’اسد صبح سویرے اپنے والد سے کسی معاملے پر بات کرنے ان کے کمرے میں گیا ۔بات چیت کے دوران خاندانی جاگیر کے انتظامی معاملات پر دونوں میں تلخ کلامی شروع ہو گئی۔نواب صاحب نے اپنے بیٹے کو جاگیر کے معاملات میں بدانتظامی کا مرتکب قرار دیا۔ جواب میں بیٹے نے والد کے وفادار نوکر نور محمد کو قصور وار قرار دیا جس پر نواب صاحب نے آپے سے باہر ہو کر اپنے پستول سے اسد پر دو گولیاں برسا دیں۔ ایک گولی اس کے بازوں کو معمولی سا چھو کر گزر گئی۔اسد نے جواب میں نواب صاحب کی گردن، پیٹ اور سینے پر پانچ گولیاں داغ دی۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔‘26 نومبر 1967 کو یہ الفاظ اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی ڈائری میں درج کیے۔ جب انہیں مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسی نے اطلاع دی کہ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو قتل کر دیا گیا ہے ۔
ایوب خان کی تحریر کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ’نواب صاحب اس سلوک کے قابل نہ تھے۔ مگر وہ اپنے جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے حکم جتانے اور عدم برداشت کے رویے کا شکار تھے۔‘
کہتے ہیں کہ اقتدار اور سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا ۔صدر ایوب کے خیالات اور تحریر میں اس شخص کے لیے دکھ یا تاسف کا کوئی کلمہ شامل نہیں تھا جس نے ان کے اقتدار کو سخت گیر منتظم اور سیاسی مخالفین کے لیے بے رحم منتقم کے طور پر سہارا دیا ۔
جون 1960 سے اکتوبر 1966 تک مغربی پاکستان کے سخت گیر گورنر کے طور پر وہ خوف اور دبدبے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس دور کے تذکروں میں ان کے اصل نام ملک امیر محمد خان کے بجائے نواب آف کالا باغ یا صرف لفظ کالا باغ ان کی اچھی یا بری شہرت کی پہچان بن گیا تھا ۔
اپنے جاگیر دارانہ رویوں اور جابرانہ انتظامی انداز کے باعث ان کے سیاسی اور ذاتی دشمنوں کی تعداد کم نہ تھی ۔
مگر دنیا کو نواب امیر محمد خان کے اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل کی خبر سے حیرت کا جھٹکا ضرور لگا۔ سندھ کے سابق گورنر لفٹینٹ جنرل جہاندار خان کے لیے اس خبر میں صدمہ تو تھا مگر یہ ان کے لیے غیرمتوقع واقعہ تھا۔
مزاج میں جاگیردارانہ انداز کی جھلک رکھنے والے نواب امیر محمد خان نے 20 جون 1910 کو کالا باغ میں جنم لیا (فائل فوٹو)
ایک جونیئر افسر کے طور پر وہ گورنر مغربی پاکستان کے ساتھ تین سال تک ملٹری سیکرٹری کے طور پر تعینات رہے تھے ۔نواب صاحب ان پر حد درجہ اعتماد کرتے تھے ۔ایک سفر کے دوران انہوں نے خاندانی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار یوں کیا تھا ’اگر کسی وقت میں مارا جاؤں تو یہ کام بچوں کے ماموں کے کہنے پر کوئی ملازم یا خاندان کا انجام دے گا۔‘
نواب صاحب کی اپنے بارے میں یہ پیشن گوئی کیسے درست ثابت ہوئی؟ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل صدر ایوب کی آنکھ کا تارا بننے اور پھر دل میں کھٹکنے کے بعد اقتدار سے علیحدگی کی افسانوں جیسی حقیقتوں کا ذکر ہو جائے ۔
مظالم کی کہانیاں کتنی سچی ہیں ؟
طویل القامت جسامت ،گھنی رعب دار مونچھیں اور سوچ اور مزاج میں جاگیردارانہ انداز کی جھلک رکھنے والے نواب امیر محمد خان نے 20 جون 1910 کو کالا باغ میں جنم لیا۔ والد نواب عطا محمد خان کا انتقال ان کی نو عمری میں ہو گیا تھا ۔ کالا باغ کے گرد و پیش کی بیشتر اراضی ان کی ذاتی جاگیر پر مشتمل تھی ۔اندرون و بیرون ملک سے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے بعد انہوں نے اپنی زمینوں پر کاشتکاری شروع کی ۔
