جوہری فضلے ہزاروں سال تک آلودگی کا باعث بن سکتا ہے۔ تو ہم اس سے بچنے کے لیے اسے ایک ہزار سال تک کہاں اور کیسے دفن کر سکتے ہیں؟
جوہری فضلے ہزاروں سال تک آلودگی کا باعث بن سکتا ہے۔ تو ہم اس سے بچنے کے لیے اسے ایک ہزار سال تک کہاں اور کیسے دفن کر سکتے ہیں؟
شمال مشرقی فرانس کے پہاڑے علاقے شیمپین میں ایک سرد دن ہونے کے باوجود زمین سے 1500 فٹ نیچے گرمی محسوس ہو رہی تھی۔
زیر زمین اس جگہ پر سفید لائٹس کی تیز روشنی ہے اور ہوا خشک ہے۔ سانس لیتے ہوئے مجھے اپنے منھ میں مٹی کا ذائقہ آ رہا ہے۔
ہنگامی صوررتحال میں سانس لینے کے لیے مصنوعی آکسیجن ٹینک میرے کندھوں پر لدے ہوئے ہیں۔ یہ مجھے ہر وقت اس بات کی یاد دہانی کروا رہے ہیں کہ زمین کی سطح سے اتنا نیچے مجھے خطروں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس زیرِ زمین لیب کے خفیہ الیکٹرونک آلات کی آوازیں، یہاں لوگوں کی کمی اور بھول بھلیاں پر چلتے ہوئے مجھے چکّر آنے لگے اور میں نے سوچا لِفٹ تک واپس کیسے جاؤں؟
میں ایک کونے سے مُڑ گیا، میرے سامنے ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ یہ کمرہ اتنا بڑا تھا کہ ایک لمحے کے لیے میں سوچنے لگا کہ شاید میں کسی فرعون کے مقبرے پر آ گیا ہوں۔
لیکن یہ کمرہ قدیم مصری باشندوں نے نہیں بنائے۔
یہ کمرہ ایک چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا ہے تاکہ یہاں زمین کے سب سے زیادہ تابکار مادے دفنائے جا سکیں۔ اس مادے کا شمار درمیانے سے اعلیٰ سطح کے جوہری فضلے میں کیا جاتا ہے۔
آپ ان جگہوں کی ڈیزائننگ، تعمیر اور آپریٹنگ کا کس طرح تصور کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کی منصوبہ بندی میں ہی کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں جبکہ ان کی تعمیر میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔
ضروری ہے کہ یہ تعمیرات ایک لاکھ سال تک باقی رہیں کیونکہ یہاں زمین کے کچھ انتہائی خطرناک مواد موجود ہوں ہیں۔
یہ جگہ پیرس کے مشرق میں چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ ان 2.4 کلومیٹر طویل سرنگوں میں بے شمار سائنسی تجربات، تعمیراتی تکنیک اور نئی ٹکنالوجی کی جانچ ہوتی ہے۔
فرانس کی نیشنل ریڈیو ایکٹیو ویسٹ ایجنسی (اندرا) کو سرنگوں کے ساتھ جیولوجیکل ڈسپوزل فیسیلٹی (جی ڈی ایف) بنانے کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے نگران اداروں کے سامنے اس کی صلاحیت ثابت نہیں ہوگی۔
جوہری فضلے کو دفن کرنے کے لیے یہ جی ڈی ایف انسانی تاریخ کی سب سے بڑی زیر زمین تعمیرات میں شمار ہوں گی۔ برطانیہ، فرانس، سویڈن، فِن لینڈ سمیت 20 ممالک میں یہ ’جوہری مقبرے‘ زیرِ غور ہیں یا ان پر تعمیر جاری ہے۔
فِن لینڈ دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جہاں جوہری فضلے کے لیے ایک گہری جی ڈی ایف تعمیر کی گئی اور یہاں اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے پہلا آزمائشی مرحلہ ہوچکا ہے۔
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کے شمال میں دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع شہر فورز مارک میں جی ڈی ایف کی تعمیر شروع ہونے والی ہے۔ اسی طرح فرانس کے شہر سیجیو میں بھی جلد تعمیر شروع ہوگی۔ برطانیہ میں اس طرح کے جوہری مقبرے تعمیر کرنے کے لیے مقام کا تعین ہونا باقی ہے۔
