سمندر پر ’تیرتی‘ شاہراہ جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے

امریکہ میں موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی بہت سے امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ہم سمندر میں 113 میل تک پھیلے ایک انجینیئرنگ کے معجزے کے بارے میں اپنی پسندیدہ سفر کی کہانی بتا رہے ہیں جس نے فلوریڈا کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔

جب میں بحر اوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے درمیان میلوں کے سمندری راستے سے گزر رہی تھی تو سیگل اوپر چِلا رہے تھے۔ بظاہر آسمان پگھل کر سمندر میں مل رہا تھا۔ تا حد نگاہ نیلے رنگ کا منظر تھا۔

جیسے ہی میں نے اپنے دھوپ کے چشمے ایڈجسٹ کیے، مجھے اپنی آنکھ کے کونے سے پانیوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی۔ وہاں ایک بوٹل نوز ڈولفن تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دوست بھی تھے اور جلد ہی اس گروہ نے آبی بیلے ڈانس کا مظاہرہ کیا، انھوں نے لہروں میں واپس گرنے سے پہلے خوبصورت قوس بنائی۔

مچھلی پکڑنے والی کشتیاں میرے اردگرد گھوم رہی تھیں اور میرا بھی مچھلی پکڑے کے لیے کانٹا ڈالنے کا جی چاہا لیکن ہائی وے پر 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایسا کرنا مشکل ہوتا۔

میامی سے کی ویسٹ، فلوریڈا کے جزیرے تک کا سفر کرنا، کبھی بھی آج جتنا آرام دہ نہیں تھا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں براعظم امریکہ کے جنوبی مقام تک سفر کرنے کا واحد راستہ کشتی پر ایک دن کا سفر تھا اور یہ بھی موسم اور لہروں پر منحصر تھا۔

’اوورسیز ہائی وے‘ کے نام سے مشہور انجینیئرنگ کے ایک حیرت انگیز عجوبے کی بدولت جو مین لینڈ کے جنوبی سرے سے 42 پلوں پر 44 ٹراپیکل جزیروں پر 113 میل تک پھیلا ہوا ہے، جب میں ایک ایسی جگہ پر جا رہا تھا جہاں شمالی امریکہ اور کیریبین ملتے ہیں تو میں بظاہر مینگرووز کے جنگلات اور کیز (چٹانوں) کے درمیان تیر رہا تھا۔

اوورسیز ہائی وے دراصل اوور سی ریل روڈ کے طور پر شروع ہوئی تھی اور یہ دور اندیش ڈویلپر ہنری موریسن فلیگلر (جنھیں’جدید فلوریڈا کے باپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے) کے دماغ کی پیداوار تھی۔ 1870 میں فلیگلر نے کاروباری شخصیت جان ڈی راک فیلر کے ساتھ مل کر سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی مشترکہ بنیاد رکھی اور یہ 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور کارپوریشنوں میں سے ایک بن گئی۔

فلوریڈا کا دورہ کرنے اور ’دی سن شائن سٹیٹ‘ کی سیاحتی صلاحیت کو تسلیم کرنے کے بعد فلیگلر نے اس خطے میں اپنی زیادہ تر دولت خرچ کی، پرتعیش ریزورٹس تعمیر کیے جس نے امریکہ کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک کو شمال مشرقی امریکہ کے مسافروں کے لیے موسم سرما کی جنت میں تبدیل کردیا۔ اس کے باوجود، مہمانوں کے لیے فلیگلر کے شاندار لیکن دور دراز تفریحی مقامات تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

لہٰذا 1885 میں فلیگلر نے فلوریڈا کے بحر اوقیانوس کے ساحل کے ساتھ فلوریڈا کے شمالی سرے پر جیکسن ویل سے ریاست کے جنوبی سرے کے قریب میامی تک الگ الگ ریلوے لائنوں کا ایک سلسلہ منسلک کیا۔

میامی کو لائن کا اختتام ہونا چاہیے تھا لیکن جب امریکہ نے 1904 میں پانامہ نہر پر تعمیر شروع کی تو فلیگلر نے کی ویسٹ کے لیے زبردست صلاحیت دیکھی، نہر کے قریب ترین زمین کا ٹکڑا اور جنوب مشرقی امریکہ میں سب سے گہری بندرگاہ۔

سگار اور ماہی گیری کی صنعتوں کی بدولت یہ مصروف مرکز پہلے ہی پھل پھول رہا تھا (کی ویسٹ 1900 تک فلوریڈا کا سب سے بڑا شہر تھا) لیکن جزیرے کے دور دراز مقام پر ہونے کی وجہ سے سامان کو شمال کی طرف منتقل کرنا مشکل اور مہنگا بن گیا۔

لہٰذا فلیگلر نے اپنے ٹریک کو 156 میل جنوب میں کی ویسٹ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا، جس کا زیادہ تر حصہ کھلے سمندر پر تھا۔