یہیں سے ان کی علاقے کے دیگر جاگیر داروں کے ساتھ دشمنی کی شروعات ہوئیں ۔ان کے سیاسی حریف پیر آف مکھڈ شریف کا خاندان تھا ۔ان کے مرید اور معتقدین سگری کہلاتے تھے جن کے ساتھ زرعی اراضی کے متعدد تنازعات تھے۔ والد کی وفات کے بعد امیر محمد خان کے تعلیم کے لیے انگلستان جاننے کا فائدہ اٹھا کر سگریوں نے ان کی چراگاہوں کو اپنے تصرف میں لے لیا۔
مکھڈ کے پیر صاحبان سے اپنی زمینوں کو واگزار کروانے کے لیے نواب امیر محمد خان نے جو طریقہ اختیار کیا اس نے پورے علاقے میں انہیں جابر اور انتقام کے رسیا کے طور پر مشہور کر دیا۔
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ جہانداد خان اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’پاکستان لیڈرشپ چیلنجز :اے پرسنل میموئر‘ میں نواب آف کالا باغ کے بطور گورنر مغربی پاکستان ساتھ گزرے وقت اور واقعات کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں ۔انہوں نے ایک بار نواب صاحب سے ان کے مظالم کے بارے میں گردش کرتی داستانوں کے بارے میں پوچھا ۔ جواب نواب صاحب نے مخالفین کے ساتھ تصادم کی وجوہات اور تفصیل بیان کی۔
نواب امیر محمد خان نے اپنے حریفوں کو اپنی زمین سے دور رہنے کا پیغام بھیجا مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔دونوں طرف تناؤ اس وقت بڑھ گیا جب یہ افواہ پھیلی کہ سگری نواب صاحب کو قتل کروانا چاہتے ہیں ۔امیر محمد خان نے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا ۔حفظ ماتقدم کے طور پر انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو پیر صاحب مکھڈ کے خلاف درخواست دی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ انتظامیہ انہیں نواب کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے سے روکے۔
نواب صاحب کے بیٹے ملک مظفر 1962 سے 1988 تک الیکشن میں حصہ لیتے رہے (فائل فوٹو: فلکر)
اس کے بعد انہوں نے مخالف فریق کو پیغام بھیجا کہ مقررہ تاریخ کے بعد ان کا کوئی فرد زمینوں میں داخل ہوا تو زبردستی باہر کر دیا جائے گا ۔نواب نے اپنے مسلح بندوں کو زمینوں کے گرد تعینات کر دیا ۔انہیں حکم دیا کہ اگر کوئی زمینوں پر زبردستی گھس آئے تو اسے گولی مار دیں ۔ مخالفین کی بکریوں کے ریوڑ جب نواب کے علاقے میں داخل ہوئے تو ان پر گولیوں کی برسات ہو گئی۔سے چند لمحوں میں علاقے میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔
امیر محمد خان نے لاشیں اٹھانے کی اجازت دینے سے قبل ڈی سی کے دفتر میں ایف آئی ار درج کرا دی ۔ جس میں حفاظت خود اختیاری کے تحت اس فعل کو قانونی قرار دینے کی بات کی گئی تھی ۔طاقت کے استعمال پر ان کا اپنی زمینوں پر قبضہ بحال اور سارے علاقے میں انکی بے رحمی کا سکہ بیٹھ گیا۔
اس دور کے مشہور خطیب عطا اللہ شاہ بخاری تک ان کے مظالم کی خبریں پہنچی تو میانوالی کے ایک جلسے میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے حاظرین سے حلف لیا کہ وہ اگلے روز سر پر کفن باندھ کر کالا باغ جائیں گے اور ظالم نواب کی خبر لیں گے۔
معروف بیورو کریٹ اور دانشور الطاف گوہر نے نواب آف کالا باغ کے ساتھ مغربی پاکستان کے سکریٹری خزانہ کے طور پر کام کیا۔ وہ اپنی کتاب ’گوہرگشت‘ میں اس واقعہ کا احوال بیان کرتے ہیں ۔ان کے مطابق بخاری صاحب کا ایک ساتھی ان کا پیغام لے کر نواب کے پاس ایا اور انہیں بتایا کہ کل ہزاروں لوگ سر پہ کفن باندھ کر یہاں آئیں گے ۔بہتر ہے کہ وہ خود بخاری صاحب کے ہاں جا کر معافی مانگ لیں اور اپنے مظالم سے تائب ہو جائیں ۔
