شاہ عالم ثانی: منھ بولے بیٹے کے ہاتھوں اندھے ہونے والے ہندوستانی بادشاہ جن کے دور میں مغل حکمرانی دلی تک محدود ہو گئی

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کی تحقیق ہے کہ انگریز شاہ عالم ثانی کو ’دلی کا بادشاہ‘ کہتے تھے لیکن ان کی موت کے 30 سال بعد تک ان کے نام کے سکے جاری ہوتے رہے۔

سنہ1788 کی اُس حبس زدہ دوپہر چنگھاڑتے روہیلا سردار غلام قادر شاہ عالم ثانی کو گرا کر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور اپنے خنجر سے مغل شہنشاہ کی آنکھیں نکال دیں۔

اس بدقسمت مغل شہنشاہ کا نام اس وقت عالی گُہر رکھا گیا تھا جب عزیز الدین عالم گیر ثانی کے ہاں انکی پیدائش 15 جون، 1728 کو دلی میں ہوئی۔

مغلیہ دور زوال پذیر ہو رہا تھا اور ہندوستان رفتہ رفتہ خود مختار ٹکڑوں میں بٹ رہا تھا۔ ایسے میں شاہ عالم ثانی کی زندگی کا آغاز ہی مشکلات سے بھرپور رہا۔

ان کی کم عمر آنکھوں کے سامنے مغلیہ شان و شوکت اور دلی کو ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے یوں لوٹا کہ زوال پذیر مغل مکمل تباہ ہو گئے اور ہندوستان سے مرکزی طاقت کا وجود ہی ختم ہو گیا۔

لیکن شاہ عالم کی مشکلات ابھی باقی تھیں۔ وزیر عماد الملک نے عالی گُہر کو گویا ایک قیدی بنا رکھا تھا۔ اسی وزیر نے 1758 میں انھیں دلی سے بھاگنے پر مجبور کیا تو عالی گُہر نے اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے پاس پناہ لے لی۔

صرف ایک ہی سال گزرا تھا کہ 1759 میں ان کے والد قتل ہوئے اور عالی گہر ’شاہ عالم ثانی‘ کے لقب سے سترھویں مغل شہنشاہ بنے۔ لیکن یہ ایسے شہنشاہ تھے جن کے پاس نہ طاقت تھی، نہ دولت اور نہ ہی دلی۔

اس کے باوجود مغلیہ نام اور نسب کی ایک اہمیت تھی۔ سنہ 1761 میں احمد شاہ ابدالی، جنھوں نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مراٹھوں کی قوت کو پاش پاش کر دیا تھا، نے شاہ عالم کو ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کر لیا۔

ابھی اس شہنشاہ کے پاس دلی تک نہ تھا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال میں قدم جما رہی تھی۔

دلی پر قبضہ کرنے کے ارادے سے شاہ عالم ثانی نے بہار اور بنگال سے خراج کا مطالبہ کیا اور اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔

1764 میں بکسر (انڈیا کی ریاست بہار میں) میں شجاع الدولہ کی شکست کے بعد شاہ عالم کمپنی کے پنشنر بن گئے۔

اس کے بدلے میں انھوں نے بنگال، بہار اور اڑیسہ (1765) میں کمپنی کو ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دے کر اسے قانونی حیثیت دے دی۔ لیکن، دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق، کمپنی نے اس تقررکے فرائض اور ذمہ داریوں کو کہیں سات سال بعد جا کر قبول کیا۔

دلی واپسی

خود الٰہ آباد میں آرام سے آباد ہوئے مگر ان کا دل دلی کے اس تخت کا طلب گار تھا جہاں کبھی ان کے آباؤاجداد نے شان و شوکت سے ہندوستان پر راج کیا تھا۔

آخرکار 1771 میں مغربی ہندوستان میں پھر سے طاقتور قوت بن جانے والے مراٹھا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انھیں دلی واپسمل گیا۔ تاہم مراٹھوں کی پناہ کے بدلے الٰہ آباد اور کڑاکے اضلاع انھیں منتقل کیے گئے۔

