ملبے تلے دفن یا مبینہ جبری گمشدگی کا شکار: غزہ سے لاپتہ ہونے والے 13 ہزار باشندے کہاں ہیں؟

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں بظاہر لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا 'جبری گمشدگی' کا شکار ہیں۔
gaza
Getty Images

اگرچہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر لاپتہ ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اکثر افراد کو مبینہ طور پر ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

احمد ابو ڈیوک کئی ماہ سے اپنے بھائی مصطفیٰ کی تلاش میں ہیں۔

یہ خاندان جنوبی شہر خان یونس کے ناصر ہسپتال کے صحن میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ ان کا قریبی گھر آگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے تو مصطفیٰ یہ دیکھنے گئے کہ وہاں کُچھ بچا بھی ہے یا نہیں لیکن اُس کے بعد سے وہ کبھی واپس نہیں لوٹے۔

احمد بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُس کا کچھ پتا چل سکے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں کبھی گھر ہوا کرتے تھے وہاں اب صرف جھلسی ہوئی باقیات تھیں۔ آس پاس کے علاقوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور کثیر منزلہ عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا تھا۔‘

غزہ کی سول ڈیفنس ٹیم کی جانب سے ملبے اور قریبی اجتماعی قبروں سے نکالی گئی لاشوں میں ریٹائرڈ ایمبولینس ڈرائیور مصطفیٰ کی لاش کی تلاش کی لیکن وہ نہیں مل سکا۔

احمد کہتے ہیں کہ ’ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے والی ہر ایمبولینس میں سے کسی میں تو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔‘

غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ تعداد صرف ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی ہے۔

مصطفیٰ کے خاندان کی طرح بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اس بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کہ گذشتہ سات ماہ میں ان کے گمشدہ پیاروں کے ساتھ کیا ہوا۔

جنیوا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان اعداد و شمار میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان افراد میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حماس کے اہلکار ہیں۔

Palestinian men search rubble following an Israeli air strike on a home in Rafah in the southern Gaza Strip on 3 March, 2024
Getty Images

غزہ کے شہری دفاع جو فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کا حصہ ہے کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ممکنہ طور پر 10 ہزار سے زیادہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 37 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کے نیچے بہت سی لاشیں ہیں اور تقریباً 7500 ٹن ایسے بم موجود ہیں جو ابھی تک پھٹے نہیں ہیں۔ یہ امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کے لیے ایک اضافی خطرہ ہو سکتا ہے۔

سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اس کا عملہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کا کام کرتا ہے لیکن ان کے پاس صرف سادہ اوزار ہیں اور اکثر مرنے والوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔

اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ جب غزہ اپنے گرم ترین مہینوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو لاشوں کو مناسب انداز میں دفن نہ کرنے کی وجہ سے اُن کے گل سڑ جانے کیوجہ سے صحت کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔

عبدالرحمٰن یغی کو ملبے سے لواحقین کو نکالنے کی کوشش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔

22 فروری کو وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح میں تین منزلہ عمارت کو اس وقت میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا جب ان کے خاندان کے 36 افراد اس عمارت کے اندر موجود تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ 17 لاشیں نکالی گئی ہیں لیکن لاش کے جو حصے بھی نکالے گئے ہیں ان کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں گھر میں موجود زیادہ تر بچوں کی لاشیں نہیں ملیں۔‘

سول ڈیفنس نے لاشیں نکالنے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ اور اس حوالے سے تجربہ رکھنے والے ممالک سے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے بین الاقوامی تنظیموں سے فوری طور پر مداخلت کرنے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ غزہ میں امدادی کارروائیوں میں مدد کے لیے بھاری سازوسامان کے داخلے کی اجازت دے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا خیال ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ان کے اہل خانہ کی معلومات کے بغیر حراست میں لیا ہو گا جسے وہ ’جبری گمشدگی‘ قرار دیتے ہیں۔

یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ غزہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کو آئی ڈی ایف نے ان کے اہلخانہ کو بتائے بغیر حراست میں لیا ہوا ہے۔ جنیوا کنونشن جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت اور مقام کی اطلاع دینی ہو گی۔

اسرائیلی حکام نے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے حراستی مراکز کے دورے بھی معطل کر دیے ہیں۔

Mustafa standing by the ambulance he used to drive
Family handout
مصطفیٰ لا پتا ہونے سے پہلے ایک ایمبولینس کے ڈرائیور تھے

غزہ میں آئی سی آر سی سے تعلق رکھنے والے ہشام محنا کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے بار بار فلسطینی قیدیوں تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن کمیٹی کو ابھی تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔‘

آئی سی آر سی کا مزید کہنا ہے کہ ’اسے حماس کے زیرِ حراست اسرائیلی یرغمالیوں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔‘

بی بی سی نے اس حوالے سے آئی ڈی ایف سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس بارے میں بات کرنے اور بی بی سی کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔

تاہم اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتامر بن گویر نے کہا کہ ’ریڈ کراس کو اسرائیل میں قید حماس کے جنگجوؤں کے بارے میں اس وقت تک معلومات حاصل نہیں کرنی چاہییں جب تک اسرائیلی ریاست غزہ میں ہم سے اغوا کیے گئے افراد کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کرتی۔‘

غزہ کے وسطی قصبے الزویدہ میں ایک اور خاندان ایک اور لاپتہ بیٹے کی تلاش میں ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ وہ ’جبری طور پر لاپتہ‘ افراد میں سے ایک ہو سکتا ہے۔

اپنے ہاتھ میں ایک تصویر کے ساتھ، محمد علی کی ماں نے اسے تلاش کیا یہاں تک کہ کسی نے اسے بتایا کہ اسے آئی ڈی ایف نے پکڑ رکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے اسے آخری بار دیکھا تھا تو وہ زندہ تھا لیکن وہ نہیں جانتیں کہ اس کے بعد سے اس کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔

محمد 23 دسمبر سے لاپتہ ہے جب یہ خاندان شدید بمباری کے دوران شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ کے ایک سکول میں پناہ لینے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر گیا تھا۔

محمد کی بیوی امانی علی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی سکول میں داخل ہوئے اور خواتین اور بچوں کو سکول چھوڑنے کا حکم دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس رات محمد کے علاوہ سبھی مرد اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ آئے۔

محمد کے ٹھکانے اور اس کے ساتھ کیا ہوا ہے یہ معلوم نہیں ہے۔

امانی کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتی ہیں کہ ان کے شوہر مر چکے ہیں یا انھیں آئی ڈی ایف نے حراست میں لے لیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں کچھ امید ملتی ہے کہ وہ زندہ تو ہوں گے۔

امانی کو یقین ہے کہ ’اگر وہ زندہ ہوتے یا آزاد ہوتے تو وہ ہمیں تلاش کرتے اور ہمیں ڈھونڈ لیتے۔‘

حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت نے ہلاک اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے ایک آن لائن فارم تیار کیا ہے تاکہ سات اکتوبر سے لاپتہ ہونے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کا مکمل ریکارڈ بنایا جا سکے۔

جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک بہت سے خاندان اپنے پیاروں کی تلاش جاری رکھیں گے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.