پیرس اولمپکس میں شریک پاکستانی ایتھلیٹس کی کارکردگی کیا رہی؟

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں اس مرتبہ سات پاکستانی کھلاڑی شرکت کر رہے ہیں اور پرامید ہیں ان عالمی مقابلوں میں پاکستان کا کسی تمغے کا 32 برس کا انتظار ختم ہو گا۔
jehan ara
Getty Images

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلے اپنے اختتام کو پہنچ گئے ہیں اور سٹار جیولن تھروئر ارشد ندیم کے گولڈ میڈل کے باعث یہ پاکستان کے لیے گذشتہ 40 برس میں سب سے کامیاب اولمپکس ثابت ہوئے۔

ارشد ندیم کی 92.97 میٹر کی جیولن تھرو نے نہ صرف اولمپک ریکارڈ توڑا بلکہ 40 برس بعد پاکستان کے لیے طلائی تمغہ بھی یقینی بنایا۔

ارشد کے علاوہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے دیگر چھ ایتھلیٹس خاطر خواہ کامیابی دکھانے میں ناکامرہے اور ان میں سے صرف سپرنٹر فائقہ ریاض نے اپنے بہترین ٹائم میں دوڑ مکمل کی لیکن وہ اگلے راؤنڈ تک جانے میں ناکام رہیں۔

پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی ارشد ندیم، کشمالہ طلعت، گلفام جوزف، غلام مصطفیٰ بشیر، جہاں آرا نبی، محمد احمد درانی اور فائقہ ریاض کر رہے تھے۔

ان میں سے صرف ارشد ندیم، کشمالہ طلعت، گلفام جوزف اور غلام مصطفیٰ بشیر کو اولمپکس میں براہِ راست انٹری مل گئی تھی جبکہ جہاں آرا نبی، فائقہ ریاض اور محمد احمد درانی وائلڈ کارڈ انٹری پر اولمپکس میں شرکت کر رہے ہیں۔

پاکستان نے اس سے پہلے اولمپکس میں کوئی بھی تمغہ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں جیتا تھا۔ اس برس پاکستان کی ہاکی ٹیم تیسرے نمبر پر رہی تھی اور کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ انفرادی مقابلوں میں آخری مرتبہ پاکستان نے کوئی بھی تمغہ 1988 میں جیتا تھا اور کانسی کا یہ تمغہ جیتنے والے باکسر حسین شاہ تھے۔

اس مرتبہ پاکستانی دستے میں شامل جیولن تھروئر ارشد ندیم وہ کھلاڑی ہیں جو نہ صرف بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں اور سنہ 2022 میں کامن ویلتھ گیمز میں طلائی اور 2023 کی عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے کی وجہ سے ان سے وابستہ امیدوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

آئیے نظر ڈالتے ہیں ان پاکستانی ایتھلیٹس کی کاکردگی پر جو پیرس اولمپکس کے دوران ایکشن میں نظر آئے۔

پاکستان کے سٹار ایتھلیٹ ارشد ندیم کی طرح جیولن کیسے پھینکیں: بی بی سی اردو کی خصوصی پیشکش

ارشد ندیم کا جیولن تھرو میں گولڈ میڈل

پاکستان کے لیے چالیس برس بعد اولمپکس میں جیولن تھرو مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والے سٹار ایتھلیٹ ارشد ندیم نے 92.97 کی تھرو کے ساتھ نہ صرف جیولن فائنل جیتا بلکہ اولمپکس میں 2008 میں قائم کیا گیا ریکارڈ بھی توڑا دیا۔

انھیں اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتانے والی ایک تھرو 92.97 میٹر جبکہ دوسری 91.79 میٹر کے فاصلے تک گئی۔

جب لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے تو یہ یقیناً ایک منفرد لمحہ تھا کہ پاکستان میں کسی ایتھلیٹ کی واپسی کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا تھا اس کے بعد ان کا اپنے گاؤں میاں چنوں میں بھی والہانہ استقبال کیا گیا۔

