نیویارک کی ’جادوگر‘ پچ متنازع کیسے بنی اور یہ بیٹرز کے لیے خطرناک کیوں ہو سکتی ہے؟

دوسرے براعظم سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنے والے ایک مٹی کے ٹرے نے ایسی غیر یقینی کو جنم دیا ہے جو ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے میچ کو متنازع بنا سکتی ہے۔ اگر آپ پاکستان اور انڈیا کے میچ پر شرط لگانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذرا ٹھہریے کیونکہ نیو یارک کی ’ڈراپ ان‘ پچ آپ کی پیشگوئی غلط بھی ثابت کر سکتی ہے۔
pitch
Getty Images

دوسرے براعظم سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنے والے ایک مٹی کے ٹرے نے ایسی غیر یقینی کو جنم دیا ہے جو ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے میچ کو متنازع بنا سکتی ہے۔

اگر آپ پاکستان اور انڈیا کے میچ پر شرط لگانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذرا ٹھہریے کیونکہ نیو یارک کی ’ڈراپ ان‘ پچ آپ کی پیشگوئی غلط ثابت کر سکتی ہے۔

امریکی ٹیم سے تاریخی شکست کے دھچکے کے بعد پاکستانی مداح ابھی پوری طرح سنبھلے بھی نہیں تھے کہ انڈیا کے خلاف ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا میچ سر پر آن پہنچا ہے۔

نیویارک کی پچ سے جڑی غیر یقینی نے میچ سے قبل ہی صورتحال اس قدر دلچسپ بنا دی ہے کہ پچ کے بارے میں ہمسایہ ملک کے خدشات ہیں کہ اس پر پاکستانی فاسٹ بولرز ’انڈین ٹاپ آرڈر کو کھا جائیں گے۔‘

اس پچ کا غیر مستحکم باؤنس بلے بازوں کو خاص طور کھٹک رہا ہے۔ یہاں پر کچھ گیندیں لینتھ سے ہی زیادہ باؤنس کر جاتی ہیں جبکہ کچھ گیندیں گھٹنوں تک رہ کر وکٹ کیپر تک پہنچ جاتی ہیں۔

امریکہ میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے مابین یہ مقابلہ نساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم، نیویارک میں کھیلا جا رہا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کا یہ خاصا رہا ہے کہ اس میں شائقین بلے بازوں کو چوکے چھکے مارتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر میچ پاکستان اور انڈیا کے مابین ہو تو بابر یا کوہلی کے بلے سے مخالف بولروں کی دھلائی دیکھنے کا جنون کچھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

مگر نیویارک سٹیڈیم کی جس پچ پر یہ میچ کھیلا جانے والا ہے وہاں اب تک ہمیں اچھے اچھے بلے باز بھی باؤنسرز کے سامنے لڑکھڑاتے نظر آئے ہیں۔

یاد رہے کہ نیو یارک کا یہ سٹیڈیم 32 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے لیے خصوصی طور پر آسٹریلیا میں ٹاہوما گھاس کی دس پچیں تیار کی گئیں جنھیں پہلے فلوریڈا اور بعد میں نیو یارک لا کر اس میدان میں نصب کیا گیا۔

انڈین کھلاڑیوں اور کوچز سے لے کر کئی سابق کرکٹرز اور ماہرین نے اس پچ پر تنقید کی ہے اور یہ پچ پاکستان انڈیا میچ کا پانسہ کیسے پلٹ سکتی ہے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں ٹاس بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہو گا اور ٹاس جیت کر دونوں ہی کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جیسے یہاں ہونے والے تمام ہی میچوں میں دیکھا گیا ہے۔

بلے بازوں کی زندگی عذاب بنانے والی ’خطرناک‘ پچ

سابق کرکٹر اور کوچ اینڈی فلار نے اس پچ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پچ پر غیر مستحکم باؤنس ہے۔ کبھی گیند بہت نیچے رہ جاتی ہے اور کبھی اچانک بہت زیادہ باؤنس کر جاتی ہے اور یوں کھلاڑیوں کے انگوٹھوں، دستانوں اور ہیلمنٹ کو جا کر لگ رہی ہے اور بیٹرز کی زندگی عذاب بنا رہی ہے۔

