاب کیوں کیا ہے تو اس کا جواب تھا کہ اس کے پاس صرف دو راستے ہیں- فوج کے لیے لڑنا یا انقلابی قوتوں میں شامل ہونا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں (فوج) کے لیے لڑوں گا تو میں اپنے ہی لوگوں کو اذیت دوں گا اور انھیں قتل کر دوں گا۔‘

تاہم ایسے لوگ ہیں جنھوں نے لڑائی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ دیگر طریقوں سے انقلاب کے لیے خود کو وقف کر دیا ہے.

شدید گرم دن میں ہم گھنے جنگل میں پہاڑی کے کنارے ایک پٹڑی پر سفر کرتے ہیں تاکہ ایک خفیہ ہسپتال تک پہنچ سکیں جہاں عام شہریوں اور جنگجو دونوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسا ہسپتال ہے جو میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ باہر جھونپڑیوں اور پناہ گاہوں کا بےترتیب مجموعہ ہے لیکن اندر سکینر، ایکسرے مشینیں اور 60 بستر موجود ہیں۔ چھپے رہنے کا عمل اس لیے بھی لازمی ہے کیونکہ اس سے پہلے والے ہسپتال پر فوج نے بمباری کی تھی۔

Dr Yori works at a secret hospital
BBC
ڈاکٹر یوری جنگل میں ایک خفیہ ہسپتال میں کام کرتے ہیں

یہاں میری ملاقات 28 سالہ ڈاکٹر یوری سے ہوئی، جو ایک سال پہلے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے۔ جو دیکھنے میں ایک چھوٹی سی ایسی خاکستری عمارت کی طرح دکھائی دیتی ہے، جس کی چھت پر نئے لگائے گئے پودے ہیں، دراصل ایک زیر زمین آپریشن تھیٹر کا داخلی دروازہ ہے۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ فوجی جنتا کے طیاروں کی بمباری کا نشانہ بننے سے بچاؤ کے لیے اسے چھپایا گیا ہے۔

مرد اور عورتیں، جن میں سے بہت سے اعضا کھو چکے ہیں، ریکوری وارڈ میں مٹی کے فرش پر بچھے بستروں پر لیٹے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بارودی سرنگیں نصب ہیں اور ان کی وجہ سے بغاوت کے بعد سے زخمیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اس جنگ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔ فوج حزب اختلاف کے زیرِ اصر علاقوں میں عام شہریوں اور مزاحمتی جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کرتی، اس نے انھیں دہشت گرد قرار دیا ہے اور دونوں کو نشانہ بنایا ہے۔ میرے ہسپتال کے اس دورے سے چند دن پہلے ہی قریبی گاؤں میں ایک فضائی حملے میں چھ افراد پر مشتمل ایک خاندان ہلاک ہوا جس میں دو اور چھ سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔

دوسرے وارڈ سے، ایک بچے کے رونے کی آواز جنگل کے سکوت کو چیر دیتی ہے۔ وہ یہاں بچوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔ جنگ سے پہلے، اور جب تک نوجوان انقلابی یہاں نہیں پہنچے، ریاست کیرنی میں طبی سہولیات کی کمی تھی۔ یہاں کا کوئی بھی طبی عملہ مقامی نہیں ہے، وہ ملک کے مختلف علاقوں سے آیا ہے۔

یوری کی منگیتر ٹریسی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ آپریشن تھیٹر میں ہیں، جہاں توپ کا گولہ لگنے سے زخمی ہونے والے ایک شخص کی سرجری مکمل ہو رہی ہے۔

اس جوڑے کو طبی تعلیم مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ ینگون میں میڈیکل کے آخری سال کے طالب علم تھے اور فوجی بغاوت کے سخت ناقدین تھے۔ ٹریسی ایک طالبعلم رہنما تھیں اور فوج نے ٹریسی اور یوری دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

ابتدائی طور پر انھوں نے ہتھیار اٹھانے پر غور کیا لیکن انھیں احساس ہوا کہ ان کی طبی مہارتیں ریاست کیرنی میں زیادہ کارآمد ثابت ہوں گی۔ ان کا ہسپتال تین مہینے سے چل رہا ہے اور اس کے عملے میں 35 افراد شامل ہیں جن میں سے تقریبا سبھی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

جب ہم ہسپتال کی عارضی کینٹین میں بیٹھ کر کافی پی رہے تھے، تو میں نے پوچھا کہ وہ جنگل میں رہنے کی مشکلات سے کیسے نمٹتے ہیں اور ان خوفناک زخموں سے ذہنی طور پر کیسے نمٹتے ہیں جن کا وہ علاج کرتے ہیں۔