ارشد ندیم کی اس کامیابی سے پاکستانی قوم کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالاخر ختم ہو گیا ہے۔ اس پر پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ان کے لیے سول ایوارڈ ہلال امتیاز کا اعلان کیا ہے اور اس کے علاوہ ان کے لیے پاکستان میں متعدد انعامات کا اعلان کیا گیا ہے۔

وہ جنوبی ایشیا کے پہلے اور اب تک واحد جیولن تھروئر ہیں جنھوں نے 90 میٹر کے ہدف کو عبور کیا ہے۔

ارشد اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے جبکہ کوئی بھی میڈل جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔

ان سے قبل 1960 میں پہلوان محمد بشیر نے روم اور 1988 میں باکسر حسین شاہ نے سیول اولمپکس میں کانسی کے تمغے جیتے تھے۔

ارشد کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان اولمپکس میں 1992 کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ طلائی تمغے کے لیے پاکستان کا انتظار اس سے بھی کہیں طویل تھا کیونکہ پاکستان نے اولمپکس میں اپنا آخری طلائی تمغہ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں جیتا تھا۔

ارشد کی اس کامیابی کے بعد اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے جن میں سونے اور کانسی کے چار، چار جبکہ چاندی کے تین تمغے شامل ہیں۔

ان 11 میں سے آٹھ تمغے ہاکی جبکہ باقی تین جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔

کشمالہ طلعت (نشانہ باز)

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ کشمالہ طلعت 25 میٹر ایئر پسٹل کے پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئیں۔ کشمالہ طلعت نے پریسیژن راؤنڈ میں 279 اسکور کیے جبکہ ریپڈ راؤنڈ میں مجموعی طور پر 290 سکور کیا۔

قومی شوٹر نے ایونٹ میں مجموعی طور پر چالیس کھلاڑیوں میں سے 22ویں پوزیشن حاصل کی۔

کشمالہ نے خواتین کی 10 میٹر ائیر پسٹل میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور چھ سیریز میں مجموعی طور پر 567 پوائنٹس حاصل کیے۔

اس کے بعد کشمالہ نے گلفام جوزف کے ساتھ مکسڈ ڈبل مقابلوں میں بھی شرکت کی تھی تاہم وہ کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔

پیرس روانگی سے قبل لاہور کی گیریژن شوٹنگ گیلری میں اپنے انٹرنیشنل کوچ کی زیر نگرانی ٹریننگ کے ایک سیشن کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کشمالہ طلعت نے بتایا کہ انھوں نے سنہ 2015 میں شوٹنگ کو ایک مشغلے کے طور پر شروع کیا تھا۔

جلد ہی ان کی صلاحتیں قومی سطح کے کوچز کی نظر میں آئیں جس کے بعد انھیں ٹرائلز کے لیے منتخب کیا گیا جہاں انھوں نے اچھی کارکردگی کی بنیاد پر نیشل گیمز میں جگہ بنائی۔

’اس کے بعد سے میں اب تک کئی مرتبہ نیشنل چیمپیئن رہ چکی ہون اور پانچ سے زیادہ قومی ریکارڈز ہیں جو میں نے خود ہی بنائے اور خود ہی توڑ کر دوبارہ قائم کیے ہیں۔‘

کشمالہ نے شوٹنگ میں آغاز 10 میٹر ایئر پسٹل سے کیا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وہ 25 میٹر سپورٹس پسٹل کی طرف بھی آ گئیں۔

ُپیرس اولمپکس، پاکستان، ارشد ندیم
Getty Images
کشمالہ طلعت کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے ہے

کھیل کی کیٹیگریز کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’10 میٹر ایئر پسٹل میں تمام تر توجہ نشانے پر ہوتی ہے جبکہ 25 میٹر میں آپ کو نشانے کے ساتھ ساتھ سپیڈ، کنٹرول اور ریپڈ فائر کرنے کا سٹیمنا بھی چاہیے ہوتا ہے۔‘

ریپڈ فائر روانڈ میں کھلاڑی کو پسٹل کو 45 ڈگری پر ہولڈ کرنے کے بعد تین سیکنڈ میں اوپر لا کر نشانہ باندھ کر فائر بھی کرنا ہوتا ہے۔

