شمی کپور، وہ ’باغی‘ اداکار جس نے بالی وڈ ہیرو کا تصور بدل ڈالا

image

یہ بالی وڈ کے ایک ایسے اداکار کی کہانی ہے جو اپنی فلموں کی مسلسل ناکامی پر دل گرفتہ تھا۔

باپ ایک عظیم اداکار، بڑا بھائی ایک کامیاب ہدایت کار، اداکار اور پروڈیوسر مگر اس کے باوجود اس نوجوان پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہو رہی تھی۔

اور جب 18 ویں فلم بھی ناکام ہو گئی تو اُس نے اداکاری کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور انڈین ریاست آسام میں چائے کے باغات کا انتظام سنبھالنے پر تیار ہو گیا تھا۔

اس وقت اس نوجوان اداکار نے مگر اپنی جیون ساتھی کی بات مانی اور اپنی اداکاری کو یکسر مختلف آہنگ دیا جس میں شوخی تھی، رومان تھا اور جسم کا ہر حصہ حرکت کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

فلم بینوں نے جب سال 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تم سا نہیں دیکھا‘ دیکھی تو وہ اختیار کہہ اٹھے کہ ’واہ، اس سا کوئی نہیں دیکھا۔‘ اس فلم میں اس نے آنکھوں یا چہرے سے ہی نہیں بلکہ جسم کے ہر حصے کو یوں تحریک دی تھی جس نے بالی وڈ میں ہیرو کا ایک نیا تصور دیا اور یہ اداکار آنے والے برسوں میں بالی وڈ کے ’ایلوس پریسلے‘کے نام سے مشہور ہوا۔

یہ کہانی بالی وڈ کے عظیم اداکار شمی کپور کی کہانی ہے جنہوں نے اپنی اداکاری سے ایک دنیا کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔

بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے ایک بار کہا تھا کہ ’یہ پریسلے ہیں جنہیں امریکا کا شمی کپور کہا جانا چاہیے۔‘

عامر خان ہی نہیں، شمی کپور بالی وڈ کے عظیم اداکار نصیرالدین شاہ کے پسندیدہ اداکاروں کی فہرست میں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’میں اگرچہ شمی کپور کو ایک ’عظیم اداکار‘ تصور نہیں کرتا مگر اس کے باوجود مجھے اُن سے بے انتہا محبت ہے۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اُن سے محبت کرتا ہوں۔ ہم محبت کیوں کرتے ہیں؟ اس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ گیتوں پر جس طرح گایا کرتے، میرا نہیں خیال کوئی انڈین فنکار ایسا کر سکتا ہے۔ اُن کی اداکاری میں ایک توانائی، ایک تازگی اور نیا پن تھا حتیٰ کہ اُن پر پکچرائز ہوئے گیتوں میں بھی اُن کی پرفارمنس میں نیا پن ہوتا۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ دل کی طرف اشارہ نہیں کریں گے۔ وہ کبھی ایسے اشارے (جیسا کہ مَیں، تم، آسمان) نہیں کریں گے۔ وہ کچھ مختلف کریں گے جو تال کے ساتھ درست طور پر ہم آہنگ ہو۔ اور جو مجھے متاثر کن لگتا ہے۔ اور کوئی دوسرا اداکار ایسا نہیں کر سکا۔‘

شمی کپور کا جنم 21 اکتوبر 1931 کو بمبئی (موجودہ ممبئی) میں ہوا۔ اُن کے والد پرتھوی راج کپور ایک معروف اداکار تھے اور دنیائے سنیما کی تاریخ کے عظیم ترین کپور خاندان کے بانی تھے۔

پشاور کے پنجابی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والے پرتھوی راج کپور نے بالی وڈ میں طبع آزمائی کے لیے بمبئی کا رُخ کیا تھا اور پھر اِسی شہر کے ہو کے رہ گئے۔

شمی کپور نے ابتدا میں ’مرزا صاحباں‘، ’لیلیٰ مجنوں‘ اور ’شمع پروانہ‘ ایسی فلموں میں سنجیدہ کردار ادا کیے تھے (فائل فوٹو: ایکسپریس آرکائیو)شمی کپور نے سال 1953 میں ڈیبیو کیا تو اُس وقت تک اُن کے بڑے بھائی راج کپور ایک اداکار، ہدایت کار اور فلم ساز کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے تھے اور فلم ’آوارہ‘ کے ذریعے اُن کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی جس میں پرتھوی راج کپور اور ششی کپور کے علاوہ اُن کے دادا دیوان بشیشورناتھ کپور بھی ایک مختصر کردار میں نظر آئے تھے۔