زیر زمین یہ متنازع جوہری مقبرے انتہائی بڑے اور مہنگے ہوتے ہیں۔
انھیں اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ ان میں جوہری صنعتوں سے پیدا ہونے والا خطرناک تابکار فضلہ دفن کیا جاسکے۔
فی الوقت جوہری فضلہ زمین کی سطح پر ہی ذخیرہ کیا جاتا ہے جیسا کہ برطانیہ کے شہر سیلا فیلڈ اور فرانس کے لا آئیے میں۔
اس جوہری ویسٹ میں جوہری ایکٹرز کا مواد، گریفائٹ سمیت صنعتوں سے خارج ہونے والا جوہری فضلہ شامل ہیں۔
کمپیوٹر سکرین پر دیکھیں تو جی ڈی ایف کا تعمیراتی نقشہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ جوہری نقصانات سے بچنے کے لیے کئی سطحوں پر مشتمل زیر زمین ایک بڑی سی پناہ گاہ ہو۔
تاہم اس سہولت کے ڈیزائن، اس کی تعمیر اور اسے چلانے کے قابل بنانے کے لیے اتنا زیادہ وقت لگتا ہے جیسے یہ فرعون کے زمانے میں بنائے جا رہے ہوں۔
وہ مزدور جنھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کی تھی بالکل ان کی طرح جی ڈی ایف تعمیر کرنے والے انجینیئرز اپنی زندگی میں اپنا کام مکمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ پائیں گے۔
میرے گائیڈ اور فرانس کے اس سینٹر میں کام کرنے والے ایک سائنسدان ژاق ڈیلے نے بتایا کہ ’اعلیٰ سطح پر فضلہ ٹھکانے لگانے کے ایسے سینٹر کا لائسنس حاصل کرنے میں 20 سے 30 سال لگ جاتے ہیں۔‘
'ہم نے ایسا کوئی ملک نہیں دیکھا جسے اس سے کم وقت لگا ہو۔ اس کے بعد فضلہ ذخیرہ کرنے میں مزید 100 سال لگ جاتے ہیں۔ پھر کہیں جا کر سینٹر کو سیل کیا جاتا ہے۔'
اس عمل کے بعد سینکڑوں سالوں تک اس جگہ کی نگرانی کرنا ہو گی۔
برطانیہ کی جوہری ویسٹ سروسز کی پرنسپل کمیونیٹی مینیجر ایمی شیلٹن نے کہا ہے کہ ’جی ڈی ایف تعمیر کرنے کے لیے اہم ہے کہ مناسب جگہ کا انتخاب کیا جائے جس کے اردگرد رہنے والے لوگ جی ڈی ایف کی تعمیر کے حق میں ہوں۔‘
’لیکن ہر چیز ارضیات سے شروع ہوتی ہے۔‘
یورپ بھر میں ایمی شیلٹن جیسے انجینئرز ارضیاتی اعداد و شمار کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں تاکہ جی ڈی ایف کی تعمیر کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کر سکیں۔ انھیں دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا 500 میٹر سے لے کر ایک کلو میٹر زیر زمین چٹانیں اس قابل ہیں کہ ان میں ایک لاکھ سال سے زیادہ مدت کے لیے جوہری فضلے کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔
انجینیئرز کے مطابق گرینائٹ اور مٹی جیسی چٹانیں اس کام کے لیے بہترین ہیں۔ تاہم یہ عین ممکن ہے کہ کسی بھی طرح کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے یہ معلومات ناکافی ہوں۔
ہو سکتا ہے جس جگہ کو جی ڈی ایف تعمیر کرنے کے لیے بہترین سمجھا جا رہا ہو وہاں زیر زمین پانی موجود ہو جس پر آس پاس کے رہائشی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے انحصار کر رہے ہوں۔
ہو سکتا ہے جی ڈی ایف بنانے کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا جا رہا ہو وہ کسی وادی کے برابر میں واقع ہو جہاں 10 ہزار سال بعد گلیشیئر ٹکرانے کا خطرہ ہو۔ اگر اس جگہ جی ڈی ایف بنا دی جائے اور 10 ہزار بعد کوئی برف کا تودا ٹکرا جائے تو ایٹمی تباہی ہو جائے گی۔
