قربانی کرنے کے الزام میں ’احمدیوں کے خلاف کارروائیاں‘: ’پولیس والے ہمارا تین ماہ کا پالتو بکری کا بچہ بھی لے گئے‘

رواں سال بھی عید الاضحیٰ کے موقعے پر پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے خلاف قربانی دینے اور قربانی کے جانور لانے کی شکایات پر نہ صرف لوگوں بلکہ پولیس کی جانب سے کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ احمدی برادری کے لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس کی جانب سے انھیں قربانی سے روکنے کے لیے کارروائیاں کی گئی ہیں۔
علامتی تصویر
Getty Images

رواں سال بھی عید الاضحیٰ کے موقعے پر پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے خلاف قربانی دینے اور قربانی کے جانور لانے کی شکایات پر نہ صرف لوگوں بلکہ پولیس کی جانب سے کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ احمدی برادری کے لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس کی جانب سے انھیں قربانی سے روکنے کے لیے کارروائیاں کی گئی ہیں۔

’پولیس والے ہمارا تین ماہ کا پالتو بکرے کا بچہ بھی اٹھا کر لے گئے ‘

’میری چار سالہ بیٹی اور چھ سالہ بیٹے کی ضد پر میرے شوہر ڈیڑھ ماہ قبل بکرے کا بچہ لائے۔ ابھی اس بکرے کے بچے کی عمر تین ماہ ہوئی تھی۔ کل پولیس نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا اور وہ بکرے کے بچے اور میرے شوہر کو اٹھا کر لے گئی۔‘

گجرانوالہ کی رہائشی آمنہ (فرضی نام) عید کے روز اپنے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بی بی سی کو بتاتے ہوئے رو پڑیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ’پولیس یہ کہہ کر ہمارا پالتو بکرا اور میرے شوہر کو لے گئی کہ تم لوگ قربانی کرنا چاہتے ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ اتنے چھوٹے بکرے کے بچے کی قربانی کون کرتا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’عید کے روز میں اور بچے گھر پر اکیلے تھے چھ سے سات پولیس والے اسلحہ اٹھائے ہمارے گھر کا دروازہ توڑ کر داخل ہوئے تو میرے بیٹی دیکھنے بھاگی تو انھوں نے اسے بھی زور سے دھکا دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بچی کو گرنے سے چوٹ بھی لگی اور پولیس والوں نے پردے کا بھی لحاظ نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پوچھنے پر پولیس والوں نے بکرے کے بچے کو پکڑ کر پوچھا کہ یہ کیوں رکھا ہوا ہے؟

’میں نے کہا بچوں نے فرمائش کی تھی اس لیے میرے شوہر نے انھیں یہ بچہ لا دیا اور ہم نے یہ ڈیڑھ ماہ سے پال رکھا ہے۔ جس پر انھوں نے کہا کہ تم لوگوں نے اسے قربانی کے لیے رکھا تھا۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

آمنہ کا کہنا ہے کہ اتنی دیر میں ان کے شوہر جو ڈاکٹر ہیں وہ بھی گھر آگئے۔ جن پر بقول ان کے پولیس والوں نے تشدد کیا۔

آمنہ کا کہنا ہے کہ ’آج دوسرا دن ہے ہم لوگ پولیس سٹیشن کے دس چکر لگا چکے ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ میرے شوہر کو انھوں نے کہاں رکھا ہوا ہے۔ جب بھی جاؤ تو پولیس والے کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتہ کہ تمھارا شوہر کہاں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ میرے بچے کل سے رو رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ ’پولیس والے ہمارے پاپا کو کیوں مار رہے تھے؟ وہ ہمارے بکرے کا بچہ کیوں لے گئے؟ مجھے بتائیں کہ میں انھیں کیا جواب دوں۔‘

اس مرتبہ بھی پاکستان میں یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ ملک کے متعدد علاقوں بالخصوص پنجاب کے مختلف علاقوں سے اطلاعات ملی ہیں کہ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کے خلاف اس عید پر قربانی کرنے کی کوشش یا پھر قربانی کا جانور خریدنے پر پولیس کی جانب سے کارروائی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عید کے موقع پر کئی مذہبی جماعتیں اور گروہ احمدی برادری کو قربانی سے روکنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

’میرے گھر کے آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا‘

اسلام آباد کے رہائشی عارف (فرضی نام) نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ویسے تو میں اسلام آباد کا رہائشی ہوں لیکن ہمارا سارا خاندان عید کے لیے ہمارے آبائی شہر میں اکھٹا ہوتا ہے۔ اس سال بھی عید الاضحیٰ کے موقعے پر ہم نے مل کر اپنے گھر کی چار دیواری میں قربانی کر رہے تھے تو پولیس ہمارے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر آئی اور بدتمیزی شروع کردی۔‘

