انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کا اداکاری اور فلم میکنگ کی جانب رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

کشمیر میں ویسے تو لڑکیاں ہر شعبے میں داخل ہو رہی ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کا رجحان فلم میکنگ اور اداکاری کی طرف کافی بڑھا ہے۔
kashmiri actors and filmmakers
BBC

سرینگر کے نواح میں گاندر بل کے ایک خوبصورت مقام پر ایک ویب سیریز کی شوٹنگ چل رہی ہے۔ شوٹنگ کے لیے سیٹ بنایا گیا ہے اور فرحانہ بٹ اس سیریز میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔

وہ اپنے ڈائیلاگ خاصی روانی کے ساتھ بولتی ہیں اور ان کی اداکاری اور ڈائیلاگ کئی زاویوں سے شوٹ کیے جاتے ہیں۔ کشمیر میں ان دنوں اس طرح کی شوٹنگ اکثر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

فلم میکنگ اور اداکاری کو کشمیری لڑکیاں تیزی سے کریئر کے طور پر اپنا رہی ہیں۔

27 سالہ فرحانہ بٹ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی کامیاب اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ عامر خان کی فلم ’دنگل‘ میں بیٹی کا کردار ادا کرنے والی زائرہ وسیم کے ساتھ انھوں نے کئی فلموں میں آڈیشن دیا تھا۔

زائرہ فلموں میں کامیاب شروعات کے بعد اداکاری سے پیچھے ہٹ گئیں لیکن فرحانہ نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ انھوں نے بالی وڈ سمیت دس سے زیادہ فلموں میں کام کیا ہے۔ کئی ویب سیریز میں اداکاری کی اور کئی میوزک ویڈیوز میں بھی کام کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کا اداکاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

’میں صحافی یا ٹی وی براڈ کاسٹر یا اینکر بننا چاہتی تھی۔ اداکاری کے شعبے میں آنا اتفاقیہ تھا لیکن جتنا یہاں آنا مشکل تھا اتنا ہی مشکل اسے برقرار رکھنا بھی تھا۔ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو ابھی تک چل رہی ہے جب تک میں کشمیر میںکام کر رہی ہوں۔‘

کشمیر میں ویسے تو لڑکیاں ہر شعبے میں داخل ہو رہی ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کا رجحان فلم میکنگ اور اداکاری کی طرف کافی بڑھا ہے۔

انیسہ خان کا تعلق بڈگام سے ہے۔ وہ ڈائریکٹر بننا چاہتی ہیں۔

بی بی سی کو انھوں نے بتایا ’میں ایک داستان گو ہوں۔ کہانیاں بتاتے بتاتے مجھے یہ خیال آیا کہ ہم چیزوں کو سکرین پر کیسے دکھا سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ میں نے چھوٹی چھوٹی ڈاکیومینٹریز اور پھر چھوٹی فلمیں بنانی شروع کیں اور یہ سلسلہ چلتا گیا۔ وہ اب اپنی منزل کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔‘

kashmiri actors
BBC

مصباح علی فلموں میں لائن پروڈیوسر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ کئی فلموں میں پروڈکشن ہیڈ کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ مصباح کہتی ہیں کہ ’اب مواقع زیادہ ہونے کے سبب زیادہ لڑکیاں فلم میں پروفیشنل کے طور پر آ رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کشمیر نسبتاً ایک قدامت پسند معاشرہ ہے اور اس کی روایتوں کو توڑنا لڑکیوں کے لیے ایک چیلنج ضرور ہے۔‘

’بہت چیلنجنگ ہے۔ پہلے تو لڑکیوں کو ملٹی ٹاسکنک کرنا پڑتی ہے۔ گھر سنبھالنا ہوتا ہے۔ گھر کے علاوہ اپنا کام بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ لڑکیوں کی اس جنریشن نے کشمیر کا سٹیریو ٹائپ جو روایتی امیج تھا وہ توڑ دیا ہے۔‘

انیسہ خان کہتی ہیں کہ ’ہماری کشمیر سوسائٹی ابھی تھوڑی قدامت پسند ہے۔ یہاں اس شعبے میں کچھ نہ کچھ مشکلات آتی ہی ہیں۔ فلم لائن نو سے پانچ بجے والیفکسڈ نوکری نہیں ہے۔ آپ کا شیڈول کافی مختلف ہوتا ہے۔ آپ کو پری پروڈکشن پر بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں گھر اور کام دونوں میں توازن رکھنا پرتا ہے لیکن میں اس بات میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ مرد ہوں یا عورت اگر آپ کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘

انیسہ شادی شدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے ماں باپ کے ساتھ ساتھ شوہر کے گھر والوں سے بھی پوری سپورٹ ملتی ہے۔ انھیں اکثر رات میں دیر تک کام کرنا ہوتا ہے لیکن وہ اب مطمئن ہو کر کام کرتی ہیں۔

kashmiri filmmaker
BBC

اداکارہ فرحانہ بٹ کو شوٹنگ کے لیے اکثر کشمیر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ رفتہ رفتہ معاشرے میں قبولیت بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کشمیری لڑکیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ بہت ہے۔ فلم کے الگ الگ شعبوں میں اب کشمیر میں کافی لڑکیاں آ چکی ہیں۔ اب یہاں لڑکیوں کے بیچ مقابلہ بڑھ گیا ہے۔ اب سے چار پانچ سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اس شعبے کے لیے معاشرے میں قبولیت بڑھی ہے۔‘

فرحانہ کا کہنا ہے کہ چند برس پہلے کافی جدوجہد کے بعد فلموں میں کوئی چھوٹا سا رول مل جاتا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ نیٹ فلکس، ایمیزون پرائم اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے فلم کے ہر شعبے میں نئے راستے کھول دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری لڑکیاں بڑی تعداد میں فلم میکنگ کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔

کشمیر کئی عشروں تک تصادم اورخونریز تشدد کے حالات سے گزرا ہے۔ اس خطے کے دشوار حالات نے لڑکوںاور لڑکیوں دونوں میں کچھ کر گزرنے کے جذبے کو تقویت دی ہے۔

ایک طرف لوگ اپنے حالات سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنی ایک نئی شناخت کی تلاش میں بھی ہیں۔

سرینگر کی فلم لائن پروڈیوسر مصباح علی کا کہنا ہے کہ ’اس کے ذریعے ہمیں خود کی تلاش ہے۔ کیونکہ ہم کشمیر کے تنازع میں ہی پلے بڑھے ہیں۔ جب میں پڑھتی تھی اور چھوٹی تھی اس وقت گولیوں کی آوازیں اب بھی یاد ہیں۔

’بڑے ہو کر بھی ہم ان گزرے ہوئے مشکل حالات کو بھول نہیں پاتے۔ ہم شاید کہیں نہ کہیں پوری دنیا سے خود کو آگے دکھانا چاہتے تھے۔ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر کشمیری لڑکیوں کو بھی موقع ملے تو وہ بہترین کام انجام دے سکتی ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.