کیا چھت پر سفید رنگ کرنے سے گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بل میں کمی ممکن ہے؟

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت کی چھت کو سفید رنگ کرنے سے سورج کی گرمی اس پر پڑ کر واپس ہو جاتی ہے جو درجۂ حرارت کم کرنے کا سب سے درست طریقہ ہے لیکن یہ طریقۂ کتنا موثر ہے؟

آج کل آپ نے سوشل میڈیا پر بے شمار ایسے اشتہار دیکھے ہوں گے کہ جن میں یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ’ہماری کمپنی کا وائٹ پینٹ اپنے گھر کی چھت پر کروا کر آپ اس موسم گرم میں اپنے گھر کے اندر کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کر سکتے ہیں۔‘

یا ’ہماری پراڈکٹ کے استعمال سے نا صرف آپ کا گھر اس گرم موسم میں ٹھنڈا رہے گا بلکہ ہماری پراڈکٹ آپ کہ گھر کی چھتوں کو واٹر پروف بھی بنائے دے گی۔‘

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت کی چھت کو سفید رنگ کرنے سے سورج کی گرمی اس پر پڑ کر واپس ہو جاتی ہے جو درجۂ حرارت کم کرنے کا سب سے درست طریقہ ہے لیکن یہ طریقۂ کتنا موثر ہے اور ان کمپنیوں کے دعوؤں میں کس حد تک حقیقت ہے؟

اعجاز احمد بھٹی نے قریب چھ سال قبل اسلام آباد کی ایک کمپنی کا ایسا ہی اشتہار دیکھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپنی کے سفید کیمیکل، پینٹ یا پراڈکٹ کی مدد سے نہ صرف آپ اپنے گھر کی چھت کو نمی یا اس میں پانی کے رساؤ کو روک سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ موسمِ گرما میں آپ کے گھر کے اندر کے درجہ حرارت کو کم بھی رکھ سکتے ہیں۔

اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ اشتہار دیکھنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر یہ پینٹ کروایا، گھر کے اندر درجہ حرارت میں فرق تو پڑا مگر اتنا نہیں کہ جتنا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گھر کے اندر کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے مگر حقیقت میں درجہ حرارت صرف پانچ سے چھ ڈگری تک ہی کم ہوتا ہے۔‘

تاہم اعجاز کہتے ہیں کہ پاکستان میں پڑنے والی شدید گرمی میں یہ پانچ یا چھ ڈگری بھی بہت ہیں۔

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اس جدید دور سے قبل موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر مٹی سے لپائی کیا کرتے تھے، اسی طرح بہت سے علاقوں میں کھجور کے درخت کے پتوں کو بھی گھروں کی چھتوں پر اس غرض سے ڈال دیا جاتا تھا کہ گرمی کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔

تاہم اب اس جدید دور میں یہ سب روائتی طریقے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں، اور ان کی جگہ اب مختلف کیمیکلز کے استعمال سے تیار ہونے والے سفید پینٹس نے لے لی ہے۔

سفید عمارت
Getty Images

عام پینٹ اور خاص طور پر تیار کیے جانے والے کیمیکل میں فرق

وزیرعالم نے 2002 میں اسلام آباد میں ایک کیمیکل اور پینٹ کی کمپنی شروع کی۔ ان کی کمپنی جہاں دیگر بہت سی مصنوعات بناتی ہے وہیں اُن کی کمپنی ایک ایسا ہی پراڈکٹ بناتی ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جہاں گھروں اور دیگر عمارتوں کی چھتوں کو پانی کی نمی جذب کرنے سے روکتا ہے وہیں اس کے استعمال سے گھر کے اندر کے درجہ حرارت میں بھی واضح فرق پڑتا ہے۔

وزیر عالم نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گھروں کی چھتوں پر اکثر لوگ عام سفید رنگ کا پینٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی روشنی تو منعکس ہو جاتی ہے مگر سورج کی شعاؤں میں موجود تپش کو چھت کی سطح میں جذب ہونے سے یہ سادہ سفید پینٹ نہیں روکتے۔‘

ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی میں دو قسم کی شعائیں ہوتی ہیں پہلی یو وی یا الٹرا وائلٹ اور دوسری انفراریڈ۔

ان دونوں کو آسان الفاظ میں ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ سورج سے زمین کی جانب آنے والی الٹرا وائلٹ شعاؤں میں روشنی ہوتی ہے تاہم انفراریڈ شعاؤں میں تپش یا گرمائش ہوتی ہے۔