یوں کپور خاندان کی چار نسلیں بڑے پردے پر پہلی بار ایک ساتھ نظر آئی تھیں۔

شمی کپور کی زندگی میں اُس وقت فیصلہ کن موڑ آیا جب وہ سال 1955 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مس کوکا کولا‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ اِس فلم میں شمی کپور اور گیتا بالی پہلی بار یکجا ہوئے تھے اور یہیں سے شروع ہوئی حقیقی زندگی کی ایک یادگار پریم کہانی۔

یہ دونوں فنکار دوبارہ معروف ہدایت کار کیدار شرما کی فلم ’رنگین راتیں‘ میں نظر آئے جس کی ریلیز کے محض چار ماہ بعد سال 1955 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔

اُن کی شادی کی کہانی میں ڈرامہ ہے، رومان ہے اور وہ تمام مسالے ہیں جو بالی وڈ فلموں کا خاصا رہے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ’رنگین راتیں‘ کی شوٹنگ تو ختم ہو گئی مگر شمی اور گیتا کی محبت کے چرچے ہونے لگے تھے۔ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو ایک روز شمی کپور نے گیتا کو فون کیا اور کہا:

’میں آپ کو لینے آ رہا ہوں۔‘

گیتا بالی تیار تھیں۔ اس رات خوب مینہ برسا۔ وہ دونوں مندر گئے۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ وہ دونوں مندر میں ہی رُکے رہے اور پجاری کا انتظار کرتے رہے جو صبح چار بجے مندر آئے اور یوں دونوں کی محبت کو منزل مل گئی۔

شمی کپور اور گیتا بالی سال 1955 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ امرتسر کی گیتا بالی کا شمار اُس وقت کی کامیاب اداکاراؤں میں کیا جاتا تھا اور وہ ’بھنورے نین‘، ’البیلا‘، ’بازی‘، ’جال‘، ’وچن‘، ’ملاپ‘ اور ’فرار‘ جیسی سپرہٹ فلموں میں آ چکی تھیں۔ یہ گیتا بالی ہی تھیں جن کے مشورے پر شمی کپور نے اداکاری کا مختلف اسلوب اختیار کیا۔

گیتا بالی کے سیکرٹری سریندر کپور پرتھوی راج کپور کے کزن تھے اور ان کی دعوت پر ہی وہ پشاور سے دہلی آئے تھے۔ وہ آنے والے برسوں میں بالی وڈ کے معروف سرندر کپور خاندان کے بانی قرار پائے جس کے ارکان میں انیل کپور، بونی کپور، سنجے کپور، سری دیوی، سونم کپور اور جھانوی کپور نمایاں ہیں۔

شمی کپور نے اگرچہ راج کپور کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ابتدا میں ’مرزا صاحباں‘، ’لیلیٰ مجنوں‘ اور ’شمع پروانہ‘ ایسی فلموں میں سنجیدہ کردار ادا کیے تھے مگر گیتا بالی کے مشورے پر جب انہوں نے اپنی اداکاری کا انداز تبدیل کیا تو کامیابی اُن پر مہربان ہو گئی۔

سال 1957 بالی وڈ کی تاریخ کا ایک یادگار سال تھا۔ اس سال گرو دَت کی فلم ’پیاسا‘، دلیپ کمار کی فلم ’نیا دور‘ اور محبوب خان کی فلم ’مدر انڈیا‘ ریلیز ہوئیں۔

یہ بالی وڈ کی تاریخ کی یادگار اور کامیاب ترین فلمیں ہیں۔ اس سال ہی کہانی کار ناصر حسین کی ہدایت کار کے طور پر ڈیبیو فلم ’تم سا نہیں دیکھا‘ ریلیز ہوئی جس نے اپنے یادگار گیتوں اور شمی کپور کی شاندار اداکاری کے باعث زبردست کامیابی حاصل کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے لیے پہلے اولڈ راوین دیو آنند سے رابطہ کیا گیا تھا جن کے انکار پر سنیل دَت کو اس فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی گئی مگر جب وہ بھی دستیاب نہ ہوئے تو شمی کپور کو فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا گیا جب کہ فلم کی ہیروئن امیتا تھیں جنہیں فلمستان سٹوڈیوز کے مالکان کی سرپرستی حاصل تھی اور ان کے وارڈروب اور میک اَپ پر خاص توجہ دی گئی اور فلم کی تشہیر کے لیے بھی انہی کا نام استعمال کیا گیا مگر جب فلم ریلیز ہوئی تو یہ شمی کپور تھے جن پر کامیابی کے بند در وا ہو چکے تھے۔