’اس لیے اس کھیل میں ہمیں جسمانی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اعصاب کو مضبوط کرے کی ٹریننگ بھی کرنا ہوتی ہے۔ اس میں ہمیں جسمانی اور اعصابی دونوں قسم کی ٹریننگ چاہیے۔‘

پاکستان کی پہلی خاتون شوٹر کے طور پر اولمپکس میں جانے کے حوالے سے کشمالہ طلعت کہتی ہیں کہ پاکستان میں اب ان سمیت بہت سی ایسی خواتین کھلاڑی ہیں جنھوں نے خواتین کو اس کھیل کی طرف آنے کے لیے راہ دکھائی ہے۔

وہ کہتی ہیں اب پاکستان میں شوٹنگ کے کھیل میں خواتین کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اور مردوں کے ساتھ موازنے میں ان کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔

’ہم کھیلوں کو منسوب کر دیتے ہیں کہ خواتین فلاں کھیل کھیل سکتی ہیں اور فلاں نہیں کھیل سکتیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ خواتین بھی ہر وہ کھیل کھیل سکتی ہیں جو مرد کھیلتے ہیں، وہ بھی مردوں کے برابر ٹیلنٹڈ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان میں معاشرتی سوچ اور رجحان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی کامیابی کے لیے اپنے والدین کی بھی شکرگزار ہیں جنھوں نے "ان کی صلاحیتیوں پر اعتماد کیا اور انھیں وہ کام کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔"

کشمالہ طلعت قومی سطح پر پاکستان آرمی کی طرف سے کھیلتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آرمی نے ان کے لیے اولمپکس کی ٹریننگ کے لیے فارن کوچ کا بندوبست کیا ہے جس سے ان کو اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کا موقع ملا ہے۔

فائقہ ریاض (سپرنٹر)

پاکستان کی فائقہ ریاض سو میٹر ہیٹ ریس میں اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکیں۔ پاکستان کی فائقہ ریاض نے 100 میٹر ہیٹ ریس میں چھٹے نمبر پر رہیں۔ انھوں نے 12.49 سیکنڈز میں 100 میٹر ریس مکمل کی جو ان کی اپنی اب تک کی بہترین کارکردگی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی فائقہ ریاض کو محض چند برس قبل تک یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ اپنے کریئر کو مزید آگے بڑھا بھی پائیں گی یا نہیں۔ انھیں واپڈا کی طرف سے کھیلتے ہوئے نیشنل گیمز کے ٹرائلز کے دوران یکے بعد دیگرے دو انجریز ہوئیں۔

ان انجریز نے لگ بھگ دو برس تک ان کو نیشنل گیمز سے باہر رکھا۔ اس سے قبل 100 میٹر سپرنٹ میں فائقہ ریاض قومی سطح پر اپنا بہترین ٹائم ریکارڈ کر چکی تھیں جو 11.75سیکنڈ تھا۔ یہ پاکستان میں خواتین کی سپرنٹ میں تیز ترین تھا۔

فائقہ ریاض کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے حافظ آباد سے ہے۔ وہ اکاؤنٹنگ اور فنانس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

انھیں امید تھی کہ وہ آنے والے مقابلوں میں اپنے اس ریکارڈ کو مزید بہتر کریں گی تاہم عین وقت پر ان کو انجریز نے آن لیا۔ لاہور کے پنجاب اسٹیڈیم میں ٹریننگ کے دوران بی بی سی سے بات کرتے ہوئے 24سالہ فائقہ ریاض نے بتایا کہ ان کے کوچ کی مدد اور ہار نہ ماننے کی ان کی صلاحیت نے انھیں دوبارہ واپس آنے کا موقع دیا۔

’میرے سامنے ٹرائل ہو رہے ہوتے تھے، اور میں ایک کونے میں اکیلی بیٹھی ہوتی تھی، کوئی بھی میرے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن میں نے خود کو بتایا کہ میں ہار نہیں سکتی، اگر میں ٹریننگ جاری رکھوں گی اور کوشش کرتی رہون گی تو میر وقت بھی آئے گا۔‘