یوری نے کہا کہ ’مریضوں کا حوصلہ تو آپ نے آج صبح خود دیکھا، وہ بہت مضبوط مرد ہیں۔ [یہ] ہم پر اثر انداز ہوتا ہے. جب کہ یہاں ایسے فوجی بھی لڑ رہے ہیں جن کے اعضا کاٹ دیے گئے ہیں اور وہ اب بھی لڑ رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے ہٹ جائیں؟‘

ٹریسی ان سے متفق ہیں۔ ’ہم پورا دن رو سکتے ہیں، وہ ٹھیک ہے. لیکن ہمیں دوبارہ حوصلہ کرنا ہو گا۔ اگر ہم یہاں نہ ہوں تو ان مریضوں کا علاج کون کرے گا؟'

Yori and Tracy
BBC
ٹریسی اور یوری دو مرتبہ اپنی شادی کی تقریب ملتوی کر چکے ہیں

جب ہم اپنی کافی ختم کر رہے ہوتے ہیں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے بہت دور ہیں، ایک ایسے تنازعے میں جس کے بارے میں دنیا کے زیادہ تر لوگ بہت کم جانتے ہیں.

کیا انھیں لگتا ہے کہ میانمار کی جنگ کو بھلا دیا گیا ہے، اس سوال پر یوری بولے ’ہاں، ایسا لگتا تو ہے کیونکہ شاید دنیا کے دوسرے خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ صرف ایک خانہ جنگی ہے کیونکہ ہم بغیر کسی ممکنہ وجہ کے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں لیکن ایک وجہ ہے کہ ہم لڑ رہے ہیں اور وہ وجہ بنیادی انسانی حقوق ہیں۔‘

یہ جوڑا گذشتہ سال شادی کرنے والا تھا، لیکن پھر حکومت کے مخالفین کی کارروائیوں کی وجہ سے انھوں نے یہ فیصلہ ملتوی کر دیا۔ پھر رواں ماہ ایک اور شادی بھی اسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔ ’اب شاید اس دسمبر میں‘، یوری مسکراتے ہوئے کہتے ہیں تو ٹریسی ہنس دیتی ہیں اور کہتی ہیں ’میں پرامید ہوں‘۔

کیرنی کا ریاستی دارالحکومت لوئیکاو جنگ کی وجہ سے خالی ہو چکا ہے۔ نومبر کے بعد سے یہاں کے این ڈی ایف اور فوجی جنتا کے اہلکاروں کے درمیان سڑکوں پر لڑائی جاری ہے۔

اپریل کے ایک گرم دن میں، شہر کی شاہراوں اور باغات میں خاموشی کے ڈیرے ہیں اور کبھی کبھار کوؤں کی آواز یا پھر گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے جاتی ہیں۔ فوج کے فضائی حملوں، مسلح ڈرونز اور مارٹر اور توپ خانے کی فائرنگ سے رہائشی علاقے تباہ ہو چکے ہیں۔

شہر کا مرکزی فوجی اڈہ فوجیوں سے بھرا ہوا ہے اور اب بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کمک آ رہی ہے لیکن کم از کم زمین پر حکومت مخالف جنگجوؤں نے انھیں گھیر رکھا ہے۔

Sam and Cobra
BBC
سیم اور کوبرا ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے ہیں

سیم اور کوبرا دونوں 20 سال کے پیٹے میں ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو 13 سال سے جانتے ہیں اور لوئیکاو میں ایک ہی سکول میں پڑھتے رہے ہیں۔ وہیں وہ قومی کراٹے چیمپیئنز بنے اور پھر ینگون چلے گئے لیکن اب وہ دوبارہ دارالحکومت میں فوج کا سامنا کرنے والی صف اول کی پوزیشنوں پرواپس آ چکے ہیں۔ انھوں نے مسلح انقلابی بننے کا جو راستہ اپنایا وہ کے این ڈی ایف کے نوجوان جنگجوؤں کے لیے غیرمعمولی نہیں ہے۔

فوجی بغاوت سے پہلے کوبرا کراٹے سے مکسڈ مارشل آرٹس کی طرف منتقل ہو گیا تھا اور ایک ٹرینر کے طور پر ینگون میں اچھے پیسے کما رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’بغاوت کے بعد، ہم پرامن احتجاج کر رہے تھے پھر فوج لوگوں کو گولیاں مارنا اور قتل کرنا شروع کر دیتی ہے۔‘

سیم کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی سیاسی نہیں تھے، جب تک کہ کراٹے کے مقابلے انھیں بیرون ملک نہیں لے گئے۔ ’میں جاپان میں تھا جب میں سمجھا کہ میرا ملک اس طرح کا نہیں ہونا چاہیے۔‘

