عید الاضحیٰ اور قربانی: یہودیت، عیسائیت اور ہندومت جیسے مذاہب میں قربانی کی کیا اہمیت ہے؟

جب مسلمان عید الاضحی یا قربانی کا تہوار مناتے ہیں تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یاد مناتے ہیں کہ اللہ نے انھیں خواب میں اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن دوسرے اہم مذاہب جیسے ہندو مت، یہودیت اور عیسائیت میں جانور کی قربانی کو کس طرح دیکھا جاتا ہے؟
A sketch of a man leading a goat away for slaughter
Getty Images
زمانہ قدیم میں جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی

پاکستان میں مسلمانوں کا تہوارعید الاضحی یا عید قربان پیر کو شروع ہو رہا ہے۔ یہ پیغیبر ابراہیم کی اس قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ ابراہیم کو عیسائیت اور یہودیت دونوں میں ابراہم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

ان سے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے ایک خواب دیکھا تھا جسے انھوں نے خدا کی طرف سے ایک پیغام کے طور پر لیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو خدا کیاطاعت کرتے ہوئے قربان کر دیں۔

جب انھوں نے بیٹے کو بتایا تو اسماعیل نے اسے قبول کر لیا اور اپنے والد سے حکم کی تعمیل کرنے کو کہا۔ پھر پیغمبر ابراہیم جب اپنے بیٹے کو قربان کرنے والے تھے تو خدا نے انھیں روک دیا اور اس کی جگہ قربانی کے لیے ایک دنبہ بھیجا۔

دنیا بھر کے مسلمان رسمی طور پر مختلف قسم کے مویشیوں کی قربانی دیتے ہیں۔ روایتی طور پر قربانی ان لوگوں پر لازم ہےجن کے پاس ایسی دولت ہے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔

تو دوسرے بڑے مذاہب میں قربانی کے بارے میں کیا تصورات ہیں؟ ہندومت، یہودیت اور عیسائیت میں جانور کی قربانی کو کس طرح دیکھا جاتا ہے؟

یہودیت

Members of the 'Beit Yisrael' sect, part of the African Hebrew Israelite Nation of Jerusalem, march before they slaughter a lamb during a Passover sacrifice ceremony on 12 April 2017
Getty Images
کچھ یہودی تہواروں میں آج بھی جانور قربان کیے جاتے ہیں

تاریخِ اسلام میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو عیسایئت اور یہودیت میں بھی مشترک ہیں۔

برطانیہ کے لیو بیک کالج میں تعلیمی خدمات کے سربراہ ربی گیری سومرز کا کہنا ہے کہ یہودی صحیفوں میں مختلف قربانیوں کی وضاحت کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک کے مخصوص اوقات اور مقامات ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’آج کل ہم ان قربانیوں پر عمل نہیں کرتے کیوں کہ جن مقامات پر یہ رسومات ادا کی جاتی تھیں، وہ اب موجود نہیں ہیں۔ اس کے جگہ آج ہم عبادات کے ذریعے ان قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔‘

ربی ڈاکٹر بریڈلی شیوٹ آرٹسن امریکن یہودی یونیورسٹی کے نائب صدر اور زیگلر سکول آف ربانی سٹڈیز کے ایبنر اینڈ روزلین گولڈسٹائن ڈین ہیں۔

وہ کہتے پیں کہ ’رومیوں کےہاتھوں دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد یہودیت میں جانوروں کی قربانی کی اجازت نہیں تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب اس پر مستقل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ مسیح کے آنے کے بعد اسے بحال کر دیا جائے گا۔‘

یہودیوں کے لیے ہیکل سے مراد ٹیمپل ماؤنٹ ہے جو یروشلم کے پرانے شہر میں ہوا کرتا تھا اور جہاں آج مسجد اقصیٰ ہے۔

