ایڈیڈاس اور پوما: دو بھائیوں کی دشمنی سے پیدا ہونے والی کمپنیاں جنھوں نے کھیلوں کی دنیا کی کایا ہی پلٹ دی

ایک معروف کہاوت ہے کہ ’بھائی سے اچھا نہ دوست کوئی، بھائی سے برا نہ دشمن کوئی۔‘ یہ بات ہمیں عام زندگیوں میں بھی نظر آتی ہے لیکن جرمنی کے دو بھائیوں کی لڑائی نے نہ صرف پورے شہر کو بانٹ دیا بلکہ ان کی لڑائی سے ایک ایسی دشمنی پیدا ہوئی جس نے کھیل کی دنیا میں سپانسرشپ کا ایسا مقابلہ کھڑا کیا جو آج تک جاری ہے۔
ایڈیڈاس اور پوما کی جنگ جو تقریبا 60 سال جاری رہی
Getty Images
ایڈیڈاس اور پوما کی جنگ جو تقریبا 60 سال جاری رہی

ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’بھائی سے اچھا نہ دوست کوئی، بھائی سے برا نہ دشمن کوئی۔‘ یہ بات ہمیں عام زندگیوں میں بھی نظر آتی ہے لیکن جرمنی کے دو بھائیوں کی لڑائی نے نہ صرف ایک پورے شہر کو تقسیم کر دیا بلکہ ان کی لڑائی سے ایک ایسی دشمنی پیدا ہوئی جس نے کھیل کی دنیا میں سپانسر شپ کا ایک ایسا مقابلہ کھڑا کیا جو آج تک جاری ہے۔

مشروبات کی دنیا میں کوکا کولا اور پیسپی کے درمیان مقابلہ ہو یاپھر ہوا بازی کے شعبے میں ایئربس اور بوئنگ کی مسابقت لیکن کوئی بھی مسابقت اتنی گہری نہیں جتنی کہ جوتے بنانے والی کمپنیوں پوما اور ایڈیڈاس کے درمیان رہی۔

پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی کے دو بھائیوںڈیسلر برادران نے ’گیڈا‘ نامی جوتے بنانے کی کمپنی قائم کی تھی لیکن یہ کمپنی دوسری عالمی جنگ کے دوران بند ہو گئی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی علیحدہ علیحدہ کمپنیاں قائم کیں۔ اس کے بعد روڈولف ڈیسلر اور ایڈی ڈیسلر کے درمیان ایک ایسی دشمنی یا مسابقت شروع ہوئی جو کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے۔

حال ہی میں ان دونوں کمپنیوں کی مسابقت حماس اور اسرائیل جنگ کے دوران بھی نظر آئی، جب پوما نے اسرائیلی فٹبال ٹیم کی سپانسرشپ سے کنارہ کشی اختیار کی جبکہ ایڈیڈاس کے سی ای او نے فلسطین میں یہ کہتے ہوئے اپنی سپانسرشپ بند کر دی کہ وہاں بڑے پیمانے پر بچوں کی اموات ہوئی ہیں لیکن دوسری جانب اس کمپنی نے فلسطین نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید کو سنہ 1972 کے میونخ اولمپکس کے لیے تیار کردہ اپنے ’لازوال کلاسک‘ شو ’ایس ایل 72‘ کی تشہیری مہم سے ہٹا دیا جس پر ’بائیکاٹ ایڈیڈاس‘ کے ٹرینڈز نظر آئے۔

ان دونوں کمپنیوں کی ماضی میں یہودیوں کی حمایت اور مخالفت کی بھی داستان ہے۔

بھائیوں کی محبت کا نتیجہ ایک کمپنی

بڑے بھائی روڈولف ڈیسلر سنہ 1898 میں جرمنی کی باویریا ریاست کے ہرزوگینورخ میں پیدا ہوئے اور ان کے دو سال بعد سنہ 1900 میں ان کے چھوٹے بھائی ایڈولف ڈیسلر پیدا ہوئے۔

دونوں نے عین اپنے عالم شباب یعنی 21 اور 19 سال کی عمر میں گیبروڈر ڈیسلر شوفیبرک یا ڈیسلر برادران شو کپمنی کے نام سے جوتے بنانے کی ایک کمپنی کھولی۔

