لاہور اور انڈین دارالحکومت دلی اس وقت گرد اور دھوئیں کے بادلوں یعنی سموگ کی لپیٹ میں ہیں اور سرحد کی دونوں جانب اس کا ذمہ دار انڈین پنجاب کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ لیکن انڈین پنجاب کا موقف کیا ہے اور سائنسی حقائق کیا بتاتے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب کا لاہور شہر اور انڈیا کا دارالحکومت دلی اس وقت گرد اور دھوئیں کے بادلوں یعنی ’سموگ‘ کی لپیٹ میں ہیں۔ سرحد کے دونوں ہی جانب اس کا ذمہ دار انڈین پنجاب کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان سے بات کریں گی۔ تاہم انڈین پنجاب کی حکومت سائنسی دلائل اور حقائق کا حوالہ دے کر سموگ کی وجہ بننے کے ان الزامات کی تردید کر رہی ہے۔
لاہور میں رواں ماہ ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر ریکارڈ کیا گیا۔ جب یہ ہندسہ 300 سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔
تاہم انڈیا میں پنجاب زرعی یونیورسٹی کے شعبہ موسمیاتی تبدیلی اور زرعی موسمیات اور پنجاب آلودگی کنٹرول بورڈ کے مطابق ایسا کوئی سائنسی مطالعہ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ انڈین پنجاب کے دیہاتوں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد لگنے والی آگ سے ہی لاہور اور دلی میں فضائی آلودگی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس سائنسی دلائل موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر فصلوں کی کٹائی کے بعد باقیات جلانے سے پیدا ہونے والے آلودگی کے ذرات لاہور اور دہلی کی حدود تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان میں کٹائی کے بعد فصلوں کی باقیات کو جلانا اس سموگ کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ آگ صرف اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلدی تیار کیا جا سکے۔
انڈین پنجاب کے ماہرین کے دعوؤں کے برعکس، انڈیا کے مرکزی تعلیمی اداروں کے ماہرین اسی آگ کو دلی کی آلودگی کا سبب سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آلودگی میں اس آگ کا حصہ بہت ہی معمولی ہے۔
واضح رہے کہ چھ ہفتوں پہلے جب سیٹلائٹ سے ان مقامات کی تصاویر لی گئی تھیں تو یہاں صاف آسمان نظر آتا تھا اور آگ کے نشانات بھی کم تھے۔
اس کے علاوہ تحقیقی اداروں کے مطابق، پنجاب سمیت کسی بھی ریاست میں فصلوں کی کٹائی کے بعد زمین کو لگائی جانے والی آگ سے اٹھنے والے دھوئیں نے اس سال دلی کی آلودگی میں صرف 4.44 فیصد حصہ ڈالا۔
پاکستان کا موقف کیا ہے؟
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سیٹلائٹ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کی طرف پاکستان کے مقابلے میں زیادہ آگ لگی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان کا شہر لاہور انڈیا کی سرحد کے قریب ہے اس لیے وہ سرحد پار سے آنے والے دھوئیں سے باآسانی متاثر ہو سکتا ہے۔
پاکستانی پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے سیکرٹری راجہ جہانگیر انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب حکومت کے پاس امریکی خلائی ایجنسی ’ناسا‘ کا سیٹلائٹ ڈیٹا اور محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر شواہد موجود ہیں کہ انڈین پنجاب سے آنے والا دھواں لاہور اور گرد و نواح میں سموگ کی ایک اہم وجہ ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’مشرق سے چلنے والی ہوا انڈین پنجاب میں بننے والی فضائی آلودگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کی طرف لے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہوائیں اس کے مخالف چل رہی ہوتی ہیں تو لاہور میں اے کیو آئی کم ہو کر 200 کے قریب آ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں خاص طور پنجاب کے دونوں حصوں میں آلودگی کا باعث بننے والے عوامل اور زرعی عادات ایک جیسی ہیں۔
’ہوا کی رفتار‘ اور سموگ
انڈیا کی پنجاب زرعی یونیورسٹی کے شعبہ موسمیاتی تبدیلی اور زرعی موسمیات کے مطابق پنجاب میں اکتوبر اور نومبر میں ہلکی اور معتدل ہوائیں چلتی ہیں۔ آلودگی کے ذرات اور دھوئیں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہوا کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔
پنجاب زرعی پونیورسٹی کے شعبہ موسمیاتی تبدیلی کے حکامکے مطابق ہوا کی رفتار کم ہونے پر آلودگی پھیلانے والے ذرات کسی بھی سمت سفر نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب میں موجود آلودگی کے ذرات نہ تو دلی جا سکتے ہیں اور نہ ہی لاہور۔
شعبہ موسمیاتی تبدیکی کی سربراہ، پونیت کور ڈھینگرا کہتی ہیں کہ ’آلودہ ذرات اور دھوئیں کی کسی بھی سمت میں نقل و حرکت کے لیے ہوا کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اکتوبر سے مشرقی ہنجاب میں ہلکی ہوا چلی رہی ہے۔صرف دو بار ہوا کی رفتار چار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی۔‘
’پہلی بار پانچ اکتوبر کو ہوا کی رفتار 4.4 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی اور دوسری بار 24 اکتوبر کو ہوا کی رفتار 4.1 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی۔ لہٰذا پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد لگائی جانے والی آگ سے پیدا ہونے والی آلودگی والے ذرات کسی بھی سمت سفر نہیں کر سکتے۔‘
دھواں صرف دھان کی کٹائی کے وقت ہی کیوں آتا ہے؟
شعبہ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں کسی خاص جگہ پر آلودگی اور ایک جگہ دھواں جمع ہونے کا تعلق درجہ حرارت میں کمی سے ہوتا ہے۔
جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ہوا پھیل جاتی ہے اور آلودگی والے ذرات آسانی سے منتشر ہو جاتے ہیں اور جب درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے تو آلودگی والے ذرات ایک ہی جگہ ٹھہر جاتے ہیں۔ ’لہٰذا اگر لاہور اور دلی میں دھوئیں کی کیفیت اور آلودگی ہے تو اس کے پیچھے وہاں کی اپنی وجوہات ہیں۔‘
پونیت کور ڈھینگرا کہتی ہیں ’جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، ہوا پھیل جاتی ہے اور آلودگی پھیل جاتی ہے۔ درجہ حرارت اکتوبر میں کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہوائیں ٹھہر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے آلودگی پھیلانے والے عناصر پوری طرح منتشر نہیں ہوتے اور وہیں پھنس جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں دھوئیں جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔‘
PM 10 اور PM 2.5 ذرات کتنی دور تک سفر کر سکتے ہیں؟
انڈین پنجاب کے آلودگی کنٹرول بورڈ کے چیئرمین آدرش پال وج کا کہنا ہے کہ پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد جلائی جانے والی آگ سے پیدا ہونے والی گیسوں سے نکلنے والے پی ایم 10 اور پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات کسی بھی حالت میں زیادہ دور نہیں جا سکتے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے، جس سے ثابت ہو کہ پنجاب کی آلودگی دلی اور لاہور کی آلودگی کا سبب بنتی یا اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پی ایم 10 اور پی ایم 2.5 کے ذرات اتنی دور اڑ کر نہیں جاتے۔ ‘
پنجاب آلودگی کنٹرول بورڈ کے ماحولیاتی سائنسدان اوتار سنگھ کا کہنا ہے کہ ’فصلوں کی کٹائی کے بعد زمین کو آگلاہور کے ساتھ ساتھ پاکستانی پنجاب میں بھی لگائی جاتی ہے لہٰذا لاہور آلودہ فضا کا خود ذمہ دار ہے۔‘
انڈین پنجاب آلودگی کنٹرول بورڈ کے سابق چیئرمین ایس ایس مرواہا نے کہا کہ ’ان حالات میں بھی، پی ایم 10 کے ذرات زیادہ سے زیادہ 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں، جب کہ پی ایم 2.5 زیادہ سے زیادہ 50 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت گر جاتا ہے تو یہ ذرات اتنا فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پنجاب، لاہور اور دلی کی آلودگی میں صرف اسی صورت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جب وہ میزائلوں کے ذریعے ان دونوں شہروں کی طرف اپنی آلودگی بھیجے۔‘
ماہرین کا کیا کہنا ہے؟
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے شعبہ ’ارتھ اینڈ انوائرمنٹل سائنسز‘ کے پروفیسر ونائک سنہا نے اعتراف کیا کہ دلی کی آلودگی پر پنجاب کی آلودگی کا اثر ہے لیکن یہ بہت معمولی ہے۔