انہوں نے پیغام لانے والے کو جواب دیا ’بخاری صاحب کو میرا سلام کہنا ۔انہیں میری طرف سے بتا دینا کہ اگر وہ سر پہ کفن پہنے ہوئے آئیں گے تو میں انہیں وہی کفن پہنا کر یہاں سے روانہ کر دوں گا۔‘
اس پیغام کے بعد اگلے روز میاں والی سے کوئی جلوس کالا باغ کی طرف نہ آیا ۔
امریکی صدر کی بیوی انہیں کون سا عہدہ دینا چاہتی تھی؟
امیر محمد خان نے لاہور کے ایچیس کالج سے سینیئر کیمبرج کیا۔ نامور انڈین اداکار سیف علی خان کے دادا نواب افتخار علی خان پٹودی ان کے کلاس فیلو تھے۔
اس کے بعد انہوں نے لندن یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔یہاں کرنل نو لیس ان کے نگران مقرر ہوئے ۔جو کسی زمانے میں میانوالی میں ڈپٹی کمشنر بھی رہ چکے تھے ۔1931 میں ملک واپسی کے بعد انہوں نے کورٹ آف وارڈ سے آپنی جاگیر کا انتظام آپنے ہاتھ میں لیا۔
تقسیم سے قبل کی جاگیردارانہ روایات کے مطابق مقامی اور ضلعی کونسلوں کے لیے اپنے نمائندے نامزد کرنے کی سیاست میں انہوں نے بھی حصہ لینا شروع کیا۔ 1940 میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے لیے ہونے والے اجلاس کے لیے انہوں نے دیگر جاگیرداروں سے بڑھ کر مسلم لیگ کو چندہ بھی دیا۔
قیام پاکستان کے بعد وہ پہلی بار 1951 میں پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1956 میں دوسری بار مغربی پاکستان اسمبلی کا حصہ بنے ۔ان کی عادت تھی کہ وہ اسمبلی کے پچھلے بنچوں پرخاموش بیٹھے رہتے ۔
مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر اور صوبائی وزیر پیر محمد علی راشدی سے نواب صاحب کا گہرا تعلق تھا ۔ان کی کتاب "روداد چمن "میں ملک امیر محمد خان کی سیاسی زندگی اور گورنری کے دور کے بہت سارے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ پارٹی میٹنگوں میں نواب صاحب یا تو خاموش رہتے یا آپنی رعب دار مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے ۔دوسرے ممبران وزیروں کے آگے پیچھے پھرتے رہتے مگر وہ خال ہی آنکھ اٹھا کر کسی وزیر کی طرف دیکھتے ۔
جدی پشتی جاگیردار ہونے کی وجہ سے آپنے خاندان پر فخر اور آمرانہ سوچ انہیں ورثے میں ملی تھی ۔ذاتی طور پر ان میں اصول پسندی، مہمان نوازی اور دوستوں سے وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔وہ افراد کو ان کے خاندانی پیس منظر اور ذات برادری کی بنیاد پر پرکھنے اور اہمیت دینے کے قائل تھے۔
الطاف گوہر کی تقرری مغربی پاکستان کے سیکرٹری خزانہ کے طور پر ہوئی ۔تعارفی ملاقات کے لیے وہ گورنر سے ملنے گئے تو انہوں نے انگریزی لباس پہن رکھا تھا ۔اس وقت دوسرے افسران نے نواب صاحب کو خوش رکھنے کے لیے شلوار قمیض زیب تن کر رکھی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے انگریزی میں گفتگو کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ ان کا لہجہ اور تلفظ بھی انگریزوں والا تھا۔
قدیم اور قدامت پسندانہ روایات پر عمل درآمد کرنے کے باوجود وہ دور جدید کے طرز فکر اور اطوار اور نظریات سے پوری طرح واقف تھے۔
اس دور کے امریکی صدر کینیڈی کی بیوی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے اعزاز میں گورنر ہاؤس میں تقریب منعقد ہوئی۔ وہ ایوب خان کی جناح کیب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس شام انہوں نے لباس کے ساتھ وہ ٹوپی بھی پہن رکھی تھی۔
اس تقریب میں موجود الطاف گوہر بیان کرتے ہیں کہ جیکی کینیڈی نواب صاحب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ان کے سامنے میز پر بہت سارے پھل رکھے ہوئے تھے ۔جیکی نے ایک پھل اٹھا کر نواب صاحب سے کہا کہ یہ پھل میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا یہ کیا چیز ہے؟
