امریکہ کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں کے ذریعے روس پر حملوں کی اجازت دینے کے ایک دن بعد، یوکرین نے پہلی بار یہ میزائل روسی علاقے کے اندر کسی ہدف پر داغ دیے ہیں۔ جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے۔
امریکہ کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں کے ذریعے روس پر حملوں کی اجازت دینے کے ایک دن بعد، یوکرین نے پہلی بار یہ میزائل روسی علاقے کے اندر کسی ہدف پر داغ دیے ہیں۔
جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد و شرائط طے کیے ہیں جن کے تحت ملک اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر غور کرے گا۔
امریکی حکام نے بی بی سی کے امریکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کو یوکرین کی جانب سے روس کے خلاف کو آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (Atacms) کے استعمال کی تصدیق کی۔
قبل ازیں روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ منگل کی صبح اس حملے میں شمال میں یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے برائنسک کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ اس حملے میں پانچ میزائلوں کو مار گرایا گیا اور ایک میزائل کو نقصان پہنچا جبکہ اس کے کے ٹکڑوں سے علاقے میں موجود ایک روسی فوجی تنصیب میں آگ لگ گئی۔
روس کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوکرین کی جانب سے یہ میزائل حملہ مقامی وقت کے مطابق 03:25 پر کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک میزائل سے گرے ملبے کی وجہ سے لگنے والی آگ کو فوری طور پر بجھایا گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل یوکرین کی فوج نے تصدیق کی تھی کہ اس نے روسی علاقے برائنسک میں گولہ بارود کے گودام کو نشانہ بنایا تاہم اس نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ آیا ان میں آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کا استعمال کیا گیا تھا۔
یوکرین کی فوج نے کہا تھا کہ روسی علاقے کراچیف کے قریب سرحد سے 100 کلومیٹر دور ایک اسلحہ ڈپو پر ہونے والے حملے میں 12 دھماکے ہوئے۔
ادھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاورؤف نے واشنگٹن پر تنازع کو بڑھانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’برائنسک کے خطے میں گذشتہ رات بار بار امریکی میزائلوں کا استعمال کیا گیا جو یقیناً اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ (امریکہ) کشدیدگی بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کے پوتن کئی بات کہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کے بغیر، ان ہائی ٹیک میزائلوں کا استعمال ناممکن ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ روس ’یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھے گا‘ کہ ان میزائلوں کو ’امریکی فوجی ماہرین‘ چلا رہے ہیں۔
انھوں نے ریو ڈی جنیرو میں جی 20 کے اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسے روس کے خلاف مغربی جنگ کے ایک نئے چہرے کے طور پر لیں گے اور ہم اس کے مطابق ردعمل ظاہر کریں گے۔‘
اس سے قبل منگل کو کریملن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نظریے میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد و شرائط طے کیں ہیں جن کے تحت ملک اپنے ہتھیاروں کے استعمال پر غور کر سکے گا۔
واضح رہے کہ روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں ترمیم ستمبر میں تجویز کی گئی تھی اور منگل کو یوکرین کے ساتھ جنگ کے 1,000 ویں دن پر اس پر مہر ثبت کی گئی۔
روس کی طرف یہ اہم تبدیلیاں پیر کے روز واشنگٹن کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئیہے جس میں یوکرین کو روس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائل فائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ادھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاورؤف نے واشنگٹن پر تنازع کو بڑھانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’برائنسک کے خطے میں گذشتہ رات بار بار امریکی میزائلوں کا استعمال کیا گیا جو یقیناً اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ (امریکہ) کشدیدگی بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کے پوتن کئی بات کہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کے بغیر، ان ہائی ٹیک میزائلوں کا استعمال ناممکن ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ روس ’یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھے گا‘ کہ ان میزائلوں کو ’امریکی فوجی ماہرین‘ چلا رہے ہیں۔
