پاکستان نے افغانستان میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیوں کیا؟

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان میں عسکری کارروائی کا کھل کر اعلان دیا؟ بی بی سی اردو نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ حکمت عملی کیوں اپنائی گئی اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
پاکستان
Getty Images

حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی سرحد پار افغانستان کے اندر کارروائیوں کا عندیہ دیے جانے کے بعد ایک جانب جہاں افغانستان کی طالبان حکومت نے اسے ایک غیر دانشمندانہ بیان قرار دیا ہے تو وہیں حکومت کو پاکستان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان میں عسکری کارروائی کا عندیہ دیا؟

بی بی سی اردو نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ حکمت عملی کیوں اپنائی گئی اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔

پہلے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر دفاع نے اپنے بیان میں افغانستان سے متعلق کیا کہا تھا۔

KH ASIF
BBC
بی بی سی کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ ’پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا‘

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’آپریشن عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے بعد میں ماضی میں ہونے والی ایسی کارروائیوں کا تذکرہ بھی کیا۔

بی بی سی کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ ’پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’بالکل ہم نے ان (افغانستان) کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تو ہم نے انھیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ مارچ میں ہونے والے حملے پر افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے۔

اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے، پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ’ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا۔ ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں۔‘

Taliban
Getty Images
افغانستان کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینے کی اجازت نہ دے

افغان طالبان کا ردعمل: ’افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے‘

افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے افغانستان کے اندر کارروائی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے غیر دانشمندانہ قرار دیا۔

ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں افغان وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر کا افغانستان کی قومی خود مختاری کی ممکنہ خلاف ورزی سے متعلق بیان ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے جو بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہے اور یہ کسی کے حق میں نہیں۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینے کی اجازت نہ دے۔

دوسری جانب دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے پاکستان کے وزیر دفاع کے حالیہ ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کو افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت افغان پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔

’ہم نہ تو کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیتے ہیں، اور نہ ہی ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔‘

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’مہم جوئی کا ارادہ رکھنے والوں کو ماضی کے حملہ آوروں کی تاریخ کا اچھی طرح مطالعہ کرنا چاہیے اور ایسی مہم جوئی کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا چاہیے۔‘

حکومت کو پاکستان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا

پاکستان کے اندر بھی خواجہ آصف کے بیان پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں ایک قبائلی جرگے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کابل کے بارے میں اپنا فیصلہ غصے اور جذبات کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان مسائل جلد بازی یا دھمکیوں سے حل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ یہ دوطرفہ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بنے گا۔

وزیر دفاع کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے فوری طور پر قوم کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے بجائے افغانستان کو دشمن سمجھا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ تصادم کی جانب نہ دھکیلا جائے۔

اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے ترجمان تحریک انصاف نے کہا کہ ان کی جماعت ملک کو اندرونی طور پر مبہم اہداف کے حامل کسی فوجی آپریشن یا ایران و افغناستان سمیت کسی ہمسائے سے مسلح طور پر الجھنے کی اجازت ہر گز نہیں دے گی۔ ترجمان کے مطابق تحریک انصاف ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن، احترام اور مستحکم باہمی روابط کے ذریعے معاملہ سازی کی وکالت کرتی آئی ہے۔

’افغانستان سے متعلق پاکستان کی اپروچ غیر حقیقی ہے‘

Afghanistan
Getty Images
کابل یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے فیض زالند نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی افغانستان سے متعلق ’اپروچ‘ غیر حقیقی ہے

کابل یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے فیض زالند نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی افغانستان سے متعلق ’اپروچ‘ غیر حقیقی ہے۔ ’چاہے یہ ڈیورڈلائن کا معاملہ ہو جسے طالبان سمیت کسی بھی افغان حکومت نے عالمی سرحد تسلیم نہیں کیا ہے یا پھر افغان بحران ہو جسے پاکستان نے ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق پاکستان کو افغانستان پر حملہ آور ہونے سے قبل اپنی سرزمین کی فکر ہونی چاہیے اور اسے اپنے علاقوں میں کارروائیوں پر غور کرنا چاہیے جہاں سے اس کی سکیورٹی کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔

فیض زالند کے مطابق افغان طالبان کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان افغانستان پر حملہ آور ہو کر ان کی ’لیجیٹمیسی‘ پر سوالیہ نشان اٹھائے۔

افغان تجزیہ کار کے مطابق ’طالبان حکومت ٹی ٹی پی پر اتنا کنٹرول نہیں رکھتی کہ ان سے سرینڈر کرا دیں اور پاکستان کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ ماضی میں امریکہ بھی پاکستان سے ایسے غیر حقیقی مطالبے کرتے آیا ہے کہ افغان طالبان کو سرینڈر کرا دیں جبکہ 'انفلوئنس' اور روابط کے باوجود پاکستان ایسا نہیں کر سکتا تھا۔‘

دوسری جانب سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد سعد نےبی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کا دفاع پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے، ’اب ایسے حالات میں دوسرے کسی ملک پر بھی انحصار کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اپنا دفاع کرنا ہے یا دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ہے۔‘

ان کے مطابق ’گذشتہ دور میں نہ صرف افغانستان سے بغیر کسی واضح شرائط کے دہشتگردوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا بلکہ جیلوں کے تالے بھی کھولے گئے اور انھیں آزاد کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کبھی دہشتگردوں سے بات چیت نہیں ہوتی۔‘ ان کی رائے میں اگر کبھی ایسا کرنا بھی ہو تو پہلے یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ ایسے گروہ اور افراد سر عام اپنے طرز عمل سے دستبرداری کا اعلان کریں۔

امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کو پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ نئی کاؤنٹر ٹیررازم پلان کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق ’اس نئے پلان میں جہاں انٹیلیجنس آپریشنزمیں تیزی لانا ہے وہیں سرحد پارافغانستان میں کارروائیاں کرنا بھی اس پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق وزیر دفاع یہ اشارہ دے رہے تھے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ کو افغانستان تک لے جانا چاہتا ہے۔

’شاید پاکستان کو یہ امید ہے کہ یہ بیان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کرے گا، جس سے سرحد پار آپریشنز کے خیال کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ طالبان حکومت یہ چاہتی بھی نہیں ہے کہ اس کی سرزمین پر کوئی اور ملک کارروائی کرے۔‘

مائیکل کگلمین کے مطابق ’پاکستان کے لیے بھی مسئلہ یہ ہے کہ اس نے پہلے بھی حالیہ مہنیوں میں افغانستان کے اندر آپریشنز کیے ہیں۔ مگر اس کے باوجود سرحد پار دہشتگردی کا مسئلہ حل ہوا اور نہ یہ سب کچھ طالبان کو پاکستان کے اطمینان کی خاطر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکا ہے۔‘

مائیگل کگلمین کے مطابق سرحد پار کارروائیوں کی صورت میں پاکستان کے سنگین خطرات بھی ہیں جن میں سے ایک سنگین صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ اگر پاکستان کچھ عرصے کے لیے اس طرح افغانستان میں آپریشن کرتا ہے تو پھر افغان طالبان پاکستان کے خلاف حملے شروع کر دیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

افغان طالبان ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟

Pakistan
Getty Images
رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ارشد یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان طالبان کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرے اور اس تنازع کو بات چیت سے حل کرے۔

ان کے مطابق ’افغان حکومت کے سینیئر رہنما یہ کہتے ہیں کہ پاکستان مذاکرات میں سنجیدگی نہیں دکھاتا اور جب بات امن کی طرف آگے بڑھتی ہے تو پھر پاکستانی حکام پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کا بھی پاس نہیںرکھتے۔‘

