قاتل چوٹیوں پر ناممکن کر دکھانے والے مراد سدپارہ جن کی اپنی جان بچانے کوئی نہ پہنچ سکا

مراد سدپارہ کی موت قراقرم کی انھی بلند چوٹیوں میں سے ایک ’براڈ پیک‘ پر ہوئی ہے۔ ان کی لاش آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر واقع اس چوٹی سے واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے اہلخانہ، ساتھی اور دوست احباب اس وقت سکردو کے فوجی ہسپتال میں ان کی میت کی واپسی کے منتظر ہیں۔
کوہ پیما
Getty Images
مراد سدپارہ کی موت دنیا کی بارہویں بلند ترین چوٹی براڈ پیک پر ہوئی ہے

’رسہ ٹوٹ گیا تو میں کیا کروں گا، مزدوری میری مجبوری ہے۔‘ یہ بول کوہ پیما مراد سدپارہ کے ہیں جو وہ ایک چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران گنگنا رہے تھے۔

ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ان کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک ’آن سپاٹ‘ شاعری تھی جب وہ مختلف گانوں کے بول تبدیل کرتے اور ان میں پہاڑوں اور چوٹیوں سے متعلق اشعار نہایت مہارت سے شامل کر لیتے۔

مراد سدپارہ کی موت قراقرم کی انھی بلند چوٹیوں میں سے ایک ’براڈ پیک‘ پر ہوئی ہے۔ ان کی لاش آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر واقع اس چوٹی سے واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے اہلخانہ، ساتھی اور دوست احباب اس وقت سکردو کے فوجی ہسپتال میں ان کی میت کی واپسی کے منتظر ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان الپائن کلب کے نائب صدر ایاز شگری نے ان کی موت کی تصدیق کی اور بتایا کہ ان کے زخمی ہونے کی اطلاع سنیچر کو ملی جب وہ پرتگال کی ایک خاتون کوہ پیما کے ہمراہ براڈ پیک سر کرنے کی مہم پر تھے۔ بدقسمتی سے وہ ان زخموں کی تاب نہ لا سکے۔

کوہ پیما نائلہ کیانی اپنی بڑی مہمات پر انھی کی خدمات حاصل کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 10 اگست کو پرتگالی کوہ پیما کی اس ٹیم کو تاخیر ہونے کی وجہ سے انھیں اپنی مہم منسوخ کرنا پڑی تھی۔

نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ ’مراد سدپارہ کی موت اس وقت ہوئی جب ایک بڑا پتھر ان کے سر پر لگا۔ وہ ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اور رسی کے ساتھ تھے۔ مگر پتھر اتنا بڑا تھا کہ ہیلمٹ کے باوجود ان کے سر میں شدید چوٹیں آئیں۔‘

خیال رہے کہ دنیا کی 12ویں سب سے بڑی چوٹی براڈ پیک قراقرم سلسلے میں واقع ہے۔ مگر اس کا شمار آٹھ ہزار میٹر سے بلند ان چوٹیوں میں ہوتا ہے جو نسبتاً محفوظ سمجھی جاتی ہیں۔ براڈ پیک ان پانچ بڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں واقع ہیں جہاں دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیما مختلف مہمات میں حصہ لیتے ہیں۔

نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ ’کوہ پیمائی کی تقریباً تمام مہمات ختم ہونے والی تھیں جب پرتگال کی ایک خاتون کوہ پیما نے بطور گائیڈ مراد سدپارہ کی خدمات حاصل کیں۔ اس مشن میں ان کے ساتھ ایک نیپالی شرپا بھی شامل تھے۔‘

مراد سدپارہ نے کیمپ تھری تک کوہ پیما کے ساتھ جانا تھا مگر ’غالبا تاخیر کے باعث انھیں مشن منسوخ کرنا پڑا۔ حادثے کے وقت یہ ٹیم کیمپ سے زیادہ دور نہیں تھی۔‘

ان کے مطابق مہم کے دوران موسم بہت اچھا تھا۔ ’سمٹ کرنے کے لیے رات کے وقت کوہ پیمائی کی جاتی ہے تاکہ صبح ہوتے ہی چوٹی سر کر لی جائے۔ لیکن اس دن ٹیم کو روانگی میں تاخیر ہوئی اور جان کو خطرہ ہو سکتا تھا اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سمٹ کرنے کی بجائے کیمپ واپس جائیں گے۔ اس کے کچھ دیر بعد حادثہ ہوا۔‘

