’لٹن داس ساری ہیڈلائنز چُرا گئے‘

جوں جوں راولپنڈی میں دھوپ کی تمازت بڑھتی گئی، پاکستانی بولرز کے حوصلے گرتے گئے۔ خرم شہزاد نے شارٹ پچ بولنگ شروع کی تو پیس کی کمی کے سبب بلے بازوں کو حیران نہ کر پائے۔ الٹا اس شارٹ پچ پلان نے بنگلہ دیش کے رن ریٹ کو ہی تقویت پہنچا دی۔
لٹن داس
Getty Images

اتوار کی صبح ان پاکستانی شائقین کے لیے ایک نئی سحر کی امید بن کر طلوع ہوئی جو ہفتہ بھر پہلے پاکستانی فاسٹ بولنگ سے اپنا سارا یقین کھو چکے تھے۔ مگر یہاں خرم شہزاد اور میر حمزہ کی بولنگ نے اس مایوسی کا جالا اتار پھینکا۔

گو، بنگلہ دیشی شائقین اور مبصرین ان چھ بلے بازوں کی تکنیک اور شاٹ سلیکشن پہ بحث کے دفتر بکھیر سکتے ہیں جو اس سیشن میں لاجواب ہوئے، مگر دراصل یہ خرم شہزاد اور میر حمزہ کی نپی تلی لینتھ بولنگ اور پچ کا اضافی باؤنس تھا جو ان چھ بلے بازوں کی کہانی مختصر کر گیا۔

جس ڈسپلن اور مہارت سے دونوں پاکستانی پیسرز نے بنگلہ دیشی بیٹنگ کو لاجواب کر رکھا تھا، وہاں فالو آن یقینی تھا۔ اور اس فالو آن سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش کی اکلوتی امید یہ آخری بیٹنگ جوڑی تھی جہاں لٹن داس اور مہدی حسن معراج اس خفت سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن جوں جوں دھوپ نے حدت پکڑی اور وکٹ میں سے نمی اڑنے لگی، بیٹنگ قدرے آسان ہوتی گئی اور مہدی حسن معراج نے پاکستانی بولرز پہ جوابی وار کا آغاز کیا۔ پاکستانی بولنگ اگرچہ اس کاؤنٹر اٹیک پہ متعجب تو نہ تھی مگر اپنے تجربے اور صبر میں کم پڑ گئی۔

میر حمزہ، خرم
Getty Images

جو پلان نئی گیند اور صبح کی نمی میں پاکستانی سیمرز کے لیے موثر رہا تھا، لنچ کے بعد پرانی گیند اور آسان ہوتی پچ پہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ یہاں پاکستانی بولنگ کا وہ امتحان شروع ہوا جو ان سے صبر اور تسلسل کا تقاضہ کر رہا تھا۔

اگرچہ سینیئرز شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی سرپرستی سے محروم نو آموز پیس اٹیک نے پہلے سیشن میں بھرپور تسلسل کا مظاہرہ کیا، لیکن لنچ کے بعد جب لٹن داس اور مہدی حسن معراج قدم جمانے لگے تو ناتجربہ کار پاکستانی سیمرز کے قدم اکھڑنے لگے۔

محمد علی کی فٹنس بھی پاکستان کے حق میں نہ گئی اور ابرار احمد کی 'مسٹری' سپن بھی کوئی مسٹری پیدا نہ کر پائی۔

اپنے حریف سپنر مہدی حسن معراج کے برعکس ابرار احمد کی بولنگ بلے بازوں کے لیے کوئی چیلنج نہ بن پائی اور نہ ہی انھوں نے آف سٹمپ چینل کے باہر وہ اٹیکنگ لائن اپنائی جو دوسرے دن پانچ پاکستانی بلے بازوں کو بدحواس کر گئی تھی۔

