وہ ماں جس نے اپنی تین دن کی بیٹی کھو دینے کے بعد دوسروں کو ’زہر‘ سے بچایا

نوے کی دہائی کے آخری اوائل میں ایتوساینگو میں کینسر، سانس کی بیماری اور بچپن میں ہونے والی اموات کے کیسز میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا۔ اپنی تین دن کی بیٹی کو کھونے کے بعد صوفیا نے اس بارے میں کچھ کرنے کی ٹھانی۔
صوفیا
Irene Barajas
تقریباً تین دہائیوں بعد بھی صوفیہ انصاف کے لیے اپنی لڑائی پر ڈٹی ہوئی ہیں

سنہ 1997 میں صوفیا گیٹیگا ارجنٹینا کے ایک چھوٹے سے دیہی علاقے میں رہ رہی تھیں جب ایک تباہ کن واقعے نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

ان کی بیٹی نینڈی صرف تین دن کی تھی جب اس کی موت ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے نینڈی کے گردوں میں مسئلہ دیکھا اور فوری طور پر اس کا آپریشن بھی کیا تاہم اسے بچایا نہ جا سکا۔

گذشتہ برس بی بی سی کو ایک انٹرویو میں صوفیا نے بتایا کہ ’تین دن بعد ڈاکٹر میری بیٹی کو میرے پاس لائے اور کہا کہ یہ رہی آپ کی بیٹی اور نینڈی کو میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔‘

صوفیا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے میری بیٹی کو میری گود میں چھوڑ دیا۔ اس کا جسم گرم تھا لیکن وہ مر چکی تھی۔‘

’میرے لیے ابھی بھی اس بارے میں بات کرنا مشکل ہے۔ میں اسے گھر لے گئی اور دفنا دیا۔‘

غیر معمولی اموات

صوفیا کے لیے وہ وقت خاصا مشکل تھا۔ دکھ اور صدمے سے دوچار صوفیا کورڈوبا کے مضافاتی علاقے ایتوساینگو میں کئی ہفتے تک اپنے گھر سے نہ نکل سکیں۔

پھر جب ایک پڑوسی نے نینڈی کی غیر معمولی موت کے بارے میں بات کی تو صوفیہ نے اپنی بیٹی کے گردے فیل ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

صوفیا بتاتی ہیں کہ ان ہی دنوں میں، میں نے دیکھا کہ پڑوس میں رہنے والی ایک ٹیچر روزانہ سفید سکارف پہنے ان کے گھر کے باہر سے گزرتی ہیں۔

جب صوفیا نے سفید سکارف کے بارے میں پوچھا تو ان کی پڑوسی خاتون نے بتایا کہ انھیں کینسر ہے۔

صوفیا کہتی ہیں کہ اس دوران ’میں نے ایسے بچوں کو دیکھا جنھوں نے اپنے منھ ڈھانپے ہوتے، ایسی ماؤں کو دیکھا جنھوں نے کیموتھراپی کے بعد گنجے پن کو چھپانے کے لیے اپنے سروں پر سکارف پہنے ہوتے تھے۔‘

صوفیا
Irene Barajas

کینسر، سانس کی بیماری اور کم عمری کی اموات میں ڈرامائی اضافہ

نوے کی دہائی کے آخری اوائل میں ایتوساینگو میں کینسر، سانس کی بیماری اور نو عمری میں ہونے والی اموات کے واقعات میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا۔

صوفیا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے علاقے کے ہر گھر کا دروازہ کهٹکهٹانا شروع کر دیا۔ میں لوگوں سے پوچھتی کہ ان کے گھر میں کتنے لوگ بیمار تھے اور انھیں کیا بیماری تھی۔‘

صوفیا کو پتا چلا کہ علاقے میں بہت سے لوگوں نے اپنے چھوٹے بچوں کو کھو دیا یا ان کے خاندان میں کوئی ایسا ضرور تھا جس میں کینسر کی تشخیص ہوئی ہو۔

’مجھے پتا چلا کہ صرف ایک بلاک میں پانچ یا چھ بچوں کی موت ہوئی۔‘

حقائق کی تلاش میں صوفیا کی رہنمائی میں 16 خواتین نے ’ایتوساینگو کی ماؤں‘ کے نام سے ایک گروپ بنایا۔

