پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 44 افراد کی ہلاکت کے بعد علاقے کی فضا سوگوار ہے جبکہ لواحقین اور علاقہ عمائدین میں آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے مشاورت جاری ہے کہ آیا ہلاک ہونے والوں کی تدفین کی جائے یا میتیں رکھ کر مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کیا جائے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میںمسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 44 تک پہنچگئی ہے جبکہ زخمیوں میں سے بھی 11 افراد کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔
کرم پولیس کے مطابق 44 ہلاک شدگان کی میتیں پاڑہ چنار پہنچ چکی ہیں جبکہ 39 زخمیوں میں سے 11 ٹل کے فوجی ہسپتال جبکہ شدید زخمی پشاور منتقل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 زخمی علی زئی کے ہسپتال اور تین پاڑہ چنار کے ہسپتال میں موجود ہیں۔
ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسیننے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد علاقے کی فضا سوگوار ہے اور اِس وقت لواحقین، علاقے کے عمائدین اور مشران میں آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے مشاورت ہو رہی ہے اور جلد ہی اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ہلاک ہونے والوں کی تدفین کی جائے یا میتیں رکھ کر مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کیا جائے۔
انھوں نے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہل علاقہ اور لواحقین کے مطابق حملے کے وقت قافلے میں سفر کرنے والے چند مسافر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے تھے اور فی الحال یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ وہ کہاں ہیں اور کن حالات میں ہیں جبکہ چند شدید زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ادھر کرم پولیس کا کہنا ہے کہ وہ 33 افراد اس حملے میں محفوظ رہے تھے وہ رات گئے بگن سے شیعہ اکثریتی علاقے علیزئی پہنچ گئے تھے جہاں سے وہ پاڑہ چنار جا رہے ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پاڑہ چنار کے علاقے میں اس وقت کئی مقامات پر موبائل انٹرنیٹ میں خلل ہے جبکہ کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 33 افراد کی لاشیں ابتدائی طور پر مندروی کے مقامی ہسپتال میں پہنچائی گئی تھیں جنھیں بعدازاں پاڑہ چنار میں ان کے آبائی علاقوں تک پہنچایا گیا۔
’جب پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوئے تو سکیورٹی اہلکاروں سے کہا قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی کم‘
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’(قافلے کی حفاظت پر تعینات) ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے۔‘
عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم 14 کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچت شامل ہیں۔
عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھر دوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔
سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اُتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں شاید ایک خاتون ڈاکٹر یا نرس تھی اور وہ دوڑ دوڑ کر زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘
’آخر کب تک یہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہیں گے‘
ضلع کرم کے علاقے اوچت کے مقامی شخص شاہین گل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب مسافر گاڑیوں پر حملہ ہوا تو وہ فوراً اس مقام کی طرف گئے لیکن پہلے تو پولیس نے انھیں روکا کہ کہیں انھیں کوئی خطرہ نہ ہو لیکن جب انھوں نے کہا کہ اس واقعے کا شکار ہونے والے ان کے اپنے لوگ ہیں تو انھیں جانے کی اجازت دی گئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر فوری طور پر زخمیوں اورہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو مندوری ہسپتال منقتل کرنا شروع کر دیا۔
انھوں نے بتایا کہ مندوری میں بنیادی صحت مرکز اہل سنت کا علاقہ ہے اور وہاں 30 کے لگ بھگ لاشیں اور ایک درجن کے قریب زخمی پہنچائے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ان زخمیوں اور لاشوں کو مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔
شاہین گل نے بتایا کہ انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ حملہ آور کیسے آئے اور کیسے حملہ کیا لیکن اس انھوں نے وہاں موجود لوگوں کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور فائرنگ کر کے پہاڑوں کی جانب چلے گئے۔
اوچت کا علاقہ پاڑہ چنار اور ٹل کے درمیان واقع ہے اور شاہین گل کے مطابق اوچت ٹل سے 24 کلومیٹر دور ہے جبکہ پاڑہ چنار سے کوئی 75 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
شاہین گل کہتے ہیں کہ دو روز قبل ان کے مکان پر بھی ایک مارٹر گولہ گرا تھا جس کے خلاف انھوں نے بدھ کے روز احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آخر کب تک یہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔‘ انھوں نے علاقے میں امن کا مطالبہ بھی کیا۔
ان سے جب پوچھا کہ گاڑیوں کا قافلہ کے سکیورٹی کس طرح کی جا رہی ہے تو انھوں نے بتایا کہ ماضی میں مسافر گاڑیوں کے ساتھ پولیس یا سکیورٹی فورسز کی گاڑیاں ساتھ چلتی تھیں لیکن اب پولیس اہلکار سڑک کے کنارے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔
’پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا‘
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔
بیرسٹر سیفکا کہنا ہے کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں جنھیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اب تک 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 19 شدید زخمی ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او، آر پی او سمیت تمام متعلقہ افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطے میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی اور صوبے میں دہشتگردی کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہو گی مدد کریں گے۔
ضلع کرم اہم کیوں ہے؟
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔
پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