سر کیئر سٹامر: ’شکست سے نفرت‘ کرنے والے برطانیہ کے متوقع وزیراعظم ’مسٹر رولز‘ کون ہیں؟

پچاس کے پیٹے میں پارلیمانی رکن بننے سے پہلے سٹامر نے وکالت کے شعبے میں اپنا نام بنایا تھا تاہم ان کو ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی تھی۔ اپنی جوانی میں وہ بائیں بازو کی انتہاپسند سیاست کے حامی تھے۔
Sir Keir and his wife Victoria wave from a party conference stage
BBC
سر کیر سٹامر اور ان کی اہلیہ

برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد اس جماعت کے سربراہ سر کیئر سٹامر ملک کے متوقع نئے وزیر اعظم ہیں۔

چار سال قبل سٹامر نے لیبر پارٹی کے انتہائی بائیں بازو کے سیاستدان کی جگہ سربراہی سنبھالی تھی۔

سیاسی جماعت کو بائیں بازو سے مرکز کی جانب لے کر آنے کے لیے سٹامر نے کافی کاوشیں کی تھیں تاکہ لیبر پارٹی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکے۔

لیبر پارٹی گذشتہ 14 سال سے اقتدار میں نہیں آئی تھی۔

سیاست سے پہلے کی زندگی

پچاس کے پیٹے میں پارلیمانی رکن بننے سے پہلے سٹامر نے وکالت کے شعبے میں اپنا نام بنایا تھا تاہم ان کو ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی تھی۔ اپنی جوانی میں وہ بائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کے حامی تھے۔

وہ سنہ 1962 میں لندن میں پیدا ہوئے۔ سٹامر اکثر کہتے ہیں کہ وہ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک فیکڑی میں اوزار بناتے تھے اور ان کی والدہ ایک نرس تھیں۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ ان کا بچپن جنوب مشرقی انگلینڈ کے سری نامی علاقے میں گزرا۔

ان کے گھر والے لیبر پارٹی کے پرانے حامی تھے بلکہ سٹامر کا نام بھی پارٹی کے پہلے سربراہ، جو ایک کان کن تھے، کیئر ہارڈی کے نام پر رکھا گیا تھا۔

سٹامر کے گھر میں سکون نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کہ والد سرد مہر تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی زیادہ تر زندگی سٹل ڈزیز نامی آٹو امیون بیماری سے لڑتے ہوئے گزری۔

بیماری سے لڑتے لڑتے بالآخر وہ چلنے اور بولنے سے قاصر ہو گئیں۔ بیماری کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹنا پڑی۔

Sir Keir as a student
BBC
سر کیئر سٹامر کی یونیورسٹی کے دور کی تصویر

سٹامر نے 16 سال کی عمر میں لیبر پارٹی کی مقامی یوتھ برانچ میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصے کے لیے انھوں نے ایک انتہا پسند بائیں بازو کے میگزین ’سوشلسٹ الٹرنیٹیوز‘ کے لیے مدیر کے طور پر بھی کام کیا۔

سٹامر اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والے پہلے فرد تھے۔ انھوں نے لیڈز اور آکسفرڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر انسانی حقوق میں ماہر بیرسٹر کی حیثیت سے کام کیا۔

اس دوران انھوں نےکیریبین اور افریقہ کے ممالک میں سزائے موت ختم کرنے کے لیے کام کیا۔

نوّے کی دہائی میں انھوں نے ایک مشہور کیس میں دو ماحولیاتی کارکنوں کی نمائندگی کی تھی جن پر ملٹی نیشنل ریستوران میکڈونلڈز نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

سنہ 2008 میں سٹامر کو پبلک پراسیکیوشن کا ڈائریکٹر اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کا سربراہ بنایا گیا جس کے بعد وہ برطانیہ اور ویلز میں سب سے سینیئر پراسیکیوٹر بن گئے تھے۔