اس نام نہاد کی ویسٹ ایکسٹینشن کو ان کے بہت سے ہم عصروں نے ناممکن قرار دیا تھا اور ان کے نقطہ نظر کو ان کے ناقدین نے ’فلیگلر کی حماقت‘ کا نام دیا تھا۔ 1905 اور 1912 کے درمیان تین سمندری طوفانوں نے تعمیراتی مقام کو متاثر کیا، جس میں 100 سے زیادہ مزدور ہلاک ہو گئے۔

بے خوف ہو کر فلیگلر آگے بڑھتے رہے اور اس میں سات سال لگے۔ پانچ کروڑ ڈالر(آج کے 1.56 ارب ڈالر) اور ریلوے کی تعمیر کے لیے چار ہزار افریقی امریکی، بہامین اور یورپی تارکین وطن نے مگرمچھوں، بچھوؤں اور سانپوں سے مقابلہ کیا۔

جب ریلوے بالآخر 1912 میں مکمل ہوا تو اسے ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ کہا جاتا تھا۔

ٹرین کے افتتاحی سفر کے دوران، لکڑی سے جلنے والا ایک انجن میامی سے کی ویسٹ پہنچا، جس میں اس وقت کے 82 سالہ فلیگلر کو لے جایا گیا، جو اپنی نجی لگژری گاڑی سے باہر نکلے (جو پام بیچ میں فلیگلر میوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے) اور مبینہ طور پر اپنے ایک دوست سے کہا کہ ’اب میں خوشی سے مر سکتا ہوں۔ میرا خواب پورا ہو گیا۔‘

فلوریڈا کے مؤرخ بریڈ برٹیلی کا کہنا ہے کہ ’یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ فلیگلر نے اس میں سے تین کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم اپنی جیب سے فراہم کی تھی۔ جیف بیزوس یا بل گیٹس آج ایسا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ایلون مسک کے سپیس ایکس کے ساتھ اس کا بہترین جدید موازنہ ہو سکتا ہے۔‘

یہ ریلوے 1935 تک چلتی رہی جب صدی کا سب سے مہلک سمندری طوفان میلوں کی پٹریوں کو بہا لے گیا۔ دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے فلیگلر کے شاہکار کو امریکیوں کی گاڑیوں سے نئی محبت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے لیے دوبارہ تخلیق کیا گیا تھا۔

سنہ 1938 میں امریکی حکومت نے فلیگلر کے بظاہر ناقابل نقصان پلوں پر انحصار کرتے ہوئے جو 200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کا مقابلہ کر سکتے تھے ان پر دنیا کی طویل ترین اوور واٹر سڑکوں میں سے ایک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔

عملے نے کاروں کو جگہ دینے کے لیے پٹریوں کو ہموار کیا اور نئی کھولی جانے والی اوورسیز ہائی وے نے ہمیشہ کے لیے دور دراز فلوریڈا کیز کو اس پھلتے پھولتے سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیا جو وہ آج ہیں۔

ریلوے کی تکمیل کے ایک صدی سے زیادہ عرصے کے بعد اصل پلوں میں سے 20 ابھی بھی مسافروں کو میامی سے کی ویسٹ لے جاتے ہیں۔

آپ چار گھنٹے سے بھی کم وقت میں ڈرائیو کرسکتے ہیں لیکن راستے پر سفر کرنا بھی تفریح کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سٹاپس کا ایک سلسلہ مسافروں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ انجینئرنگ کا یہ معجزہ کیسے آیا۔ میامی سے 69 میل جنوب میں واقع کی لارگو فلوریڈا کیز کا سب سے شمالی اور پہلا سٹاپ ہے۔

مگر مچھ، سانپ اور دیگر پانی کی مخلوقات نے فلیگلر کے تعمیراتی عملے کو خوفزدہ کر دیا ہو گا لیکن ان دنوں، مسافر کی لارگو (خود ساختہ ’دنیا کا غوطہ خور دارالحکومت‘)آتے ہیں تاکہ اس کی سمندری زندگی کو دیکھ سکیں۔

جان پینی کمپا کورل ریف سٹیٹ پارک سے متصل فلوریڈا کیز نیشنل میرین سینکچوری شمالی امریکہ کی واحد زندہ کورل ریف میں غوطہ خوروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

یہاں سمندری گھاس کے فرش مچھلیوں، مینیٹس (سمندرے گائے) اور سمندری کچھوؤں کے لیے اہم رہائش گاہ فراہم کرتے ہیں لیکن سب سے بڑی کشش ’کرائسٹ آف دی ڈیپ‘ کا بازو پھیلائے 9 فٹ اونچا کانسی کا مجسمہ ہے جو 1965 سے سیاحوں کو آتے دیکھ رہا ہے۔

ایک بار جب آپ خشکی پر آ جائیں تو اسلاموراڈا کا رخ کریں، میامی اور کی ویسٹ کے درمیان ایک کمیونٹی جو کبھی سمندر کے اوپر ریلوے سٹیشن کا مقام ہوا کرتی تھی۔

یہاں عجائب گھر میں ٹرین کے سنہری دور کے نوادرات بھی پیش کیے گئے ہیں، جن میں کار میں پیش کیے جانے والے پکوان بھی شامل ہیں، ساتھ ہی ایک اصل مینو بھی دکھایا گیا ہے جس میں ایک سرلوئن سٹیک کی قیمت 1.60 ڈالر ہے۔