کرکٹ کے حوالے سے سکور اور تجزیوں کی ویب سائٹکرک انفوسے بات کرتے ہوئے اینڈی فلار نے اس پچ کو ’خطرناک‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا یہ ایسی پچ نہیں ہے جس پر انٹرنیشنل میچ کھیلا جائے اور کسی بھی ٹیم کے لیے اس پچ پر بیٹنگ کرنا آسان نہیں ہو گا۔

سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر سنجے منجریکر کے مطابق اس پچ کی تیاری میں کچھ غلط ہوا ہے۔ ’یا تو یہ پچ مکمل تیار نہیں ہوئی یا کچھ ایسا ہوا ہے جو اسے تیار کرنے والوں کے کنٹرول سے باہر تھا۔‘

کرک انفو کے شو ’ٹائم آؤٹ‘میں بات کرتے ہوئے سنجے کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے اس پچ کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر اس میں بنیادی مسئلے ہیں۔‘

سنجے نے مزید کہا کہ نیویارک میں کرکٹ میچز کی ہائپ بہت ہے مگر سب سے اہم چیز ’پچ‘ ہوتی ہے اور بدقسمتی سے وہی ٹھیک نہیں ہے۔

ایسے خدشات سامنے آنے کے بعد کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی نے تسلیم کیا ہے کہ اس پچ کے ساتھ مسائل موجود ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ سٹاف نیو یارک کے سٹیڈیم (جسے امریکہ کا شو کیس گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے) میں ڈراپ ان پچوں کے حوالے سے سامنے آنے والے مسائل کو ’حل‘ کرنے کی کوشش کرے گا۔

بی بی سی سپورٹس کا ماننا ہے کہ انڈیا نے نجی طور پر اس پچ پر غیر مستحکم باوئنس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ بلے بازوں کی حفاظت سے جڑے خدشات ہیں۔

آئی سی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آئی سی سی تسلیم کرتا ہے کہ نساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں اب تک استعمال ہونے والی پچیں ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ میچ کے بعد ’پچ کی غیر ہموار سطح کے مسائل حل کرنے اور بقیہ میچوں کے لیے بہترین پچز کی تیاری کے لیے عالمی معیار کی ٹیمیں سخت محنت کر رہی ہے۔‘

https://twitter.com/ParasKatwal3/status/1797645073087381938

ناساؤ کاوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیئم کی ڈراپ ان پچ کے بارے میں یہاں کھیلے جانے والے دو میچوں کے بعد ہی یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ پچ ناقابل بھروسہ ہے۔

سوموار کے دن سری لنکا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 77 رن پر ہی آوٹ ہو گئی جو ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اس کا سب سے کم سکور ہے۔ اس کے بعد بدھ کے دن انڈیا نے آئرلینڈ کو 96 رن پر آوٹ کر دیا۔ سنیچر کو جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈز کے خلاف چار وکٹوں سے فتح حاصل کی مگر یہ بھی ایک لو سکوررنگ میچ رہا۔

اتوار کے دن انڈیا روایتی حریف پاکستان کے خلاف آئزن ہاور پارک میں میچ کھیلنے جا رہی ہے جہاں 32 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور سٹیڈیم مکمل طور پر بھر جانے کی امید کی جا رہی ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ماضی میں ہونے والے ایسے میچوں کا جائزہ لے رہی ہے جہاں کھیل ختم کر دیا گیا تھا تاکہ موجودہ ٹورنامنٹ کے دوران کسی ایسی ہی صورت حال میں اپنے ردعمل کو طے کر سکے۔

تاہم آئی سی سی حکام نے اب تک یہ موقف دیا ہے کہ نیو یارک میں طے شدہ مقابلوں کو فلوریڈا یا ٹیکساس منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلے کے لیے ایک ایسی پچ مختص کی گئی ہے جو اب تک استعمال نہیں ہوئی۔ تاہم اس میچ سے قبل دیگر پچوں کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

