خیبرپختونخوا کے وزیرِ ماحولیات کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ’کم علمی‘ پر بحث: ’میں سمجھا منٹسر صاحب مذاق کر رہے ہیں لیکن یہ تو سنجیدہ تھے‘

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر ماحولیات و جنگلات اور جنگلی حیات فضل حکیم خان کا پشتو زبان میں موسمیاتی تبدیلی اور صوبے میں اس حوالے سے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے ایک انٹرویو گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔
fazal hakeem khan
Social Media

پاکستان میں موسمِ گرما اپنے جوبن پر ہے اور جون میں ہیٹ ویوز نے ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا جس کے بعد موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے حوالے سے اکثر افراد خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے میں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر ماحولیات و جنگلات اور جنگلی حیات فضل حکیم خان کا پشتو زبان میں موسمیاتی تبدیلی اور صوبے میں اس حوالے سے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے ایک انٹرویو گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔

یہ انٹرویو مقامی ٹی وی چینل خیبر ٹی وی کے پروگرام ’گریبان‘ کے میزبان اور صحافی رفعت اللہ اورکزئی کی جانب سے لیا گیا جس میں وہ ماحولیات کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر وزیر ماحولیات فضل حکیم خان سے سوالات کر رہے ہیں۔ تاہم ان سوالات کے جواب میں انھیں خاصے مبہم اور غیر واضح جوابات ملے۔

رفعت اللہ اورکزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’خیبر پختونخوا کو اس وقتدہشت گردی اور شدت پسندی کے بعد ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا ہے اور اس وقت فضل حکیم خان کے پاس چار اہم محکمے ہیں جن میں جنگلی حیات، ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہیں۔

’اس انٹرویو کا مقصد صوبائی حکومت کی پالیسی جاننا تھا کہ حکومت ماحولیات اور خاص طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‘

انٹرویو میں پہلا سوال یہ تھا کہ یہ اہم وزارتیں ہیں اور کیا فضل حکیم کے پاس اس بارے میں کوئی تعلیم یا تجربہ ہے تو انھوں نے اس کا ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیا لیکن پھر کہا کہ ’ہسپتالوں سے جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اس میں بہت گند ہوتا ہے اور یہ پھر فیکٹریوں میں لے جاتے ہیں جہاں مختلف اشیا بنائی جاتی ہیں جیسے بچوں کی چوسنیاں جو انتہائی خطرناک ہے اور ان کی کوشش ہے کہ ماحول کو صاف رکھنے کے لیے وہ اس کو کنٹرول کریں گے۔‘

Imran Khan
Getty Images

جب فضل حکیم سے رفعت اللہ اروکرزئی نے کہا کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں اجلاس ہوئے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ چین اور انڈیا کی صنعتیں ہیں جن کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے اور انھوں نے اس بارے میں خطوط لکھے ہیں تاکہ اس کا سد باب کیا جا سکے۔‘

اس کے علاوہ انھوں نےایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ان کی کوشش ہے کہ ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی کےحوالے سے ایک باقاعدہ مکمل یونیورسٹی قائم کی جائے۔

’اس سال سے سکولوں میں پانچویں جماعت کے نصاب میں ماحولیات کا مضمون شامل کیا جا رہا ہے اور یہ لازمی مضمون ہو گا۔‘

رفعت اورکزئی کا کہنا تھا کہ انھوں نے فضل حکیم خان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ عمران خان نے کلائمیٹ چینج اور ماحولیات کے حوالے سے بہت سے بیانات دیے ہیں لیکن اب تک موجودہ صوبائی حکومت کے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے کوئی بڑے فیصلے نظر نہیں آ رہے تاہم اس پر بھی کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔

فضل حکیم خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے ہے اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق ان کی تعلیم بی اے بتائی گئی ہے۔ ان کے بارے میں صوبائی اسمبلی کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔

فضل حکیم خان تیسری مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ سال 2013 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم دونوں مرتبہ وہ صوبائی کابینہ کا حصہ نہیں تھے۔ تاہم ان کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 1996 سے وابستہ ہیں۔

Khyber pakhtunkhwa
Getty Images

ماحولیاتی تبدیلی اور خیبر پختونخوا

سنہ 2022 میں پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک کے کل رقبے کا تقریباً پانچواں حصہ سیلاب سے متاثر ہوا تھا جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے باسیوں کو بھی بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