سنہ 1908 سے 1912 تک تقریباً 400 مزدور اسلاموراڈا سے 35 میل جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے مرجان کے جزیرے پیجن کی میں ایک کیمپ میں رہتے تھے، انھوں نے سمندر کے اوپر ریلوے کا سب سے مشکل حصہ تعمیر کیا، مشہور سات میل برج (جسے عام طور پر اولڈ سیون کہا جاتا ہے) جو وسطی اور لوئر کیز کو جوڑتا تھا۔

سنہ 1909میں سول انجینیئر ولیم جے کروم کو کھلے پانی کی 6.8 میل کی وسعت کو عبور کرنے کا مشکل کام سونپا گیا تھا۔ تعمیراتی عملہ چوبیس گھنٹے کام کرتا رہا اور اس راستے کا سب سے لمبا پل تعمیر کرنے کے لیے سمندر کے وسط میں 700 سے زائد معاون پائلنگز (ستون) چلا رہا تھا، جو بعض اوقات سطح سمندر سے تقریبا 30 فٹ نیچے ہوتا تھا۔

انھیں غوطہ خوروں کی مدد حاصل تھی جنھوں نے ریلوے ٹریک کے وزن کو سہارا دینے کے لیے زیر آب کنکریٹ پیڈسٹل بنانے میں مدد کی۔

پرانے تعمیراتی کیمپ کی باقیات تک جانے کے لیے میراتھن شہر سے پیجن کی تک پرانے پل پر ٹرالی کے ذریعے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

2.2 میل کا سیکشن (واحد حصہ جو قابل رسائی ہے) جنوری 2022 میں 44 ملین ڈالر کی لاگت سے پانچ سالہ تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ کھولا گیا۔

ٹرالی کے علاوہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند یہ پل اب ان لوگوں کے لیے ایک محفوظ میدان ہے جو شفاف پانی سے 65 فٹ اوپر سائیکل چلانا یا سکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں یا سمندری زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، جیسے سمندری کچھوؤں اور شارک کا۔

آجپجن کی پر صرف چار مستقل رہائشی رہتے ہیں۔ پانچ ایکڑ پر محیط یہ جزیرہ اب ایک قومی تاریخی سنگ میل ہے اور بنیادی طور پر شمسی توانائی پر چلایا جاتا ہے۔

یہاں ایک عجائب گھر بھی ہے جہاں متعدد عمارتوں کے دورے کروائے جاتے ہیں جن میں کبھی یہاں کام کرنے والے عملے کو رکھا جاتا تھا اور بتایا جاتا ہے کہ سات میل پل کی تعمیر کے دوران عملے کی روزمرہ زندگی کیسی تھی۔

آج اوورسیز ہائی وے پر سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کا سفر اس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ کی ویسٹ میں یو ایس 1 کا سنگ میل دیکھتے ہیں۔ سیاہ اور سفید نشان سب سے جنوبی نقطے کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مسافر اب میامی (132 میل شمال) کے مقابلے میں کیوبا (90 میل جنوب) کے قریب ہیں۔

اگرچہ بہت سے سیاحبراہ راست شہر کی مرکزی ڈوول سٹریٹ یا امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے کے گھر اور میوزیم کا رخ کرتے ہیں لیکن ریل میوزیم بھی قابلِ دید ہے۔

میوزیم میں کی ویسٹ کی 500 سالہ تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ 7 مربع میل کا جزیرہ قزاقوں کی پناہ گاہ سے تجارتی مرکز میں تبدیل ہوا اور ایک سیاحتی مقام بن گیا۔

ریلوے کے دور کے نوادرات میں پے ماسٹر کی گاڑی شامل ہے جو ریلوے ملازمین کو تنخواہیں فراہم کرنے کے لیے ایک قسم کے موبائل بینک کے طور پر کام کرتی تھی۔

جدید دنیا کی آٹھویں حیرت انگیز نمائش میں ریلوے کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے اور وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح 20ویں صدی کے اوائل کی ٹیکنالوجی کی حدود کو آگے بڑھا کر ہر رکاوٹ پر قابو پایا گیا۔

فلوریڈا کیز کے مؤرخ اور مصنف ڈاکٹر کوری کنورٹیٹو کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھے فلوریڈا کیز کی تاریخ کا سب سے بااثر واقعہ قرار دینا پڑے تو یہ بلاشبہ فلیگلر کے اوور سی ریلوے کی تکمیل ہو گی۔‘

’ان کے وژن، لگن، انٹرپرائز اور دور اندیشی کے ذریعے کیز پہلی بار امریکی سرزمین سے منسلک ہوئے۔ رہائشیوں اور جزیروں تک آنے والے سیاحوں کے لیے تجارتی اور سفری فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے کیز کی معیشت کے راستے کو ہمیشہ کے لیے متاثر کیا اور آج ہمارے پاس موجود سیاحت کی صنعت کے دروازے کھول دیے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.