اس فلم کے یوں تو تمام گیت ہی مقبول ہوئے مگر یہ دوگانا:

’سر پر ٹوپی لال

ہاتھ میں ریشم کا رومال

اوہ تیرا کیا کہنا

اوئے، گورے گورے گال

گال پہ الجھے الجھے بال

اوہ تیرا کیا کہنا،

یا یہ گیت:

’چھپنے والا سامنے  آ

چھپ چھپ کر میرا جی نہ جلا

سے شمی کپور انڈین فلم انڈسٹری کے ایک غیرروایتی ہیرو کے طور پر ابھرے جب کہ ان کا اور رفیع جی کا ایک ایسا تخلیقی رشتہ استوار ہوا جس نے بالی وڈ میں سنگیت کی روایت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

فلم کے ہدایت کار ناصر حسین مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان کے چچا اور اداکار عمران خان کے دادا ہیں۔

عامر خان کی پہلی فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ اور ’جو جیتا وہی سکندر‘کے ہدایت کار منصور خان ناصر حسین کے صاحب زادے ہیں۔ ناصر حسین انڈین سنیما میں مختلف اختراعات کرنے کی وجہ سے یاد کیے جاتے ہیں جس کے باعث انہیں بالی وڈ کا رجحان ساز ہدایت کار کہا جاتا ہے۔

سال 1959 میں ریلیز ہوئی ناصر خان کی دوسری فلم میں بھی شمی کپور ہیرو کے طور پر نظر آئے۔ یہ فلم ایک بار پھر باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اس فلم کے ذریعے ہی بالی وڈ کی معروف اداکارہ آشا پاریکھ نے اپنا ڈیبیو کیا تھا اور یہ فلم اداکارہ کی 17 ویں سالگرہ پر ریلیز ہوئی تھی۔

ناصر حسین کی پہلی فلم کی طرح اس فلم کے گیت نگار بھی سلطان مجروح پوری ہی تھے جب کہ گلوکار محمد رفیع نے شمی کپور کو اپنی آواز دی تھی۔

اور شمی کپور کی ایک اور یادگار فلم ’تیسری منزل‘ کے ہدایت کار تو اگرچہ ناصر حسین نہیں تھی مگر انہوں نے یہ فلم پروڈیوس کی تھی۔

شمی کپور نے اپنی سوانح عمری ’کھلم کھلا‘ میں اپنے چچا شمی کپور کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)اس فلم میں ایک بار پھر شمی اور آشا بڑے پردے پر نظر آئے۔ محمد رفیع اور آشا بھوسلے کی آوازوں میں گائے گئے یہ دو گانے:

او حسینہ زلفوں والی جانِ جہاں

ڈھونڈتی ہیں کافر آنکھیں کس کا نشاں

محفل محفل اے شمع پھرتی ہو کہاں

یا

آ جاجا، میں ہوں پیار تیرا

اللہ اللہ انکار تیرا، اوہ

اور

’اوہ میرے سونا رے سونا رے‘

نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور موسیقار آر ڈی برمن کے کریئر میں اہم سنگِ میل ثابت ہوئے۔

شمی کپور کی ایک اور کامیاب فلم ’جنگلی‘ تھی۔ یہ سائرہ بانو کی ڈیبیو فلم تھی۔ اس فلم کا گیت:

’چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے

کہنے دو جی کہتا رہے

ہم پیار کے طوفانوں میں گھِرے ہیں

ہم کیا کریں‘

محمد رفیع اور شمی کپور کی کامیاب تخلیقی شراکت داری کا مظہر ہیں۔ یہ شمی کپور کی پہلی رنگین فلم تھی۔

سال 1964 میں ریلیز ہوئی فلم ’کشمیر کی کلی‘ میں شمی کپور کے مقابل شرمیلا ٹیگو نظر آئی تھیں۔ یہ اداکارہ کی پہلی ہندی فلم تھی جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمی کپور کس طرح بالی وڈ کی تین اپسرائوں آشا پاریکھ، سائرہ بانو اور شرمیلا ٹیگور کا کامیاب فلمی سفر شروع کرنے کا باعث بنے۔