انھوں نے ریو ڈی جنیرو میں جی 20 کے اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسے روس کے خلاف مغربی جنگ کے ایک نئے چہرے کے طور پر لیں گے اور ہم اس کے مطابق ردعمل ظاہر کریں گے۔‘
اس سے قبل منگل کو کریملن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نظریے میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد و شرائط طے کیں ہیں جن کے تحت ملک اپنے ہتھیاروں کے استعمال پر غور کر سکے گا۔
واضح رہے کہ روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں ترمیم ستمبر میں تجویز کی گئی تھی اور منگل کو یوکرین کے ساتھ جنگ کے 1,000 ویں دن پر اس پر مہر ثبت کی گئی۔
روس کی طرف یہ اہم تبدیلیاں پیر کے روز واشنگٹن کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئیہے جس میں یوکرین کو روس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائل فائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اب اس نئے نظریہ کے مطابق اگر ایک غیر جوہری ریاست کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ایک جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے، تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔
اب ان تبدیلیوں کے تحت روس پر روایتی میزائلوں، ڈرونز یا ہوائی جہازوں سے بڑا حملہ روس کی جانب سے جوہری ردعمل کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے، جیسا کہ بیلاروس پر حملہ یا روس کی خودمختاری کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہو تو وہ جوہری ردعمل دے سکتا ہے۔
اس کے مطابق روس کے خلاف کسی ایسے ملک کی جارحیت جو کسی اتحاد کا رکن ہو، کو ماسکو پورے گروپ کی جارحیت تصور کرے گا۔
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق جوہری نظریے میں تبدیلیوں کے مطابق، ممکنہ جوہری ردعمل کے دائرے میں آنے والے ممالک، اتحادوں، اور فوجی خطرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر پوتن پہلے بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں جس پر یوکرین نے تنقید کرتے ہوئے ’جوہری دھمکی‘ قرار دیا اور اسے اپنے اتحادیوں کو مزید مدد فراہم کرنے سے روکنے کی روسی کوشش کہا ہے۔
لیکن روسی وزیر خارجہ سرگئی لارؤف نے کہا کہ ’ہم اس بات کے سخت حامی ہیں کہ جوہری جنگ سے ہر حال میں بچا جائے۔‘
ریو ڈی جنیرو میں جی 20 اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس میں سرگئی لاروف نے کہا کہ اس گروپ نے جس میں روس بھی شامل ہے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو۔‘
جوہری ڈاکٹرائن میں تبدیلی کے حوالے سے کریملن کے ترجمان نے کہا کہ دوسری اقوام ان تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں۔
روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ’یہ ایک انتہائی اہم تحریر ہے اس کا بغور تجزیہ کریں۔‘
یاد رہے کہ روس نے گذشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اقدام پر ’مناسب اور ٹھوس‘ ردعمل کی تنبیہ کی تھی جس میں یوکرین کو اے ٹی اے سی ایم ایس میزائل کو روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ روسی سرزمین کے اندر اس طرح کا حملہ ’امریکہ اور اس کی حواری ریاستوں کی روس کے خلاف براہ راست جنگ میں شمولیت تصور کی جائے گی۔‘
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق دمتری پیسکوف نے کہا کہ نیا جوہری ڈاکٹرائن ’بروقت‘ شائع کیا گیا ہے اور پوتن نے اس سال کے اوائل میں اس کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ اس کو موجودہ حالات سے ہم آہنگ بنایا جائے۔
یاد رہے کہ یوکرین پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصے سے روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں ان میزائلوں کا استعمال کر رہا ہے۔
یہ میزائل 300 کلومیٹر تک کے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور انھیں روکنا مشکل ہے۔
کیئو اب میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے روس میں اندر تک حملہ کرنے کے قابل ہے، بشمول کرسک کے علاقے کے ارد گرد، جہاں یوکرین کی افواج 1,000 مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔ یوکرین اور امریکی حکام مبینہ طور پر خطے میں جوابی کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