جب سلطنت عثمانیہ نے استنبول کو فتح کرنے کے لیے بحری جہازوں کو زمینی راستے سے سمندر منتقل کیا

یہ سنہ 1451 کی بات ہے جب سلطان محمد ثانی دوسری بار تخت نشین ہو‏ئے اور چھ اپریل سنہ 1453 کو انھوں نے پہلے استنبول کے زمینی محاصرے حکم دیا اور پھر اس کا بحری محاصرہ بھی کیا اور یوں سمندر کی جانب سے وہ استنبول کو فتح کرنے کے اپنے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

یہ سنہ 1451 کی بات ہے جب سلطان محمد ثانی دوسری بار تخت نشین ہو‏ئے تو اپنے پیشرو سلطانوں کی طرح انھوں نے بھی قسطنطنیہ اور پورے استنبول کو فتح کرنے کا خواب دیکھا۔

انھوں نے چھ اپریل سنہ 1453 کو پہلے تو استنبول کے زمینی محاصرے حکم دیا لیکن پھر انھوں نے اس کا بحری محاصرہ بھی کیا اور یوں سمندر کی جانب سے وہ استنبول کو فتح کرنے کے اپنے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے کے محاصرے کے بعد استنبول بالآخر 29 مئی سنہ 1453 کو فتح ہو گیا اور سلطان محمد ثانی کو ’سلطان محمد فاتح‘ کا خطاب دیا گیا۔

بلاشبہ استنبول کی فتح کے یادگار واقعات میں سے ایک زمینی راستے سے شاخ طلائی گولڈن ہارن تک بحری جہازوں اور کشتیوں کی منتقلی ہے۔ یہ وہ داخلی راستہ ہے جو آج استنبول کے یورپی حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

لیکن یہ کیونکر ممکن ہوا؟ محققین اس فتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور تاریخی ماخذ کیا بتاتے ہیں؟

ہم نے استنبول کیمئیس یونیورسٹی کے مؤرخ اور محقق پروفیسر فریدون مصطفیٰ ایمجن، لندن کی گرین وچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عثمانی سلطنت اور جدید مشرق وسطیٰ کے مؤرخ مائیکل ٹالبوٹ اور بحری تاریخ دان علی رضا اشیپیک سے بات کی۔ اس کے علاوہ ہم نے اس واقعے کے متعلق غیر ملکی ذرائع کا بھی جائزہ لیا۔

بنجامن کی 1876 کی ایک پینٹنگ جس میں محمد فاتح کو قسطنطنیہ میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے
BBC
بنجامن کی 1876 کی ایک پینٹنگ جس میں محمد فاتح کو قسطنطنیہ میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے

محمد ثانی نے گولڈن ہارن کو اپنے محاصرے کے منصوبے میں کیوں شامل کیا؟

1453 میں بازنطینی سلطنت اس علاقے تک محدود تھی جسے آج ہم استنبول کے ’تاریخی جزیرہ نما‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت پیرا کا علاقہ جو آج کا گلاٹا ہے، جنیوا کی کالونی تھی۔

سلطنت عثمانیہ بازنطین کے دارالحکومت پر قبضہ کرنا چاہتی تھی جو اناطولیہ اور یورپ میں اس کی سرزمین کے درمیان واقع تھی اور وہ اپنی سلطنت کو مشرق سے مغرب تک دنیا سے جوڑنا چاہتی تھی۔

چھ اپریل کو شہر کی مغربی دیواروں پر پہنچ کر عثمانی سپاہیوں نے اس کی کئی تہوں والی موٹی اور ناقابل تسخیر دیواروں پر توپوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ لیکن اس کی بحریہ اس مضبوط حفاظتی دیوار کو عبور نہ کر سکی جو بازنطینی سلطنت نے گولڈن ہارن کے دہانے پر کھینچ رکھی تھی اور اس کے نتیجے میں وہ بحیرہ مارمارا کے راستے گولڈن ہارن میں داخل نہ ہو سکی۔

بہرحال اس صورت حال کے پیش نظر سلطان محمد ثانی نے بحری جہازوں کو زمینی راستے سے گولڈن ہارن کی طرف منتقل کرنے کا حکم کیوں اور کب دیا؟

استنبول کی فتح کے بارے میں عینی شاہدین کی روایتوں کے ذرائع اور تحریری دستاویزات کی تعداد کم ہے۔ سنہ 1453 کے واقعات کے بارے میں متضاد معلومات موجود ہیں، لیکن ایک روایت جس پر مؤرخین متفق ہیں وہ یہ ہے کہ استنبول کی حفاظتی دیواروں میں سب سے کمزور مقامات گولڈن ہارن کے ساحل کے گرد تھے۔