سنہ 2013 تک انھوں نے یہ ملازمت کی اور سنہ 2014 میں انھیں ’نائٹ‘ کا خطاب دیا گیا۔

Sir Keir being knighted in 2014
PA Media
سر کیئر سٹامرکو سنہ 2014 میں ’نائٹ‘ کا خطاب ملا

لیبر پارٹی کا سربراہ بننے تک کا سفر

سٹامر سنہ 2015 میں لندن کے علاقے ہالبورن اور سینٹ پینکراس سے رکن پارلیمنٹ کے طور پر پارلیمنٹ میں آئے۔

اس وقت لیبر پارٹی سخت بائیں بازو کے سیاست دان جیریمی کوربن کی قیادت میں اپوزیشن میں تھی۔ ترک وطن جیسے شعبوں میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کوربن نے سٹامر کو ہوم آفس کا ’شیڈو منسٹر‘ بنایا۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سٹامر کو بریگزٹ کا ’شیڈو سیکرٹری‘ بنا دیا گیا۔ اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے دوسرے ریفرینڈم کروانے کی کوشش کی۔

Sir Keir Starmer and Jeremy Corbyn in 2019
PA Media
سر کیر نے لیبر کی قیادت بائیں بازو کے جیریمی کوربن سے سنبھالی

سٹامر کو سنہ 2019 میں عام انتخابات کے بعد لیبر پارٹی کا سربراہ بننے کا موقع ملا۔ عام انتخابات میں سنہ 1935 کے بعد یہ پارٹی کی اب تک کی بدترین شکست تھی جس نے جیریمی کوربن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔

سٹامر نے لیبر پارٹی کی قیادت کو بائیں بازو کے پلیٹ فارم سے حاصل کیا۔ انھوں نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کو قومیانے اور یونیورسٹی کے طلبا کے لیے مفت ٹیوشن کی وکالت کی تھی۔

جبکہ کوربن نے لیبر کو بائیں بازو اور اعتدال پسندوں کے درمیان تقسیم کر دیا تھا۔

سٹامر کہتے تھے کہ وہ پارٹی کو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کوربن کے سخت گیر موقف کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ’مرکز کی طرف زیادہ رجحان‘ کے خلاف خبردار کیا تھا۔

تاہم بعد میں سٹامر نے کوربن کو لیبر پارٹی کی پارلیمانی سے معطل کر دیا تھا کیونکہ کوربن کی سربراہی کے دوران یہودی مخالف ایک تنازعہ سامنے آیا تھا۔

پارٹی کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سٹامر پارٹی کے اندر ایک طویل عرصے سے اس بات کی وکالت کر رہے تھے کہ صرف اعتدال پسند اراکین انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہوں۔

سٹامر کا مختلف معاملوں پر کیا موقف ہے؟

اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے جو بھی کہا ہو، سٹامر پارٹی کو قابل انتخاب بنانے کے لیے مرکز کی طرف لے کر آئے ہیں۔

سوائے چند سخت گیر موقف والی سکیموں کے سٹامر نے برطانیہ کے خراب معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سی مہنگی پالیسیوں کو ترک کر دیا۔

قومیانہ کی پالیسی

سٹامر نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کے قومیانے کی اپنی سابقہ تجاویز کو مسترد کر دیا۔

تاہم انھوں نے گریٹ برٹش ریلویز نامی ایک نئی کمپنی کے تحت تقریباً تمام مسافر ریل خدمات کو پانچ سال کے اندر دوبارہ پبلک سیکٹر میں لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔

تعلیم

سٹامر نے کالج کے طلبا کے لیے ٹیوشن فیس ختم کرنے کے اپنے سابقہ وعدے کو بھی ترک کر دیا۔ وضاحت دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت اسے برداشت نہیں کر سکے گی۔

مئی میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ ہمیں اپنے اس ارداے کو ترک کرنا پڑے کیوںکہ ہماری مالی صورتحال اب بہت مختلف ہے۔‘

تاہم سٹامر کا کہنا ہے کہ لیبر برطانیہ کے نجی سکولوں کی فیسوں پر ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ وصول کرنا شروع کر دے گی۔

