روہت شرما اور ہاردک پانڈیا کی خراب فارم: کیا انڈیا آئی سی سی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کی روایت توڑ سکتا ہے؟

انڈیا کے سلیکٹرز نے کوشش کی ہے کہ سلیکشن کے وقت وہ تمام شعبوں کو مدنظر رکھیں اور ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم تشکیل دے سکیں۔ انڈین کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں جس سے یہ کام ممکن ہوتا ہے۔ مگر اس دوران کئی سٹار کھلاڑیوں کی فارم پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
India
Getty Images

آئی سی سی کا نواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جاری ہے۔ یہ ٹورنامنٹ چار ہفتوں تک امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلا جائے گا۔

انڈیا اس وقت نہ صرف دنیا کی نمبر ونٹیم ہے بلکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 جیتنے کے لیےفیورٹ ٹیموں میں سے ایک ہے۔ انڈین ٹیم سے نہ صرف شائقین کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں بلکہ ان کی کارکردگی پر شائقین اور ماہرین کی کڑی نظر ہے۔

دنیائے کرکٹ کی نمبر ون ٹیم ہونے کے باوجود یہ ٹورنامنٹ انڈین ٹیم کے لیے آسان نہ ہوگا۔ انڈیا 2007 میں منعقد ہونے والے افتتاحی ورلڈ کپ کا فاتح تھا۔ تاہم، تب سے یہ اس فتح کو دہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

انڈین کرکٹ کے بڑھتے اثر و رسوخ، بی سی سی آئی کی دولت میں بے پناہ اضافے اور ٹیلنٹ کیبھرمار کے باوجود، آئی سی سی کے بڑے ٹائٹلز انڈیا کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔

آخری بار انڈیا 2013 میں کوئی آئی سی سی ٹائٹل جیتا تھا جب انڈیا نے مہیندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں فائنل میں انگلینڈ کو شکست دی تھی۔

اس کے بعد سے ایم ایس دھونی، ویرات کوہلی اور روہت شرما جیسے مایہ ناز کپتانوں نے قیادت کی ہے لیکن اس کے باوجود ٹیم کوئی بھی آئی سی سی ٹائٹل جیتنے سے قاصر رہی ہے۔

گذشتہ سال، انڈیا کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ اور ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں دونوں بار آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔

لیکن کیا اس بار انڈیا اپنی قسمت بدل پائے گا؟

2008 میں شروع ہونے کے بعد سے، انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کو نہ صرف کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے بلکہ آئی پی ایل کی پرفارمنس کی بنیاد پر کئی کھلاڑیوں کو انڈین ٹیم میں شامل اور ڈراپ کیا جاتا رہا ہے۔

کیا اس بار انڈیا آئی سی سی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کی روایت کو توڑ سکتا ہے؟

آئی پی ایل مقابلے کھلاڑیوں کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے اگر آئی پی ایل 2024 کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ورلڈ کپ کے لیے جانے والا انڈین سکواڈ کوئی خاص متاثرکن دکھائی نہیں دیتا۔

روہت شرما
AFP

مثال کے طور پر سکواڈ میں شامل ایک بھی کھلاڑی اس سال کے آئی پی ایل کے فائنل میں نہیں تھا۔

اس سال کی آئی پی ایل کی فاتح ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) کے لیے کھیلنے والے رنکو سنگھ انڈین ٹیم کے مرکزی سکواڈ کے 15 کھلاڑیوں میں شامل نہیں ہیں۔ انھیں ٹریولنگ ریزرو میں رکھا گیا ہے۔

اس ہی طرح، شبمن گل جنھیں دو سال تک انڈین کرکٹ کا اگلا بڑا سٹار کہا جاتا رہا وہ بھی مرکزی سکواڈ میں شامل نہیں۔

ویراٹ کوہلی کے بعد آئی پی ایل 2024 کے سب سے زیادہ رنز بنانے والےرتوراج گائیکواڈ اور ریان پراگ تو ریزرو کا بھی حصہ نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گائیکواڑ گذشتہ سال ایشین گیمز میں انڈین ٹیم کے کپتان تھے۔

اس سال آئی پی ایل میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہرشل پٹیل اور ورون چکرورتی کو تو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔

جسپریت بھمرا
AFP
جسپریت بمرا آئی پی ایل کے بہترین بولرز میں سب سے ایک تھے

آئی پی ایل 2024 میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت اور کئی کو نظر انداز کردینا روایتی سلیکشن کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ویراٹ کوہلی اور جسپریت بمراہ کا شمار آئی پی ایل 2024 کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ ٹورنامنٹ کے آغاز میں کوہلی کو اپنے سٹرائیک ریٹ کے باعث کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم، انھوں اپنی شاندار بلے بازی سے ناقدین کو خاموش کروا دیا۔

اگرچہ بمراہ سب سے زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کر پائے اس کے باوجود وہ آئی پی ایل کے سب سے بہترین بولر تھے جن سے ہر بیٹسمین خوف کھاتا تھا۔ سات رنز فی اوور سے کم اوسط سے بولنگ کرواتے ہوئے ان کی کسی بھی مرحلے پر وکٹ لینے کی صلاحیت انھیں باقی بولرز سے نمایاں بناتی ہے۔

کلدیپ یادو، رویندر جدیجا
AFP
کلدیپ یادو (دائیں) اور رویندر جڈیجہ (بائیں)