نیو یارک کی پچ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے 55 میچوں میں سے 16 میچ امریکہ میں کھیلے جا رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ کا دوسرا میزبان ملک ویسٹ انڈیز ہے۔

نیو یارک میں یہ سٹیڈیم اس ٹورنامنٹ سے قبل 32 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا تھا اور آٹھ ماہ میں اس کی تیز تعمیر کے عمل پر ٹورنامنٹ انتظامیہ نے کافی فخر کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔

یہاں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ خصوصی طور پر آسٹریلیا میں ٹاہوما گھاس کی دس پچیں تیار کی گئیں اور پھر انھیں پہلے فلوریڈا اور بعد میں نیو یارک منتقل کرنے کے بعد ٹورنامنٹ سے چند ہفتے پہلے ہی میدان میں نصب کیا گیا۔

باقی میدان نیو جرسی کے مقامی فارم پر اگائے جانے والے کینٹکی بلیو گھاس سے تیار ہوا ہے جس کے نیچے ریت کی تہہ ڈالی گئی ہے۔

واضح رہے کہ نیو یارک کی ڈراپ ان پچ کے مقابلے میں فلوریڈا اور ٹیکساس میں قدرتی پچیں موجود ہیں۔

getty
Getty Images
نیو یارک میں میچ کے نتیجے کا انحصار ٹاس پر بہت زیادہ ہو چکا ہے اور پہلے باؤلنگ کرنی والی ٹیم کو سبقت حاصل ہو گی۔

سوموار کے دن جب جنوبی افریقہ اور سری لنکا کا میچ ہوا تو جنوبی افریقہ کی ٹیم باآسانی فتحیاب ہونے میں کامیاب ہوئی۔

دوسری جانب انڈیا کے بلے بازوں نے جب وننگ رن سکور کیے تو ابھی میچ کی 46 گیندیں باقی تھیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ نیو یارک میں میچ کے نتیجے کا انحصار ٹاس پر بہت زیادہ ہو چکا ہے اور پہلے بولنگ کرنی والی ٹیم کو سبقت حاصل ہو گی۔

اب تک اس مسئلے کی کوئی واضح تشخیص بھی نہیں کی جا سکی۔

دوسری جانب ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ باؤنڈری کا فاصلہ ایک جانب پچھتر میٹر اور دوسری جانب پینسٹھ میٹر ہے جبکہ سامنے کی جانب اکہتر میٹر فاصلہ ہے جس کی وجہ سے رن بنانا کسی حد تک دشوار ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے بلے بازوں نے چوٹ لگنے کے ڈر سے مقامی نیٹ بولرز اور اپنے بولرز کا سامنا کرنے کے بجائے ہاتھ سے پھینکی گیندوں پریکٹس کرنے کو ترجیح دی۔

getty
Getty Images
مدثر نذر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ٹیم نے پہلے کے میچ کی طرح بال کرنے ہیں، وائڈ پھینکنے ہیں تو پھر پچ جیسی بھی ہو کوئی فائدہ نہیں

’بلے باز یہاں چوکے چھکے کیسے ماریں گے؟‘

ایڈیلیڈ اوول کے پچ کیوریٹر ڈیمیان ہاگ کو آسٹریلیا میں پچز بنا کر امریکہ منتقل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ انھوں نے رواں برس اپریل میں بی بی سی ساؤنڈز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہمارا مقصد ایسی پچز تیار کرنا ہے جو تیز ہوں اور جن میں مستقل باؤنس ہو رہا ہو اور جس پر کھلاڑی اپنے بہترین شاٹس کھیل سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تفریحی کرکٹ چاہتے ہیں لیکن چیلنجز بھی موجود ہیں۔‘

دس ڈراپ ان پچز پر اکتوبر 2023 کے آغاز میں کام شروع ہوا اور انھیں ابتدائی طور پر ٹرے میں لگایا گیا تھا۔ ہر پچ کو دو ٹریز میں تقسیم کیا گیا تھا جس کا مقصد میچوں کے لیے چار تیار پچز اور چھ پریکٹس سٹرپس بنانا تھا۔

