عمرو عیار: عیاری کے سردار اور چکمہ بازی میں ماہر کردار کا حقیقت میں بھی کوئی وجود تھا؟

داستان امیر حمزہ کا یہ اصل کردار کیسا تھا۔ یہ بھی معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا تھیں اور نیکی اور بدی کی قوتوں کے مابین ہمہ وقت چلتی کشمکش پر مشتمل اس داستان میں اس کی اہمیت کیا تھی۔

عمرو عیار کا نام سنتے ہی یقیناً آپ کے ذہن میں بھی ان چھوٹے کتابچوں کا ذکر آتا ہو گا جو آپ بچپن میں ایک ہی نشست میں پڑھ لیا کرتے تھے۔

کلیم الدین احمد اپنی کتاب ’اردو زبان اور فنِ داستان گوئی‘ میں عمرو عیار کو کچھ ایسے یاد کرتے ہیں کہ ’ان کی عجیب و غریب صورت، ان کی بُخالَت (کنجوسی) اور طمع (لالچ)، ان کا امیر حمزہ اور ان کے فرزندوں سے عشق، ان کا لحنِ داؤدی، ان کی حیرت انگیز پرواز، یہ سب چیزیں بس ان ہی کی ذات سے وابستہ ہیں۔‘

لیکن پھر تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی دنیا میں قارئین اور عمرو عیار کی کہانیوں کے درمیان تعلق ٹوٹتا دکھائی دیا۔

چند برس قبل جب ٹوئٹر ابھی ایکس نہیں ہوا تھا کہ سماجی رابطے کے اس پلیٹ فارم پر پاکستان کی پہلی سائنس فکشن فلم کی آمد کا اعلان ہوا، نام بتایا گیا ’عمر و عیار، اے نیو بیگننگ۔‘

فلم کی ایگزیکٹو پروڈیوسر ہمُا جمیل بابر سے 13 جون کو پریمیئر سے پہلے فلم کے تصور پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا: ’ایسے کرداروں پر فلم بنانا ہمارا مقصد تھا جو ہمارے بچپن میں ہمیں مسحور رکھتے تھے، مثلاً عمَرو عیار۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہالی وڈ موویز میں اسی کردار کی خصوصیات کو استعمال کر کے کردار نگاری کی گئی ہوتی ہے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارا علاقائی کردار متعارف ہوں، ہماری اپنی کہانی کا نئی نسل کو پتا چلے۔‘

لیکن وی ایف ایکس یعنی بصری اثرات کی حامل اس پاکستانی فلم کے عمر وعیار، داستان امیر حمزہ کے زنبیل اٹھائے کردار سے کس قدر مماثلت رکھتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں ہما کی ہنستے ہوئے تجویز تھی کہ یہ تو عید الاضحٰی پر ریلیز ہونے والی فلم دیکھ کر ہی پتا چلانا بہتر ہے۔

فلم دیکھ کر اس کے کردار سے موازنے سے پہلے، ہم جان لیتے ہیں کہ داستان امیر حمزہ کا یہ اصل کردار کیسا تھا۔ یہ بھی معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا تھیں اور نیکی اور بدی کی قوتوں کے مابین ہمہ وقت چلتی کشمکش پر مشتمل اس داستان میں اس کی اہمیت کیا تھی۔

داستان میں ’زندگی قید و بند سے آزاد ہے‘

نقاد کلیم الدین احمد کے مطابق اردو میں داستان گوئی کی معراج ’داستان امیر حمزہ‘ ہے۔ خصوصاً اس کے ایک جزو طلسمِ ہوش ربا میں داستانِ امیر حمزہ اپنے اوجِ کمال پر ہے۔

’طلسم ہوشربا مافوق الفطرت عناصر، ساحرانہ كمالات، دیوزاد، پریوں كے كرداروں پر مشتمل قصہ در قصہ رواں ہے۔ ہر قصے كے اختتام پر نیا قصہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ داستاں محض داستاں نہیں بلكہ بیسویں صدی كے اوائل تک ہند ایرانی تہذیب كے آخری نشانات كی عكاس بھی ہے۔‘