خیبرپختونخوا صوبے میں پچھلے 11 سال سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہے اور حکومت میں آنے کے بعد پارٹی کے سربراہ عمران خان نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا آغاز کیا تھا جس کے تحت انھوں نے عزم اٹھایا کہ سال 2030 تک صوبے میں ایک ارب درخت لگائے جائیں گے۔

اس کے لیے سنہ 2013 میں ٹاسک فورس بنائی گئی تھی۔ تاہم اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز سنہ 2015 میں ہوا۔ عمران خان کی جانب سے اس ماحول دوست منصونے کا عالمی سطح پر مختلف ماحولیاتی تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے سنہ 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان عمران کی مثال کی پیروی کریں جنہوں نے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا عزم کیا ہے۔

جہاں اس منصوبے کی تعریف ہوتی رہی وہیں اس منصوبے پر ناقدین کی جانب سے متعدد الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں جن میں بدعنوانی کے علاوہ درختوں کی غلط قسم لگانا شامل ہے۔

https://twitter.com/SMuhmand/status/1807989646955368817

’میں سمجھا وزیر صاحب مذاق کر رہے ہیں لیکن پھر پتا چلا کہ بندہ تو واقعی سنجیدہ ہے‘

خیبر پختونخوا کے صحافی افتخار فردوس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر) پر وزیر ماحولیات فضل حکیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سوالوں کے گول مول جواب دیے اور ماحول پر بات کرنے کی بجائے عمران خان کو جیل کی قید اور لوگوں سے ان کے لگاؤ پر بات کرنے لگے۔‘

جواب میں ایکس پر ساجد خان مہمند نامی صارف نے کہا کہ ’وزارت سنبھالنے کے لیے ٹیکنیکل معلومات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ماہرین موجود ہوتے ہیں۔ آپ اپنے کسی بھی بیوروکریٹ سے پوچھ لیں۔‘

صارف فرح لودھی خان کا کہنا ہے کہ ’تعلیم یافتہ لوگوں کو حکومت میں آنے نہیں دیا جاتا۔ ایک صارف کی جانب سے پوسٹ میں کہا گیا کہ عمران خان کی جماعت نے میرٹ کو نظر انداز کر کے ان کو وزارت سونپی جس پر خیبر پختونخوا کے عوام نے خود تنقید کی۔‘

اس شخص کو وزارت اور ٹکٹ دینے پر خیبرپختونخواہ کے لوگوں نے خود بہت تنقید کی ہے۔ انتہائی شرمناک رویہ ہے۔ نہ یہ شخص قابل ہے اس وزارت کے اور نہ ان کی پرفارمنس ہےکوئی۔ عمران خان کی جماعت میں میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ہماری تعلیم یافتہ، باشعور اور شائستہ قیادت کو اسی لیے تو انتخابات ہروائے گئے ہیں کہ نیگیٹو مارکنگ کے لیے ایسے حضرات میسر ہوں۔

تاہم فیس بُک پر انٹرویو سے متعلق ایک پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں ماحولیاتی تبدیلی کی حقیقت پر بحث چھڑ گئی جس میں طلحہ نامی صارف نے کہا کہ منسٹر فضل حکیم یوسفزئی کی بات مکمل طور پر غلط نہیں ہے اور سائنسدان بھی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی حقیقت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی اس صدی کا بہت بڑا ’دھوکہ‘ ہے اور انھیں ماحولیاتی تبدیلی ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی۔

جواب میں عامر خان نامی صارف نے کہا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ ’آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‘

جبکہ ایک صارف ذاکر خان نے کہا کہ انھیں لگا کہ ’منسٹر صاحب مذاق کر رہے ہیں لیکن پھر پتا چلا کہ بندہ تو واقعی سنجیدہ ہے۔‘

ایک صارف محمد یمن نے اپنے تبصرے میں کہا کہ وہ وزیر کا دفاع نہیں کر رہے لیکن ان کی یہ بات درست ہے کہ چین اور انڈیا کی ’صنعتیں پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہیں۔‘

انھوں نے اپنے کمینٹ میں وضاحت کی کہ ’اگرچہ پاکستان کی آب و ہوا پر انڈین اور چینی صنعتوں کے اثرات کو تسلیم کرنا ضروری ہے، لیکن یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی اپنی صنعتی اور زرعی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.