ان پچوں کی تیاری میں چکنی مٹی کو ایک خاص گھاس کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ٹرے جنوری میں ایڈیلیڈ سے فلوریڈا تک ایک شپنگ کنٹینر کے ذریعے لائی گئیں۔ انھیں نیویارک لے جانے سے قبل ایک گرم آب و ہوا والے علاقے میں رکھا گیا کیونکہ نیویارک میں اُس وقت شدید سردی کا موسم تھا-

ڈیمیان نے اس حوالے سے غیر یقینی کا بھی اظہار کیا تھا۔ ’ہم نے راستے میں ہر ممکنہ نتیجے اور مسئلے کے بارے میں اچھی طرح سے سوچا ہے اور ہم امید کر رہے ہیں کہ اچھی کرکٹ پچز ثابت ہوں گی۔‘

getty
Getty Images
سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ انحصار شاہین آفریدی پر کرتا ہے

سابق کرکٹر مدثر نذر کا ماننا ہے کہ نیویارک کی پچ مکمل تیار نہیں اور اگر اس پر کچھ میچ کروا لیے جاتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مدثر نذر کا کہنا تھا کہ اگلے میچ سے پہلے پاکستانی ٹیم کو کچھ دن ملے ہیں اور شاید ٹیم کو نئی پچ ہی ملے گی جس پر گھاس کاٹا گیا ہو گا، پانی دے کر رول وغیرہ کیا گیا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے مقابلے میں انڈین ٹیم ’ہر لحاظ سے بہتر ہے۔‘

’ہم اپنے فاسٹ بولز کی بہت بات کرتے ہیں لیکن ہمارے بولرز اتنے موثر نہیں ہیں جتنے انڈیا کے ہیں۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ ایک غیر متوقع، انڈر کوکڈ پچ پر کھیلتے ہیں تو چھوٹی، کمزور ٹیم کو اس کا فائدہ ہو جاتا ہے کیونکہ چیزیں برابری کی سطح پر آ جاتی ہیں۔‘

مدثر نذر کہتے ہیں کہ یہ پچ بہت غیر متوقع ہے۔ ’کوئی پتا نہیں وراٹ کوہلی، روہت شرما کو دو تین اچھی بالز پڑ جائیں جس کا پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر پاکستان کا بولنگ اٹیک منظم ہو اور نپی تلی بولنگ کرے۔

مدثر نذر کا ماننا ہے کہ ’پچ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ خاص کر ٹی ٹوئنٹی میں جہاں شائقین چوکے چھکے دیکھنے آتے ہیں۔

’لیکن جس پچ پر بلے باز کو جان کے لالے پڑ جائیں، وہاں وہ چوکے چھکے کیسے ماریں گے؟‘

getty
Getty Images
جسپریت بمرا جس طرح کے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے اور جس پیس سے بالنگ کرواتے آ رہے ہیں، وہ پاکستانی بیٹنگ آرڈر کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں

کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری بھی مدثر نذر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کا بولنگ اٹیک منظم ہو اور نپی تلی بولنگ کرے تو اس پچ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے سمیع چوہدری کا کہنا ہے کہ پچ اس وقت کردار ادا کرتی ہے جب آپ گیند کو اس پر پچ کرواتے ہیں، اگر آپ فل ٹاس کروا رہے ہیں تو پچ غیر اہم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی پیسرز کی پیس کے ساتھ غیر ہموار پچ کا پیس مل جائے تو وہ انڈین بلے بازوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ انحصار شاہین آفریدی پر کرتا ہے ’مگر جس طرح کی بولنگ شاہین نے امریکہ کے ساتھ میچ میں کی ہے، ویسی بولنگ نہ کر کے بہتر لائن، بہتر لینتھ کے ساتھ اٹیک کریں تو پاکستانی ٹیم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈراپ ان پچز کے علاوہ دوسری پچز پر عموماً نئی بال سے فل لینتھ پر سیم یا سوئنگ ملتی ہے لیکن آسٹریلیا سے منگوائی گئی ان ڈراپ ان پچز پر پیسرز کے لیے بیک آف لینتھ یا شارٹ آف لینتھ زون زیادہ موثر ہے‘ لہذا اگلے میچ کے لیے شاہین اور حارث کو اپنی بولنگ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ محمد عامر کو بھی اپنے اعصاب پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