مراد سدپارہ کون تھے؟

تینتیس سالہ مراد سدپارہ کا شمار پاکستان کے انتہائی پیشہ ورانہ اور مشہور ترین ’ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز‘ میں ہوتا تھا۔ ان کی شہرت کی خاص وجہ ان کے وہ ریسکیو مشنز ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے کوہ پیماؤں کو بھی مشکل لگتے تھے۔

وہ ان مشنز میں اس وقت حصہ لیتے جب کوئی بھی روانگی کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔

مراد سدپارہ کا تعلق سکردو میں سدپارہ جھیل کے کنارے کوہ پیماؤں کے مشہور گاؤں سدپارہ سے ہے اور انھوں نے کئی سال پہلے کوہ پیمائی کا آغاز کیا تھا۔

وہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو، اور نانگا پربت سمیت پاکستان میں موجود آٹھ ہزار میٹر سے بلند سبھی چوٹیاں کئی بار سر کر چکے تھے۔

انھوں نے گذشتہ برس صرف چھ دن میں، بغیر آکسیجن کے دو بار نانگا پربت سر کی۔ یہ وہ چوٹی ہے جسے کوہ پیما ’موت کا پہاڑ‘ کہتے ہیں۔

ان کی کے ٹو میں اپنی شرٹ اتار کر کھینچی گئی ایک تصویر گذشتہ برس وائرل بھی ہوئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان الپائن کلب کے نائب صدر ایاز شگری کہتے ہیں کہ انھوں نے سالوں پہلے مراد سدپارہ کی تربیت کا آغاز کیا تھا ’کیونکہ ان میں نظر آنے والا ٹیلنٹ کم ہی ملتا ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مراد سدپارہ نہایت سادہ اور شرمیلے ساتھی تھی۔ شروع میں تو وہ کسی سے بات بھی نہیں کر پاتے تھے۔ ہم نے ان کی ہچکچاہت کو کم کیا اور ان کو تربیت بھی فراہم کی۔

’ہم انھیں مہمات پر بھیجتے اور خود بھی ایک نہایت سرگرم انسان تھے۔ صرف پیشہ ورانہ قابلیت ہی نہیں، مراد سدپارہ دل کا امیر انسان تھا، دوسروں کی مدد کرنا اور خوشیاں بانٹنے والا انسان تھا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے رشتہ دار اور صحافی نثار عباس نے بتایا کہ وہ حال ہی میں کے ٹو کے بیس کیمپ میں مراد سدپارہ سے ملے اور ان کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ ’وہ بلند آواز میں گیت گاتے تھے اور کوہ پیما اور پورٹرز ان کے اردگرد بیٹھ جاتے۔ وہ ان بلند وبالا، برف سے ڈھکی چوٹیوں میں سجنے والی محفلوں کی جان ہوتے تھے۔‘

لیکن ان کے مالی حالات تنگ تھے۔ ایاز شگری کے مطابق وہ اپنا گھر چلانے کے لیے ٹریکٹر چلاتے اور مزدوری کرتے تھے۔ ’وہ بہت پروفیشنل پورٹر تھا، ہمارے پاس ایسے ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، مگر ان کے مالی حالات ایسے تھے کہ وہ محنت مزدوری کرتے، کھیتوں میں ٹریکٹر چلاتے تاکہ ان کے خاندان کا گزر بسر ہو سکے۔‘

نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ وہ تین سال سے انھیں جانتی ہیں اور انھوں نے اپنی تمام مہمات میں انھیں ہی لیڈ ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹر کے طور ہائر کرتی رہیں۔ وہ ایک نہایت پیشہ ورانہ انسان اور دوست تھے، اور ان کی موت پاکستان میں کوہ پیماؤں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

’مراد سدپارہ ریسکیو مشنز پر جانے کے لیے ہمیشہ سب سے آگے رہتے تھے‘

’ہم اتنے تھک چکے تھے کہ کسی کی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے اوپر کا مقام ایسا ہرگز نہیں جہاں لوگ اخلاقیات کا بوجھ برداشت کر سکیں‘، یہ الفاظ جان کراکور نے اپنی کتاب ’اِن ٹُو تھِن ایئر: اے پرسنل اکاونٹ آف دی ماونٹ ایورسٹ ڈزاسٹر‘ میں کہے تھے۔ اگر قراقرم اور ہمالیہ کے بلندو بالا، ’قاتل چوٹیوں‘ کو دیکھا جائے تو ان کی بات درست ہی لگتی ہے۔