Sam and Cobra were national karate champions
BBC
سیم اور کوبرا دونوں قومی کراٹے چیمپیئن رہ چکے ہیں

کوبرا نے زرہ بکتر پہنا ہوا ہے، جو میرے لیے حیران کن ہے کیونکہ میانمار میں اسے تلاش کرنا مشکل ہے۔ میں جن دیگر مسلح مزاحمتی جنگجوؤں سے ملا ان میں سے کسی کے پاس بھی ایسا کچھ نہیں تھا۔

’یہ اصلی نہیں ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں، پلیٹ کریئر کھولتے ہوئے، مجھے اندر ایک دیسی ساختہ سٹیل پلیٹ دکھاتے ہیں۔ ’اس سے گولی نہیں رکے گی، لیکن یہاں زیادہ تر زخم چھروں سے لگے ہیں۔‘ ان کے دستے کا ہر رکن زخم خوردہ ہے اور کئی تو ایسے ہیں جو متعدد بار زخمی ہو چکے ہیں۔

بعض اندازوں کے مطابق فوج ملک کے نصف سے دو تہائی حصے پر اپنا کنٹرول کھو چکی ہے کیونکہ مسلح مزاحمت اور نسلی گروہ اس کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔

لیکن بہت سے معاملات میں، کیرنی میں مزاحمت کی طاقت کو مکمل طور پر سمجھنا مشکل ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ تاریک جنگل میں چھپا ہوا ہے، گھنے جنگل میں کیمپوں اور اڈوں میں، نظر سے دور ہے.

ماؤ ہپرے مایار
BBC
کیرنی میں کسی کو بھی امید نہیں ہے کہ یہ تنازعہ جلد ہی ختم ہوجائے گا

یہ آزادانہ طور پر گھومنے کی جگہ نہیں ہے کیونکہ بارودی سرنگیں ایک مستقل خطرہ ہیں. لیکن ایک دور دراز راستے پر، وائلن پر موزارٹ کی دھن بجانے کی آواز آتی ہے۔ وائلن بجانے والی 26 سالہ ماؤ ہپرے مایار ہیں، جو اپنے گھر سے بھاگ کر یہاں آئی تھیں۔ ان کے اردگرد درجنوں بچے جمع ہیں جو اپنے آلاتِ موسیقی پر ان کی پیروی کر رہے ہیں۔

موسیقی ان کا ہتھیار ہے اور گولڈن فلاور میوزک سکول، بچوں کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے جہاں جنگ کا شور ڈوب جاتا ہے۔ ان 35 بچوں کی عمریں 14 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔

جنگ نے بہت سی زندگیوں کو درہم برہم کر دیا ہے اور ماؤ ہپرے مایار وضاحت کرتی ہیں کہ یہ انقلاب کے لیے ان کی خدمت ہے، جو بچوں کو محفوظ اور اردگرد کے مصائب سے دور رکھتی ہے۔ لیکن لڑائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور میں ان سے پوچھتا ہوں کہ انھیں کیسا لگتا ہے کہ ان کے کچھ طالب علم محاذِ جنگ کو اس سکول پر ترجیح دے سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنے جسم، اپنے اعضا، اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں اور انھیں محاذِ جنگ پر جانے کے لیے اپنی گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز کو پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دل کتنا مضبوط ہے اور ان کے عقائد کتنے مضبوط ہیں۔ میں ہمیشہ ایسے ساتھیوں کا احترام کروں گی۔‘

جب میں نے ان سے کہا کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ کبھی واپس نہ آئیں تو وہ رونا شروع کر دیتی ہیں۔

Music school
BBC
گولڈن فلاور میوزک سکول بچوں کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے

صبح کے سبق کے اختتام پر وہ بچوں کے ساتھ انگریزی زبان کا ایک نغمہ گاتی ہیں جس کا عنوان ’ نو ویئر ٹو گو‘ ہے۔

وہ گاتے ہیں ’ہمیں امن کی ضرورت ہے، ہمیں دریا کی طرح انصاف کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کا غم ختم ہونا چاہیے، ختم ہونا چاہیے‘۔

میں ریاست کیرنی میں جس سے بھی ملا اسے امید نہیں ہے کہ یہ تنازعہ جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا، وہ لوگ اپنے خفیہ وجود کو زندہ رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہے جو کیا جا سکتا ہے جیسے کہ بیماروں کی دیکھ بھال، بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور مسلح جدوجہد میں شمولیت۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگیاں اور خاندان پیچھے چھوڑ دیے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ اس میانمار کی تعمیر کے لیے یہ ایک قابل قدر قربانی ہے، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.