انھیں پہلے ہیم سٹرنگ اور پھر سٹریس فریکچر کی انجریز ہوئیں۔ ان چوٹوں سے صحت یاب ہونے میں انھیں کافی وقت لگا جس کے بعد انھوں نے آہستہ آہستہ دوبار ٹریک پر ٹریننگ شروع کی۔

فائقہ ریاض کہتی ہیں کہ ان کے کوچ فیاض احمد وہ شخص تھے جنھوں نے اس مشکل وقت کے دوران ان کا حوصلہ بڑھایا۔ ’ان کے ساتھ میں نے ٹریننگ شروع کی، ان ہی سے ہدایات لیتی تھی آن لائن، وہ ساہیوال میں رہتے ہیں۔ لیکن میں آج جہاں ہوں اس میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔‘

فائقہ نے انجری کے بعد دو سال تک صحت یابی کے عمل اور ٹریننگ میں گزارنے کے بعد جب پہلی مرتبہ نیشنل گیمز میں حصہ لیا تو وہ 100، 200 میٹر اور لانگ جمپ تینوں مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت گئیں اور چیمپیئن بنیں۔

اس کے بعد انھوں نے لاہور کے ایچیسن کالج میں ہونے والی پاکستان کی تیز ترین خاتون کی کیٹیگری میں ہونے والی ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پیرس اولمپکس میں شرکت کے اپنے خواب کو زندہ رکھا۔

اس مقابلے کے بعد پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن نے ان کا نام وائلڈ کارڈ انٹری کے لیے اولمپک کمیٹی کو بھجوا دیا۔ اور جب ان کی وائلڈ کارڈ انٹری کی تصدیق ہوئی تو فائقہ ریاض بہت پرجوش تھیں۔

’اولمپکس میں جانا میرا خواب تھا جو پورا ہوا۔ اس میں راستے میں بہت سی رکاوٹیں آئیں جن کو میں نے عبور کیا اور محنت کرتی رہی۔ اگر میں انجریز سے دلبرداشتہ ہو کر بیٹھ جاتی اور کھیل ہی چھوڑ دیتی تو شاید میں آج یہاں نہ بیٹھی ہوتی۔‘

فائقہ ریاض زیادہ بین الاقوامی مقابلوں شمولیت نہ کرنے کی وجہ سے براہ راست اولمپکس جیسے مقابلوں میں کوالیفائی نہیں کر پائی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے بھی اب پاکستان میٍں سہولیات موجود ہیں تاہم ان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ خواتین کے لیے ٹریننگ کے حوالے سے معاشرتی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

’یہاں ایک خاتون کھلاڑی کو ایک مرد کوچ کیوں نہیں تربیت دے سکتا۔ اس میں ایسا کیا ہے؟ ہمارے ہاں جب یہ چیز اداروں کے اندر آتی ہے تو اس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ میرے خیال میں ہمارے ہاں کوچز کو اور معاشرے کو ذرا بولڈ ہونے کی ضرورت ہے۔‘

ghulam
Getty Images

غلام مصطفیٰ بشیر (نشانہ باز)

پاکستان کے ایتھلیٹ شوٹر غلام مصطفیٰ بشیر پیرس اولمپکس میں 25 میٹر ریپڈ پسٹل مقابلوں کے پہلے مرحلے میں ہی باہر ہو گئے تھے۔

شوٹنگ کے 25 میٹر ریپڈ فائر کوالیفیکشن کے دو مراحل ہوئے جس میں پاکستانی شوٹر غلام مصطفیٰ بشیر 25 میٹر ریپڈ پسٹل کے مقابلوں کے دوران کوالیفیکشن راؤنڈ میں ٹاپ 6 میں جگہ بنا پانے میں ناکام ہو گئے۔

غلام مصطفیٰ بشیر کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔

وہ ماضی میں ٹوکیو اور ریو اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

37 سالہ پاکستانی نشانہ باز نے 2022 میں مصر کے شہر قاہرہ میں ورلڈ چیمپیئن شپ کے دورن کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