لیکن مراد سدپارہ اس سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں کے مطابق وہ ان کوہ پیماؤں اور پورٹرز میں سے تھے جو ہر مشکل میں دوسروں کی مدد کرنے پہنچ جاتے۔ وہاں بھی جہاں اور کوئی نہیں جا سکتا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کوہ پیمائی کی تاریخ میں وہ مشکل ریسکیو مشنز کیے ہیں جو اس سے پہلے تک ’ناممکن‘ سمجھے جاتے تھے۔

رواں ماہ ہی انھوں نے ایک ناممکن سمجھا جانے والا مشن مکمل کرنے کے بعد بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ ’دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جو ناممکن ہو اور ہر ناممکن سمجھا جانے والا کام کبھی نہ کبھی ممکن ہو ہی جاتا ہے۔‘

یہ وہ مشن تھا جو کوہ پیما نائلہ کیانی نے حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کے ٹو پر شروع کیا تھا اور حسن شگری کے خاندان کی اپیل کے بعد انہوں نے حسن شگری کی ڈیڈ باڈی واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ اس مشن کو مراد سدپارہ سمیت چار دیگر ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز نے مکمل کیا جو اپنی نوعیت کا پہلا مشن تھا۔ ان کی ٹیم نے کے ٹو کے ’باٹل نیک‘ یعنی ڈیتھ زون پر جہاں سے کوہ پیما جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں پر انھیں کئی گھنٹے گزارنے پڑے اور اس دوران لاش نکالنے کی کوشش میں کئی گھنٹے کدال بھی چلانی پڑی۔

خیال رہے کہ حسن شگری کی موت گزشتہ برس کے ٹو کی باٹل نیک پر ہوئی تھی۔ ان کی موت کے حوالے سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کے ٹو کے اس ڈیتھ زون میں اوندھے پڑے تھے اور کوہ پیماؤں کی لمبی قطار اس مقام سے گزر رہی ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر کوہ پیما کمیونٹی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کی بلندی، دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ سے محض دو سو میٹر کم ہے، جبکہ اس کے ’بوٹل نیک‘ کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ مشن مکمل کرنے کے بعد صحافی محمد زبیر خان سے بی بی سی کے لیے بات کرتے ہوئے مراد سدپارہ نے کہا تھا کہ ’یہ ٹھیک ہے کہ یہ ہمارا پیشہ ہے۔ مگر بوٹل نیک سے لاش کو تلاش کر کے لانے کے بارے میں سوچیں تو پہلے یہی خیال آتا ہے کہ کوہ پیمائی اور پھر کے ٹو پر یہ کھیل بہت خطرناک ہے۔ مگر بوٹل نیک سے لاش کو لانا یہ تو بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔ مگر ہم نے اپنے دل سے سوچا کہ حسن شگری ہمارا پیٹی بھائی تھا۔ اس کے بال بچے اب بھی تڑپ رہے ہوں گے۔ ویسے بھی دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جو ناممکن ہو اور ہر ناممکن سمجھا جانے والا کام کبھی نہ کبھی ممکن ہو ہی جاتا ہے۔‘

آج جس پہاڑ پر ان کی موت ہوئی ہے یہیں کیمپ تھری سے گذشتہ برس وہ ایک افغان کوہ پیما کی ڈیڈ باڈی بھی نیچے لائے تھے۔ انہوں نے اس سے قبل براڈ پیک سے ہی درجن بھر کوہ پیماؤں کو ریسکیو کر کے لائے تھے۔

کے ٹو
Getty Images

ریسکیو مشن میں تاخیر: ’ہم مراد کی مدد کو جلد پہنچ جاتے تو آج کی خبر مختلف ہوتی‘

سوشل میڈیا پر مراد سدپارہ کے لیے ریسکیو مشن میں تاخیر کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ ’دی ناردرنر‘ نامی ایکس صارف نے مراد سدپارہ کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایک بار پھر ایک تاخیر کا شکار ریسکیو آپریشن کی وجہ سے تینتیس سالہ کوہ پیما کی جان چلی گئی۔ ایک ماونٹین ریسکیو سسٹم بنانے کے لیے آخر ہمیں اور کتنے بیٹے گنوانے پڑیں گے؟‘

سید ابرار حسین نامی ایک اور ایکس صارف لکھتے ہیں: ’ریسکیو کر کے قیمتی جانیں بچانے والا عظیم ہیرو مراد سدپارہ آج خود ریسکیو کے لیے ترستا رہا اور ہم سے بچھڑ گیا۔‘