اس گروپ نے علاقے میں ہونے والی اموات کو دیکھنا شروع کیا اور تمام اشارے ایک چیز کی طرف گئے: سویا بین۔

ایتوساینگو میں رہائشی کمیونٹی کے علاقے کے اردگرد سویا بین کی فصلیں تھیں اور کسان ان فصلوں پر ’گلائفوسیٹ‘ جیسے کیمیکلز کا استعمال کر رہے تھے۔

’گلائفوسیٹ‘ ایک ایسا کیمیکل ہے جو غیر ضروری جھاڑیوں اور پودوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’گلائفوسیٹ‘ کو 1970 کی دہائی میں امریکہ کی زرعی کمپنی ’مونسینٹو‘ نے تیار کیا تھا۔

’ممکنہ طور پر کینسر کی وجہ‘

آج دنیا بھر میں بہت سی کمپنیاں ’گلائفوسیٹ‘ تیار کرتی ہیں اور امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں ریگولیٹری ایجنسیاں اسے محفوظ قرار دیتی ہیں تاہم اس کا استعمال اب بھی متنازعہ ہے۔

سنہ 2015 میں عالمی ادارہ صحت کی کینسر پر تحقیق کرنے والی ایجنسی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’گلائفوسیٹ‘ انسانوں میں ’ممکنہ طور پر کیسنر کی وجہ بنتا ہے۔‘

دوسری طرف امریکہ میں ماحولیات کے تحفظ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’گلائفوسیٹ‘ کو اگر احتیاط سے استعمال کیا جائے تو یہ محفوظ ہے۔

یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی کا بھی کہنا ہے کہ ’گلائفوسیٹ‘ سے انسانوں میں کینسر کا امکان نہیں۔

جینیاتی طور پر سویا میں ایسی تبدیلی کر دی جاتی ہے کہ جب اس کی فصل پر ’گلائفوسیٹ‘ کا سپرے کیا جاتا ہے تو یہ سویا کے پودوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اس سے جڑی بوٹیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

ایتوساینگو میں ایسے بہت سے کیمیکلز کا سپرے کیا گیا تھا اور ہوا کی وجہ سے وہ کہیں بھی پھیل سکتے تھے۔

سویا بین کے کھیت
Getty Images

آلودہ پانی

’ایتوساینگو کی ماؤں‘ نے یہ دریافت کیا کہ مقامی طور پر کینسر کی شرح قومی سطح پر کینسر کی اوسط سے 41 گنا زیادہ ہے۔

بیونس آئرس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس بات تصدیق ہوئی کہ ایتوساینگو میں صحت کے مسائل کیڑے مار ادویات سے جڑے ہیں جبکہ مالیکیولر بایئولوجی کے ایک محقق آندریس کیراسکو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’گلائفوسیٹ‘ سے جنین میں مسائل کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔

مونسینٹو نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ’گلائفوسیٹ‘ کا صحیح استعمال ان سنگین بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔‘

آخر کار حکام اس علاقے کے پانی کو ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اس بات کی تصدیق ہوئی کہ پانی آلودہ تھا۔

صوفیا کہتی ہیں کہ ’ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہم ایک آلودہ جگہ پر رہ رہے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ جنھیں کینسر تھا، نہیں جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

’ہم صرف ایک کیمیکل نہیں بلکہ کیمیکل کا کاک ٹیل پی رہے تھے۔‘

صوفیا کی سربراہی میں ’ایتوساینگو کی ماؤں‘ نے اسے خود روکنے کی ذمہ داری اٹھائی۔

صوفیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہمیں پتا چلا کہ ہم آلودہ پانی پی رہے ہیں تو پھر جب بھی ہم کسی ٹریکٹر کو سپرے کرتے دیکھتے تو ہم جا کر اس کا راستہ روکتے۔‘

لیکن پھر کسانوں اور زمینداروں نے فصلوں پر جہازوں سے کیڑے مار ادویات سپرے کرنا شروع کر دیے۔

یہ بھی پڑھیے

صوفیا، احتجاج
Getty Images
صوفیا کو سنہ 2018 میں احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا

جان سے مارنے کی دھمکیاں

کئی برسوں کے احتجاج کے بعد کورڈوبا کے حکام علاقے میں زرعی کیمیکلز کے اثرات کی تحقیقات کرنے پر راضی ہو گئے۔