عارف نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے گھر کی عورتوں سے بھی بدتمیزی کی گئی اور انھیں دھکے دیے۔ ہم نے پولیس والوں سے کہا کہ آپ ہمیں گرفتاری کے وارنٹ دکھا دیں ہم آپ سے تعاون کریں گے۔ لیکن انھوں نے ہماری بات نہیں سنی اور ہمارے گھر سے قربانی کے جانور اور آٹھ افراد کو گرفتار کرکے لے گئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں سے جرم پوچھنے پر انھیں بتایا گیا کہ دفعہ 144 کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا ’ہمیں صبح تک یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ پولیس انھیں کہاں لے کر گئی تھی۔‘

انھوں نے اپنے دفاع میں مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جو بھی کر رہے تھے اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر کر رہے تھے جس کی اجازت ہمیں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی دیتا ہے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images
رواں برس درج کی جانے والے متعدد آیف آئی آرز میں کہا گیا ہے کہ احمدیوں کی جانب سے قربانی کرنے پر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں

’ان کی قربانی سے ہمارے جذبات مجروع ہوتے ہیں‘

گذشتہ دو دن میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف گجرانوالہ، سرگودھا، فاروق آباد، سیالکوٹ، شیخوپورہ، اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سیمت دیگر شہروں اور قصبوں میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر ایف آئی آرز کا متن یہی درج کیا گیا ہے کہ ’ان کی قربانی کی کوشش یا قربانی کی نیّت سے جانور خریدنے سے ہمارے مذہبی جذبات مجروع ہوئے ہیں۔‘

کچھ ایف آئی آر ایسی ہیں جن کو پولیس کی جانب سے پاکستان تحریک لبیک کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

تاہم کئی علاقوں میں باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ایم پی او کے تحت بھی کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تاکہ وہ عید پر قربانی نہ کر سکیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں ایسی گرفتاریوں پر پولیس کا یہ موقف بھی سامنے آیا تھا کہ ایسا نقصِ امن سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس بار بھیپولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں معاملات میں بھی نقصِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر لوگوں کو تحویل میں لیا گیا ہے تاہم جن معاملات میں ایف آئی آر ہوئی ہیں وہ آئین کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

اس دفع کے تحت جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا۔

’ریاست حفاظت کے بجائے الٹا ہمارے خلاف کاروائی کرتی ہے‘

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان عامر محمود نے کہا کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔

ان کا اشارہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان کا وہ فیصلہ ہے جس میں لکھا ہے کہ ’غیر مسلم اقلیت کو اس کے مذہبی عقائد رکھنے اور چار دیواری میں ان پر عمل کرنے سے روکنا آئین کے خلاف ہے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ کہ عید پر ’احمدیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ احمدیوں نے یہ عید خوف اور تشویش میں گزاری ہے۔ پنجاب پولیس کے یہ اقدامات ماورائے قانون ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔‘

عامر محمود نےمزید کہا کہ ’محب وطن پاکستانی احمدیوں کو عبادات سے روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں تقریباً ہر ضلع میں شرپسند عناصر کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی احمدیوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عید الاضحیٰ کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنے، احمدیوں کو ہراساں کرنے اور سرکاری انتظامیہ کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات کے مترادف ہیں۔‘

احمدی برادری کا دعویٰ ہے کہ رواں برس ہونے والی کارروائیوں اور پولیس مقدمات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

احمدی
Getty Images
احمدی برادری کے قبرستانوں کو بھی ماضی میں نشانہ بنایا گیا ہے

احمدی کون ہیں؟

جماعت احمدیہ کی بنیاد انیسویں صدی کے اوآخر میں پنجاب کے شہر قادیان میں پڑی۔ اِس جماعت کے بانی مرزا غلام احمد تھے۔ آج دنیا بھر میں احمدیوں کی آبادی ایک سے دو کروڑ کے درمیان ہے جبکہ پاکستان میں احمدیوں کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے جو 40 لاکھ کے قریب ہے۔

واضح رہے کہ جماعت احمدیہ کے اراکین سنہ 1974 سے پہلے مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ گردانے جاتے تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارلیمان نے انھیں غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ سنہ 1984 میں صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں ان کے خلاف ایک آرڈیننس جاری کیا گیا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ دو سو اٹھانوے بی اور دو سو اٹھانوے سی کے تحت اب جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر کرے، اپنی عبادت گاہوں کے لیے کوئی اسلامی اصطلاح استعمال کرے، اسلام وعلیکم کہے یا بسم اللہ پڑھ لے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے یا اذان دے تو اسے تین برس قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جماعت احمدیہ کے اراکین اس قانون کو ناانصافی پر مبنی قرار دیتے ہیں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں بھی ان قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

پاکستان کے صوبہِ پنجاب کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد کی تصانیف پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اِس کے علاوہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے قرآن کے تراجم پر بھی پابندی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کو اپنا لٹریچر شائع کرنے اور پاکستان میں اپنے صدر مقام ’ربوہ‘ میں عوامی اجتماعات کی اجازت بھی نہیں ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.