ان کی دشمنی پر جہاں باربرا سمٹ نے ’سنیکر وارز‘ نامی کتابلکھی، وہیں ان پر ایک فلم ’ایڈیڈاس ورسز پوما‘ بھی بنی۔

مصنف باربرا سمٹ نے ’سنیکر وارز‘ میں لکھا کہ کس طرح دونوں بھائیوں نے اپنے گیراج سے اس کمپنی کی شروعات کی اور چند برسوں میں ہی اس میں اتنے کام کرنے والے ہو گئے کہ انھیں نئی جگہ لینی پڑی۔

سنہ 1933 میں انھوں نے ہٹلر کی نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ باربرا سمٹ نے ایک میگزن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جرمنی کی کسی کمپنی کا ہٹلر کی پارٹی سے علیحدہ رہنا مشکل تھا اور وہ بھی ایسی کمپنی کا جو سپورٹس کے شعبے میں ہو کیونکہ نازی جرمنی سپورٹس کو اپنے پروپیگنڈا مشینری کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔

تاہم دونوں بھائیوں کی مشترکہ کمپنی ’گیڈا‘ نے سنہ 1936 کے برلن اولمپکس میں افریقی نسل کے امریکن ایتھلیٹ جیسی اوونز کو سپانسر کیا جو ہٹلر کے خلاف کسی بغاوت سے کم نہیں تھا۔

انھوں نے جب گولڈ میڈل حاصل کیا تو سب کی نظر ان کے جوتوں پر گئی۔ انھوں نے گیڈا کے جوتے پہنے تھے۔ بہرحال اوونز سے ہٹلر نے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد بھی مصافحہ نہیں کیا۔

اس کے علاوہ گیڈا نے جرمنی کے دوسرے ایتھلیٹس کو بھی سپانسر کیا تھا جنھوں نے کئی طلائی اور کانسی کے تمغے جیتے اور اس طرح دونوں بھائیوں کی کمپنی جرمنی کی حدود سے نکل کر بین الاقوامی شہرت اور اہمیت کی حامل ہو گئی۔

دشمنی کی ابتدا

’سنیکر وارز‘ کی مصنف اپنی کتاب میں بتاتی ہیں کہ ان کی دشمنی کے پس پشت ان کی اہلیہ تھیں کیونکہ ان دونوں خواتین کی آپس میں بالکل بھی نہیں بنتی تھی۔ یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے علاوہ ایڈی کو عورتوں کا رسیا یا ان کو اپنی جانب راغب کرنے والا بھی کہا گیا اور اسے بھی دشمنی کی وجہ بتایا گيا ہے۔

عالمی جنگ کے دوران ان کے جوتے کے کارخانے کو اسلحہ بنانے کی فیکٹری میں تبدیل کر دیا گیا جبکہ بڑے بھائی روڈی کو جرمن فوج میں بلا لیا گیا۔ جب روڈی کو سروس کے لیے بلایا گیا تو انھیں یہ شبہ ہوا کہ ایڈی اور ان کی بیوی نے انھیں محاذ پر بھیجنے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ وہ انھیں کارخانے سے دور رکھ سکیں۔ بعد میں، روڈی کو پہلے اپنی پوسٹ چھوڑنے پر گرفتار کیا گیا اور پھر اتحادیوں نے سنہ 1945 میں گیسٹاپو (نازی جرمن خفیہ ایجنسی) کے لیے کام کرنے کے شبے میں انھیں گرفتار کر لیا۔

دونوں موقعوں پر انھیں یہ یقین ہو چلا کہ ایڈی نے ہی انھیں پھنسایا اور ان کی مخبری کی ہے۔ بزنس میگزن فورچیون میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ان کے شبہات کی تصدیق ایک امریکی تفتیشی افسر کی رپورٹ سے ہوئی۔ بہرحال جب روڈی جنگی کیمپ میں قید تھے تو ایڈی نے کاروبار کو دوبارہ کھڑا کیا اور اس دوران وہ امریکی فوجیوں کے لیے جوتے بنا رہے تھے۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور رہائی کے بعد روڈی نے اپنے نام روڈولف کے مخفف کے طور پر روڈا شو کمپنی لانچ کی اور گیڈا کمپنی کے اثاثوں کی تقسیم ہو گئی۔

