’منظم مذہب‘ کی جائے پیدائش جسے جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام سمجھا جاتا تھا

نپور عراق میں واقع ایک قدیم تہذیب کی باقیات ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ سات ہزار سال پہلے قائم ہونے والی یہ آبادی قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی تھی۔

نپور شہر عراق میں واقع ایک قدیم تہذیب کی باقیات ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ سات ہزار سال پہلے قائم ہونے والی یہ آبادی قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی تھی۔

بغداد سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ مقام اب وقت کے ہاتھوں کھنڈرات کی شکل میں ہی موجود ہے جہاں سیاحوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ابھی وقت کا تصور بھی تازہ تازہ ہی تھا اور نپور دنیا کے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور دراز علاقوں سے زائرین میسوپوٹامیا کے اس مقدس شہر پہنچا کرتے جہاں سمیری تہذیب کے بادشاہ تک دنیا کے قدیم خداؤں کو پوجا کرتے۔

قدیم سمیری شہری، جو موجودہ وسطی عراق کے باسی تھے، ہی جدید تہذیب کے موجد بھی مانے جاتے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے شہر آباد کیے اور زراعت کا آغاز کیا۔ پہیہ، تحریر، حساب حتی کہ 60 منٹ پر محیط گھنٹے کی ایجاد کا سہرا بھی اسی تہذیب کو دیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مورخوں کے مطابق منظم مذہب اور زیارت کا تصور بھی یہی پیدا ہوا۔

وقت کے ساتھ سمیری تہذیب تو قصہ پارینہ ہوئی جس کی جگہ نئی تہزیبوں نے لی اور ان کے خدا بھی مختلف تھے۔ ہزاروں سال کا سفر کرنے کے بعد میسوپوٹامیا عراق بن گیا جہاں اب اسلام مرکزی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اگرچہ اب خدا بدل چکے ہیں لیکن جدید عراق میں بھی زیارت کا تصور اتنا ہی اہم ہے جتنا نپور کے قدیم مقدس شہر میں ہوا کرتا تھا۔

نپور کے کھنڈرات سے مغرب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر نجف اور کربلا کے مقدس مانے جانے والے شہر ہیں جو شیعہ مسلمانوں کی زیارت کے اہم منزل ہیں۔ ان شہروں کا سفر کرنے والے اس خطے کی طویل اور افسانوی تاریخ سمیت جدید عراق سے بھی واقف ہوتے ہیں۔

نپور: جہاں سمیری تہذیب کے مطابق ’خدا پیدا ہوا‘

قدیم سمیری تہذیب میں نپور کو جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام مانا جاتا تھا۔ سب سے پہلی تصویر میں نظر آنے والی پہاڑی ’انلل‘ کا گھر سمجھا جاتا تھا جو سمیری تہذیب کا سب سے اہم خدا اور کائنات کا حکمران مانا جاتا تھا۔

اگرچہ نپور خود سیاسی طاقت کا مرکز نہیں تھا لیکن اس شہر پر کنٹرول اہم سمجھا جاتا تھا کیوں کہ انلل ہی دوسری شہری ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہت کا اختیار سونپنے کا مجاز تھا۔ اس روحانی اہمیت کی وجہ سے ہی خطے سے زائرین یہاں کا رخ کرتے۔

سمیری تہذیب تکنیکی اعتبار سے مہارت رکھتی تھی اور منظم مذہب کے علاوہ دنیا کا سب سے پہلا تحریر کا نظام بھی انھوں نے ہی تیار کیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے نپور سے 30 ہزار مٹی کی بنی تختیاں برآمد کی ہیں تاہم زیادہ تر کھنڈرات کو اب تک کھود کر تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔

اس تصویر میں ایسے برتنوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں جو وسیع و عریض کھنڈرات میں پھیلے ہوئے ہیں اور شاید یہی بات نپور کو محسور کن بناتی ہے کیونکہ اس مقام کا انسانی ترقی سے بہت گہرا تعلق ہے جو شاید دنیا میں کہیں اور موجود ہوتا تو سیاحوں سے بھرپور ہوتا۔

لیکن عراق کے ایک صحرا کے کونے پر موجود اس جگہ پر ہوا، مٹی، ریت اور چند قابل شناخت دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

زیارت کی طویل تاریخ

نپور کے سات ہزار سال بعد بھی مشرق وسطی کے اس خطے میں زیارت کا تصور مضبوط ہے۔ ہر دن ہزاروں شیعہ مسلمان دنیا بھر سے کربلا اور نجف پہنچتے ہیں۔

یہاں پر بہت سے زائرین کا تعلق ایران سے بھی تھا جو منظم زائرین کے گروہ کی شکل میں نجف کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچتے ہیں اور بعد میں کربلا کا رخ بھی کرتے ہیں۔ اس تصویر میں زائرین کو کربلا میں عبادت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسلام کے ابتدائی ایام