نواب صاحب نے امرود کو جیکی کے ہاتھوں سے لیا اور پھر اس کی کاشت کی پوری تاریخ بتانا شروع کی۔ ساتھ ہی انہیں یہ سمجھایا کہ یہ پھل برصغیر میں کب اور کیسے آیا، اور وہ کن مراحل سے گزر کر عوام کا پسندیدہ پھل بن گیا۔
جیکی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔انہوں نے نواب صاحب سے کہا کہ ’میں زراعت کے بارے میں آپ کے علم سے اس قدر مرعوب ہوئی ہوں کہ واپس جاتے ہی صدر کینیڈی سے کہوں گی کہ آپ کو امریکہ کا وزیر تجارت بنایا جائے۔‘
ایوب خان کی قربت اور پسندیدگی نے نواب آف کالا باغ پر مغربی پاکستان کی گورنری کا دروازہ کھول دیا (فائل فوٹو: انسٹاگرام)
اعلیٰ تعلیم یافتہ گورنر مفت تعلیم کے مخالف
سابق صدر پاکستان سکندر مرزا جب کرنل سکندر مرزا اور میانوالی کے ڈپٹی کمشنر تھے تو ان کی نواب صاحب سے گہری دوستی ہو گئی۔ جنرل ایوب سے ان کا تعارف سکندر مرزا نے ہی کروایا۔ دونوں میں شکار کا شوق مشترک تھا۔ ایوب خان تیتر کے شکار کے لیے اکثر کالا باغ جانے لگے۔
ملک میں مارشل لا کے بعد ایوب خان نے انہیں پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کا سربراہ لگا دیا ۔اس کا کام سرکاری شعبے میں صنعتوں کے قیام کے بعد انہیں نجی شعبے کے حوالے کرنا تھا ۔
ایوب خان کی قربت اور پسندیدگی نے ان پر مغربی پاکستان کی گورنری کا دروازہ کھول دیا۔ 1955 میں موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ملا کر مغربی پاکستان نام کے صوبے کی شکل دی گئی تھی ۔
ملک امیر محمد خان نے اس کی انتظامیہ کو غیر رسمی طریقے سے چلایا ۔وہ منتخب حکومت کے لوازمات کو برقرار رکھتے تھے مگر انتظامی معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رہنے دیتے ۔اعلی سرکاری افسروں سے براہ راست رابطہ رکھتے ۔اپنی کابینہ کے ارکان کو مخصوص سیاسی امور میں مصروف رکھتے تھے ۔
اپنے ماتحتوں کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھتے اور انہیں کام کی پوری آزادی حاصل ہوتی ۔مگر مطلوبہ نتائج نہ دکھانے پر ہر وقت ان پر سزا کا کوڑا بھی تانے رکھتے ۔
ایک مرتبہ صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری فدا حسین نے راولپنڈی کے کمشنر ایم ایچ شاہ کی شکایت کی کہ انہوں نے حکم عدولی کی ہے حالانکہ وہ صدر کا حکم تھا ۔گورنر کا جواب دیا ’کمشنر کو میں شاباش دوں گا۔ کیونکہ یہ آپ کا منصب نہیں کہ آپ میرے ماتحتوں کو براہ راست احکامات دیں۔ اگر آپ نے کوئی کام لینا ہے تو یہ حکم میرے ذریعے نافذ ہوگا خواہ وہ صدر کے احکامات ہی کیوں نہ ہوں۔‘
جنرل جہاندار خان لکھتے ہیں کہ گورنر کے معلومات حاصل کرنے کے اپنے خفیہ ذرائع تھے۔ انہیں بدعنوانیوں کی فورا اطلاع مل جاتی تھی۔ لوگ ان کے اس انداز سے خوفزدہ رہتے ۔انہوں نے سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ ان کے بیٹے یا دیگر عزیز و اقارب اگر کسی قسم کی رعایت کا مطالبہ کریں تو انہیں فورا اطلاع دی جائے۔
صدر ایوب خان کے دور کو بعض لوگ مثالی اور بدعنوانیوں سے پاک قرار دیتے ہیں۔ مگر جہانداد خان کے مطابق صدر ایوب کے اہل خانہ گورنر کے لیے مسائل پیدا کرتے رہتے ۔وہ روٹ پرمٹ، پلاٹ اور ایجنسیوں کا مطالبہ کرتے ۔گورنر صاحب نے ملٹری سیکرٹری ہونے کے ناطے ان کے معاملات طے کرنے کا اختیار مجھے دے رکھا تھا ۔اس بارے میں ان کا اصول تھا "بس ایک لقمہ دے دو اسے زیادہ نہیں "۔
اس خاص قسم کی اصول پسندی کے ساتھ ساتھ نواب کالا باغ کی ذہنی ساخت بہرحال ایک جاگیردار کی تھی ۔جو کہ معاشرے کو سختی اور احکامات کے نفاذ سے سیدھا رکھنے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا سماجی تبدیلی کا نظریہ کتنا محدود اور کوتاہ فہمی پر مبنی تھا اس کا اندازہ الطاف گوہر کے بیان کردہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