یہاں فٹبال کا سپانسر پوما ہے تو سنیکر کا سپانسر ایڈیڈاس ہے
Getty Images
یہاں فٹبال کا سپانسر پوما ہے تو سنیکر کا سپانسر ایڈیڈاس ہے

پوما اور ایڈیڈاس کا قیام

بابرا سمٹ کی کتاب ’سنیکر وارز‘ کے مطابق اس کی وجہ سے پورا شہر ہی تقسیم ہو گیا۔ ایڈولف کے ہمدردانہ رویے کی وجہ سے دو تہائی ملازمین نے ایڈی کے ساتھ جانا مناسب سمجھا جبکہ ایک تہائی نے روڈی کا ہاتھ تھاما۔

ایڈی ڈیسلر نے بھی اپنے نام کے ابتدائی حروف کے بنیاد پر اپنی کمپنی کا نام ايڈڈاس رکھا لیکن چونکہ اس نام کی ایککمپنی پہلے سے تھی اس لیے ایڈی نے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرکے اسے ایڈیڈاس بنا دیا۔

روڈا نام کھیلوں کے لیے بہت مناسب معلوم نہیں ہو رہا تھا تو کسی نے روڈی کو مشورہ دیا کہ وہ کمپنی کا نام بدل کر پوما رکھ لیں۔ روڈی کو یہ مشورہ پسند آیا اور انھوں نے اپنی کمپنی کا نام پوما رکھ لیا اور پھر ایک سب سے لمبی چلنے والی دشمنی شروع ہوئی جو ان دونوں بھائیوں کے مرتے دم تک قائم رہی۔

ایڈی کی سپانسرشپ
Getty Images

تقسیم جس نے پورے شہر کو تقسیم کر دیا

یہ دشمنی ان کی اولادوں اور شہر کے دوسرے باشندوں میں بھی جاری رہی۔ تاریخ داں مینفریڈ ویلکر نے بزنس انسائڈر میگزین کو بتایا کہ اس تقسیم سے شہر کا کوئی ایسا گھر نہیں تھا جو بچا ہو۔

یہ کمپنیاں اس چھوٹے سے شہر کے تقریباً تمام گھروں میں سے کم از کم ایک آدمی کو ملازمت فراہم کر رہی تھی۔

شہر کے بیچو بیچ اوراخ دریا بہتا ہے اور یہ دریا اس تقسیم کا گواہ بنا کیونکہ ایڈیڈاس نے اس دریا کے شمال میں اپنی کمپنی قائم کی تو پوما نے اس کے جنوب میں اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی۔

سالوں تک دونوں کمپنیاں شہر کے دو فٹبال کلبوں کو سپانسر کرتی رہیں۔ اگر پوما ایف سی ہرزوگینورخ کو سپانسر کر رہی تھیں تو ایڈیڈاس اے وی ایس ہرزوگینورخ کی آج بھی سپانسر ہے۔

دونوں ٹیم کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی کیونکہ بوٹ سے لے کر کٹ اور دوسرے سازوسامان بھی یہ دونوں کمپنیاں فراہم کر رہی تھیں۔

نہ صرف ملازمین بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک دوسرے کے پاؤں کی جانب دیکھتے کہ کس نے کس برانڈ کے جوتے پہن رکھے ہیں۔ وہ اس لیے بھی ایک دوسرے کو دیکھتے کہ کوئی نیا سٹائل یا برانڈ تو لانچ نہیں ہوا۔ چنانچہ شہر والوں کے ٹیڑھی گردن کر کے ایک دوسرے کے پاؤں کی جانب گھورنے کے رویے کی وجہ سے ہرزوگینورخ شہر کو جرمنی میں 'ٹیڑھی گردن والے شہر' کے نام سے بھی جانا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ ڈیسلر خاندان کے جھگڑے نے شہر کو اس قدر منقسم کر دیا تھا کہ پوما اور ایڈیڈاس سے جڑے خاندان الگ الگ بیکریوں سے سامان لیتے، ان کے اپنے الگ قصاب تھے، ساتھ ہی ان کے اپنے الگ پب بھی تھے۔