ارشد کے مطابق ’افغان حکومت اس وجہ سے بھی پرامن حل چاہتی ہے کہ تا کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور شمالی اتحاد کے خطرے سے ٹھیک طریقے سے نمٹ سکے۔ ان کے مطابق طالبان کے رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی صورت میں یہ گروپ داعش سے ہاتھ ملا سکتا ہے اور پھر افغانستان میں طالبان حکومت کے لیے ایک اور مشکل کھڑی ہو جائے گی۔‘

ارشد یوسفزئی کے مطابق چین کے معاملے میں افغان طالبان کے مؤقف میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان کے مطابق چین کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے افغان طالبان نے چین کے لیے خطرے کا باعث سمجھے جانے والے گروپ ’ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘ (ای ٹی آئی ایم) کو غیر مسلح کر کے ایک علاقے تک محدود رکھا ہوا ہے۔

تاہم افغان تجزیہ کار فیض زالند کے مطابق ’ای ٹی آئی ایم ایک چھوٹا گروپ ہے، جسے غیر ملکی سمجھا جاتا ہے اور یہ دوردراز پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے جبکہ ٹی ٹی پی کی زبان، ثقافت اور جغرافیہ بالکل افغان طالبان جیسا ہی ہے اور انھیں غیر ملکی بھی نہیں سمجھا جاتا اور وہ شہری آبادیوں میں رہتے ہیں۔‘

ارشد یوسفزئی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان کے لیے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو ہدف بنانا اس وجہ سے بھی مشکل ہے کہ وہ سرحد سے دور دراز علاقوں میں رہ رہے ہیں اور ان کے تین سے پانچ ہزار لوگ تو پاکستان کی طرف رہ رہے ہیں۔ اب افغانستان میں رہ کر ٹی ٹی پی کے لیے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنا آسان ہو گیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’جب پاکستانی حکام سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اگست 2022 میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں کیوں لایا گیا تو ان کے پاس اس کا جواب کوئی نہیں ہے۔‘

فیض زالند کے مطابق ’پاکستان کو ایک طاقتور ملک اور سٹریٹجک بننے کے بجائے افغانستان کا اچھا ہمسایہ بن کر رہنا چاہیے اور خطے کے حالات کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘

’پاکستان دہشتگردی کے خطرے کو فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے‘

فوج
Getty Images

مائیکل کگلمین کے مطابق ’پاکستان ممکنہ طور پر ہر ایسی کوشش کرے گا کہ جس سے وہ پاکستانکی طرف ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اس کے اثرات کو ختم کر سکے۔ یوں ٹی ٹی پی کے لیے محدود نیٹ ورکس کے ساتھ پاکستان کے اندر حملے کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

’پاکستان یوں یہ کہہ سکے گا وہ بغیر کسی دوسرے ملک کی مدد کے دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ مگر پاکستان اس وقت افغانستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو امریکہ سمیت اہم اتحادیوں سے مزید تعاون اور فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔‘

مائیکل کے مطابق اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ ’حتیٰ کے اپنے اچھے وقتوں میں بھی یہ تعلقات کمزور تھے۔ طالبان سمیت کسی بھی حکومت نے کبھی افغانستان پاکستان سرحد کوپاکستان کی آزادی سے لے کر اب تک عالمی حد بندی کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ مگر اب ان تعلقات میں سرحد پار دہشتگردی کی صورت میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔‘

مائیکل کگلمین کے مطابق ’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگردوں کی پناہ بن رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس تشویش کی وجہ ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ آئی ایس کے (داعش) ہے۔ یہ گروہ کہیں بڑے پیمانے پر خطرے کا سبب بننے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے اور یہ دنیا اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ اب مشکل بھی یہی ہے یہ سب خود اس خطرے سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں موجود بھی نہیں ہیں۔‘

’واشنگٹن کو یہ یقین ہے کہ اس گروپ کے خلاف طالبان مؤثر کارروائیاں کر رہے ہیں اگرچہ ان کارروائیوں کا مقصد آئی ایس خراسان کے افغانستان کے اندر خطرات کا سدباب ہے نہ کہ پوری دنیا سے اس خطرے کی بیخ کنی کرنا اس کا مقصد ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.