ان عوامل کے پس منظر میں جی ڈی ایف کی تعمیر کے لیے مناسب جگہ کی کھوج دوبارہ شروع کرنی پڑتی ہے۔
تاہم کچھ ممالک میں جی ڈی ایف کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈنا آسان ہوتا ہے۔ سویڈن میں جوہری فضلہ کو ٹھکانے لگانے پر کام کرنے والی تنظیم ایس کے بی کی اینا پوریلیئس نے بتایا کہ 'زمین کی تہہ میں زلزلے کی سرگرمی کے حوالے سے دیکھا جائے تو سویڈن )اور فِن لینڈ( کی زیر زمین چٹانیں کافی مستحکم ہیں۔'
'90 کروڑ سالوں سے زیادہ یہ خطہ اسی حالت میں ہے۔ یہاں سمندر کی تہہ میں بھی کوئی نئی سرگرمی نہیں ہوتی۔'
تاہم جگہ کا انتخاب کرنے میں ارضیات کے علاوہ مقامی لوگوں کی غلط فہمیاں بھی مسائل پیدا کرتی ہیں۔
فرانس کے شہر سیجیو کی سہولت میں کام کرنے والے سائنسدان ژاق ڈیلے نے بتایا کہ 'کئی مقامی رہائشی رضاکارانہ طور پر اپنے نزدیک جی ڈی ایف تعمیر کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن یہ فیصلہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہ لوگ پیرس کے مضافاتی علاقوں سے بہت نزدیک رہتے تھے۔'
'یہ اسی طرح ہے کہ آپ لندن کے علاقے ومبلڈن یا ہیرو میں نیوکلیئر فضلہ محفوظ کرنے کے لیے کوئی سہولت تعمیر کر دیں۔'
کئی وجوہات کی بنا پر مقامی آبادیاں اپنے علاقے میں جی ڈی ایف کی تعمیر کے لیے رضاکارانہ طور پر منظوری دے دیتی ہیں۔ ان علاقوں میں اکثر سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقعوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم جی ڈی ایف بنانے کے لیے ہر قدم پر رہائشیوں کی رضامندی ضروری ہے۔
رہائشیوں کی رضامندی اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ تا حال ان کا نیوکلیئر اندسٹری کے ساتھ کیا تجربہ رہا ہے۔
برطانیہ میں اس چیز کا تحربہ کوئی خاص نہیں رہا ہے۔ تاہم فِن لینڈ کی کہانی مختلف ہے۔ فِن لینڈ کی جوہری فضلہ کو ٹھکانے لگانے والی کمپنی سے منسلک پاسی ٹوہیما نے بتایا کہ وہاں 70 سالوں سے نیوکلیئر ری ایکٹرز کے ذریعے بجلی کی پیداوار کی جا رہی ہے۔
'یہاں لوگوں کو حفاظتی تدابیر کے بارے میں آگاہی ہے۔ ان کے رشتہ دار اور آس پڑوس کے لوگ نیوکلیئر ری ایکٹرز میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے انھیں نیوکلیئر فضلہ کے بارے میں معلومات ہیں۔'
اگر جی ڈی ایف کی تعمیر میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برتی جائے تو سہولت بنانے والوں کے خلا مظاہرے رونما ہونے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔
سویڈن کی اینا پوریلیئس نے بتایا کہ ملک میں 'جی ڈی ایف بنانے کے لیے شروعات میں مقامی لوگوں کے مثبت رد عمل سے ہم نے بہت اہم سبق حاصل کیے ہیں۔ ہماری کمپنی ایس کے بی نے کچھ جگہوں پر کھدائی شروع کی جس کے بعد کئی مقامت پر لوگوں نے مظاہرے کیے۔'
چونکہ جی ڈی ایف کے لیے منساب جگہ ڈھونڈنے میں کئی مسائل درپیش ہوتے ہیں تو اس کا ایک آسان حل شاید یہ لگے کہ موجود کانوں میں اس سہولت کی تعمیر کی جائے۔ یہ کانیں اب استعمال کے قابل نہیں تو ان میں جی ڈی ایف تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس میں خرچہ بھی کم آتا ہے۔