ایڈیڈاس
Getty Images
1954 کے ورلڈ کپ میں جرمنی کی قومی ٹیم کو ایڈیڈاس نے سپانسر کیا تھا

1954 کا ورلڈ کپ

لیکن پوما کے بانی کے پوتے مائیکل ڈیسلر نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ دریا کی وجہ سے تھا کہ شہر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا ورنہ کسی کو یہ خیال نہیں آيا کہ ایڈیڈاس اور پوما والے ایک جگہ نہیں جاتے۔

دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد جب پہلی بار 1954 کے فٹبال ورلڈ کپ میں مغربی جرمنی کو پابندی کے بعد کھیلنے کی اجازت ملی تو روڈی کے فٹبال ٹیم کے کوچ کے ساتھ دیرینہ مراسم کے باوجود ایڈیڈاس نے ٹیم کی سپانسرشپ حاصل کر لی۔

سوئٹزر لینڈ میں ہونے والے فائنل میں جرمنی نے ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ قرار دی جانے والی ٹیم ہنگری کو دو کے مقابلے تین گول سے شکست دے کر تاریخ رقم کی۔

اس میچ میں ہنگری کی ٹیم نے ابتدا میں ہی دو گول کر دیے تھے لیکن بعد میں کہا گيا کہ نئی ٹیکنالوجی سے بنے ایڈیڈاس کے بوٹ نے جرمنی کو برتری دلائی۔

روڈی کا کہنا تھا کہ یہ تکنیک انھوں نے متعارف کرائی تھی۔ بہر حال اس جیت کے بعد ایڈیڈاس جرمنی کی سرحدوں سے نکل کر امریکہ اور یورپ کے دوسرے شہروں تک پہنچ چکا تھا جبکہ پوما کو ابھی مزید راستہ طے کرنا تھا۔

ایڈیڈاس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے معروف زمانہ باکسر محمد علی اور جو فریزیئر کو بھی سپانسر کیا تھا۔

جبکہ نائیکی اور ایڈیڈاس پر بنی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ باسکٹ بال کھلاڑی مائیکل جارڈن اپنے سٹارڈم سے قبل ایڈیڈاس کے سوا دوسرا برانڈ پہننا ہی نہیں چاہتے تھے جبکہ نائیکی کے پروموٹر انھیں حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں اور نائیکی کا نیا شو ’ایئر جارڈن‘ لانچ ہوتا ہے جو نائیکی سے زیادہ جارڈن پر فوکسڈ ہوتا ہے اور آخر میں نائيکی یہ جنگ جیت جاتی ہے۔

جنوبی ریاست تمل ناڈو کے چنئی میں مقیم مارکیٹنگ کنسلٹنٹ اور سابق انڈین رولر ہاکی کھلاڑی محمد عبدالحفیظ بتاتے ہیں کہ دشمنی یا مقابلہ ہمیشہ خراب نہیں ہوتا اور اس کی مثال پوما اور ایڈیڈاس کی دشمنی یا مقابلہ ہے۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو آج جہاں سپورٹس کی سپانسرشپ ہے اور جہاں یہ کمپنیاں ہیں وہ وہاں پر نہ ہوتیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس فیلڈ میں امریکی کمپنیوں نائیکی اور ریبوک نے بھی اپنے قدم جمائے لیکن ریبوک نے جرسیاں اور کھیل سے جڑی دوسری اشیا بنا کر تھوڑے دنوں کے لیے میدان مار لیا تھا لیکن پھر سے ایڈیڈاس نے انھیں جا لیا۔

پیلے
Getty Images
پوما نے پیلے کو 1970 کے ورلڈ کپ کے لیے سپانسر کیا تھا

سب سے بڑی دشمنی ’پیلے پیکٹ‘ کی خلاف ورزی

سنہ 1970 کے فٹبال ورلڈ کپ تک برازیل کے پیلے دنیا کے سب سے معروف کھلاڑی تھے۔ ان کی سپانسرشپ کے لیے دونوں کمپنیوں نے معاہدہ کیا تھا جسے ’پیلے پیکٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔

اس کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ کوئی بھی کمپنی پیلے پر بولی نہیں لگائے گی کیونکہ اس طرح ان کی بولی آسمان چھونے لگے گی لیکن فائنل سے ذرا قبل دنیا نے دیکھا کہ پیلے نے پوما کے سنیکرز پہن رکھے تھے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پیلے کو بظاہر ’پیلے معاہدے‘ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا لیکن چیزیں اس وقت دلچسپ ہو گئیں جب پوما نے برازیل کی ٹیم میں اپنے ایک نمائندے ہنس ہیننگسن کو بھیجا۔

پیلے اور ہیننگسن نے کچھ وقت ایک ساتھ گزارا اور پیلے کو اس بات پر غصہ آیا کہ ہیننگسن برازیلین ٹیم کے دیگر تمام کھلاڑیوں سے معاہدہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان سے کوئی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن پھر پوما کی منظوری کے بغیر ہیننگسن نے پیلے کو ورلڈ کپ کے لیے 25 ہزار امریکی ڈالر کی پیشکش کی اور بقیہ چار سال کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی پیشکش کر ڈالی۔

اس کے ساتھ ان کے برانڈ کے جوتوں کی فروخت پر بھی انھیں کچھ فیصد دینے کی بات کہی۔

ہیننگسن نے یہ پیشکش اس وقت کے پوما کے سربراہ ارمین ڈیسلر کو پیش کی جنھوں نے معاہدے کی پروا کیے بغیر اس پر رضامندی ظاہر کی۔

ان کے معاہدے کے ایک حصے میں یہ بھی تھا کہ پیلے فائنل میچ کے آغاز سے پہلے جان بوجھ کر ریفری سے وقت مانگیں گے اور جب وہ اپنے جوتوں کے لیسز باندھ رہے ہوں گے تو تمام کیمرے ان کے پوما برانڈ کے جوتے پر ہوں گے۔

آپ تصور کر سکتے ہیں معاہدے کی اس خلاف ورزی پر ایڈیڈاس کو غصہ آنا تھا اور پھر سے ایک بار ان کی جوتے کی جنگیں تیز ہو گئیں۔

محمد حفیظ کا کہنا ہے سپورٹس کی دنیا میں اس مقابلے پر ایک سیریز ’رائولز فار ایور: دی سنیکر بیٹل‘ بھی جرمن ٹی وی پر دکھائی گئی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ابھی نائیکی سب سے بڑا برانڈ ہے جبکہ 12 ارب ڈالر کے ساتھ ایڈیڈاس دوسرے اور چار ارب ڈالر کے ساتھ پوما ہے۔

انڈیا میں بھی ان کی مسابقت

آئی ٹی ایف ٹینس کھلاڑی سید بابر محمود زیدی بتاتے ہیں کہ انڈیا میں بھی ان کی مسابقت دیکھی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایڈیڈاس نے ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کو اپنا برانڈ ایمبسڈر بنایا تھا تو گذشتہ برسوں میں پوما نے کرکٹر وراٹ کوہلی کو اپنی تشہیری مہم کا حصہ بنایا۔ اس میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور معروف اداکارہ انوشکا شرما بھی ہیں۔

ان کی جرسی نمبر 18 کے حساب سے انھوں نے ایک پوری رینج لانچ کی۔

سید بابر نے بتایا کہ اگرچہ ایڈیڈاس ٹینس اور فٹبال کے میدان میں زیادہ سرگرم ہے وہیں ان دونوں کی دشمنی کے خاتمے کے بعد پوما کار ریسنگ اور گراں پری وغیرہ میں زیاد سرگرم اور نمایاں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان دونوں بھائیوں کے درمیان مقابلے نے جہاں ان دونوں کو فائدہ پہنچایا، وہیں انھوں نے سپورٹس کو بھی بہت فائدہ پہنچایا اور جوتے کی تکنیک میں ان کی مسابقت کے ساتھ ساتھ نائیکی اور ریبوک کے آنے سے مزید اضافہ ہوا۔

سنہ 1970 کی دہائی میں دنیا سے رخصت ہونے والے روڈی اور ایڈی دونوں بھائی شہر کے دو کناروں پر موجود قبرستان میں دفن ہیں جبکہ ان کے آبائی شہر میں ان کے پوتے پوتیوں کا ایک بار ہے جس میں وہ گاہے بگاہے شام کو جمع ہوتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.