جوہری صنعت کے ریاضی دان جنھوں نے بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا

بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے والے ریاضی دان فرینک ڈکورتھ 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔
فرینک ڈک ورتھ
Getty Images

بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے والے ریاضی دان فرینک ڈک ورتھ 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔

برطانیہ کے علاقے لیتھم میں پیدا ہونے والے فرینک ’ڈک ورتھ لیوس میتھڈ‘ کے موجد ہیں جو اس وقت لاگو ہوتا ہے کہ جب محدود اوورز کے میچوں میں بارش کی وجہ سے کھیل متاثر ہو۔ انھوں نے یہ نظام اپنے ساتھی نوٹی لیوس کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔

ڈک ورتھ کی موت کی خبر دیتے ہوئے ان کے ساتھی ریاضی دان راب ایسٹوے نے کہا کہ ڈک ورتھ دوستانہ شخصیت کے حامل تھے۔ اگرچہ کرکٹ کے شائقین اکثر اس سسٹم پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر ڈک ورتھ کو یہ نظام دینے پر کافی فخر تھا۔

ایسٹوے کا کہنا ہے کہ ’کئی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا یا پسند نہیں، لیکن اندر ہی اندر انھیں معلوم ہے کہ یہ بہترین حل ہے۔‘

ڈک ورتھ نے یونیورسٹی آف لیورپول سے گریجویشن کی اور پوری زندگی جوہری صنعت میں کام کیا۔

وہ ایک میٹالرجسٹ تھے مگر انھیں احساس ہوا کہ ان میں اعداد و شمار کے ذریعے مددگار معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔

لہذا انھوں نے شماریات پڑھنے کے بعد 1974 میں رائل سٹیٹسٹیکل سوسائٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

بارش، میچ، پاکستان
Getty Images
برطانیہ کے علاقے لیتھم میں پیدا ہونے والے فرینک ’ڈک ورتھ لیوس میتھڈ‘ کے موجد ہیں جو اس وقت لاگو ہوتا ہے کہ جب محدود اوورز کے میچوں میں بارش کی وجہ سے کھیل متاثر ہو

1992 میں ایک کانفرنس کے دوران انھوں نے ایک مختصر مقالہ پیش کر کے بارش کی نذر ہونے والے ون ڈے میچوں کو نتیجہ خیز بنانے کا فارمولا پیش کیا۔

یوں وہ ایک اور ریاضی دان لیوس سے ملے جنھوں نے تجویز دی کہ مجوزہ فارمولے کی بنیاد پر ون ڈے میچوں کے سکور کارڈز کا جائزہ لیا جائے۔

سنہ 1992 کے دوران اس فارمولے کی تیاری سے قبل انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا گیا تھا۔

جنوبی افریقہ کو 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے کہ بارش کے باعث کھیل رُک گیا۔ کھیل دوبارہ شروع ہوا تو پروڈکٹو اوورز کی بنیاد پر کیے گئے حساب کتاب نے جنوبی افریقہ کو ایک گیند پر 22 رنز کا ناممکن ہدف دے دیا۔ پرانے نظام میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو بارش کی صورت میں کم فائدہ ہوتا تھا۔

2007 میں ڈک ورتھ نے یاد کیا تھا کہ اس وقت کمنٹیٹر کرسٹوفر مارٹن جنکنز نے ریڈیو پر کہا تھا کہ ’شاید دنیا میں کوئی، کہیں سے بھی ہوتا تو اس سے بہتر حل دے سکتا تھا۔‘

اس پر ڈک ورتھ کو احساس ہوا کہ ریاضی کے اس مسئلے کا حل ریاضی سے ہی نکل سکتا ہے۔

ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کو پہلی بار 1997 میں ملایشیا میں آئی سی سی ٹرافی کے دوران استعمال کیا گیا اور پھر اسے نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان، انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں لاگو کیا گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسے انگلینڈ میں 1999 کے ورلڈ کپ میں اپنایا اور کچھ سال بعد اسے مستقل حل بنا لیا گیا۔

بارش، کرکٹ
Getty Images
ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کو پہلی بار 1997 میں ملایشیا میں آئی سی سی ٹرافی کے دوران استعمال کیا گیا

اب اسے ڈک ورتھ لیوس سٹرن میتھڈ کہا جاتا ہے کیونکہ آسٹریلیا کے ریاضی دان پروفیسر سٹیون سٹرن نے اسے 2014 کے بعد جدید دور کے تقاضوں اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی روشنی میں اپ ڈیٹ کیا۔

رواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران افغانستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بارش سے متاثرہ میچ کے دوران اسی نظام کو استعمال کیا گیا ہے۔

ڈک ورتھ کو اپنی خدمات پر یونیورسٹی آف بیتھ نے 2015 میں ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ جوہری صنعت کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے وہ کرکٹ کے لیے ثابت ہوئے۔

ان کے بارے میں کہا گیا کہ ’انھیں شماریات کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ انھوں نے اس سے نہ صرف ری ایکٹرز کو محفوظ بنایا بلکہ عوام کو بھی باور کرایا کہ ری ایکٹرز محفوظ ہیں۔‘

’اس وقت لیبارٹریوں میں ماہرِ شماریات کام نہیں کرتے تھے تو وہ خود اس کے ماہر بن گئے۔‘

’پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں اور دوسروں کو شماریات کی اہمیت کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد انھوں نے جو کچھ کیا وہ اسی خیال کے گرد ہے۔‘

ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انھوں نے ’کرکٹ کی انتظامیہ کو رضامند کیا کہ شماریات سے مدد مل سکتی ہے۔‘

ایسٹوے کا کہنا ہے کہ شماریات کے علاوہ وہ ایک مزاحیہ شخصیت تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب 2020 میں ٹونی لیوس کی موت ہوئی تو انھوں نے فون کر کے مجھے بتایا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ پہلے سے مر چکے تھے۔‘

’لیوس ایک سنجیدہ شخص تھے اور فرینک بہت مزاحیہ تھے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.