کوہ پیما نائلہ کیانی جنہوں نے سب سے پہلے ان کے لیے ریسکیو مشن بھیجنے کے لیے آواز اٹھائی، نے تاخیر کا شکار ہونے والے اس مشن پر سوال اٹھائے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ’گزشتہ دو دنوں میں انتظامی امور کی تکمیل میں قیمتی وقت ضائع ہوا ہے۔ اس وقت کا بہتر طریقے سے استعمال ہو سکتا تھا۔ اور شاید ہم مراد کی مدد کو جلد پہنچ جاتے تو آج کی خبر مختلف ہوتی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہیلی کاپٹر ریسکیوز کوہ پیماؤں اور پورٹرز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ’آگے بڑھتے ہوئے ہمیں ایس او پیز کی ازسرنو نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ ایسے واقعات کے لیے ریسکیو مشن میں تاخیر نہ ہو۔‘

https://twitter.com/northerner_the/status/1822872078288101718?s=46&t=GxH2rXbFMqoval-RPWOuPA

’پاکستان کے پہاڑوں پر کوئی ریسکیو سروس نہیں‘

مراد سدپارہ کی موت نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ پاکستان میں کوہ پیماؤں کے لیے ریسکیو سروسز کا فقدان کیوں ہے۔ اس جانب کوہ پیما نائلہ کیانی اور نائب صدر الپائن کلب ایاز شگری، دونوں نے ہی اشارہ کیا ہے۔

نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک ’آرگنائزڈ، سٹرکچرڈ ریسکیو سروس موجود ہی نہیں جیسا کہ باقی دنیا نیپال، یورپ، امریکہ کینیڈا، چین وغیرہ میں ہے۔‘

ان کے مطابق ہمارے پاس دنیا میں کئی بلند چوٹیاں ہیں مگر ریسکیو ٹیموں کی تعداد صفر ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایک منظم ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے ’مین پاور‘ بھی نہیں ہے۔ ’ہمارے ہاں کوہ پیماؤں اور پورٹرز کو جگہ جگہ سے جمع کیا جاتا ہے، ان کی منتیں کی جاتی ہیں۔

’ریسکیو مشن پر جانے کے لیے کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر بھی آگے آ جاتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ کسی چوٹی کے بیس کیمپ میں ایکسٹرا کوہ پیما یا ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز موجود ہوں۔ ایسی صورت میں سکردو سے ایسے افراد کو لایا جاتا ہے۔ لیکن پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اس وقت ہزاروں میٹر کی اس بلندی سے اکلائماٹائیزڈ ہوں۔ اس اکلائماٹیزیشن کے بغیر ان ریسکیو مشنز کو بھیجنا خود ان کی جان کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔‘

غیرملکی کوہ پیماؤں کی تو انشورنس ہوتی ہے مگر ان کے ہمراہ جانے والے پاکستانی پورٹرز کے لیے ہزاروں ڈالرز کی یہ انشورنس، خاص طور پر ہیلی کاپٹر ریسکیو مشنز ان کی استطاعت سے باہر ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں قوانین بھی موجود نہیں جو کوہ پیماؤں کو پابند کریں کہ وہ اپنے ساتھ لے جانے والے پورٹرز کی ہیلی کاپٹر مشنز کے لیے انشورنس کرائیں گے۔

نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ ’ان کی مدد عام طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جو پاکستان آرمی مفت فراہم کرتی ہے۔ یہ کبھی تو ان کے اپنے لاجسکٹس مشن کے حصوں کا حصہ ہوتا ہے اور کبھی آزادانہ طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو اینڈ سرچ مشنز کیے جاتے ہیں۔

’لیکن فوج کے ہیلی کاپٹرز کے مشنز کے لیے سخت اور طویلایس او پیز ہیں۔ اگر فوج سے ہٹ کر ایسی منظم باڈی تشکیل دی جائے جو فوری طور پر مشنز کا آغاز کر سکے تو برف کی چوٹیوں پر جان ہارنے والے ان کوہ پیماؤں اور پورٹرز کی قیمتیں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔‘

کوہ پیما
Getty Images
پاکستانی فوج کا ایکورل ہیلی کاپٹر نانگا پربت پر ایک ریسکیو مشن کر رہا ہے

ہیلی کاپٹر کے مشنز میں کن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ فوجی ہیلی کاپٹروں کے ہائی آلٹیٹیوڈ مشنز کے لیے سخت قواعد و ضوابط موجود ہیں جن کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گلگت بلتستان میں فوج کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہاں بلند و بالا چوٹیوں میں لاجسٹیکس اور ریسکیو مشنز کے لیے روز ہی ہیلی کاپٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ان علاقوں میں مشنز کے لیے ایم آئی سیونٹین اور ایکورل ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان میں ایم آئی سیونٹین اپنے بڑے سائز کی وجہ سے تنگ پہاڑیوں کے بیچ سے نہیں گزر سکتا، اس لیے اس ہیلی کاپٹر پر کم رسک لیا جاتا ہے۔