اسی سوچ کو اپناتے ہوئے جرمنی نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں ایسی غیر فعال کانوں میں کم خطرناک نیوکلیئر فضلہ کو ذخیرہ کیا۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے برطانیہ کے نیوکلیئر ویسٹ سروسز کے چیف سائنسدان نیل حیات نے کہا یہ سوال پوچھنا بالکل قابل فہم اور بجا ہے کہ 'ہاں۔ ہمارے پاس یہ جگہیں موجود ہیں تو ہم کیوں نہ انھیں دوبارہ استعمال کریں؟'
تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کانیں 'اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی تھیں نہ ہی یہ طویل مدت کے لیے بنائی گئی تھیں، نہ ہی نیوکلیئر فضلہ کے حوالے سے حفاظتی تدابیر کو ذہن میں رکھ کر ان کی تعمیر کی گئی تھی۔'
نہ کانیں کم خطرے والے نیوکلیئر فضلہ کے لیے مناسب نہیں ہیں تو زیادہ خطرے والا نیو کلیئر فضلہ یہاں ذخیرہ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے سویڈن کی اینا پوریلیئس نے بتایا کہ 'زیر زمین جی دی ایف تک پہنچنے کے لیے جو راستہ بنایا جاتا ہے اس میں کم از کم پانچ سال لگتے ہیں۔ اس کے مقابلے ایک روایتیکان کی تعمیر میں بہت کم وقت لگتا ہے۔'
اس کے علاوہ اگر جی ڈی ایف کی تعمیر ایسی جگہ کر دی جائے جہاں معدنیات ابھی بھی موجود ہوں تو یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ ان معدنیات کی کان کنی کے لیے سہولت کو چھیڑا جائے۔
برطانیہ کی کورنوال کاؤنٹی میں واقع آخری کان 1998 میں بند کر دی گئی تھی تاہم آج 26 برس بعد کورنش لیتھیئم نامی کمپنی یہاں سے لیتھیئم کی کان کنی کی تیاری کر رہی ہے۔ لیتھیئم بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے جن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔
تاہم ان عوامل کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ نیوکلیئر فضلہ کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک نئی جگہ تعمیر کرنا زیادہ آسان ہو۔ فِن لینڈ کی پاسی ٹوہیما نے کہا کہ بدلتے موسم کی تلخی سے بچنے کے لیے 'فِن لینڈ میں ہمیں زیر زمین حفاظتی جگہیں بنانے کی عادت ہے۔ نئے سِرے سے ایک سہولت تعمیر کرنے کے لیے ہم بالکل شروع سے پلان تشکیل دے سکتے ہیں۔'
تاہم جی ڈی ایف کو ڈیزائن کرنے کے لیے چند مثالیں موجود ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ڈیزائن کے لیے ارضیات کا ہی مرکزی کردار ہے۔
فرانس کے سائنسدان ژاق ڈیلے کہتے ہیں کہ 'جی ڈی ایف بنانے کے لیے چٹان کی چوڑائی سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔ ہم جس سہولت کی تعمیر کر رہے تھے وہ صرف پہلے درجے کے لیے ہی مناسب ہے نہ کہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے لیے جیسا ہمارا پہلے ارادہ تھا۔'
اس کے علاوہ سہولت میں کس طرح کا نیوکلیئر فضلہ ذخیرہ کیا جا رہا ہے اس کا بھی دیہان رکھنا ہوتا ہے۔ فضلے کا حجم اور اس میں سے نکلنے والی گرمائش بھی ایک عنصر ہے۔ اگر درمیانے درجے کا فضلہ ہے جس سے گرمائش قدرے کم ہے تو اسے با حفاظت کنٹینرز میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کنٹینرز کو بڑے بڑے کمروں میں آس پاس رکھا جا سکتا ہے۔