کلیم الدین کہتے ہیں کہ ’یہاں زندگی قیدو بند سے آزاد ہے۔۔۔ زندگی خطرناک ہے اور اس لیے دلچسپ ہے، پھسپھسی اور بے لطف نہیں۔‘

ادیب اور مترجم مشرف علی فاروقی اپنے طور سے ایک مکمل داستان، طلسمِ ہوشربا کو نئے اندازمیں چھاپ رہے ہیں۔ایک جلد چھپ چکی باقی کا اہتمام ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عمروعیار ایک ہمہ جہت کردار ہے، جتنی زیادہ ہم داستان پڑھتے جاتے ہیں اتنے زیادہ جوہر ہم پر کھلتے جاتے ہیں۔

’جب ہم بچے تھے تو ہمیں عمرو عیار ہی کے کردار سے دلچسپی تھی۔ (ہیرو) امیر حمزہ تو بس سرسری طور پر آتے جاتے تھے۔ اگر یہ کردار نہ ہوتا تو بہت پھیکی اور بے رنگ ہوتی یہ داستان۔‘

عیار کیا حقیقت میں بھی تھے؟

تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں شام، عراق اور ایران میں عیاروں نے ایک باقاعدہ اور منظم، موثراور فعال ادارے کی حیثیت سے خاصا نمایاں سماجی اور سیاسی کردار ادا کیا۔

اختر مسعود رضوی ’مقدمہ طلسمِ ہوش ربا‘ میں لکھتے ہیں کہ عیاروں کی جماعت سیاسی انتشار، مالی بدحالی اور سماجی ناانصافیوں کے ردعمل کے طورپر خود بخود وجود میں آئی تھی۔

’ان کا ایک کھلا چیلنج تھا کہ اگر مفلسوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دو گے تو وہ چھین لیں گے۔ چنانچہ عیار امیروں کے خزانوں پر ڈاکہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔‘

لیکن یہ عام راہزن نہیں تھے۔

رضوی کی تحقیق ہے کہ ’ان کا اپنا ایک الگ آئینِ اخلاق تھا، قواعد و ضوابط، اصول و قوانین تھے جن پر یہ سختی سے عمل کرتے تھے۔ یوں عوام نہ صرف ان کو برداشت کرتے تھے بلکہ ان کی آؤبھگت اور دل سے قدر کرتے تھے۔

’بدامنی میں رقم کے بدلے اہلِ قافلہ کو بہ حفاظت منزل تک پہنچاتے لیکن اگر قافلے والے بدعہدی کرتے تو عیار تشدد بھی کرتے۔ بعض عیار اسی طرح بازاروں اور گھروں کا ذمہ لے لیتے جس کے عوض ان کو ضرورت بھر رقم مل جاتی۔‘

رضوی کے مطابق صبرو تحمل ان کی فطرت ثانیہ تھا۔ ’اسی وجہ سے ٹھنڈے دل و دماغ سے نازک صورت حال سےبچ نکلنے کی تدابیر اور اقدامات کر سکتے تھے۔ دمشق کے ایک قسّام نامی عیار ترقی کرتے کرتے حاکم شہر بن گئے تھے۔

’یہ غیر معمولی دلاور، شجاع اور نڈر ہوتے تھے۔ ساتھ ساتھ فنون سپہ گری اور اسلحہ کے استعمال پر غیر معمولی قدرت رکھتے۔ باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی زندہ مثالیں تھے۔‘

رسمِ عیاری بڑی تیزی سے عام ہوئی اور اس نے پورے عراق و ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

رضوی کہتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں امین و مامون رشید کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس میں عیاروں نے امین کی طرف سے حصہ لیا اور سخت بے سروسامانی کے باوجود دادِ شجاعت دی۔ یہ پہلا موقع تھا جب عیاروں نے کسی بڑی سیاسی جدوجہد میں اجتماعی طور پر اتنا نمایاں حصہ لیا۔

’امین کی طرف سے لڑنے والے عیاروں کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی اور یہ سارے عیار بغداد سے تعلق رکھتے تھے۔‘

مشرقی ایران میں سیستان کے صوبے میں غربت کے باعث رسمِ عیاری کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔

’عیاروں کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی کہ سیستانی اور عیار مترادف الفاظ کے طورپر استعمال ہونے لگے۔‘

’عیار بہت منظم تھے‘

رضوی نے لکھا ہے کہ ہر دس عیاروں کے گروہ کا ایک سرپرست ہوتا تھا جس کو ’عریف‘ کہتے تھے۔ دس عریفوں کا افسر ’نقیب‘ کہلاتا اور دس نقیبوں کا سردار’قائد‘۔ دس قائد ایک ’امیر‘ کے تابع ہوتے۔

ان گروہوں کے افراد کو مختلف رنگوں کے رومالوں سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ رومال عیار اپنی گردن میں لپیٹے رہتے۔

’تاریخ کے عظیم ترین عیار، یعقوب لیث صفاری قرار پائے۔ یہ سیستان کے رہنے والے تھے اور مسلم ایران کے پہلے فرماں روا اور فاتح تھے۔ عہد غزنوی کے شاعر فرخی سیستانی بھی عیار تھے۔‘

انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق یعقوب بن لیث الصفار (پیدائش 840 - وفات 879) صفاری سلطنت کے بانی تھے، جنھوں نے گمنامی سے اٹھ کر موجودہ ایران کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان کے بیشتر حصوں پر حکمرانی کی۔ ایک موقع پر وہ بغداد پر قبضہ کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے جو عباسی خلافت کا صدر مقام تھا۔

’تانبے کے کام کی تربیت، جو ان کے نام میں صفار کے اضافے کی وجہ بنی، کے بعد یعقوب ایک ڈاکو بن گئے اور ایک آزاد فوج کو جمع کیا۔ موجودہ افغانستان کے غیر مسلم علاقوں کو فتح کر کے خلیفہ سے عزت پائی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک آزاد حکمران کے طور پر کام کرنا شروع کیا، اپنا سکہ تیار کیا اور مشرقی ایران میں، خراسان سے طاہری خاندان کو نکال باہر کیا۔ اس کے بعد یعقوب نے خوراک پیدا کرنے والے ایرانی صوبوں فارس اور اہواز پر قبضہ کر لیا۔ سنہ 878 میں بغداد کی جانب پیش قدمی کی لیکن دیرالعقول میں خلیفہ المعتمد کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

’یعقوب ایرانی تاریخ کے ایک مقبول لوک ہیرو بنے۔ دو صدیوں تک عربی رائج رہنے کے بعد ان کے دربار میں فارسی زبان کا احیا ہوا۔‘

یعقوب کے بعد صفاری عیاروں کی حکومت کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی یہاں تک کہ تاریخ دان سی ای بوسورتھ کے مطابق سنہ 1002 میں غزنی کے محمود نے سیستان پر حملہ کیا اور خلف اول کا تختہ الٹ کر صفاری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

لیکن انسائکلوپیڈیا کی تحقیق ہے کہ سامانی، غزنوی اور منگول فتوحات کے باوجود صفاریوں نے کم از کم سولہویں صدی تک وقفے وقفے سے سیستان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔

اختر رضوی کہتے ہیں کہ ’عیار مر کھپ گئے، ان کا نام و نشان بھی مٹ گیا لیکن ایک افسانوی کردارعمروعیار کے روپ میں رسمِ عیاری کو لافانی بنا دیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

محکمہ عیاری کے بانی عمرو عیار

کلیم الدین احمد اپنی کتاب ’اردو زبان اور فن داستان گوئی‘ میں لکھتے ہیں کہ محکمہ عیّاری کے بانی اور سردار خواجہ عمرو ہیں۔

’عموماً ان عیاروں (اور عیارنیوں) کی عیاری پر ہم ہنستے ہیں۔ اگر عمرو عیار نہ ہوتے تو پھر (داستان کے ہیرو) امیر حمزہ کی شاندار ملک گیری معلوم!‘

’یہ عمرو اور ان کے شاگرد ہیں جو دشمنوں کے خفیہ حربوں کا پتا لگاتے ہیں، انھیں برباد کرتے ہیں یا انھیں دشمنوں پر پلٹ دیتے ہیں۔‘

