نسیم گل کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی ’10 سال تک سعودی عرب کی ایک جیل میں قید رہا۔ پھر ایک دن اس کو بتایا گیا کہ تمھاری پھانسی کی سزا پر عملدر آمد ہونا ہے۔‘
نسیم گل (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی ’10 سال تک سعودی عرب کی ایک جیل میں قید رہا۔ پھر ایک دن اس کو بتایا گیا کہ تمھاری پھانسی کی سزا پر عملدر آمد ہونا ہے۔‘
نسیم گل نے بی بی سی سے اپنا اور اپنے بھائی کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ اسی لیے ان کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ ’ہم نے قرض لے کر والدین کو سعودی عرب بھیجا کہ وہ ایک بار بیٹے سے مل لیں مگر ان کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ملی۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ اس کی لاش کدھر دفن کی گئی ہے۔‘
نسیم گل کے بھائی ان 21 پاکستانیوں میں سے ایک تھے جنھیں رواں سال سعودی عرب میں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال، بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب میں اب تک سو سے زیادہ غیر ملکیوں کو سزائے موت دی گئی جن میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ان سزاؤں پر عدالتی کارروائی کے بعد الزامات ثابت ہونے پر عملدرآمد کیا گیا۔
سزا پانے والوں میں پاکستان کے علاوہ یمن کے بیس، شام کے چودہ، نائیجیریا کے دس، مصر کے نو، اردن کے آٹھ، ایتھوپیا کے سات، انڈیا، افغانستان اور سوڈان کے تین تین شہری جبکہ سری لنکا، فلپائن اور اریٹیریا کے ایک ایک شہری شامل ہیں۔
بی بی سی نے دو ایسے پاکستانیوں سے بات چیت کی ہے جن کے اہلخانہ ان افراد میں شامل تھے جن کو سعودی عرب میں سزائے موت دی گئی ہے جنھوں نے مختلف وجوہات اور خدشات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی ہے۔
بی بی سی نے اس معاملے پر سعودی عرب میں پاکستان سفارت خانے اور اسلام آباد میں دفتر خارجہکے ترجمان سے رابطہ بھی کیا گیا تاہم ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
سعودی عرب میں تعینات پاکستانی پریس قونصلر نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ سے رابطہ قائم کیا جائے۔ تاہم اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز بلوچ سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
روزگار کا خواب
دس سال قبل نسیم گل کے بھائی بہتر روزگار کا خواب لیے لاہور ایئر پورٹ سے سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔
انھیں ایک شخص ملا جس نے کہا کہ ’تم اچھے کاریگر ہو، میں تمھیں سعودی عرب بھجواتا ہوں، بہت پیسے ملیں گے۔ میرا بھائی تیار ہو گیا اور ایک دن ویزا بھی آ گیا۔‘
نسیم کو آج بھی یاد ہے کہ ان کے بھائی، جو کارپینٹر تھے، کو جس شخص نے سعودی عرب کا ویزہ دلوایا تھا، اس نے روانگی سے قبل چند اوزار بھی ساتھ دیے اور ہدایت کی کہ کام کے لیے ان کی ضرورت پڑے گی۔
اس نے بھائی سے کہا کہ ’کچھ اوزار تم نے کمپنی کے نمائندے کو دے دینے ہیں۔ یہ میرے سامنے ہوا تھا۔ بھائی کیسے انکار کر سکتا تھا۔ ہم لوگ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ لاہور ایئر پورٹ پر کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔‘
تاہم نسیم بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی کو جدہ ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی بے گناہ تھے تاہم بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا۔
بھائی کی گرفتاری نسیم کے اہلخانہ کے لیے ایک امتحان جیسی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اہل خانہ ’جگہ جگہ مارا مارا پھرتا رہا۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر گئے۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے فون کیے، انھیں خطوط لکھے۔ مگر کسی نے بات نہیں سنی اور نہ ہی ہماری مدد کی۔‘
’مقدمہ عربی زبان میں چلتا تھا، کچھ سمجھ نہیں آتی تھی‘
اس دوران نسیم کے بھائی کے خلاف مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ نسیم کو اس بارے میں بھائی کے فون سے علم ہوا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بھائی نے بتایا کہ مقدمہ میں سب عربی زبان میں ہوتا ہے اور اس کو کچھ بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔‘
’ترجمان بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ بھائی کے مطابق اس سے کچھ کاغذات پر دستخط بھی کروائے جاتے تھے مگر بتایا نہیں جاتا تھا کہ کیوں دستخط کروا رہے ہیں۔‘
نسیم گل کا دعویٰ ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے بھائی نے بار بار بتایا کہ اوزار اس کے نہیں تھے بلکہ اس کو دیے گئے تھے۔
’بھائی کو کہا گیا پھانسی کی سزا قید میں بدل گئی‘
ارسلان خان کی کہانی بھی نسیم گل سے ملتی جلتی ہے۔ ان کے بھائی بھی دس سال سے سعودی عرب میں منشیات سمگلنگ کے الزام میں ہی قید ہیں۔