تاہم جو نیوکلیئر فضلہ اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے اس میں سے کہیں زیادہ گرمائش پیدا ہوتی ہے۔ اس فضلہ کو کم مقدار میں دور دور ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
تابکاری کو جی ڈی ایف سے نکلنے سے روکنے کے لیے رکاوٹوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کنٹینر کے ڈیزائین کے علاوہ اس کے ارد گرد موجود چٹان کی قسم بھی معنی رکھتی ہے۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ رکاوٹیں وقت کے ساتھ ساتھ ناکام ہو سکتی ہیں۔
لفٹس کے ذریعے 500 میٹر زیر زمین جوہری فضلے کو اس کی آخری آرام گاہ تک لے جانا بظاہر ایک اچھا آئیڈیا محسوس ہوگا۔ تاہم اگر کنٹینر سمیت لفٹ پھنس گئی یا نیچے گر گئی تو ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ لفٹ کے مقابلے 12 فیصد ڈھلوان والی ریمپ قدرے محفوظ ہو گی کیونکہ اس میں اس طرح کا نظام نصب کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے نیوکلیئر فضلہ کو بہنے سے روکا جا سکے۔
تاہم ہو سکتا ہے کہ دونوں لفٹ اور ریمپ بنانا بھی بہترین ثابت ہو۔
جی ڈی ایف کی تعمیر کو آسان بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے پلان کو دیگر ممالک کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ سویڈن اور فِن لینڈ نے یہی کیا تھا۔ انھوں نے اس کمپنی کا نام کے بی ایس 3 رکھا۔
برطانوی نیوکلیئر ویسٹ سروسز کے چیف سائنٹسٹ نیل حیات نے کہا 'انھیں معلوم تھا کہ جہاں بھی یہ کھدائی کریں گے وہاں چٹانیں بہت سخت ہوں گی۔ اس وجہ سے ان کے لیے جگہ کا انتیخاب ایک طرح سے آسان ہو گیا تھا۔ جبکہ برطانیہ میں ہم ابھی بھی مناسب جگہ کی تلاش کیسے کرنی ہے اس کی تحقیق کر رہے ہیں۔'
جی ڈی ایف ڈیزائن کرنے والوں کے لیے ایک سادہ سا عنصر ایک بڑا درد سر پیدا کر دیتا ہے یعنی جس رفتار سے ٹیکنالوجی آ رہی ہے اس کے برعکس پراجیکٹ مکمل ہونے کی کیا مدت ہے۔
اس کی وضاحت دیتے ہوئے فرانس کے سائنسدان ژاق ڈیلے نے کہا 'اس معلوم کرنا ناممکن ہے کہ اس وقت (فضلے کو محفوظ کرنے کے لیے) جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے وہ اگلے 20 سے 200 سال میں استعمال رہنے کے قابل رہے گی یا نہیں۔ لیکن ہمیں ابھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے پاس مستقبل کے ان مسائل کا حل موجود ہے یا نہیں۔'
فرانسیسی انجینیئرز نے چار کلو میٹر طویل چلنے والی کیبل کار بنائی ہے تاکہ اگر جوہری فضلے سے بھرا ہوا کنٹینر کہیں ادھر اُدھر ہو جائے تو اسے گرنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔
ژاق ڈیلے کہتے ہیں کہ انجینیئرز نے یہ بھی بتایا ہے کہ ایک کتّا نما روبوٹ ’زلزلے کی صورت میں بغیر کسی انسانی مداخلت کے فضلے سے بھرا ہوا کنٹینر کیسے واپس اپنی جگہ پر لے آئے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ انجینیئرز نے ایک ایسا روبوٹ بھی بنا لیا ہے جو ’ایک زنگ آلود کمرے سے فضلے سے بھرا ہوا کنیستر نکال سکتا ہے۔‘ یہ روبوٹ ایسی لمبی اور باریک سرنگوں میں جا سکتا ہے جن میں سب سے زیادہ خطرناک درجے کا نیوکلیئر فضلہ بھرا ہوا ہے۔ یہ سرنگیں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ یہاں انسانوں کا دم گھٹ جائے گا۔