ثنا الحق لکھتے ہیں کہ ’شاہ عالم میں سوجھ بوجھ کی کمی نہیں تھی لیکندو خامیاں تھیں ،آرام طلبی اور خوشامد سے بے حد متاثر ہونا۔‘

یوں شاہ عالم کے دور اقتدار میں سلطنتِ مغلیہ کا رہا سہا بھرم بھی نکل گیا اور بادشاہ مراٹھوں اور انگریزوں کے وفادار ہی نہیں بنے بلکہ ان کی طاقت پر انحصار کرنے لگے۔

نصیر الدین برلاس نے نجیب التواریخ میں لکھا ہے: ’بادشاہ مثل موم کی ناک یا شاہِ شطرنج یا سونے کی چڑیا تھے، جس کے قبضہ میں آ گئے اسی کا دم بھرنے لگے۔‘

شاہ عالم جب الٰہ آباد میں تھے تو نواب نجیب اللہ دلی میں نیابت کے فرائض ادا کرتے رہے۔ ان کے بعد روہیلا سردار ضابطہ خان نے بھی کچھ عرصہ تک کاروبارِ سلطنت چلایا۔ ضابطہ خان اس کہانی میں کیوں اہم ہیں، اس کا ذکر کچھ دیر میں۔

لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ شاہ عالم نے ضابطہ خان کے ہی خلاف مہم جوئی کی اور مراٹھوں نے ضابطہ خان کو شکست دی۔ یہاں سے کہانی کے ایک نئے موڑ کا آغاز ہوتا ہے جس کا مرکزی کردار ضابطہ خان کا بڑا بیٹا غلام قادر ہے۔

غلام قادر خان اور شاہ عالم: ’محبت سے انتقام تک‘

برلاس کے مطابق ’ضابطہ خان کا بڑا لڑکا غلام قادر خان، عمر 14 سال، اور چھوٹا غلام معین الدین خان، عمر 11 سال، گرفتاری میں آئے۔ قادر خان نہایت حسین اور خوش رو تھا اور بحکم بادشاہ قلعہ میں ہی رہنے لگا۔‘

سید مصطفیٰ علی بریلوی لکھتے ہیں کہ بعض مصنفین کا بیان ہے کہ ’غلام قادر خان کو زنانہ کپڑے پہنا کر بادشاہ کے روبرو لایا جاتا تھا۔‘

’کچھ کہتے ہیں کہ وہ محلات میں مثل شہزادوں کے رہتے تھے۔ چونکہ خاندانی شان اور وجاہت کے مالک تھے اس لیے باآسانی شاہ زادیوں کی توجہ کے مرکز بن گئے۔‘

البتہ سید علی عباس نے سفرنامہ اظفری میں لکھا ہے کہ ’شاہ عالم حسن پرست تھے اور عیاش بھی۔ غلام قادر خان کو ان کی خداداد خوبصورتی کے سبب زنانہ لباس زیب تن کرا کر دربار میں اپنے قریب بٹھاتے تھے۔‘

بریلوی اپنی کتاب غلام قادر روہیلا میں لکھتے ہیں: ’سازشیوں نے صحیح فیصلہ سے عاری شاہ عالم کے حکم کے تحت غلام قادر خان کو بے ہوش کیا اور پھر انھیں مردانہ قوتوں سے محروم کر دیا۔‘

نجیب التواریخ میں لکھا گیا ہے کہ: ’بہ سبب حسن و جمال و گفتگوئے باادب بادشاہ کی نظرِ عنایت روزبروز اس پر زیادہ ہونے لگی یہاں تک کہ مثلِ شاہزادگانِ تیموری بے محابا محلوں میں آمدورفت رکھتا تھا اور فرزندِ شاہی سمجھا جاتا تھا۔ آغازِ شباب و خوش روئی کے باعث بادشاہ کو اشتباہ ہوا کہ محذرات شاہی بھی اس سے انس کرتی ہیں اس واسطے بے ہوش کر کے کسی طریقہ سے قطع نسل رجولیت نواب غلام قادر خان کرا دی گئی۔‘