شمی کپور کی کامیاب فلموں میں’پروفیسر‘، ’چائنا ٹاور‘، ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘، ’بلف ماسٹر‘، ’جانور‘، ’راج کمار‘، ’بدتمیز‘، ’این ایوننگ اِن پیرس‘، ‘’برہم چاری‘، ’تم سے اچھا کون ہے‘ اور ‘انداز‘ شامل ہیں۔ ’برہم چاری‘ پر شمی کپور کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

عامر خان اور نصیرالدین شاہ ہی نہیں بلکہ رَشی کپور اور رنبیر کپور بھی شمی کپور کی اداکاری کے مداح رہے۔

رشی کپور نے اپنی سوانح عمری ’کھلم کھلا‘ میں اپنے چچا شمی کپور کو کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ’شمی چچا ہمارے پسندیدہ تھے۔ پاپا صرف پاپا جیسے تھے، ہم انہیں سٹار کی طرح نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن شمی چچا کو دیکھنا ایک سٹار کو دیکھنے جیسا تھا۔‘

رنبیر کپور نے شمی کپور پر بنائی گئی دستاویزی فلم میں کہا تھا ’میرے والد رشی کپور کہا کرتے تھے کہ آپ اگر رومانس سیکھنا چاہتے ہیں تو شمی کپور سے سیکھیں۔ دراصل جب وہ اپنی اداکاراؤں کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو ان کی آنکھوں سے لگتا تھا کہ وہ ان سے محبت کر رہے ہیں۔‘

شمی کپور نے صرف بڑے پردے پر ہی رومانس نہیں کیا۔ وہ حقیقی زندگی میں بھی اپنے افیئرز کی وجہ سے خبروں میں رہے۔

اُن کی پہلی محبت نوتن تھیں جن کے بارے میں شمی کپور کہا کرتے تھے کہ وہ ان کے بچپن کی گرل فرینڈ ہیں۔ یہ بیل مگر منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کے بعد وہ مدھو بالا پر فریفتہ ہوئے۔ بات نہ بنی اور تب ہی ان کی زندگی میں گیتا بالی آئیں۔

ان کی یہ پریم کہانی اس وقت سال 1965 میں دردناک انجام سے دوچار ہوئی جب گیتا بالی چیچک کے مرض کا شکار ہو گئیں اور تین ہفتے اس بیماری کا شکار رہنے کے بعد چل بسیں۔

گیتا بالی کی موت کے بعد شمی کپور اور ممتاز کا افیئر چرچا میں رہا۔ دونوں کی محبت بریک اَپ پر ختم ہوئی۔

سال 1964 میں ریلیز ہوئی فلم ’کشمیر کی کلی‘ میں شمی کپور کے مقابل شرمیلا ٹیگو نظر آئی تھیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)اس بارے میں ممتاز نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ’گیتا بالی کی موت کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ یہ سلسلہ دو تین سال تک چلتا رہا۔ پھر انہوں نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور شادی کی پیشکش کی۔ میں بھی ان سے بہت محبت کرتی تھی لیکن شمی کپور نے مجھے شادی کی پیشکش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں شادی کے بعد کام نہیں کر سکتی کیوں کہ جتنی بھی خواتین کپور خاندان میں شادی کرتی ہیں، وہ شادی کے بعد کام نہیں کرتیں۔‘

اداکارہ نے مزید کہا تھا کہ ’میں اس وقت  17 برس کی تھی، شمی کپور مجھ سے دگنا عمر کے تھے۔ میں نے شمی کپور سے شادی کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ میں صرف گھریلو خاتون بن کر اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔‘

ممتاز کے مطابق ’شمی کپور کو یہ سن کر غصہ آگیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کو مجھ سے محبت تھی ہی نہیں، محبت ہوتی تو میری شادی کی پیشکش کو کبھی نہ ٹھکراتیں اور فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیتیں لیکن آپ صرف محبت کا دکھاوا کر رہی تھیں تاکہ آپ کو میری وجہ سے فلموں میں کام مل سکے۔‘