نامور انڈین اداکار سیف علی خان کے دادا نواب افتخار علی خان پٹودی ان کے کلاس فیلو تھے (فائل فوٹو: فلکر)
وہ لکھتے ہیں کہ گورنر نے شاید ہی ان کی کسی تجویز سے اختلاف کیا ہو مگر سوائے ایک فیصلے سے جو ملک میں تعلیم کے فروغ کے بارے میں تھا ۔صوبے کے سالانہ بجٹ میں الطاف گوہر نے یہ تجویز رکھی کہ بچوں کو پرائمری تعلیم مفت دینی چاہیے ۔ساتھ ہی پرائمری سکول کے اساتذہ کی تنخواہوں میں معقول اضافہ بھی ہونا چاہیے۔
نواب صاحب نے انہیں سمجھایا کہ تعلیم کی وجہ سے محروم طبقات کے بچوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔انہوں نے اپنے ہاں رنگ سازی کا کام کرنے والے معراج خان کی مثال بیان کی ۔کہ کس طرح اس کا چھوٹا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور روزانہ معقول پیسے کماتا ہے ۔
نواب صاحب نے انہیں بتایا کہ معراج خان نے اپنے بڑے بیٹے کو تعلیم دلوائی تھی اور ان دنوں وہ جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’اس قصے کے بعد بجٹ سے مفت پرائمری تعلیم کی تجویز مسترد کر دی گئی۔‘
ذوالفقار علی بھٹو سے کالا باغ کی دشمنی
نواب امیر محمد خان نے جو انتظامی طریقہ اختیار کیا اس نے بے شمار سیاست دانوں، بیوروکریسی کے اور دانشوروں کو ان کا مخالف بنا دیا تھا۔ وفاق میں متعین سینیئر سرکاری افسروں کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے کیوں کہ اس طرح انہیں صوبائی امور میں مداخلت کا موقع نہ ملتا تھا۔ وہ ان سینیئر افسروں کی موجودگی میں صدر ایوب خان سے ان کی تمام کارستانیوں کو بلا خوف بیان کرتے تھے۔ انہوں نے بے لگام افسر شاہی کو نکیل ڈالنے اور انہیں اپنی حدود میں رکھنے کی ابتدا کی۔
ایک بار سی ایس پی کے افسروں کا ایک وفت سید فدا حسین کی قیادت میں نواب صاحب کی خدمت میں آیا ۔وہ چاہتے تھے کہ سی ایس پی افسروں کی تنخواہیں بھی ان کے ہم منصب فوجی افسروں کے مساوی کر دی جائیں ۔گورنر صاحب نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا ۔
جب گفتگو کا اغاز ہوا تو ساتھ ہی کہا کہ عوام کی نظروں میں سی ایس پی ملک کی سب سے زیادہ طاقتور سیاسی جماعت ہے ۔وفد نے آپنے دفاع میں دلیلیں دینا شروع کر دی ۔اسی دوران ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ۔گورنر صاحب نے اٹھ کر ان سے الوداعی مصافحہ کیا اور انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹا دیا ۔
نواب امیر محمد خان سیاسی امور میں حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے خاندانی پس منظر کا یہی تقاضا تھا۔ قدامت پرستی کی حمایت اور ٹھوس سماجی تبدیلیوں اور ترقی پسندانہ افکار کی مخالفت ان کے جاگیردارانہ مفادات کے لیے ضروری تھا۔
یہ انداز فکر صرف ان کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ ان کے دیگر ہم خیال ساتھی مغرب کے طرف دار تھے۔ ان میں محمد شعیب، غلام فاروق خان، نواب ہوتی اور پنجاب اور سندھ کے دیگر جاگیردار اور زمیندار شامل تھے۔
ایوب حکومت میں ان عناصر کے مقابل دوسرا گروپ ترقی پسندانہ سوچ کا حامل اور سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے خیال کا حامی تھا۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو، عزیز احمد ،این اے فاروقی، الطاف گوہر اور بی اے عوان جیسے لوگ شامل تھے۔
بھٹو کے ساتھ ان کی مخاصمت کی ایک وجہ ایوب خان کی قربت کے لیے دونوں کے درمیان سبقت کی خواہش اور خاموش کشمکش بھی تھی مگر ایک واقعے نے دونوں کے درمیان تلخی کو کم کر دیا۔
ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھٹو ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے۔ استقبالیہ ہجوم کے غیرمعمولی جوش اور بے تابیوں کے اثرات ان کے کپڑوں پر بھی پڑے اور وہ جگہ جگہ سے پھٹ گئے۔
نواب آف کالا باغ کی شخصیت اپنے جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے متنوع خوبیوں اور تضادات کا مجموعہ تھی (فائل فوٹو: فلکر)
بھٹو مرحوم اس حالت میں گورنر ہاؤس جا پہنچے ۔ نواب صاحب نے کھلے دل کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ کپڑے بدلوائے اور کھانا کھلانے کے بعد اس یقین دہانی کے بعد انہیں رخصت کیا کہ اب وہ ان کی طرف سے کسی بھی جانی خطرے کے خیال سے بے نیاز ہو جائیں۔
پیر محمد علی راشدی کے مطابق نواب صاحب کے قتل کے بعد ایک ملاقات میں ایوب خان نے انہیں بتایا کہ نواب صاحب کے ساتھ ان کی ناراضگی کی ایک وجہ ان کے مخالف بھٹو کے لیے ان کا نرم رویہ بھی تھا۔
نواب کالا باغ ایوب خان کو پستول سے کیوں مارنا چاہتے تھے؟
امیر محمد خان کی گورنری کے ابتدائی چار برسوں میں طاقت کا توازن ان کے حق میں تھا۔ ان کا کہا حرف اخر سمجھا جاتا تھا اور ان کے فیصلوں سے سرتابی کی کسی کو مجال نہیں ہوتی تھی۔
مگر 1964 کے بعد ان کے مخالفین ایوب خان پر حاوی ہونے لگے ۔ جن میں سینیئر سرکاری افسران اور نواب صاحب کے ستائے سیاستدان سبھی شامل تھے ۔انہوں نے ایوب خان کو باور کروانا شروع کر دیا کہ نواب کی بھاری بھرکم شخصیت اور شہرت ایوب خان کے مد مقابل آتی جا رہی ہے۔
اسی دوران لیاری کراچی میں ہونے والے ضمنی الیکشن کہ غیر متوقع نتائج نے امیر محمد خان اور ایوب خان کے درمیان بڑھتی عدم اعتماد کی خلیج اور وسیع کر دی۔
قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے ہونے والے اس الیکشن میں معروف صنعت کار اور پراچہ ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے مالک سیف اللہ پراچہ حکومتی جماعت کے امیدوار تھے ۔جبکہ اپوزیشن نے معروف بلوچ سیاستدان غوث بخش بزنجو کو مقابلے میں اتار ا۔ جنہوں نے یہ معرکہ سر کر لیا۔
ایوب خان کے فرزند اور سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب اپنی یا دشتوں کی کتاب "A Glimpse into Corridor of Power " میں لکھتے ہیں کہ ابتدا میں نواب صاحب نے حکومتی امیدوار کی نامزدگی کی حمایت کی۔ مگر بعد میں انہوں نے اپنی کابینہ کے دو ارکان جام آف لسبیلہ اور محمود ہارون کی ذمہ داری لگائی کہ وہ سیف اللہ پراچہ کو ہرانے میں کردار ادا کریں۔
شکست خوردہ مسلم لیگی امیدوار نے بھی ایوب خان سے ملاقات میں نواب صاحب کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیا ۔ گوہر ایوب خان کے مطابق صدر پاکستان نواب اف کالا باغ سے نجات کا راستہ ڈھونڈنا شروع ہو گئے ۔
ایوب خان کی کابینہ میں امیر محمد خان کے قریبی دوست محمد شعیب نے انہیں پیغام دیا کہ ایوب خان نے کوئٹہ آکر ملنے کا کہا ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے نواب کو نصیحت کی کہ اگر ایوب خان انہیں برا بھلا کہیں تو وہ کسی رد عمل کا مظاہرہ نہ کریں ۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ وہ کوئٹہ کا سفر ہی نہ کریں۔
پیر محمد علی راشدی کے مطابق نواب صاحب نے جواب میں انہیں ہر حال میں کوئٹہ جانے اور ایوب خان سے ملنے کا کا ارادہ ظاہر کیا ۔ انہیں ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے پستول کہ ساتھ صدر سے ملنے جائیں گے ۔اگر ایوب خان نے ان کی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے تو وہ اسی پستول سے انہیں گولی مار دیں گے۔