جوں جوں راولپنڈی میں دھوپ کی تمازت بڑھتی گئی، پاکستانی بولرز کے حوصلے گرتے گئے۔ خرم شہزاد نے شارٹ پچ بولنگ شروع کی تو پیس کی کمی کے سبب بلے بازوں کو حیران نہ کر پائے۔ الٹا اس شارٹ پچ پلان نے بنگلہ دیش کے رن ریٹ کو ہی تقویت پہنچا دی۔

ٹیسٹ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں وہ کبھی نہیں ہوا جو یہاں مہدی حسن اور لٹن داس نے کر دکھایا۔ جہاں یہ بھی دشوار تھا کہ بنگلہ دیشی بیٹنگ صبح کا سیشن ہی پورا نکال پائے، وہاں یہ دونوں بلے باز نہ صرف اپنی ٹیم کو فالو آن سے بچا گئے بلکہ ان کی جارحیت نے پاکستان کی ساری برتری ہی مٹا ڈالی۔

یہی ٹیسٹ کرکٹ کا اصل حسن ہے کہ اگر ایک سیشن کسی ٹیم پہ بھاری پڑ جاتا ہے تو دوسرا سیشن اس بوجھ کے تلے سے سرکنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ لٹن داس نہ صرف اس بوجھ کے تلے سے سرک گئے بلکہ اپنی ٹیم کو ایسی مسابقتی پوزیشن میں بھی لے آئے کہ وہ پاکستان کو کلین سویپ کرنے کا حقیقت پسندانہ خواب دیکھ سکے۔

اگرچہ پچ بیٹنگ کے لیے قدرے آسان ہو چکی ہے مگر پیر کی صبح، پہلے سیشن میں بنگلہ دیشی سیمرز نئی گیند کے ساتھ پاکستانی مڈل آرڈر کے اعصاب کا بھرپور امتحان لیں گے۔ اور اگرچہ ابرار احمد یہاں بالکل بے سود ثابت ہوئے مگر پرانی گیند کے ساتھ چوتھے روز کی پچ پہ مہدی حسن معراج بھی پاکستانی بلے بازوں کی دفاعی تکنیک کو خوب پرکھیں گے۔

پاکستان، بنگلہ دیش
Getty Images

یہ طے کرنا دشوار ہے کہ لنچ کے بعد بنگلہ دیشی کاؤنٹر اٹیک زیادہ اچھا تھا یا پاکستانی بولنگ زیادہ ناقص۔

مگر یہ واضح ہے کہ جو شام پاکستانی پیسرز کی کارکردگی کی شہ سرخیوں پہ ختم ہونا تھی، اس کی ساری ہیڈلائنز لٹن داس چُرا گئے۔

خرم شہزاد اور میر حمزہ: ’یہ دونوں ڈومیسٹک میں پرفارمنس دینے والے پاکستانی پیسرز ہیں‘

اتوار کی صبح پاکستان کرکٹ سے مایوس مداحوں کے لیے ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی جب فاسٹ بولرز میر حمزہ اور خرم شہزاد کی عمدہ بولنگ نے چھ بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کو صرف 26 رنز پر پویلین کی راہ دکھا دی۔

اس میچ میں خرم شہزاد نے چھ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ خیال رہے کہ دو وکٹیں حاصل کرنے والے میر حمزہ کو اس میچ میں شاہین آفریدی کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔

میر حمزہ نے پاکستان کے لیے اب تک پانچ جبکہ خرم شہزاد نے دو ٹیسٹ کھیلے ہیں لیکن دونوں ہی ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے آئے ہیں۔

میر حمزہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 117 میچوں میں صرف 22 کی اوسط سے 451 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جبکہ خرم شہزاد 47 فرسٹ کلاس میچوں میں 29 کی اوسط سے 143 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔

دونوں ہی نے راولپنڈی کی کنڈیشنز کا منجھے ہوئے فاسٹ بولرز کی طرح بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگلہ دیشی بلے بازوں پر دونوں اینڈز سے اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ پے در پے غلطیاں کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔

یہ پرفارمنس ایک ایسے موقع پر دی گئی جب شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی گذشتہ میچ کی کارکردگی زیرِ بحث تھی اور انھیں اس میچ میں ڈراپ کرنے پر کپتان شان مسعود اور کوچ جیسن گلیسپی کو سراہا جا رہا تھا۔

ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی تھی اور پوری ٹیم دوسرے روز 274 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی اور چھ پاکستانی کھلاڑی بنگلہ دیشی سپنرز کا شکار ہوئے تھے۔

ساتھ ہی گذشتہ روز بنگلہ دیش کی اننگز کی پہلی ہی گیند پر سلپ میں کھڑے سعود شکیل نے اوپنر شادمان اسلام کا آسان کیچ ڈراپ کر دیا تھا۔

بنگلہ دیش
Getty Images

ایسے میں آج پاکستانی فاسٹ بولرز کا بنگلہ دیشی بلے بازوں کو جلد پویلین کی راہ دکھانا ضروری تھا۔ بنگلہ دیش کو آج صرف چار رنز کے اضافے کے بعد ہی اوپنر ذاکر حسن ایک رن بنا کر خرم شہزاد کا شکار بن گئے۔

اس کے بعد شادمان اسلام 10، نجم الحسین شانتو چار رنز بنا کر خرم شہزاد کی گیندوں پڑ آؤٹ ہوئے تو پاکستانی ٹیم میچ میں واپسی کرتی دکھائی دی۔ تاہم اس کے بعد مؤمن الحق ایک اور مشفق الرحیم تین رنز بنا کر میر حمزہ کا نشانہ بنے، تو بنگلہ دیش کے لیے صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی۔

بنگلہ دیش کے سینیئر کھلاڑی شکیب الحسن صرف دو رنز بنانے کے بعد خرم شہزاد کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے تو بنگلہ دیش صرف 26 رنز پر چھ وکٹیں گنوا چکا تھا۔

تاہم پھر لٹن داس اور مہدی حسن میراز نے سنچری شراکت جوڑ کر بنگلہ دیش کی بیٹنگ کو سنبھالا دیا اور نہ صرف فالو آن سے بچایا بلکہ بنگلہ دیش کی پوزیشن اب خاصی مستحکم کر دی۔

سوشل میڈیا پر اس بارے میں بحث اب بھی جا رہی ہے اور اکثر صارفین دونوں بولرز کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔

نوید گشکوری نامی صارف نے لکھا کہ ’آج میر حمزہ اور خرم شہزاد کی نئی گیند کے ساتھ شاندار پرفارمنس کو دیکھنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو کم از کم ٹیسٹ کرکٹ میں یہ 18، 19 سال کے ٹی 20 بولرز کو موقع دینے کی بجائے ڈومیسٹک کرکٹ کے تجربہ کار بولرز پر انویسٹ کرنا چاہیے۔

https://twitter.com/AhmerNajeeb/status/1830150710488678474

اس بارے میں بات کرتے ہوئے احمر نجیب ستی نامی صارف نے لکھا کہ ’خرم شہزاد، میر حمزہ نے آسٹریلیا سیریز سے اب تک ثابت کر دیا کہ فرسٹ کلاس کے منجھے ہوئے بولر ہی کارآمد ہوتے ہیں۔ اب سفید بال کے بالز کی مفت داخلے پر پابندی، فاسٹ بولنگ پول میں شاہنواز دھانی،کاشف علی اور ثمین کو بھی شامل کر لیں۔ جیسی کنڈیشن، اس حساب سے سکواڈ اور گیارہ منتخب کریں۔‘

صحافی قادر خواجہ نے لکھا کہ ’ڈومیسٹک کو نظر انداز کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔۔۔ ڈومیسٹک میں پرفارمنس کے انبار لگانے والوں نے عزت بچانا شروع کر دی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.