تاہم ایکورل اپنے سائز میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان مشنز کو کامیابی سے سرانجام دیتا ہے۔ لیکن بلندی اور موسم دو ایسے عوامل ہیں جو ہیلی کاپٹر مشنز کو روک دیتے ہیں۔

پاکستان میں مسلح افواج کے زیر استعمال ہیلی کاپٹرز کے لیے، خاص طور پر اس وقت جب ان میں کسی سویلین نے سوار ہونا ہو، کی اجازت جی ایچ کیو سے لی جاتی ہے۔

چیف آف جنرل سٹاف کی توثیق حاصل کرنے سے پہلے متعلقہ علاقے میں موسم اور بلندی جہاں تک ہیلی کاپٹر اڑ سکتا ہے، کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

اگر موسم ٹھیک نہ ہو تو عام طور پر ہیلی کاپٹر کو پرواز کے لیے نہیں بھیجا جاتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ ’ہیلی کاپٹر میں پائلٹ، کو پائلٹ سمیت چار اہلکار کا تعلق تکنیکی عملے سے ہوتا ہے، جو لازمی طور پر ہر فلائٹ کے دروان جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔

’اگر ریسکیو مشن ہے تو طبی عملے کا کم از کم ایک اہلکار ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوہ پیماؤں کو ڈراپ کرنا ہو تو یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اب ایسی صورت میں اگر اس بلندی پر موسم خراب ہے تو ہیلی کاپٹر کی پرواز منسوخ کر دی جاتی ہے کیونکہ ایسی پرواز کا مطلب ہے اس ہیلی کاپٹر میں سوار ان درجن بھر لوگوں کو موت کی منھ میں بھیجنا۔‘

دوسری جانب ان ہیلی کاپٹرز کی بلندی پر پرواز کے حوالے سے صلاحیت محدود ہے۔ مثلا ایئربس کمپنی کا ایکورل ہیلی کاپٹر کی پرواز کی حد سات ہزار میٹر کی بلندی ہے۔

تاہم بعض ایسی مثالیں موجود ہیں جب اس جہاز کے جدید ورژنز نے آٹھ ہزار میٹر سے اوپر اڑان بھری۔ مثلا 2005 میں اس نے ماؤنٹ ایورسٹ پر آٹھ ہزار آٹھ سو میٹر سے زائد بلندی پر ٹیسٹ فلائٹ کی۔

اب تک اس ہیلی کاپٹر سے کیا بلند ترین ریسکیو مشن 2013 میں ماونٹ ایورسٹ پر 7800 میٹر کی بلندی پر کیا گیا، جبکہ اس سے پہلے 2010 میں ماونٹ ایورسٹ پر اناپرنا ون پر 6900 میٹر کی بلندی پر کیا گیا تھا۔

لیکن یہ تمام ہیلی کاپٹر مشنز انتہائی مہنگے ہوتے ہیں اور فی گھنٹہ کے حساب سے فیس وصول کی جاتی ہے۔ اگر ریسکیو مشن کے لیے بلندی زیادہ ہے تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریب ترین بیس کیمپ تک کوہ پیماؤں کو ڈراپ کیا جاتا ہے جہاں سے وہ اپنے مشن کا آغاز کرتے ہیں۔

کوہ پیماؤں کے مطابق ملک میں کوہ پیمائی کے علاقوں میں ایک منظم ریسکیو سروس کا نہ ہونا، انشورنس کے لیے مالی معاونت کی عدم موجودگی اور پورٹرز کی غربت، قیمتی لوگوں کی موت کا باعث بن رہی ہے۔

بلند ترین پہاڑی سلسلے جہاں سانس جاری رکھنا سب سے مشکل کام ہے، وہاں یہ پورٹرز انتہائی غیرمنافق حالات سے لڑتے ہوئے اپنے مشن مکمل کرتے ہیں۔

یہ سب وہ مشکلات ہیں جو خود مراد سدپارہ اپنی سادہ شاعری اور نغموں میں سناتے رہتے۔

ان کی نثار عباس کے ساتھ چند ہفتے قبل کے ٹو کے بیس کیمپ میں فلم کی گئی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ گنگنا رہے ہیں کہ ’میں کیوں برباد ہوا؟ کے ٹو سے پوچھیے۔‘

نثار عباس کے مطابق کے ٹو کی بجائے یہی سوال ’انتظامیہ اور حکومت سے بنتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.