وزیر عالم کہتے ہیں کہ ’عام سادہ سفید پینٹ الٹرا وائلٹ ریز کو تو منعکس کر دیتا ہے تاہم اس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ سورج سے آنے والی انفرا ریڈ شعاؤں کو روک سکے۔‘

وزیر عالم کی طرح عقیل اقبال بھی اسلام آباد میں ایک پینٹ کمپنی کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گرمی کی شدت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ چھت پر لگایا جانے والا پینٹ یا کیمیکل چھت میں اچھی طرح سے جذب ہو جائے۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ایک تو بارش کی وجہ سے اس کے اُکھڑ جانے کا خطرہ ہوگا اور دوسرا یہ اپنا مقصد پورا نہیں کر پائے گا۔‘

عقیل اقبال کا کہنا ہے کہ ’اصل میں یہ کیمیکل آپ کے گھر کی چھت کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور اس کی وجہ سے گھروں کے اندر لگے ائیرکنڈیشن اور پنکھے زیادہ موثر انداز میں کام کرتے ہیں۔ ائیر کنڈیشن کم وقت میں آپ کے کمرے کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور اس وجہ سے اس کے کمپریسر کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ یا یوں کہہ لیں کے ٹھنڈی چھتیں آپ کے بجلی کے بل کو بھی کافی حد تک کم کر سکتی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

اس کیمیکل یا پینٹ کو لگانے کا طریقہ کیا ہے؟

وزیر عالم اور عقیل انجم دونوں کی کمپنیوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ سفید پینٹ یا کیمیکل ایک عام شخص بنا کسی ماہر کے خود اپنے گھر کی چھت پر کر سکتا ہے۔

وزیر عالم کے مطابق ’بس اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ اسے لگانے سے قبل چھت پر پڑی دھول مٹی کو اچھی طرح سے دھو لیا جائے اور اُس کے بعد اس پینٹ کے کم سے کم دو کوٹ کیے جانے ضروری ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اس وجہ سے ضروری ہے کیونکہ ایک تو یہ اچھی طرح سے آپ کے گھر کی چھت کے سطح میں جذب ہو کر لمبے عرصے تک کارآمد رہتا ہے، سورج کی روشنی کو منعکس اور تپش کو چھت کے سطح میں جذب ہونے سے روکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے گھر کی دیواروں میں سیم یا نمی نہیں آتی۔

ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

بلڈ کرافٹ نامی ایک کنسٹرکشن کمپنی سے وابستہ سول انجنئیر ابرار احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گھروں کے چھتوں کے لیے خاص طور پر تیار کیے جانے والے ان کیمیکلز کی وجہ سے نہ صرف گھروں کے اندر کے درجہ حرارت پر فرق پڑتا ہے بلکہ عمارت کے لیے بھی ان کا استعمال فائدہ مند ہوتا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’عملی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان پینٹس یا کیمیکلز کے استعمال کی وجہ سے موسمِ سرما اور موسمِ گرما میں کنکریٹ یا چھتوں میں موجود لوہے کے سریوں کے پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی بچا جا سکتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ ان کے استعمال کی وجہ سے چھتوں میں سیپیج یعنی پانی کے رساؤ کو بھی روکا جا سکتا ہے۔‘

چائنا ساؤتھ ویسٹ آرکیٹیکچرل ڈیزائن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب سفید سطحوں پر دھول، چکنائی اور تیل کی آلودگی جمع ہوتی ہے، تو یہ ان کی ریفلیکٹیو صلاحیت کو کم کر دیتی ہے اور اس لیے ٹھنڈک کم ہو جاتی ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی برکلے لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ سفید چھت سے 80 فیصد تک روشنی اور انفرا ریڈ شعائیں ٹکرا کر واپس ہو جاتی ہے اور سخت گرمیوں میں یہ 31 ڈگری تک درجۂ حرارت کم کر سکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اگر چھت ٹھنڈا کرنے کے پینٹ کو دنیا بھر میں ہر چھت پر استعمال کیا جائے تو اس سے عالمی سطح پر کاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والی گرمی میں کمی کا امکان ہے۔

برکلے لیبارٹری کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی کو واپس پلٹانے والی کنکریٹ چھت 24 گیگاٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے 20 سال کے لیے 300 ملین گاڑیاں سڑکوں سے ہٹا لی جائیں۔ یقینی طور پر یہ کم قیمت والا آپشن ہے، خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.