ایوب خان کے ساتھ ملاقات میں نہ تو دونوں کے درمیان تلخی ہوئی اور نہ ایوب خان نے کھل کر الیکشن کے حوالے سے بات کی ۔ البتہ نواب صاحب نے الیکشن میں کردار ادا کرنے والے اپنی کابینہ کے دو وزراء کے استعفے سے صدر کو اگاہ کر دیا۔
ملک امیر محمد خان صدر ایوب پر اپنا پستول استعمال نہیں کر سکے ۔ مگر قدرت کی ستم ظریفی کہ اپنے بیٹے پر اسی پستول کے استعمال کی کوشش میں وہ جان سے بھی گئے۔
نواب کالا باغ بیٹے کے ہاتھوں کیوں قتل ہوئے؟
جھاندیدہ امیر محمد خان کوئی اندازہ ہو گیا کہ اب ان کے اور ایوب خان کے درمیان بد اعتمادی کی خلیج وسیع ہو چکی ہے۔ اس سے قبل کے ایوب خان انہیں نکال باہر کریں انہیں خود ہی گورنرشپ چھوڑ دینی چاہیے۔
پیر محمد علی راشدی کے مطابق ایک روز نواب صاحب نے انہیں بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ ان کے سامنے ان کے سامنے استعفی پر دستخط کیے اور اپنے ایک خاص مصائب کے ہاتھ ایوب خان کو بھجوا دیا ۔ اپنے ایک عدد سوٹ کیس کے ساتھ انہوں نے گھر واپسی کی راہ لی ۔
گوہر ایوب خان صدر کے ساتھ ان کے آخری ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رخصتی سے قبل انہوں نے صدر ایوب سے کہا کہ خان صاحب مجھے اپ کی طرف سے تحفظ کی ضرورت ہے ۔ میرے رشتہ داروں نے میرے خاندان کے افراد کو میرے خلاف بھڑ کایا ہوا ہے اور مجھے ان سے جان کا خطرہ ہے۔
کالا باغ واپسی کے بعد امیر محمد خان نے اپنی جاگیر کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ مگر ان کے اور خاندان کے درمیان تعلقات کا تناؤ بڑھتے بڑھتے تلخی اور دشمنی کی حد تک چلا گیا تھا۔
جنرل جہانداد خان کے مطابق ان کے اپنے دو بیٹوں مظفر اور اسد اور ان کی بیگم سے تعلقات نفرت اور دشمنی کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ ان کے بیٹوں کا ماموں ملک شیر محمد بھی تھا۔ وہ اقتدار کے دنوں میں اپنے بہنوئی کے اثر ورسوخ اور حیثیت کو استعمال کر کے فائدہ نہیں حاصل کر سکا جس پر اس نے اپنے بھانجوں اور بہن کے کان بھرے اور دونوں فریقوں کے تعلقات کو زہر الود کر دیا۔
ایوب خان کے کچھ رشتہ داروں نے نواب کے بیٹوں سے کسی مشکل کی صورت میں مدد کا وعدہ کیا تھا(فائل فوٹو: فلکر)
نواب صاحب کی گورنری کے دور میں تین شخصیات ان کو ان کے بہت قریب تھیں۔ یہی قربت بعد میں خاندانی تنازعات اور ان کی موت کی وجہ بھی بنی۔
لاہور کے رہنے والے ڈاکٹر حفیظ طوسی اور ان کے بیٹے ڈاکٹر طاہر طوسی کو امیر محمد خان خصوصی اہمیت دیتے تھے ۔نواب صاحب نے ڈاکٹر طاہر طوسی کو لاہور میں ایک بڑی کوٹھی بھی بنوا کر دی تھی۔وہ اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی ڈاکٹر طاہر سے کرنا چاہتے تھے۔
مگر ان کے بیٹے کشمیری خاندان میں آپنی بہن کی شادی پر راضی نہ تھے ۔ انہیں یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ کہیں نواب صاحب اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اور لاہور کی کوٹھی طوسی خاندان کے حوالہ نہ کر دیں ۔خاندان کی مخالفت کے پیش نظر نواب صاحب نے اس رشتے کا خیال دل سے نکال دیا۔
نواب صاحب اپنے بیٹوں کی سرکشی اور سازشوں سے اتنے زچ ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی تمام جائیداد ملک مظفر کے بیٹے اور اپنے پوتے اویس کے سپر دکر دیں گے ۔اس خبر سے ان کے بیٹوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
اس پچیدہ خاندانی تنازع کا ایک کردار ان کی جاگیر کا مینیجر اور پرانا وفادار نوکر نور محمد عرف نورا بھی تھا۔ خاندانی جاگیر کے معاملات میں وہ اپنے بیٹوں سے زیادہ نورے پر اعتماد کرنے لگے۔ان کے اقتدار کے دنوں میں نورا ہر جگہ پہنچ جاتا اور نواب صاحب کی قربت اور اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بہت سے کام نکلوا لیتا تھا۔