یوں یہ محبت بھی دردناک انجام سے دوچار ہوئی جس کے بعد اداکار کا بینا رمانی کے ساتھ افیئر خبروں میں رہا مگر بات آگے نہ بڑھ سکی اور اداکار نے بالآخر نیلا دیوی کے ساتھ ارینج میریج کر لی۔ یہ رشتہ اُن کے لیے راج کپور کی بیوی اور اُن کی بھابھی کرشنا کپور نے تلاش کیا تھا۔ یوں سال 1969 میں دونوں کی شادی ہو گئی اور اس رشتے کو شمی کپور نے مستقل مزاجی کے ساتھ نبھایا۔

اس دوران شمی کپور کی فلم ’راجکمار‘کے گیت ’یہاں کے ہم راجکمار‘ کو فلماتے ہوئے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ کئی مہینوں تک ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔ وہ اس دوران موٹاپے کا شکار ہو گئے اور سال 1971 میں ریلیز ہوئی فلم ’انداز‘ شمی کپور کی آخری سولو ہٹ تھی جس کے بعد وہ کچھ عرصہ کے لیے بڑے پردے سے دور رہے۔

اس سے قبل سال 1970 میں راج کپور کی فلم ’میرا نام جوکر‘ باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی تھی۔ وہ مالی مشکلات کا شکار تھے اور اپنے کریئر کو آگے بڑھانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ چھوٹے بھائی ششی کپور دن رات شوٹنگز میں مصروف رہتے۔ ان کے والد پرتھوی راج کپور اور والدہ کینسر کا سامنا کر رہے تھے۔ اس وقت شمی کپور نے دن رات ان کی خدمت کی مگر سال 1972 میں پرتھوی کپور وفات پا گئے جس کے چند روز بعد ہی ان کی والدہ بھی چل بسیں۔

اور یہاں سے ان کی زندگی کی دوسری اننگز شروع ہوئی اور وہ معاون اداکار کے طور پر نظر آنے لگے۔ انہوں نے اپنے اس دور میں ’پریم روگ‘، ’پرورش‘، ’ہیرو‘،’ودھاتا‘، ’چمتکار‘ اور ’گردش‘ جیسی سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ وہ غالباً ان معدودے چند اداکاروں میں شامل ہیں جو 40 سال کی عمر میں ہی کیریکٹر ایکٹر کے طور پر نظر آنے لگے تھے۔ ’ودھاتا‘ کے لیے شمی کپور کو بہترین معاون اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شمی کپور ایک بہترین اداکار تھے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب کھوجنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ ایک ایسے ’باغی‘  تھے جنہوں نے بالی وڈ کے ہیرو کا تصور ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا اور بڑے پردے پر زندگی کو اپنے کرداروں میں یوں متحرک کیا کہ اَمر ہو گئے۔

فلم ’چائنا ٹاؤن‘ کا محمد رفیع کی آواز میں گایا یہ گیت:

بار بار دیکھو

ہزار بار دیکھو

یہ دیکھنے کی چیز ہے

ہمارا دل رُبا

یا

پرنس‘ کا یہ گیت:

بدن پہ ستارے لپیٹے ہوئے

او جانِ تمنا کدھر جا رہی ہو

ذرا پاس آؤ تو چین آ جائے

سے ان کی باغیانہ تصویر ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے اور یہی اُن کی اداکاری کا کمال تھا۔

سال 1971 میں ریلیز ہوئی فلم ’انداز‘ شمی کپور کی آخری سولو ہٹ تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)شمی کپور نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہر ایک کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا ہے۔ آپ بہت سی تصاویر دیکھتے ہیں، آپ کو کچھ شیڈز پسند آتے ہیں اور آپ ان سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے ان کو چوری کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں نے زندگی میں دیوداس تو نہیں کی لیکن ہاں، میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ میں نے ان گیتوں میں اپنے بہترین تاثرات دیے جن پر میں نے پرفارم کیا۔ مجھے اس پر فخر ہے۔‘

بالی وڈ کا یہ باغی اداکار آج ہی کے روز 14 اگست 2011 کو چل بسا۔ یہ ایک ایسے اداکار کی موت تھی جس نے بالی وڈ کے لگے بندھے اصولوں سے بغاوت کی تھی اور ایک زندہ دل ہیرو کا تصور دیا جو گاتا ہے، رقص کرتا ہے اور زندگی کی تکلیفوں کو اپنی مستی میں پھونک دیتا ہے… اور یہ وہ وجہ ہے جس کے باعث فلم بین آج تک بالی وڈ کے یاہو سٹار اور دی گیم چینجر شمی کپور کو بھلا نہیں سکے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.