سمیع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹاس نہ جیتنے کی صورت میں اگر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنا پڑ گئی تو انڈین پیس اٹیک کم خطرناک نہیں، خاص کر جسپریت بمرا جس طرح کے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے اور جس پیس سے بالنگ کرواتے آ رہے ہیں، اگر وہ بیک آف لینتھ سے پاکستانی اوپنرز اور مڈل آرڈر پر اٹیک کرتے ہیں تو پاکستانی بیٹنگ آرڈر کے لیے مشکل صورتحال ہو سکتی ہے۔

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ شاید یہ پچ اتنی خطرناک نہ ہو جتنا اس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم اس پچ پر کم رنز ہی بن پائیں گے۔

ڈراپ ان پچز کیسے تیار کی جاتی ہیں اور انھیں گراؤنڈ میں کیسے لایا جاتا ہے؟

ڈراپ ان پچز کو گراؤنڈ سے باہر کسی نرسری، گرین ہاؤس یا کبھی کسی دوسرے گراؤنڈ میں ایک سٹیل کے سانچے یا ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور پھر آسٹریلیا میں کرکٹ سیزن کی آمد پر انھیں گراؤنڈ میں اتارا جاتا ہے۔

ان پچز کو جہاں تیار کیا جاتا ہے وہاں ان کی دیکھ بھال بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی عام پچ کی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ میچ سے پہلے یہ مکمل طور پر تیار ہوں۔

گراؤنڈ تک پچ پہنچانے کا عمل خاصا دلچسپ اور دیکھنے کے لائق ہے۔ یہ سب کچھ ایک دیو ہیکل کسٹمائزڈ ٹرالر کی مدد سے ممکن ہو پاتا ہے جو اس مٹی اور گھاس کے مجموعے کو گراؤنڈ تک پہنچانے اور پچ کی مخصوص جگہ پر اتارنے میں مدد کرتا ہے۔

آپٹس سٹیڈیم میں اس ٹرالر کو ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور بغیر کسی مشکل کے پچ کو اس کی جگہ پر اتارنے کا کام مکمل کر لیا جاتا ہے۔

عموماً جس جگہ پر پچ کو اتارا جاتا ہے وہاں پہلے سے سیمنٹ سے لیپائی کی جاتی ہے۔ یوں پچ دراصل مٹی میں نہیں بلکہ سیمنٹ کے فرش پر اترتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ پچ مٹی میں اپنی جگہ نہ پکڑ پائے اور اسے باآسانی واپس نکالا بھی جا سکے۔

getty
Getty Images

عموماً انھیں نکالنے کے بعد اس خالی جگہ پر ریت کا بلاک ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس پر آرٹیفشل گھاس ڈال کر اسے کسی دوسرے کھیل جیسے آسٹریلین رولز فٹبال، رگبی یا کسی کانسرٹ کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے۔

یوں آسٹریلیا جیسے ممالک جہاں کرکٹ مقبول ترین کھیل نہیں، وہاں گراؤنڈز کا مختلف کھیلوں اور تقریبات کے لیے استعمال ان کے لیے معاشی پائیداری کا باعث بنتا ہے۔

کرکٹ کے کھیل میں پچز کو انتہائی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ لگ بھگ 22 یارڈ کی پچ میچ کے نتیجے پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔

پچ بنانا یعنی اس کی کیوریشن باقاعدہ طور پر پڑھائی جاتی ہے اور کس علاقے میں اس کے موسم کے اعتبار سے کون سی مٹی سازگار رہے گی اور اس کے باعث اس پچ کی نیچر میں کیا تبدیلی آئے گی یہ سب کچھ گراؤنڈ سٹاف اور پچ کیوریٹر کو معلوم ہوتی ہے۔

مختلف گراؤنڈز کی پچز کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں۔ جیسے ایڈیلیڈ کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے جبکہ پرتھ کے پرانے گراؤنڈ واکا کی پچ پیس اور باؤنس کے لیے خاصی مشہور تھی۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان میں پچز سپنرز کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.