نواب صاحب کا خاندان نورا کی جان کا دشمن بن چکا تھا۔ دوسری طرف نورا نے بھی اپنی مہارت اور صلاحیت سے ان کے بیٹوں کو جاگیر کے معاملات میں بے بس اور بے دخل کر رکھا تھا۔
خاندان نے نواب صاحب سے گلو خاصی کے لیے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل جہاندار دیکھتے ہیں کہ اس افسوسناک ڈرامے میں اصل کردار ان کے بڑے صاحبزادے ملک مظفر نے ادا کرنا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ نواب صاحب کو اس وقت گولی ماری جائے جب وہ دریا کے کنارے اپنے مہمان خانے میں فلم دیکھنے میں محو ہوں۔
ملک اسد کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر اس کا پہلے ہی اپنے والد سے جھگڑا ہو گیا اور نواب صاحب بیٹے کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
کسی دور میں رعب، دبدبے اور دہشت کی علامت سمجھے جانے والے امیر محمد خان کی آخری رسومات بھی جلد بازی میں انجام دی گئی۔ ان کے جسد خاکی کو ایک ٹرالر میں رکھ کر قبرستان لے جایا گیا اور نماز جنازہ اور دیگر مذہبی رسومات کے بغیر راتوں رات سپرد خاک کیا گیا۔
کیا نواب کے بیٹوں کو ایوب حکومت کی خاموش اور درپردہ حمایت حاصل تھی؟
اس سوال کا حتمی جواب تو کبھی سامنے نہیں ایا ۔البتہ جہانداد خان کے مطابق ایوب خان کے کچھ رشتہ داروں نے نواب کے بیٹوں سے کسی مشکل کی صورت میں مدد کا وعدہ کیا تھا۔
صدر ایوب نے اس روز اپنی ڈائری میں قتل کی تفصیلات درج کرنے کے بعد یہ بھی لکھا کہ انہوں نے انسپیکٹر جنرل پولیس کو فورا جائے وقوع پر پہنچنے کا حکم دیا ۔انہیں اس بات کی تاکید بھی کی کہ اس قتل میں کسی غیر ذمہ دار فرد کو تنگ نہ کیا جائے ۔قتل کی وجوہات کے بارے میں انہوں نے جو جملہ لکھا آنے والے دنوں میں نواب صاحب کے قتل کا فیصلہ اسی بنیاد پر ہوا ۔انہوں نے لکھا کہ’یہ واضح طور پر سیلف ڈیفنس میں قتل کا کیس ہے۔‘
رعب، دبدبے اور دہشت کی علامت سمجھے جانے والے امیر محمد خان کی آخری رسومات بھی جلد بازی میں انجام دی گئی (فائل فوٹو)
پولیس کی تفتیش سے ثابت ہوا کہ ملک اسد نے گولی آپنے دفاع میں چلائی تھی ۔یہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا اور ورثاء کی طرف سے عدم پیری پرخاری ہو گیا ۔البتہ ڈاکٹر حفیظ طوسی نے ان کے بیٹوں کی دھمکیوں کے باوجود قتل کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔
نواب صاحب کے بیٹے ملک مظفر 1962 سے 1988 تک الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور قومی اسمبلی کہ ممبر بھی منتخب ہوئے ۔1989 میں سیاسی دشمنی کی بنیاد پر انہیں بھی قتل کر دیا گیا ۔
نواب آف کالا باغ کی شخصیت اپنے جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے متنوع خوبیوں اور تضادات کا مجموعہ تھی۔ عالمی شہرت کی حامل متعدد شخصیات کی میزبانی کی اور اپنے مخصوص طرز فکر کے باعث ان سے مرعوب یا متاثر نہ ہوئے۔
ان کے ملٹری سیکرٹری رہنے والے جنرل جہاندار لکھتے ہیں کہ ’ایک روز ملکہ الزبتھ، پنڈت نہرو، صدر نکسن سمیت دیگر عالمی شخصیات کا ذکر آیا جنہوں نے لاہور کا دورہ کیا اور نواب صاحب نے ان کی میزبانی کی ۔"نواب صاحب کہنے لگے کہ میں نے ہمیشہ خود کو ان سے دو فٹ اونچا ہی تصور کیا۔‘
مگر جب سعودی عرب کے شاہ فیصل کا ذکر ایا تو نواب صاحب کے انداز میں عاجزی اور فروتنی نمایاں تھی ۔اس کی وجہ ایک تو ان کی شخصیت کی دلکشی تھی جس نے نواب صاحب پر اثر ڈالا اور دوسرا خادمین حرمین شریفین ہونے کی وجہ سے ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے وہ احترام اور عقیدت کا باعث تھے۔