ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024: کیا امریکہ دوسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بن سکتا ہے؟

ایسا ہرگز نہیں کہ کرکٹ امریکہ کے لیے کوئی اجنبی کھیل ہے۔ امریکی سر زمین پر تین سو برس پہلے بھی کرکٹ کھیلی جاتی رہی ہے اور اس کی مقبولیت بھی کم نہ تھی کہ انگلش کرکٹ نے اپنے پہلے آسٹریلوی دورے سے کہیں پہلے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ پڑھیے سمیع چوہدری کی خصوصی تحریر۔
usa
Getty Images

جو گرم جوشی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ 2024 کے میزبان امریکہ نے ایونٹ کی تشہیری مہم میں دکھائی، وہ مجموعی طور پر آئی سی سی اور عالمی کرکٹ کے لیے تو خوش آئند تھی مگر امریکی سٹیڈیمز بھرنے کو شاید کافی نہ ہو گی۔

ایسا ہرگز نہیں کہ کرکٹ امریکہ کے لیے کوئی اجنبی کھیل ہے۔ امریکی سر زمین پر تین سو برس پہلے بھی کرکٹ کھیلی جاتی رہی ہے اور اس کی مقبولیت بھی کم نہ تھی کہ انگلش کرکٹ نے اپنے پہلے آسٹریلوی دورے سے کہیں پہلے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔

مگر جیسے بوسٹن ٹی پارٹی میں انگلش کلچر سے نفرت کا اظہار کر کے انگلش چائے کو عوامی طور پر مسترد کیا گیا تھا، شاید کرکٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنی روح میں ’انگلش‘ سمجھا جانے والا یہ کھیل امریکیوں کی ناپسندیدگی کا نشانہ بن گیا اور اس کی مقبولیت کے لہو سے بیس بال کی قبولیت و شہرت کا آغاز ہوا۔

پچھلی دہائی میں آئی سی سی نے کرکٹ کے پھیلاؤ کے لیے جو انقلابی فیصلے کیے، ان کی بدولت اب 90 سے زیادہ ٹیمیں انٹرنیشنل ٹی ٹونٹی کرکٹ کھیلتی ہیں اور ان سب کی ٹی ٹونٹی کرکٹ کو انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کی بدولت ہی آج کرکٹ کا عالمی ایونٹ پہلی بار امریکی میزبانی میں کھیلا جا رہا ہے۔

یہ تو معلوم نہیں کہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سے یہ ایونٹ کوئی نئے ریکارڈ بنائے گا یا گذشتہ برس کے ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ کی طرح کا ’فلاپ‘ نکلے گا مگر یہ واضح ہے کہ یہ کرکٹ کو کچھ نئے شائقین اور دوسری بڑی مارکیٹ ضرور دے گا جو کھیل کے لیے بہت خوش کن ہے۔

عالمی کرکٹ پر اس وقت انڈین مارکیٹ کی اجارہ داری ہے جو سوا ارب سے زیادہ آبادی کی مارکیٹ ہے اور آئی سی سی کے لیے سب سے زیادہ ریونیو پیدا کرتی ہے۔ پاکستان اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی کے ہاتھوں بے حال نہ ہوتا تو یہ بھی شاید دوسری، تیسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بننے کی راہ پر ہوتا۔

لیکن امریکی سر زمین پر آئی سی سی ایونٹ منعقد ہونے کی بدولت ایک پورا براعظم کرکٹ اکانومی کا نیا حصہ بن سکتا ہے جو آئندہ برسوں کی کرکٹ اکانومی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتا ہے اور اپنے سیاسی رسوخ کے باعث بھی آئی سی سی میں انڈین اجارہ داری پر بھاری پڑ سکتا ہے کہ بہرحال ڈالر سے کون ٹکرائے گا۔

usa
Getty Images

آئی سی سی اور کرکٹ شائقین کے لیے اس ورلڈکپ کا جوش زیادہ اس لیے ہے کہ جو ایونٹ پہلے دس بارہ ٹیموں تک محدود تھا، اب اس میں بیس ٹیمیں شامل ہوں گی اور اگرچہ فٹبال کی مقبولیت کا مقابلہ ابھی کوسوں دور ہے مگر کرکٹ بہرحال دوسرا بڑا گلوبل کھیل بننے کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔

عالمی ایونٹس کی چال کی پیش گوئی کرنے کو ٹیموں کی قوت کے علاوہ میزبان وینیوز کا ڈیٹا بھی بہت اہم ہوا کرتا ہے جو اس بار بدقسمتی سے دستیاب نہ ہو گا کہ ان میں سے کئی وینیوز پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کر رہے ہیں اور وہاں بچھائی گئی آسٹریلین ڈراپ ان پچز امریکی موسم میں کیسا برتاؤ کریں گی، یہ کوئی نہیں جانتا۔

لیکن کیریبیئن کنڈیشنز بہرحال کرکٹ شائقین کے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ان کا حالیہ ڈیٹا بھی موجود ہے جو ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ وارم اپ میچز میں کچھ خطیر مجموعے دیکھنے کو ملے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ ورلڈ کپ بڑے مجموعوں کا ایونٹ ہو گا۔

ماضی کو معیار رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کیریبیئن کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم رہے گا اور استعمال شدہ پچز پر ڈیتھ اوورز میں کچھ نہ کچھ ریورس سوئنگ بھی دیکھنے کو ملے گی جو ایشیائی ٹیموں کے امکانات روشن کر سکتی ہے۔

پاکستان کے علاوہ دیگر نامی گرامی ٹیموں کے بیشتر کھلاڑی آئی پی ایل کی تازہ ترین میچ پریکٹس لیے آ رہے ہیں جبکہ پاکستان نے اپنی تیاری کے لیے پی ایس ایل کے بعد تین انٹرنیشنل سیریز کھیلی ہیں جو بدقسمتی سے پاکستان کے لیے مثبت نتائج لانے سے قاصر رہیں۔

لیکن صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے پاکستان دوسری مسابقتی ٹیموں سے پیچھے نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستانی سپنرز کی حالیہ کارکردگی بہت شاندار نہیں رہی لیکن ایونٹ میں اگر پاکستان اپنی الیون کا صحیح توازن ڈھونڈنے میں کامیاب رہا تو سیمی فائنل تک رسائی ناممکن بھی نہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.