ملیریا کے خلاف مچھر ہی کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں

امریکی سینٹر برائے ڈیزیز کنٹرول کے مطابق اس تکنیک کا استعمال برازیل، پاناما اور انڈیا میں کیا جا چکا ہے اور 2019 سے اب تک دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب ایسے مچھر ہوا میں چھوڑے جا چکے ہیں۔

افریقہ کے ملک جبوتی میں ملیریا کی بیماری سے لڑنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت ہزاروں مچھر فضا میں چھوڑے گئے ہیں۔

ان مچھروں میں برطانوی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اوکسی ٹیک نے جینیاتی تبدیلی کی ہے اور یہ کاٹتے نہیں بلکہ ان کی جینیات میں ایسی تبدیلی کر دی گئی ہے کہ یہ مادہ مچھر کو بڑا ہونے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ مادہ مچھر ہی انسانوں میں ملیریا اور دیگر وائرل بیماریاں پھیلاتے ہیں۔

امریکی سینٹر برائے ڈیزیز کنٹرول کے مطابق اس تکنیک کا استعمال برازیل، پاناما اور انڈیا میں کیا جا چکا ہے اور 2019 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب ایسے مچھر ہوا میں چھوڑے جا چکے ہیں۔

جبوتی میں جمعرات کو شہر کے ایک مضافاتی علاقے میں مچھروں کو چھوڑا گیا جو اوکسی ٹیک اور جبوتی حکومت کے ساتھ ساتھ ایک غیر سرکاری تنظیم کے اشتراک سے ممکن ہوا۔

اوکسی ٹیک کے سربراہ گرے فرانڈسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ایسے مچھر بنائے ہیں جو کاٹتے نہیں اور بیماری نہیں پھیلاتے اور جب ہم ان کو ہوا میں چھوڑتے ہیں تو یہ مادہ کو تلاش کرتے ہیں اور جنگلی قسم کے مچھروں سے جڑتے ہیں۔‘

لیبارٹری میں تیار ہونے والے ان مچھروں کی جینیات میں ایسی تبدیلی کر دی گئی ہے کہ مادہ مچھر کا بچہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

صرف نر مچھر ہی زندہ رہتا ہے لیکن اس منصوبے کے پیچھے کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق وہ بھی ایک مخصوص وقت کے بعد مر جاتے ہیں۔

جبوتی میں یہ منصوبہ دو سال قبل شروع کیا گیا تھا تاکہ ’اینوفیلیس سٹیفینزی‘ نامی مچھروں کی نسل کو ختم کیا جا سکے جو 2012 میں نمودار ہوئی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ جبوتی ملیریا کا مکمل خاتمہ کرنے ہی والا تھا جب اچانک 30 نئے کیس سامنے آئے اور پھر ملک میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد 2020 میں 73 ہزار تک جا پہنچی۔

اب مچھروں کی یہ نسل چھ اور افریقی ممالک میں بھی موجود ہے جن میں ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا، سوڈان، نائجیریا اور گھانا شامل ہیں۔

سٹیفینزی نسل ایشیا سے تعلق رکھتی ہے اور اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسے شہری علاقے کا مچھر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ روایتی طور پر مچھروں کو ختم کرنے کے طریقوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

یہ مچھر دن اور رات دونوں اوقات میں انسان کو نشانہ بناتا ہے اور کیڑے مار ادویات سے نہیں مرتا۔

یہ بھی پڑھیے

مچھر
Getty Images

جبوتی میں صدر کے مشیر صحت ڈاکٹر عبداللہ احمد عابدی نے فائنینشل ٹائمز نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ان کی حکومت کا مقصد جبوتی میں ایک دہائی کے دوران بڑھنے والی ملیریا کی بیماری کا خاتمہ ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن میوچوالیس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بو عابدی کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک ہماری آبادی میں ملیریا بہت ہی کم ہوتا تھا۔ اب ہم روزانہ کی بنیاد پر ملیریا کے مریضوں کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے خلاف نئی قسم کی کارروائی کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔‘

جبوتی کے چھوٹے حجم کی وجہ سے یہاں ملیریا کے خاف مہم شروع کرنا آسان تھا جہاں کی آبادی صرف 10 لاکھ ہے۔

ملیریا سے متاثرہ ایک فرد سدا اسماعیل، جو اب صحت مند ہو چکے ہیں اور اس مہم کا حصہ تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملیریا ایک ایسی بییماری ہے جو ہماری صحت کو متاثر کرتی ہے اور لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ان مچھروں کی مدد سے ہم یہ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں۔‘

افریقہ میں جینیاتی تبدیلی کا معاملہ متنازع رہا ہے اور ماحولیاتی گروہوں اور کارکنوں نے اس کے منفی اثرات کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے۔

اوکسی ٹیک کا کہنا ہے کہ انسانی صحت یا ماحول پر گزشتہ 10 سال میں کسی قسم کے منفی اثرات ان کے تیار کردہ مچھروں کی وجہ سے سامنے نہیں آئے اور اس دوران ایک ارب مچھر ہوا میں چھوڑے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو بھی ہوا میں چھوڑا جائے وہ محفوظ بھی ہو اور کارگر بھی۔ اس کے ماحول پر کوئی اثرات نہیں۔‘

کمپنی کا کہنا ہے کہ اگر یہ مچھر کسی انسان کو کاٹ بھی لیں تو اس پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر عابدی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک نیا حل ہے جو متنازع ہو سکتا ہے لیکن مستقبل یہی ہے۔‘

اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو اس سے بڑے پیمانے پر اگلے سال تک مچھروں کو فضا میں چھوڑنے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں ملیریا کی وجہ سے سالانہ چھ لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور ہر 10 میں سے نو ہلاکتیں افریقہ میں ہوتی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.