پیرس اولمپکس میں غلام مصطفیٰ 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل مقابلے میں حصہ لیں گے اور ابتدائی راؤنڈ کے بعد اس کا فائنل پانچ اگست کو ہوگا۔

ٹوکیو اولمپکس میں غلام مصطفیٰ بشیر 25 میٹر فائر پسٹل ایونٹ کے دوسرے مرحلے میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، جس کے بعد وہ فائنل مرحلے تک رسائی حاصل نہیں کر سکے تھے۔

گلفام جوزف (نشانہ باز)

شوٹر گلفام جوزف 10 میٹر پسٹل مقابلوں میں اگلے راؤنڈ تک جانے میں ناکام رہے، جبکہ مکسڈ ڈبلز مقابلوں میں بھی ناکام رہے۔

گلفام جوزف ٹوکیو اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور انھوں نے نشانہ بازی کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔

تاہم جہلم سے تعلق رکھنے والے نشانہ باز پہلے راؤنڈ میں ٹاپ آٹھ کھلاڑیوں میں جگہ نہیں بنا سکے تھے اور اگلے مرحلے تک کوالیفائی نہیں کر سکے تھے۔

وہ پہلے راؤنڈ میں نویں پوزیشن پر رہے تھے۔

گلفام جوزف رواں برس انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ہونے والی ایشین چیمپیئن شپ میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

وہ 2022 میں قاہرہ میں ہونے والی عالمی شوٹنگ چیمپیئن شپ میں چھٹی پوزیشن پر رہے تھے اور پیرس اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کر گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

جہاں آرا نبی (تیراک)

جہاں آرا بھی 200 میٹر ہیٹ میں اگلے راؤنڈ میں جانے میں ناکام رہیں اور اپنی ہیٹ میں تیسرے اور مجموعی طور پر 30 تیراکوں میں 26 ویں نمبر پر آئیں۔

انھوں نے اپنے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی دکھائی اور 200 میٹر مقابلوں میں اپنا تیز ترین ٹائم ریکارڈ کیا۔

20 سالہ جہاں آرا نبی کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے اور ان کا خاندان صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں آباد ہے۔

وہ پیرس اولمپکس میں 200 میٹر کی فری سٹائل سوئمنگ ریس میں حصہ لے رہی تھیں۔

وہ ماضی میں کامن ویلتھ گیمز سمیت متعدد بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

جہاں آر نبی نے اپنی انسٹاگرام پروفائل پر پیرس اولمپکس میں شمولیت کو اپنے اور اپنے والدین کی انتھک کوششوں اور محنت کا پھل قرار دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹی سی جہاں آرا یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہو گی۔

محمد احمد درانی (تیراک)

پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نوجوان تیراک محمد احمد درانی دو سو میٹر فری سٹائل مقابلے کے ابتدائی راؤنڈ میں شریک ہوئے اور اپنے مقابلے میں آخری نمبر پر رہے اور 11 سیکنڈ کے فرق سے فائنل مرحلے میں جگہ بنانے سے محروم رہے۔

دبئی میں مقیم پاکستانی تیراک محمد احمد درانی بھی پیرس اولمپکس 200 میٹر کی فری سٹائل سوئمنگ ریس میں حصہ لے رہے تھے۔

ان کا تعلق پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا سے ہے۔ 18 سالہ تیراک نے کچھ دن قبل پاکستانی اخبار ’دا نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’سوئمنگ میں قومی ریکارڈ توڑنا میرے مقاصد میں سے ایک ہو گا۔ میں برق رفتار سوئمنگ کرنا چاہتا ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’اولمپکس میں میرا ہدف ملک کا نام اونچا کرنا اور دیگر بچوں کو دکھانا ہے کہ کرکٹ وہ واحد کھیل نہیں جس پر انھیں توجہ دینی چاہیے، یہاں اور ایتھلیٹس بھی ہیں جو دوسرے کھیلوں میں بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.