غلام قادر خان کو جب ہوش آیا تو صبر کرکے رہ گئے۔

1785 میں ضابطہ خان کی وفات کے بعد 25 یا 26 سالہ غلام قادر خان کو نجیب آباد سونپا گیا تو انھوں نے دہرہ دون تک کا کل مغربی روہیل کھنڈ کا علاقہ فتح کر لیا۔

رفتہ رفتہ غلام قادر طاقتور ہوتے چلے گئے اور ان کے ارادے بھی اٹھان پکڑنے لگے۔ ایک وقت آیا جب تین سال بعد انھوں نے مراٹھوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے لیے بادشاہ سے رقم طلب کی۔

بادشاہ کے خزانچی نے جواب دیا کہ خزانے کے صندوقچے خالی پڑے ہیں۔ روایت ہے کہ یہ سن کر غلام قادر خان نے اپنی جیب سے بادشاہ کا ایک خط مراٹھا سردار سندھیا کے نام نکالا جس میں ان سے امداد طلب کی گئی تھی، اور اسے بڑے سخت الفاظ میں بادشاہ کے روبرو پھینکا۔

بادشاہ بھی طیش میں آ گئے تو جذبات سے مغلوب غلام قادر خان کے دل و دماغ پر شاہ عالم کی اگلی پچھلی زیادتیاں چھا گئیں۔ یہاں تک کہ اس کیفیت کی قیمت شاہ عالم کو اپنی آنکھوں کی محرومی کی شکل میں دینا پڑی۔

محقق ولیم ڈیلریمپل کا کہنا ہے کہ ’کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ شاہ عالم کے پسندیدہ تھے اور ہو سکتا ہے کہ ان کے جنسی تعلقات بھی ہوں۔‘

وہ اپنی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھتے ہیں: ’قسمت کے الٹ پھیر اور یقیناً انتقامی کارروائی میں، مغل بادشاہ کو غلام قادر خان نے شکست دی، تشدد کا نشانہ بنایا اور اندھا کر دیا۔‘

شاہ عالم، جو آفتاب تخلص کے ساتھ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور عجائب القصص کے نام سے اردو داستان بھی ان سے منسوب ہے، نے اندھا کیے جانے پر یہ شعر لکھا:

صرِصرِ حادثہ برخاست پےِ خواریِ ما

داد برباد سرو برگِ جہانداریِ ما

(مفہوم: حادثہ ہماری رسوائی کا باعث بنا، یہ ہماری آفاقیت کا ضیاع ہے)

جب مغل بادشاہ کو نچوایا گیا

بریلوی کا کہنا ہے کہ 30 لاکھ کی رقم روہیلا افواج کو نہ دی گئی ’لیکن بخوفِ جان کروڑوں کا اثاثہ پیش کر دیا گیا۔ ایک عام اندازے کے مطابق اہالیان ِ قلعہ کے پاس سے تقریباً 25 کروڑ روپے کا مال و زر برآمد ہوا۔‘

وہارا امباکر نے لکھا ہے کہ ’غلام قادر نے بہادر شاہ ظفر کے والد اور ہونے والے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو سب کے سامنے ناچ نچوایا، شاہی محل کی خواتین کے ساتھ ناقابلِ بیان حرکات کیں اور پھر شاہ عالم کی شاندار لائبریری سے تمام کتابیں نکال کر اودھ کے نواب کو بیچ دیں۔‘

بریلوی کے مطابق :’ایک دن غلام قادر خان نے تمام شہزادوں کو طلب کیا اور کہا تم لوگ ناچنا گاناخوب جانتے ہو، ذرا مجھ کو بھی ناچ گا کر دکھاؤ۔ شاہزادگانِ تیموری بے ہنگم طریقہ پر رقص کرنے لگے۔‘

’غلام قادر خان سونے کا بہانہ کرکے لیٹ گیا اور کھلی ہوئی کٹار سرہانےرکھ لی اور شاہزادہ اکبر شاہ کو پیر دبانے کا حکم دیا۔ چند لمحے بعد شاہزادہ کو دھکا دے کر کہا کہ میں یہاں تنہا ہوں، تم لوگ اتنی بڑی تعداد میں موجود تھے اگر تھوری سی مردمی ہوتی تو مجھے ہلاک کر دیتے۔ تم لوگ ہندوستان پر حکومت کرنے کے مستحق نہیں ہو۔‘