ارجنٹائن جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سویا کے لیے دنیا کے سب سے بڑے ایکسپورٹرز میں سے ایک ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ملک کا ایک بڑا کاروبار ہے۔

صوفیہ کہتی ہیں کہ کمیونٹی کے بہت سے لوگوں کو احتجاج سے خطرہ محسوس ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں جان سے مارنے کے دھمکیاں ملنے لگیں۔

انھوں نے میرا گھر ڈھونڈ نکالا، وہ لوگوں کو میرے گھر کی کھڑکیاں توڑنے کے لیے بھیجتے تاکہ ہمیں ڈرایا جا سکے یا ہم کہیں اور چلے جائیں لیکن خوف کے باوجود ہم مقابلہ کرتے رہے۔

سنہ 2012 میں کورڈوبا کے محکمہ انصاف نے شہری علاقوں کے نزدیک زرعی کیمیکل کے سپرے کرنے سے منع کر دیا۔ جس کے بعد ارجنٹینا کے دوسرے خطوں میں بھی زرعی کیمیکل کے استعمال پر پابندیاں عائد کی گئیں۔

اور جب مونسینٹو نے کورڈوبا ایک اور دیہی علاقے مالویناس میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مکئی کے بیج پیدا کرنے کا ایک منصوبہ شروع کیا تو اسے صوفیہ اور ان کی ساتھیوں نے روک دیا۔

مونسینٹو نے اپنے اس منصوبے کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا لیکن وہ یہاں سے زمین فروخت کر کے چلے گئے۔

صوفیا کہتی ہیں کہ ’یہ کہانی ہماری فتح پر ختم ہوئی۔ ہم نے انھیں باہر نکال پھینکا۔ وہ یہاں اپنا کام شروع نہ کر سکے اور چلے گئے۔‘

اسی برس صوفیا کو ماحولیات کے ’گولڈ مین‘ ایوارڈ سے نوازا گیا جسے ماحولیات کے شعبے کا ’نوبل ایوارڈ‘ کہا جاتا ہے۔

قانونی جنگ

سنہ 2018 میں جرمنی کی کمپنی ’بائر‘ نے 63 ارب ڈالر کے ایک معاہدے کے نتیجے میں مونسینٹو کو خرید لیا، جس سے بائر کو بیجوں اور کیڑے مار ادویات کی عالمی سپلائی کے ایک چوتھائی سے زیادہ حصے کا کنٹرول ملا۔

لیکن سنہ 2024 تک بائر کو امریکہ میں 50 ہزار سے زیادہ کیسز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کیسز میں الزام لگایا گیا کہ مونسینٹو کا جڑی بوٹیوں اور غیر ضروری پودوں کا سپرے کینسر کا سبب بنتا ہے۔

یہ کمپنی اب تک تصفیے کی مد میں11 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کر چکی ہے۔

صوفیا کہتی ہیں کہ ’ہمارے علاقے میں کینسر کی شرح پہلے ہی زیادہ تھی۔ اگر یہ کمپنی علاقے میں موجود رہتی تو کیسز میں مزید اضافہ ہوتا۔ تو جو ہم نے حاصل کیا، وہ صحت عامہ کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی تھی۔‘

ارجنٹینا کی فیڈریشن آف میڈیکل پروفیشنلز نے ’گلائفوسیٹ‘ پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ تجویز کہ اس کا استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے، ابھی بھی اس پر خاصی بحث ہوتی ہے۔

ابھی تک دنیا کے 36 ممالک میں ’گلائفوسیٹ‘ کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔

نومبر 2023 میں یورپی کمیشن نے انفرادی طور پر مختلف ممالک کی قومی قانون سازی کے ضابطے کو اپناتے ہوئے 10 سال کے لیے ’گلائفوسیٹ‘ کے لائسنس کی تجدید کی۔

تقریباً تین دہائیوں بعد بھی صوفیہ انصاف کے لیے اپنی لڑائی پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان قوانین کی پابندی نہیں کرتی، جو نا انصافی کی طرف ہوتے ہیں اور جب نا انصافی ہوتی ہے تو میں ان کے خلاف کام کرتی ہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.