عراق نے صرف انسانی تہذیب کی ترقی میں ہی اہم کردار ادا نہیں کیا بلکہ اسلام کو بھی یہاں اہمیت ملی اور پھر شیعہ اور سنی تقسیم میں بھی عراق مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ تقسیم 622 میں پیغمبر اسلام کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد اس وقت ہوئی جب اسلام کے نئے سربراہ کا تنازع پیدا ہوا۔ ایک گروہ علی ابن طالب کی خلافت کی حمایت کر رہا تھا اور یہی گروہ بعد میں شیعہ کے نام سے جانا گیا۔

علی ابن طالب پیغمبر اسلام کے کزن بھی تھے اور ان کا مدفن نجف میں ہے جہاں وقت کے ساتھ مزار زیارت کا اہم مقام بن گیا۔

نجف میں دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بھی ہے جہاں 50 لاکھ افراد دفن ہیں۔ وادی السلام قبرستان جس کا مطلب ’امن کی وادی‘ ہے، 10 سکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا قیام 1400سال پہلے ہوا تھا۔

بہت سے شیعہ مسلمان یہاں دفن ہونے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اوسطا فی دن 80 سے 120 افراد کی تدفین کی جاتی ہے۔

نجف سے 80 کلومیٹر دور شمال میں کربلا ہے جہاں دو بہت ہی اہم مزار واقع ہیں۔ پہلا مزار حسین ابن علی کا ہے جو پیغمبر اسلام کے نواسے تھے۔

اس تصویر میں ان کے مزار کی شاندار چھت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہاں آنے والے زیادہ زائرین شیعہ مسلمان ہیں لیکن یہ مزار سب ہی کے لیے کھلا ہوا ہے۔

متاثر کن تعمیر

کربلا میں حسین ابنِ علی کے مزار کے مقابل ایک اور زیارت ہے یعنی ال عباس کا مزار۔ دونوں مزاروں کے درمیان پیدل چلنے والوں کے لیے ایک کھلا راستہ بنایا گیا ہے۔ یہ بھی شعیہ زائرین کے لیے ایک اہم زیارت ہے۔

ال عباس علی ابنِ ابی طالب کے بیٹے اور حسین ابن علی کے سوتیلے بھائی تھے اور وہ جنگِ کربلا میں حسین کی فوج کے پرچم بردار بھی تھے اور وہ اسی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے۔

حسین ابن علی کے مزار کی طرح یہ مزار بھی ہر کسی کے لیے کھلا ہے اور اپنے ٹائل ورک اور بہترین فنِ تعمیر کے باعث جانا جاتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سالانہ زیارت

یوں تو زائرین کی ایک بڑی تعداد نجف اور کربلا ہر روز جاتی ہے لیکن ان کی سب سے زیادہ تعداد اربعین کے موقع پر یہاں موجود ہوتی ہے جو امام حسین اور ال عباس کی جنگِ کربلا کے دوران ہلاکت کے 40 روز پورے ہونے کا موقع ہے۔

سنہ 2023 کی اربعین واک کے دوران دو کروڑ 50 لاکھ افراد شریک ہوئے تھے، یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی سالانہ زیارت بن جاتی ہے۔ سنہ 2023 میں مکہ میں حج کے لیے 25 لاکھ افراد گئے تھے۔ انڈیا میں ہندوؤں کی زیارت ماہا کمبھ میلا میں اس سے بھی زیادہ لوگ جاتے ہیں لیکن یہ ہر 12 سال بعد منعقد ہوتا ہے۔

اس تصویر میں آپ کو ایک شخص ایک بڑا سرخ جھنڈا پکڑے دیکھا جا سکتا ہے اور وہ 12ویں اور آخری شیعہ امام محمد المہدی کو واپس دنیا میں آ کر انصاف اور امن قائم کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔

بغاوت اور تباہی

ماضی کے عراقی آمر صدام حسین ایک سنی مسلمان تھے۔ عراق میں سنی مسلمان آبادی کا 40 فیصد ہیں لیکن صدام حسین کے دورِ اقتدار میں سنی عہدیدار ہی تمام اہم عہدوں پر فائز تھے۔

اپنے طویل دورِ اقتدار کے دوران صدام حسین اس خوف میں مبتلا ہو گئے تھے کہ عراق کی اکثریتی شیعہ آبادی ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کر لے گی جو ان کے اقتدار کو چیلنج کرے گی۔ ان کی جانب سے شیعہ آبادی پر کیے گئے کریک ڈاؤن کے دوران کربلا اور نجف کے مزاروں کی زیارتوں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔

سنہ 1991 میں پہلی خلیجی جنگ کے بعد شیعہ عراقیوں نے واقعی بغاوت کر دی۔ صدام حسین کی جانب سے اس بغاوت کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا گیا تھا اور تشدد کا سہارا لیتے ہوئے سنی رپبلکن گارڈ نے کربلا میں مزاروں پر حملے کیے جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے (ہلاکتوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں) اور ان مزاروں کو بہت نقصان بھی پہنچا۔

آج ان عمارتوں کا ٹائل ورک انتہائی احتیاط کے ساتھ دوبارہ بحال کیا گیا ہے اور یہاں اب ماضی کی طرح ایک بار پھر سے زائرین کی آمد و رفت جاری ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.