استنبول کی فتح کے بارے میں جامع مطالعہ کرنے والے محققین میں سے ایک پروفیسر فریدون ایمجن کہتے ہیں کہ محمد ثانی نے اپنے دورِ سلطنت سے ہی استنبول کا محاصرہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی اور گولڈن ہارن میں داخل ہونا بھی انہی منصوبوں کا حصہ تھا۔

پروفیسر ایمجن کہتے کہ ’محمد فاتح نے گیلی پولی میں تقریباً 100 بحری جہاز تیار کرائے اور انھیں استنبول کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ سلطان محمد ثانی کو یہ بھی معلوم تھا کہ صلیبیوں نے سنہ 1204 میں گولڈن ہارن میں داخل ہو کر استنبول پر قبضہ کر لیا تھا۔ زمینی راستے کے گرد دیواروں کی لمبائی سات سے آٹھ کلومیٹر طویل تھی اور دیگر دیواروں کے ساتھ اس کی مجموعی لمبائی 22 کلومیٹر پر محیط تھی۔ چنانچہ اس نے ان تمام علاقوں کو مکمل طور پر گھیرنے اور گولڈن ہارن میں بحریہ کے ذریعے کمزور دیواروں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔‘

بعض غیر ملکی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ محمد فاتح محاصرے کے آغاز سے ہی اس کارروائی کے لیے تیار تھے اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھا۔

والٹر کے ہناک اور ماریو فلپائڈز نے سنہ 2011 میں ’دی سیج اینڈ فال آف کانسٹینٹینوپل‘ یعنی ’قسطنطنیہ کا محاصر اور سقوط‘ نامی کتاب لکھی ہے۔

اس میں بیان کیا گیا ہے کہ محمد ثانی نے کچھ عرصے کے لیے بحری جہازوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ ملتوی کر دیا تھا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ وینس کے بحری جہاز بازنطین کی مدد کے لیے آ رہے ہیں تو انھوں نے اپنا منصوبہ منسوخ کر دیا اور فوری طور پر جہازوں کو تعینات کیا۔

کون سا راستہ اختیار کیا؟

تاریخ دان جہازوں کووہاں زمینی راستے سے پہنچانے پر متفق نہیں ہیں۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بحری جہازوں کو ’آرٹلری‘ کے علاقے سے ساحل پر اتارا گیا اور جنیوا کی کالونی پیرا کی سرحدوں کو چھوڑتے ہوئے انھیں قاسم پاشا کے علاقے میں تیل کی سلیجوں پر اتارا گیا۔

یہ راستہ تقریباً 3.5 کلومیٹر طویل تھا اور راستہ بہت ہی نشیب و فراز والا تھا۔ حالیہ تحقیق میں ایک نظریہ پیش کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جہازوں کو دولمے باغچے کے علاقے سے منتقل کیا گیا تھا۔

پروفیسر ایمجن کہتے ہیں کہ ’عثمانی ذرائع اس جگہ کا خاص طور پر تذکرہ نہیں کرتے، لیکن بازنطینی ذرائع میں ایسی معلومات موجود ہیں، جن کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ جہازوں کو چیفتہ ستونلار نامی جگہ سے زمینی راستے سے لایا گیا تھا – یہ جگہ آج دولمے باغچے اور کاباتاش کے درمیان واقع ہے۔‘

’دی سیج اینڈ فال آف کونسٹینٹینوپل‘ نامی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بحری جہاز تقریباً نو کلومیٹر تک زمینی راستے سے منتقل ہوتے رہے۔

ایمجن کا کہنا ہے ’اس وجہ سے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاز دولمے باغچے سے زمین پر لائے گئے تھے۔ اگر بحری جہاز آرٹلیری کے علاقے سے لائے گئے ہوتے تو اسے مخالف سمت سے دیکھا جاتا اور اس کا بازنطین کو علم ہو جاتا۔‘

اس لیے اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ بحری جہاز کس راستے سے لائے گئے تھے لیکن مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بحری جہاز ایوب کے علاقے کے بجائے قاسم پاشا کے علاقے سے لائے گئے۔

ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کی تفصیلی رپورٹ ’فتح استنبول‘ کے عنوان سے سنہ 1979 میں سامنے آئی ہے جس میں مختلف راستوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایمجن ایک اور نظریہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کچھ بحری جہاز وہیں پر تیار کیے گئے تھے ’ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ کچھ بحری جہاز اگرچہ بڑے جہاز نہیں تھے وہ اوکے میدان میں بنائے گئے تھے اور پھر آہستہ آہستہ ایوب کے علاقے میں لے جائے گئے تھے۔1452 میں جانثاروں (عثمانی سلطان کے سپاہی) کی ایک یادداشت میں رملی قلعہ کی تعمیر کے ساتھ ہی جہاز بنانے کے عمل کا بھی ذکر ہے۔

گرینچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے مائیکل ٹالبوٹ کا بھی کہنا ہے کہ جہازوں کی سمت اور ان کی اقسام کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔

’اگرچہ سنہ 1453 ایک بہت اہم تاریخ ہے لیکن اس کے بارے میں زیادہ ذرائع نہیں ہیں لیکن جو ذرائع ہیں وہ سب جہازوں کی نقل و حرکت کے بارے میں بات کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ واقعہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کئی چھوٹی کشتیاں زمین پر بنائی گئیں اور پھر سمندر میں ڈال دی گئیں۔‘

محمد فاتح کا استنبول میں داخلے کا منصوبہ
Getty Images
محمد فاتح کا استنبول میں داخلے کا منصوبہ

ان بحری جہازوں کا سائز کیا تھا؟

استنبول کی فتح کی تصویر کشی کرنے والی فلموں یا پینٹنگز میں ہم بڑے بحری جہاز دیکھتے ہیں، جنھیں آئندہ برسوں میں عثمانی بحری بیڑے میں شامل کیا گیا تھا اور انھیں سپاہیوں کے ذریعے تیل لگے سلیجز پر ساحل پر لے جایا گیا تھا۔ لیکن یہ تصاویر کتنی حقیقی ہیں اور ان جہازوں کا اصل سائز کیا تھا یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔

ایک بحری تاریخ دان علی رضا اشیپیک کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دراصل ’بڑی کشتیاں‘ تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اس وقت ڈرومون قسم کے جہاز ہوا تھے اور یہ ابھی گیلی جہازوں کی ساخت تک نہیں پہنچے تھے۔۔۔ بحری جہاز تقریباً 15 میٹر کے ہوتے تھے اور ان پر توپیں نصب نہیں تھیں۔ یہ لمبی اور بڑی کشتیوں کی طرح کے ہوتے تھے یعنی وہ کئی بادبانوں اور کئی مستولوں سے لیس نہیں تھے۔‘

’بہر حال اسی زمانے میں مغربی سلطنتوں کے پاس ایسے بحری اور تجارتی جہاز تھے جو توپ سے لیس ہوتے تھے۔ لہذا، پوپ کی مدد سے آسانی سے ان جہازوں کو بازنطین تک پہنچایا جا سکتا تھا۔‘

قسطنطنیہ کے محاصرے اور زوال نامی کتاب میں درج ہے کہ 22 اپریل سنہ 1453 کو کل 72 بحری جہاز کو زمینی راستے سے سمندر میں اتارا گیا۔ ان میں 30 گیلین اور بڑی تعداد میں چھوٹے عثمانی بحری جہاز شامل تھے۔

کیا واقعی جہاز راتوں رات منتقل کیے گئے تھے؟

پروفیسر ایمجن کہتے ہیں کہ ’تمام بازنطینی ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ بحری جہازوں کو راتوں رات ہی منتقل کیا گیا تھا۔ اس معلومات کو جدید مؤرخین نے ایک طویل عرصے تک بغیر کسی شک و شبہ کے قبول کیا۔ لیکن عثمانی ذرائع میں ان واقعات کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ جہاز ایک ہی رات میں منتقل کیے گئے تھے۔‘

پروفیسر ایمجن کے مطابق بازنطینی ذرائع میں دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کام کے لیے عثمانی تیاریوں سے آگاہ نہیں تھے۔

’قسطنطنیہ کا سقوط‘ نامی ایک تاریخی کتاب میں بھی اس رات کو یوں بیان کیا گیا ہے’جمع شدہ لکڑیوں سے پہیوں والے ٹرامبنائے گئے اور انھیں اس علاقے میں لایا گيا۔ اس دوران قاسم پاشا میں بھاری ہتھیاروں کی منتقلی کی گئی۔ 21 اپریل کی رات کام میں بہت تیزی آگئی، ہزاروں کارکنوں نے آخری تیاری مکمل کر لی اور اس دوران سلطان نے پیرا کے علاقے میں تعینات توپوں کو مسلسل فائر کرنے کا حکم دیا رکھا تھا تاکہ آس پاس موجود جہازوں کو اس کا علم نہ ہو کہ زمین پر کیا نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ کچھ توپوں کو جان بوجھ کر پیرا کی دیواروں پر فائر کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ جنیوائی افواج کو ان واقعات کی اطلاع نہ ہو۔‘

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اگلی صبح بازنطینی بحری جہازوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ دونوں طرف جاسوسوں کی بڑی تعداد کے باوجود یہ کارروائی بازنطینی کانوں تک نہ پہنچی اور یہ سلطان محمد کی افواج کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔

استنبول کے محاصرے کو پیش کرنے والی ایک پینٹگ
Getty Images
استنبول کے محاصرے کو پیش کرنے والی ایک پینٹگ