تاہم اس روبوٹ کا کام ہو گا کہ ان سرنگوں میں کوئی بھی رکاوٹ ہو تو اسے ہٹا دے۔
سویڈن کی منصوبہ بندی مزید آگے بڑھ چکی ہے۔ سویڈن کی اینا پوریلیئس کے مطابق ’2080 کی دہائی میں کسی وقت اس سینٹر میں 60 کلومیٹر طویل سرنگیں ہوں گی۔ ان میں اتنی جگہ ہو گی کہ یہاں نیوکلیئر فضلے سے بھرے چھ ہزار سے زیادہ تانبے کے کنٹینرز رکھے جا سکتے ہوں گے۔‘
ان کنٹینرز کو یہاں پہچانے کے لیے ایسی مشینوں کا استعمال کیا جائے گا جو خاص اسی مقصد کے لیے بنی ہوں گی۔‘
اینا پوریلیئس کہتی ہیں کہ ’ہم نے اسی طرح کی ایک مشین ’میگنے‘ کا پروٹوٹائپ تیار کیا ہے۔ اس مشین کے ذریعے 500 میٹر زیر زمین چٹانوں میں تانبے کے کنٹینرز کو رکھا جائے گا۔'
لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری توقعات کے مطابق کام کرے۔
برطانیہ کے نیل حیات کہتے ہیں کہ 'آج کی ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ سوچنا کہ یہ جی ڈی ایف جیسی طویل مدت سہولت میں استعمال کی جائے گی ایک احمقانہ خیال ہے۔ ہمیں اس کو ایسا تعمیر کرنا چاہیے کہ اس کی مرمت کی جا سکے یا اس کا متبادل بھی بنایا جا سکے۔‘
ان کے مطابق یہ جگہ ایسی ہونی چاہیے ’جو کافی کچھ برداشت کر جائے۔'
تاہم جی ڈی ایف تعمیر کرنے والوں کو ایک اور مسئلے کا سامنا ہے۔ فرانس میں جی ڈی ایف تعمیر کرنے کے لیے ایک قانون یہ بھی ہے کہ سہولت اس طرح بنائی جائے کہ اگر اس میں نیوکلیئر فضلہ ذخیرہ کیا ہو تو اسے باآسانی باہر بھی نکالا جاسکے۔
فرانس کے برعکس برطانیہ میں جی ڈی ایف بنانے کے لیے اس اصول کو ایک ہدایت کے طور پر ذہن میں رکھا جاتا ہے۔
لیکن نیوکلیئر فضلے کو واپس باہر نکالنے کا نظام انتہائی مشکل ہے کیونکہ جن کمروں میں اسے ذخیرہ کیا جاتا ہے انھیں سیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل تب تک کیا جاتا ہے جب تک پوری فسیلٹی کو ہی اچھی طرح سیل نہ کر دیا جائے۔
تاہم کچھ انجینیئرز ابھی بھی پر امید ہیں۔ فِن لینڈ کی پاسی ٹوہیما کہتی ہیں کہ 'ہم جس نیوکلیئر فضلے کو فی الوقت دبا رہے ہیں اسے واپس نکالا جا سکتا ہے کیونکہ ابھی تو ہم نے اسے سیل کر دیا ہے تو یہ سیل ہی رہے گا۔ لیکن آج سے 100 سال بعد دنیا بہت الگ ہو گی۔'
دوسری جانب فرانس کے ژاق ڈیلے کے مطابق ’جب فضلہ محفوظ ہو جائے تو اس کے بعد یہ سوال ٹیکنیشنز کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کے لیے ہو گا۔‘
آخر میں بات وہی ہے کہ نیوکلیئر فضلے کو محفوظ کرنے کے لیے ایسی فسیلٹی بنانے میں کتنا وقت لگے گا۔ اس کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ ان پروجیکٹس کو مکمل ہونے کے لیے سینکڑوں برس لگیں گے۔
اس طرح کے پرجیکٹس پر کام کرنے کے لیے ماہرین کیوں دلچسپی لے رہے ہیں جو مکمل ہی نہیں ہوں گے؟
فِن لینڈ کی اینا پوریلیئس کہتی ہیں کہ اس پروجیکٹ پر کام کر کے 'ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو زندگی کا مقصد ملتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس پروجیکٹ کو مکمل ہوتے ہوئے دیکھے گا لیکن ہم جو کام اس وقت کر رہے ہیں سے آنے والی نسلوں کو نیوکلیئر فضلہ کے نقصانات سے بچایا جا سکتا ہے۔'
'اس عمل کو بخوبی انجام دینے کی وجہ سے ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‘