یہ بھی پڑھیے

Keir Starmer making a speech
Getty Images

ماحولیات

لیبر پارٹی نے سنہ 2021 میں سبز توانائی کے منصوبوں پر سالانہ 35 ارب ڈالر خرچ کرنے کے وعدے کو بھی واپس لے لیا تاہم پارٹی کا الیکٹرک کاروں کی بیٹریز کے کارخانے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر بنانے کا پلان اپنی جگہ قائم ہے۔

مخالف کنزرویٹو پارٹی نے سٹامر کی اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک کلیدی پالیسی سے کسی طرح ’اپنی جان چھڑانے کی‘ کوشش کر رہے ہیں۔

حال ہی میں سٹامر نے ’جی بی انرجی‘ نامی ایک نئی کمپنی کے ذریعے سبز توانائی میں آٹھ ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک برطانیہ کی بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن میں فوسل فیول کا استعمال تقریباً مکمل طور پر ختم کروا دیں گا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔

اسرائیل غزہ تنازع

اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سٹامر نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

ان کے موقف پر فلسطینی حامی ووٹرز کی طرف سے سخت رد عمل آیا اور لیبر پارٹی کے درجنوں ایم پیز نے ان سے بغاوت کی۔ ایم پیز نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

تاہم اس سال فروری میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’جنگ بندی ایسی ہو جو دیر پا رہے۔ اب یہی ہونا چاہیے۔‘

عوامی رائے جاننے کے لیے مارچ میں ’یو گو‘ نامی ادارے کی جانب سے کروائے گئے ایک پول میں سامنے آیا کہ برطانیہ میں 52 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ سٹامر اس معاملے سے صحیح طرح نہیں نمٹ رہے۔

سٹامر نے حکومت کی اس وقت بھی حمایت کی جب یمن کے حوثی جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل سے جڑے بحری جہازوں کی سروس پر حملے کے جواب میں برطانیہ نے حوثی اڈّوں پر بمباری کی تھی۔

یورپ

سنہ 2019 میں سٹامر نے دوسرے ریفرینڈم کے لیے زور دیا تھا کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے۔

اب وہ کہتے ہیں کہ بریگزٹ پر واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یورپی یونین کے ساتھ خوراک، ماحولیاتی اور مزدوری کے معیارات جیسی چیزوں پر تعاون کے نئے معاہدوں پر بات کریں گے۔

’مجھے ہارنے سے نفرت ہے‘

Sir Keir celebrates an England goal during a 2022 Fifa Wold Cup match against Wales
Getty Images

سٹامر کے مخالفین اکثر ’سست‘ ہونے پر ان کامذاق اڑاتے ہیں لیکن سٹامر خود کو قائد و قوانین کے سخت پابند کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے ایک کولیگ نے ان کو ’مسٹر رولز‘ کہہ کر پکارا۔

انھوں نے صرف ایک بار قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ جوانی میں انھیں پولیس نے بغیر ٹریڈ پرمٹ کے آئس کریم بیچتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ وہ آئس کریم ضبط کر لی گئی تھی تاہم مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

انٹرویوز میں وہ اپنی شخصیت کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیتے لیکن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں مقابلے کا جذبہ خوب موجود ہے۔

برطانیہ کے گارڈیئن اخبار کو بتاتے ہوئے انھوں نے کہا ’مجھے ہارنے سے نفرت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حصّہ لینا معنی رکھتا ہے لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔‘

سٹامر نے سال 2007 میں شادی کی۔ ان کی بیوی وکٹوریہ الیگزینڈر برطانیہ کے قومی ہیلتھ سروس(این ایچ ایس) کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔

ذہنی تناؤ دور کرنے کے لیے وہ پانچ پانچ کھلاڑیوں کی ٹیم پر مشتمل فٹ بال میچ کھیلتے ہیں اور خود وہ آرسنل فٹبال ٹیم کے حامی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.