واضح رہے کہ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق اس سال مجموعی طور پر21 پاکستانیوں کو سعودی عرب میں سزائے موت دی گئی جبکہ 2023 میں یہ تعداد سات جبکہ 2022 میں تین تھی۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق 2016 سے 2024 تک مجموعی طور پر ایک سو تیس پاکستانیوں کو سعودی عرب میں سزائے موت دی گئی۔ جسٹس پراجیکٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں جن کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ ہے۔
ان میں 691 منشیات سمگلنگ کے الزام کے تحت قید ہیں جن میں سے کچھ کا ٹرائل ہو رہا ہے اور کچھ کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ باقی مختلف الزامات کے تحت قید ہیں۔
ارسلان خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کو پہلے کہا گیا کہ منشیات سمگلنگ کے الزام میں پھانسی کی سزا ہوئی ہے لیکن اب اسے کہا گیا ہے کہ پھانسی کی سزا پندرہ سال قید میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ’ہمیں کچھ پتا نہیں ہے کہ اس کو کیا سزا ہوئی ہے۔‘
ارسلان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی دو ہزار دس میں پہلی بار سعودی عرب گئے تھے اور چار سال کام کرنے کے بعد دو ماہ کی چھٹی پر واپس آئے۔
’سعودی عرب میں اس کا ایک دوست بن گیا تھا۔ دونوں ساتھ ہی واپس آئے تھے۔ چھٹی ختم ہونے پر دونوں اسلام آباد سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے۔‘
ارسلان کے مطابق ’جدہ ایئر پورٹ پر ان کے بھائی کے دوست نے ایک بیگ تھمایا اور کہا کہ دو منٹ پکڑو، میں واش روم سے آتا ہوں۔
’اس بیگ کی وجہ سے میرا بھائی پکڑا گیا اور اب تک جیل میں ہے۔‘ بی بی سی ارسلان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر پایا ہے۔
ارسلان کے مطابق ’گذشتہ 10 برسوں میں ہمنے کبھی عید نہیں منائی۔۔۔ توقع تھی کہ شاید بھائی کا فون آجائے۔‘
تاہم نسیم اور ارسلان کے مطابق انھوں نے پاکستانی حکام سے بار بار پوچھا کہ یہ منشیات پاکستان کے ایئر پورٹ پر کیوں نہیں پکڑی گئیں مگر ان کو اس حوالے سے کوئی جواب نہیں ملا۔
ارسلان کہتے ہیں کہ ’بھائی کو قید میں دس سال ہو چکے ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، بھائی اچھے مستقبل کے لیے گیا تھا مگر اب ہمارا کچھ بھی نہیں بچا۔‘
’میں اللہ کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ اس کو معاف کر دیں اور واپس پاکستان بھجوا دیں۔‘
سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ
جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جی پی پی) کی چیف ایگزیکٹو آفیسر سارہ بلال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی تعداد گذشتہ پانچ سالوں میں بڑھتی رہی ہے۔‘
ان کے مطابق سعودی عرب میں عدالتی کارروائی اور انسانی حقوق کی صورتحال کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا ہے۔
مختلف بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں میں اس پر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔
سارہ بلال نے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے اہلخانہ کی مشکلات اور قیدیوں تک رسائی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ بین الاقوامی قوانین ہیں۔
’کسی بھی ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کے شہری کو قونصلر رسائی کا حق ویانا کنونشن دیتا ہے اور یہ پاکستانی سفارت خانے کا کام ہے کہ اس کنونشن کے تحت تمام قید پاکستانیوں کو قونصلر رسائی فراہم کروائے۔‘
سارہ بلال نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’وہاں پر تمام ٹرائل عربی میں ہوتے ہیں۔ اکثر پاکستانی بالخصوص منشیات سمگلنگ کے معاملے میں پکڑے جانے والی پاکستانیوں کے ساتھ دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ عربی نہیں جانتے ہیں اور یہ زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو پہلی مرتبہ جا رہے ہوتے ہیں اور سعودی عرب کے ایئرپورٹس پر پکڑے جاتے ہیں۔ ان کا تو کوئی بھی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیاں قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں سے اگر کوئی شہری کسی دوسرے ملک میں جرم کرکے سزا پائے گا تو وہ یہ سزا اپنے ملک میں پوری کرے گا۔‘
سارہ بلال کا کہنا تھا کہ ’حالیہ دونوں میں پاکستان کی وزارت داخلہ اور مشیر داخلہ محسن نقوی نے کوشش کی ہے اور چار سو سے زائد پاکستانی قیدیوں کو ممکنہ طور پر واپس لانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
سارہ بلال کا کہنا تھا کہ ’سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے آخری دورہ پاکستان کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں قید دو ہزار پاکستانیوں کو واپس بھجوا دیں گے یا ان کی سزائیں معاف کردیں گے۔
’مگر اس پر ابھی تک ہمیں نہیں پتا کہ عملدر آمد ہوا ہے کہ نہیں۔‘