'عیار ایسے روپ بھر سکتے ہیں جن کا تصور بھی مشکل ہے لیکن سب سے ممتاز ہستی خواجہ عمرو کی ہے۔‘

’وہ عجب مجموعہ اضداد ہیں، تمسخر اور سنجیدگی، بزدلی اور جانبازی، سختی اور نرم دلی بیک وقت ان کی شخصیت میں موجود ہیں۔ سب دوست دشمن ان پر ہنستے ہیں اور وہ سبھوں کو ہنساتے ہیں اور ہنسنے دیتے ہیں۔ پھر انھیں بے وقوف بنا کر ان پر خندہ زن ہوتے (ہنستے) ہیں۔‘

’کبھی وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ اپنا سارا وقار کھو دیتے ہیں اور کبھی ایسا رعب و دبدبہ، ایسی شان و شوکت دکھاتے ہیں کہ ان کی عظمت دلوں پر نقش ہوجاتی ہے۔‘

بچپن میں جب ہم محلے کی لائبریری سے داستانِ امیر حمزہ کے اس کردار کی کہانیاں پڑھنے کو لیتے تھے تو شاید ہم بھی یہ نام ’ع‘ پر پیش اور ’و‘ بول کر ہی ادا کرتے ہوں۔

عمرو کا تلفظ ’عمر‘ ہے یعنی حرف 'ع‘ پر پیش نہیں بلکہ زبر ہے اور ’و‘ ساکن ہے۔ یوں اسے عمُرو نہیں ’عَمر‘ بروزن اّمر، یا خَبر پڑھا جائے گا۔

فلم ’عمر و عیار، اے نیو بیگننگ‘ کی ایگزیکٹو پروڈیوسر ہمُا جمیل بابر اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اصل تلفظ عَمر ہی ہے لیکن ہم نے اسے بگاڑ کر عُمرو کر دیا۔

بزرگوں کے تحفے عمرو عیار کے لیے

جنوبی ایشیائی ثقافت میں، عمرو عیار وحشیانہ طاقت پر عقل کی فتح کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی کہانیاں کہانی سنانے والوں اور سامعین کی نئی نسلوں کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ چاہے ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جائے، ایک اینٹی ہیرو کے طور پر، یا ایک شرارتی بدمعاش کے طور پر، روایتی ادب میں وہ ایک محبوب شخصیت ہیں۔

’بزرگانِ دین نے انھیں ایسی ایسی چیزیں دی ہیں جو کسی کو میسر نہیں، زنبیل گلیم، عیاری جال الیاسی، منڈھی دانیالی، کمند آصفی، دیو جامہ اور کتنی نادرچیزیں ان کے قبضہ میں ہیں۔‘

ان میں زنبیل تو محاورے کا حصہ اور ضرب المثل بنی۔ نقاد، شاعر اور مترجم انیس الرحمان لکھتے ہیں کہ زنبیل کا لفظ جھولی، ٹوکری، تھیلی اورکاسۂ گدائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

’اس زنبیل میں ایک دنیا آباد تھی، اس میں سات شہر آباد تھے اور سات دریا بہتے تھے۔ عمرو نے عیاری کے زور سے اس زنبیل میں ہزاروں کفار و شیاطین، جنات اور ساحروں کو قید کر رکھا تھا۔ اس زنبیل کا حجم لا متناہی تھا اس میں ہر چیز سما جاتی تھی۔‘

یونیورسٹی آف واشنگٹن سے منسلک جینیفر ڈبرو ’سپیس فارڈبیٹس‘ میں لکھتی ہیں عمروعیار نے ہیرو امیر حمزہ کو انسانی شناخت بخشی اور وہ مثالی اور اخلاقی ہیرو امیر حمزہ کے بے تکلف دوست اور ہم زاد بنے۔

’کرداروں کی جوڑی کی شکل میں تشکیل اور استعمال کی داستان کی روایت ہی سے رتن ناتھ سرشار اور اردو کے اولین ناول نگاروں نے استفادہ کیا۔‘

نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے ’ساحری، شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘ میں بہت عرق ریزی سے عمر و عیار کی شخصیت کے مختلف پہلو دیکھے ہیں۔

ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ’نوشیرواں نامہ کے بقول عمرو کی ماں سیڑھی سے گرتی ہے اور زچگی کے دوران میں ان کی موت ہو جاتی ہے۔ باپ کا نام امیہ ضمری ہے۔ خواجہ عبدالمطلب ان کا نام اور سارے القاب رکھتے ہیں۔‘

’شروع ہی سے فریبی اور مکار ہیں۔ مختلف زبانیں جانتے ہیں۔ انتہائی کنجوس ہیں۔ خود پر ہنستے ہیں کہ شکل کیا بے ڈھنگی ہے۔ اپنی بہن کی مالی امداد بھی کرتے ہیں۔ اردوے (لشکرِ) حمزہ کے قحبہ خانے کے منتظم ہیں۔‘

داستان گو کا بیان ہے کہ ساری فریب دہی، چکمہ بازی اور شعبدہ بازی کے باوجود عمرو کا دل بہت پاک صاف ہے۔

’بردہ فروش ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن اس قدروثوق انگیزی کے ساتھ کہ گمان ہوتا ہے وہ سچ مچ کے بردہ فروش ہیں۔ دشمن انھیں جسمانی اذیت دے کر گانے پر مجبورکرتے ہیں۔ گانے کے ساتھ بتانے کے بھی ماہر ہیں۔‘

کئی عشق اور کئی شادیاں ہیں۔ کوئی وزیر زادی ہے، کوئی ساحرہ اور کوئی عیارنی۔

شمس الرحمٰن فاروقیکے مطابق ’آئین جنگ یہ ہے کہ عمروعیارگلیم (کمبل) اوڑھ کر کسی کو قتل نہیں کر سکتے۔ جنگ کرنے کے لیے سوارہو کر نہیں جا سکتے لیکن عیاری کرنے کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں۔ جب گرفتارہو جاتے ہیں تو زنبیل ان کے پاس سے غائب ہو جاتی ہے۔‘

’بزرگوں کے معجزانہ تحفوں کو صرف تحفظ جان کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ عیاروں کا کام فریب سے قتل کرنا ہے لیکن جب فریقِ مخالف بے ہوش ہو تو اسے قتل نہیں کر سکتے۔‘

عمرو کی موت

فاروقی لکھتے ہیں کہ ’عمرو کو بشارت ہے کہ جب تک تین بار اپنی موت کی دعا نہ مانگیں گے انھیں موت نہیں آئے گی۔‘

’عمرو اپنی موت کے لیے دو بار دعا کرتے ہیں، دوسری بار جب ڈاکو ان پر قابو پا جاتے ہیں اور انھیں کنوئیں میں ڈال دیتے ہیں۔ خواجہ بزرچمہرکے بیٹے (اب وہ شاہِ مصر ہیں) پیشگوئی کرتے ہیں کہ اب عمروکی موت نزدیک ہے۔‘

’عمرو جہاں جہاں جاتے ہیں یہی دیکھتے ہیں کہ قبر کھودی جا رہی ہے اور جب وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کس کی قبرہے، تو جواب ملتا ہے کہ یہ قبر عمرو کے لیے کھودی جا رہی ہے۔ عمرو ہر جگہ سے بھاگتے پھرتے ہیں یہاں تک کہ روم پہنچتے ہیں۔‘

’ایک قبر تازہ کھدی ہوئی تیار ہے، اس میں قیمتی لعل پڑا ہوا ہے۔ لعل کے لالچ میں عمرو قبر میں اتر جاتے ہیں اور قبر خود بخود بند ہو جاتی ہے۔‘

ماہرِ لسانیات، نقاد اور مورخ سہیل بخاری کہتے ہیں کہ عمروعیار ہماری ہی کمزوریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

’بزدلی، لالچ، تنگ دلی، لاف زنی، چوری، شاطری، فریب کاری، شرارت ان میں سب کچھ ہے لیکن وہ مجسم کمزوری بھی نہیں ورنہ ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہ رہتی۔ وہ صرف ایک انسان ہیں جو خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔‘

’بلکہ ہم میں سے ایک ہیں، اسی لیے سب کو عزیز ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.