’پنجاب میں آلودگی کا اثر صرف پنجاب میں ہے۔ اتر پردیش یا دیگر پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد آگ جلانے کے واقعات کا پنجاب کے مقابلے میں دلی میں آلودگی پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد آگ جلانے کے واقعات دلی کی آلودگی میں بہت معمولی حصہ ڈالتے ہیں۔ یہحصہ ہر سال گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔‘
پروفیسر سنہا بتاتے ہیں کہ انھوں نے چند سال قبل اس موضوع پر ایک مطالعہ بھی کیا تھا۔
30 اکتوبر کو سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ (CSE) کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق، دلی کے پی ایم 2.5 کی سطح میں فصلوں کی کٹائی کے بعد آگ سے پیدا ہونے والی آلودگی کا اوسطاً صرف 4.44 فیصد حصہ بنتا ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نئی دہلی میں واقع ایک سرکاری تحقیقاتی ادارہ ہے۔
دلی میں دیوالی اور سردیوں سے پہلے کیے گئے ایک تجزیے سے معلوم ہوا کہ آلودگی کی بنیادی وجہ کھیتوں میں لگنے والی آگ کے بجائے گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انومیتا رائے چودھری نے کہا کہ ہر سال سردیوں کی شروعات کے دوران دلی کی ہوا کے معیار میں کھیتوں میں لگنے والی آگ کا حصہ عام طور پر سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یہ فضائی آلودگی کے مقامی ذرائع سے توجہ ہٹاتا ہے۔
’اس سال، دلی کی ہوا کا معیار خراب سے انتہائی خراب ہو گیا ہے، جب کہ اس مرحلے کے دوران زیادہ تر حصوں میں کھیتوں میں لگنے والی آگ کا حصہ 1 سے 3 فیصد کے درمیان رہا ہے۔ اس سے مقامی سطح پر فضائی آلودگی کے ذرائع کے بڑے حصے کا مسئلہ اجاگر ہوتا ہے۔‘
اے کیو آئی انڈیکس کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایے کیو آئی یا ’ایئر کواٹی انڈیکس‘ فضا میں آلودگی کے تناسب کو ماپنے کا ایک آلہ ہے جس کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کسی علاقے کی فضا کتنی صاف یا آلودہ ہے۔
اس کا اندازہ اے کیو آئی ناپنے والے میٹر کے ذریعے کیے جاتا ہے جو اس علاقے میں نصب ہوتا ہے۔
مختلف ممالک میں اس کو جانچنے کا طریقہ کار یا آلات مختلف ہو سکتے ہیں تاہم عالمی سطح پر قائم کردہ معیار کے مطابق ایے کیو آئی کو کل چھ کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ان کیٹیگریز کے مطابق:
صفر سے 50 تک اے کیو آئی کو صاف ستھری فضا مانا جاتا ہے جس سے کسی انسان کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں۔
51 سے 100 تک بھی اے کیو آئی قابلِ قبول ہوتا ہے
تاہم 101 سے 150 تک جانے کی صورت میں ایسے افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے جو پہلے سے بیمار یا کمزور ہوں۔
اے کیو آئی 151 سے تجاوز کرتا ہے تو یہ خطرہ عام لوگوں تک بڑھ جاتا ہے
جب اے کیو آئی 201 اور 300 کے درمیان ہوتا ہے تو ایسی فضا کو انسانوں کے لیے انتہائی غیر صحت مند تصور کیا جاتا ہے
اس کیٹیگری کو ’ہیلتھ الرٹ‘ میں شمار کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کے لیے صحت کے خطرات ہوں گے۔
اور جب یہ 300 سے تجاوز کر جائے تو فضا ’انتہائی خطرناک‘ تصور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ایمرجنسی صورتحال کی ہیلتھ وارننگ جاری کی جاتی ہے۔
آلودگی سے بچنے کی ضرورت
انڈین پنجاب کے علاقے سنگرور کے رہنے والے امرجیت مان پیشے کے اعتبار سے ایک آیورویدک ڈاکٹر ہیں اور ایک ترقی پسند کسان ہیں۔ وہ قریبی کاشتکاروں کو فصلوں کی کٹائی کے بعد زمین میں آگ نہ جلانے کے متعلق بھی کہتے ہیں۔
انھوں نے ایک تنظیم بھی بنائی ہے جس کے تحت وہ فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے بھوسے یا باقیاتکو ٹھکانے لگانے کے لیے زرعی آلات کسانوں کو دیتے ہیں تاکہ وہ اسے تلف کرنے کے لیے آگ نے جلائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آلودگی سے نمٹنے کے لیے فصلوں کی کٹائی کے بعد آگ جلانے کے مسئلے کے حل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آلودگی کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرانا حل نہیں ہے۔‘
’فصلوں کی باقیات کو جلائے بغیر اس کو ختم کرنے کے بہت سے حل پہلے سے موجود ہیں۔ ان کے نفاذ پر توجہ دی جانی چاہیے۔‘