یہودی اس یقین کے ساتھ ہیکل کی تعمیر نو کے لیے دعا کرتے کہ وہ وہاں جانوروں کی قربانیدوبارہ شروع کر سکیں۔

اگرچہ زیادہ تر یہودی ہیکل کی غیر موجودگی کی وجہ سے جانوروں کی قربانی نہیں کرتے ہیں تاہمیروشلم میں کچھ گروہ جیسے سامری اب بھی فسح کے تہوار کے دوران قربانی کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ قربانی کے جانور کے مساویرقم عطیہ کردیتے ہیں۔

چاہے بھیڑ ہو، بھینس ہو، گائے ہو یا بکری قربانی کا جانور مذہبی طور پر موزوں یا ’کوشر‘ ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر آرٹسن کہتے ہیں ’صرف کوشر جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت تھی جن میں سے کچھ کو قربان گاہ پر جلایا گیا تھا، کچھ کو پادریوں کے اہل خانہ کو دیا گیا تھا اور کچھ کو قربانی دینے والوں اور ان کے اہل خانہ نے کھا لیا تھا۔‘

اگرچہ براہ راست قربانی عام نہیں ہے لیکن گوشت کا استعمال بہت سے تہواروں کا لازمی حصہ ہے۔ جانوروں کی قربانی کے لیے یہودی رسومات متنوع ہیں اور قربانی کے مقصد کے مطابق مختلف ہیں۔

اس سے قبل یہودیت کے تین مذہبی تہوار پیسا (فسح)، شووت ( تہواروں کا ہفتے) اور سککوٹ (خیموں کا تہوار) جانوروں کی قربانی کے حوالے سے اہمیت رکھتے تھے۔

برطانیہ کے لیو بیک کالج میں تعلیمی خدمات کے سربراہ ربی گیری سومرز بتاتے ہیں کہ دیگر تہواروں جیسے روش ہشانہ (یہودی نیا سال) اور یوم کپور (کفارہ کا دن) میں بھی جانوروں کی قربانی شامل ہے۔

پیغمبر ابراہیم کی قربانی کا قصہ یہودی صحیفوں میں بھی ملتا ہے۔ تاہم، جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم بعد میں آیا اور یہودیوں کے لیے تھوڑا سا مختلف تھا۔

عیسائیت

Jesus Christ nailed to the cross with clouds behind him
Getty Images
بائبل میں ابراہیم کی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی خواہش ذکر ہے لیکن اس میں ابراہیم کو ابراہم کہا گیا ہے

یہودی صحیفوں اور بائبل کے پرانے عہد نامے میں بہت کچھ مشترک ہے۔

ڈھاکہ میں کافرل کیتھولک چرچ کے پادری ڈاکٹر پروشنتو ٹی ریبیرو کہتے ہیں کہ ’عہد نامہ قدیم کی کتابیں، خاص طور پر لیوی 17 اور ڈیوٹورومنی میں اس بات کی تفصیل دی گئی ہے کہ جانوروں کی قربانی کس طرح کی جاتی ہے۔ عموماً یہ تہواروں کے دوران صبح یا شام کے اوقات میں کی جاتی تھی۔‘

اس زمانے میں توبہ اور گناہوں کی مغفرت کی امید میں جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی لیکن اس رواجپر اب مذہبی طور پر عمل نہیں کیا جاتا کیونکہ مسیح کی موت کو آخری قربانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عیسائیت میں حضرت عیسیٰ کو ’خدا کا میمنا‘قرار دیا جاتا ہے۔

A lamb
Getty Images
عیسائیت میں حصرت عیسیٰ کو ’خدا کا میمنا‘قرار دیا جاتا ہے

اگرچہ قربانی کا کوئی خاص مذہبیطریقہ کار نہیں ہوتا لیکن بہت سے معاملات میں ’اگر کوئینیت کرتا ہے یا خدا سے وعدہ کیا جاتا ہے تو مختلف طریقوں سے قربانی کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ریبریو کا کہنا ہے کہ یہودی تعلق کے علاوہ عیسائیت میں خالق کے نام پر جانوروں کی قربانی کی کوئی روایت نہیں تھی۔