کیا عثمانی بحری جہازوں کو گولڈن ہارن کی طرف منتقل کیے بغیر استنبول کو فتح کر سکتے تھے؟

22 اپریل کی صبح تک، بحری جہاز منتقل ہو چکے تھے اور بازنطینی اس پیش رفت سے حیران رہ گئے۔ اس کے بعد گولڈن ہارن میں بحری بیڑوں کے درمیان حملے جوابی حملے ہوتے رہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عثمانی بحری جہازوں کو حملے کے لیے استعمال نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اپنی افواج کو منتقل کرنے کے لیے ان جہازوں کو ایک پل کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

پروفیسر ایمجن کہتے ہیں کہ گولڈن ہارن میں منتقل کیے گئے بحری جہازوں نے استنبول کی فتح میں کوئی اہم فوجی کردار ادا نہیں کیا ’کیونکہ جہازوں کی منتقلی کے بعد ان کے لیے کوئی واضح آپریشنل منصوبہ نہیں تھا۔ بازنطینیوں نے ان جہازوں کو جلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بحری جہازوں کو ایک گودی کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان پر بھی وہ سمندر سے داخل نہیں ہوتے تھے۔‘

لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بحری جہازوں کی منتقلی نے عثمانیوں کے حوصلے کو دگنا کر دیا اور بازنطینیوں کے حوصلے کو پست کر دیا۔

گرینچ یونیورسٹی کے مسٹر ٹالبوٹ کہتے ہیں ’یقیناً ہم نہیں جانتے کہ کیا عثمانی جہازوں کو منتقل کیے بغیر استنبول فتح کر سکتے تھے لیکن اس سے عثمانیوں کو جہاں ایک طرف بڑا حوصلہ ملا وہیں دوسری طرف یہ بازنطینیوں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا جو سمجھتے تھے کہ وہ گولڈن ہارن میں محفوظ ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ عسکری نقطہ نظر سے یہ زمین پر موجود توپوں کی طرح کارآمد ثابت نہ ہوئے ہو لیکن بیرونی نقطہ نظر سے عثمانیوں کی اس چال کو ایک عظیم فتح سمجھا جاتا ہے۔

عرب بحری بیڑے کے پاس آتشِ یونانی کا کوئی جواب نہیں تھا
BBC
عرب بحری بیڑے کے پاس آتشِ یونانی کا کوئی جواب نہیں تھا

کیا تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں؟

اگرچہ یہ واقعہ تاریخ کے اہم ترین بحری نقل و حمل کے واقعات میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

عثمانی مؤرخ مائیکل ٹالبوٹ کہتے ہیں’ہم جانتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی مختلف حالات میں ایسا کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر وائکنگز نے اس حربے کو کئی بار استعمال کیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس واقعے کی دوسری مثالیں ان سرزمینوں میں موجود ہیں جو بعد میں عثمانی حکومت کے تحت آئی تھیں۔ ان میں سے ایک تیسری صلیبی جنگ کے دوران پیش آیا تھا جب صلاح الدین ایوبی کے بھائی عادل نے بحری جہازوں کے پورے بیڑے کو بحیرہِ روم سے بحیرہِ احمر کی طرف منتقل کیا تاکہ ان قزاقوں سے لڑ سکیں جو صلیبیوں کے لیے لڑ رہے تھے۔‘

ایک اور تاریخی مثال ہے جو موجودہ ازنک کے علاقے میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران پیش آئی تھی۔ اس موقعے پر یزانسیوں نے سلجوقوں کے ساتھ جنگ میں اپنے بحری جہاز زمینی راستے سے گزارے تھے۔ بازنطینیوں نے بحری جہازوں کو سمندر سے ازنک جھیل میں منتقل کیا اور اس طرح وہ شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

مسٹر ٹالبوٹ کہتے ہیں ’اسی لیے سنہ 1453 کے واقعات بازنطینیوں کے لیے واقعی مایوس کن تھے کیونکہ وہ 300 سال پہلے جو ہتھکنڈے استعمال کر چکے تھے اسی طرح کے ہتھکنڈے اس بار ان کے خلاف استعمال کیے گئے تھے۔‘

بحری تاریخ کے ماہر علی رضا اشیبیک نے عمر بیگ کی مثال دیتے ہوئے کہا ’یہ ایک ایسا عمل ہے جو تاریخ عالم میں صدیوں سے کیا جاتا رہا ہے اور ترکی کی جہاز رانی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ 1332 میں عمر بیگ (آیدین خاندان کے حکمران) نے جزیرہ نما مورا کا چکر لگانے کے بجائے اپنے بحری جہازوں کو 10 کلومیٹر کے فاصلےپر موجود خلیج نافپاکتوس تک منتقل کیا تھا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.