غلام قادر کی شکست اور شاہ عالم کا انتقام

اکتوبر میں جب غلام قادر خان آخرکار لوٹ مار کے بعد دلی سے نکلے تو ان کا ارادہ تھا کہ اب وہ مراٹھوں سے نمٹیں گے۔ لیکن اس معاملے میں ان کو شکست ہوئی اور گرفتار ہو گئے۔

غلام قادر کو مراٹھوں کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر ایسا تشدد کیا گیا کہ بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ نجیب التواریخمیں لکھا گیا ہے کہ ان کے ’ناک اور کان کاٹے گئے، پھر دونوں آنکھیں نکالی گئیں۔ پھر دونوں ہاتھ اور اس کے بعد دونوں پاؤں کاٹے گئے۔ آخر میں گردن نصف قطع کر دی گئی۔‘ اس طرح سندھیا نے کئی سال پہلے مراٹھوں کی شکست کا بدلا لیا۔

اس کے بعد ’غلام قادر خان کے ناک، کان اور آنکھیں اندھے شاہ عالم کی خدمت میں پیش کی گئیں۔‘

مورخ جادو ناتھ سرکار کی رایت کچھ مختلف ہے جس کے مطابق مراٹھوں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ان کی یہ حالت خود بادشاہ کے حکم پر ہوئی۔

جادو ناتھ کے مطابق بادشاہ کے سیکرٹری جنرل میر غالب علی اور معالج خاص حکیم اکملکو غلام قادر کے پاس بھیجا گیا اور ’ان لوگوں نے حسب الحکم غلامقادر کی دونوں آنکھیں نکال لیں، ناک اور کان کاٹے اور ایک صندوقچی میں رکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے۔‘

’اس بدترین حالت میں غلام قادر کو متھرا سے 12 میل دور لے جایا گیا اور پھر ہاتھ اور پیر کاٹےگئے اور اس طرح بالآخر اس کو قتل کرکے جسد خاکی ایک درخت پر لٹکا دیا اور پھر عوامی تشہیر کے لیے بھیجا گیا۔‘

سید مصطفیٰ علی بریلوی کے مطابق جب شاہ عالم، مراٹھوں کی مدد سے دوبارہ تخت نشین ہوئے تو سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ شہزادہ بیدار بخت کو زندہ دفن کر دیا اور ان کی ماں اور بہن نامعلوم حالات میں پانچ چھ دن میں ختم ہو گئیں۔

مغل
Getty Images

’کٹھ پتلی بادشاہ‘

شاہ عالم نے اپنے آخری سال مراٹھا سردار سندھیا کی حفاظت میں اور دوسری مراٹھا جنگ (1803-05) کے بعد انگریزوں کی حفاظت میں گزارے۔

امباکر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد مراٹھافوج مستقل طور پر دلی میں تعینات ہو گئی اور یہ اگلی دو دہائیوں تک وہیںرہی جب تک انگریزوں نے مراٹھوں کو شکست نہیں دی۔

دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق اپنے 47 سالہ دورِ حکومت میں شاہ عالم دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔

ادیب شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے ’آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔‘

’یوں تو اورنگ زیب (عالم گیر) کے بعد ہی اس عظیم الشان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیراکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔۔۔شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔‘

’سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم‘

دہلوی کے مطابقبادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔

’ان کے درباریوں نے انھیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔‘

مثل مشہور ہوئی کہ ’سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم۔‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔‘

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کی تحقیق ہے کہ انگریز شاہ عالم ثانی کو’دلی کا بادشاہ‘ کہتے تھے لیکن ان کی موت کے 30 سال بعد تک ان کے نام کے سکے جاری ہوتے رہے۔

شاہ عالم ثانی کی وفات 10 نومبر 1806 کو قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ ان کی موت کے بعد مغل عمل داری دلی کے مضافاتی علاقےپالم تک بھی نہ رہی اور صرف لال قلعے کی دیواروںتک محدود ہو کر رہ گئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.