تاہم گوشت کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بہت سے ممالک میں یہودیوں کے تہوار فسح کے موقع پر بھیڑ کا گوشت کھانا روایت ہے اور ریبیروکے مطابق اٹلی میں ان کے قیام کے دوران ایسٹر سے پہلے بھیڑ کا گوشت کھانا تقریباً لازمی محسوس ہوا۔

تاہم مذہبی مقاصد کے لیے جانوروں کی قربانی کی یہودی روایت کی طرح عیسائیت میں قربانی کا کوئی رواج نہیں ہے۔

ہندومت

A priest dances holding a sacrificial goat over his back during Deodhani festival atKamakhya Temple on 19 August 2022 in Guwahati, Assam, India
Getty Images
انڈین ریاست آسام کے کاماکھیا مندر میں دیودھنی تہوار کے دوران ایک پجاری قربانی کا بکرا تھامے رقص کر رہا ہے

اگرچہ ہندومت میں جانوروں کی قربانی کے موضوع پر تنازعات ہیں لیکن ہندوؤں کے ایک حصے میں اس پر عمل کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر انڈیا یا بنگلہ دیش کے بہت سے حصوں میں، مذہبی رسومات میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے جس میں درگا پوجا اور کالی پوجا جیسے تہوار شامل ہیں۔

چٹاگانگ یونیورسٹی کے سنسکرت شعبہ کے سسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کوشل برن چکرورتی کہتے ہیںکہ ’مختلف قدیم ہندو صحیفے جیسے رامائن مہا بھارت اور مقدس کتابیں جیسے پران جانور کی قربانی کا حوالہ دیتی ہیں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ہندو مت کی قدیم مذہبی کتابوں میں سے ایک رگ وید میں اس بات کا ذکر ہے کہ قربانی کے جانور کو آزادی ملتی ہے اور وہ غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔‘

سنہ 1500اور 500قبل مسیح کے درمیان ویدک دور میں جانوروں کی قربانی عام تھی۔ گوشت دیوتاؤں کو پیش کیا جاتا تھا اور پھر دعوتوں میں کھایا جاتا تھا۔ تاہم، جدید انڈیا میں جانوروں کی قربانی کے عمل کے بارے میں ماہرین کے درمیان مختلف آرا ہیں۔

ڈاکٹر چکرورتی کہتے ہیں کہ کچھ قدیم مندروں میں جانوروں کی قربانی اب بھی کی جاتی ہے۔انھوں نے بنگلہ دیش میں ڈھکیشوری اور انڈیا میں تریپورہ سندری، کاماکھیا اور کالی گھاٹ کالی جیسے مندروںکا حوالہ دیا۔

تاہم ہندو مت کی ایک اور ماہر ڈاکٹر روہنی دھرم پال کہتی ہیں کہ وہ جدید انڈیا میں بڑے پیمانے پر جانوروں کی قربانی کے بارے میں نہیں جانتی۔

ڈاکٹر چکرورتی کا کہنا ہے کہ ہندو مت میں جانوروں کی قربانی کے جدید طریقوں میں اکثر قربانی کی روحانی اہمیت کے بجائے خود کو مطمئن کرنے،مقابلے یا لطف اندوزی پر زور دیا جاتا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اس سے اس کی حرمت کم ہو جاتی ہے۔

انڈیا میں متعدد گروپوں نے رضاکارانہ طور پر مختلف مندروں میں جانوروں کی قربانی روک دی ہے اور مذہبی مقاصد کے لیے جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی کی حمایت کی ہے۔

سری لنکا نے ہندوؤں کی جانب سے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ نیپال میں کچھلوگوں نے رضاکارانہ طور پر تہواروں پر جانوروں کی قربانی کو ختم کر دیا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.