انڈین ٹیم کے اس سکواڈ میں کوہلی اور بمراہ کی کیٹیگری کا واحد کھلاڑی رشبھ پنت ہے۔

دسمبر 2022 کے حادثے کے بعد رشبھ پنت تقریباً 18 مہینے تک کرکٹ سے دور رہے۔ آئی پی ایل میں وہ زیادہ سکور تو نہیں کر سکے لیکن ان کی کرکٹ میں واپسی اور جس انداز سے انھوں نے بلے بازی کی وہ انڈین ٹیم کے لیے امید کا باعث ہے۔

ان کے علاوہ ایک اور قابلِ ذکر نام شیوم دوبے کا ہے جو اپنی پرفارمنس سے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے علاوہ باقی کے سکواڈ میں کوئی متاثرکن کھلاڑی نہیں نظر آتا۔

سنجو سیمسن، سوریہ کمار یادو، کلدیپ یادو اور یوزویندر چہل نے اس سال کے آئی پی ایل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی پرفارمنس غیر معمولی نہیں تھی۔

اس کے علاوہ یشسوی جیسوال، رویندرا جدیجا، اکشر پٹیل، اور بائیں ہاتھ سے گیند کروانے والے فاسٹ بالر ارشدیپ سنگھ کو تھوڑی بہت ہی کامیابی حاصل ہوئی۔

انڈین ٹیم کے فاسٹ بولر محمد سراج کی کارکردگی بڑی حد تک غیر متاثرکن ہی رہی۔

 رشبھ پنت
Getty Images
سمبر 2022 کے حادثے کے بعد رشبھ پنت تقریباً 18 مہینے تک کرکٹ سے دور رہے

ورلڈ کپ میں تمام ٹیمیں آسٹریلیا سے درآمد کی گئیں ڈراپ ان پچز سے بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔

انڈیا کے پاس تین بائیں بازو کے سپنر اور اچھا پیس اٹیک بھی ہے جس میں خلیل احمد اور اویش خان کو ریزرو میں رکھا گیا ہے۔ مگر بظاہر اس بولنگ اٹیک میں اتنی ورائٹی یعنی مختلف آپشنز نہیں۔

انڈیا آئی پی ایل میں بُری کارکردگی دکھانے والے کپتان روہت شرما اور نائب کپتان ہاردک پانڈیا کی وجہ سے بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ ممبئی انڈینز کی ٹیم میں کپتانی کی وجہ سے پیدا ہونے والا تنازع بھی کھلاڑیوں کے بیچ تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

انڈیا کی کامیابی روہت شرما کی جارحانہ اوپننگ پر منحصر ہوگی، جیسا کہ ون ڈے کے ورلڈ کپ میں ہوا تھا۔ پانڈیا کو بطور فنشر، پیس بولر اور بہترین فیلڈر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر پانڈیا اپنی بہترین فارم میں نظر نہیں آتے تو اس سے ٹیم کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

دھونی
Getty Images

انڈیا کے سلیکٹرز نے کوشش کی ہے کہ سلیکشن کے وقت وہ تمام شعبوں کو مدنظر رکھیں اور ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم تشکیل دے سکیں۔ انڈین کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں جس سے یہ کام ممکن ہوتا ہے۔ مگر اس دوران کئی سٹار کھلاڑیوں کی فارم پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

انڈیا نے ایسے کئی کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہا ہے جو آئی پی ایل میں چھائے رہے۔ اب ورلڈ کپ میں ان کا انھی غیر ملکی کھلاڑیوں سے سامنا ہوگا جو آئی پی ایل میں ان کے ہمراہ کھیل چکے ہیں۔

رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فیورٹس میں انگلینڈ بھی شامل ہے جو کہ دفاعی چیمپیئن ہے۔ اس کے علاوہ ویسٹ انڈیز، جو کہ دو بار ورلڈ کپ جیت چکا ہے اور جسے ہوم ایڈوانٹج ہے۔ جبکہ آسٹریلیا، جس نے گذشتہ سال ون ڈے کے ورلڈ کپ میں انڈیا کا خواب توڑ دیا تھا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گذشتہ آٹھ ایونٹس میں چھ مختلف ملک فاتح قرار پائے جن میں پاکستان اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی ٹیم کی ماضی کی فارم اتنا معنی نہیں رکھتی۔

سوریا کمار یادو
AFP

افغانستان جیسی ٹیمیں تجربہ کار اور بڑی ٹیموں کو اپ سیٹ کر سکتی ہیں جیسا کہ ون ڈے کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا۔ رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فاتح کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا۔ تمام ٹیموں کو اپنے عروج کی تلاش رہے گی۔

انڈیا لیگ سٹیج میں پاکستان کے ساتھ ایک ہی گروپ میں ہے۔ دونوں روایتی حریف نو جون کو مدمقابل ہوں گے جسے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ یہ میچ دو ارب لوگ براہ راست دیکھیں گے۔

دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی ہارنا نہیں چاہے گا۔ انڈیا کو آئی سی سی ٹورنامنٹس کے ان مقابلوں میں واضح برتری رہی ہے مگر اس کی نگاہیں آگے کے مقابلوں پر بھی ہوں گی۔

پاکستان کو ہرانا ایک قدم ہوسکتا ہے مگر اصل ہدف ورلڈ کپ جیتنا ہوگا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.