زمبابوے کے لیے یہ عملی طور پہ مثبت احوال نہیں کہ پہلے میچ میں پوری طرح اپنی دھاک جمانے کے بعد دوسرے ہی مقابلے میں اسی حریف کے سامنے یوں یکطرفہ ندامت سے دوچار ہو جانا کبھی خوش کُن نہیں ہو سکتا۔
پچھلے چند ماہ پاکستانی کرکٹر ابرار احمد کے لیے خاصے پریشان کن رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز انجری کے سبب نہ کھیل پائے، بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ میں باہر بٹھائے گئے اور دوسرا میچ کھیلے بھی تو خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا پائے۔
یہ پاکستان کے عاقب بال انقلاب سے پہلے کی بات ہے کہ دو روز تک ملتان کی بنجر پچ سے سر پٹخنے اور ہیری بروک و جوروٹ کی تاریخی سانجھے داری کی زد پہ آنے والے ابرار احمد انگلینڈ کے خلاف پہلے میچ کے بیچ سے ہی بوجہ علالت ہسپتال جا پہنچے۔
اور جب سپنرز کو سازگار پچز میسر ہوئیں تو وہ خود بولنگ کے لیے سازگار نہ رہے تھے۔
اگرچہ جب انگلینڈ کے خلاف دو سال پہلے ان کا ڈیبیو ہوا تھا، تبھی سے وہ ون ڈے ٹیم میں اپنی شمولیت کا مقدمہ ترتیب دے چکے تھے، مگر ورلڈ کپ 2023 میں شاداب خان کی متواتر ناقص فارم بھی انھیں پلئینگ الیون میں جگہ نہ دے پائی۔
لیکن یہاں عاقب جاوید نے ان پہ داؤ کھیلا کہ بالآخر بلاوائیو میں پاکستان کو ان کی ضرورت تھی۔
دوسری جانب کریگ ایروائن کے لیے یہ کوئی نیا مظہر نہ تھا کہ یہ وہی پل ہے جسے پہلے بھی زمبابوین کرکٹ کئی بار عبور کرنے کی کوشش کر چکی ہے مگر ہر بار کہانی یہیں آن کر اٹک جاتی ہے۔
کچھ ہی وقت پہلے زمبابوے نے انڈیا اور سری لنکا جیسے حریفوں کے خلاف بھی ویسا ہی مثبت آغاز کیا جیسا دو روز قبل بلاوائیو میں پاکستان کے خلاف ہوا۔ مگر ان دونوں مواقع پہ بھی داستان میں وہ متوقع موڑ نہ آ پایا۔
ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا زمبابوین فیصلہ اس بات کی نشانی تھا کہ ایروائن اپنے بلے بازوں سے پر اعتماد تھے۔
گو، پہلے ون ڈے میں جو بیٹنگ اوپری سات بلے بازوں نے کی، وہ پاکستان کا رستہ روکنے کو کافی نہ ہوتی اگر عین آخری لمحے رچرڈ نگروا اس ڈوبتی کشتی کو سہارا نہ دیتے۔
زمبابوین تھنک ٹینک کا خیال یہی رہا کہ پہلے ون ڈے میں جو لغزشیں ان کے بلے بازوں سے ہوئیں ان میں پاکستانی سپنرز سے زیادہ قصور ان کی اپنی فیصلہ سازی کا تھا جسے دوسرے میچ میں بہتر طور سے برتا جائے گا۔
مگر پہلے ون ڈے میں اپنا نشانہ خطا ہونے کے بعد پاکستان کو بھی ادراک ہو رہا ہے کہ بلاوائیو میں برسبین والا بولنگ اٹیک نہیں چل سکتا اور بجا طور پہ ابرار احمد کی شمولیت سے سپن ڈپارٹمنٹ مستحکم کیا گیا۔ یہی فیصلہ میچ کی سمت بدل گیا۔
زمبابوین اوپنرز نے ایک اور مثبت آغاز کی جستجو کی۔ یہ کھوج کچھ کامیاب بھی رہتی اگر مرومانی اپنا ابلاغ درست رکھ پاتے اور ایک طویل میچ کے آغاز ہی میں اپنے سکور بورڈ کو خسارے سے دوچار نہ کرتے۔
ابرار احمد نے زمبابوین اوپنرز کا ذہن بھانپ کر وہ لینتھ چنی جہاں سے بلے باز کے لیے واپسی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ ابرار کا یہ دام کارگر رہا اور مثبت پسندی پہ مائل زمبابوین بلے باز خود اپنی ہی پیش قدمی کے ہاتھوں ڈھیر ہوتے چلے گئے۔
دوسرے کنارے سے جو تائید انھیں سلمان آغا کی موثر آف سپن اور فیصل اکرم کے دقیق ڈسپلن نے فراہم کی، اس نے نہ صرف ایک روزہ میچ کو چند ہی گھنٹوں میں سمیٹ دیا بلکہ ہلکے ہدف کی وہ ڈھال بھی میسر کر دی جو صائم ایوب کی شاندار اولین سینچری کی بنیاد بنی۔
زمبابوے کے لیے یہ عملی طور پہ مثبت احوال نہیں کہ پہلے میچ میں پوری طرح اپنی دھاک جمانے کے بعد دوسرے ہی مقابلے میں اسی حریف کے سامنے یوں یکطرفہ ندامت سے دوچار ہو جانا کبھی خوش کُن نہیں ہو سکتا۔
مگر ابھی جعلی مسٹر بین ایکسپورٹ کے بدلے کا یہ قصہ سلجھانے کو ایک اور میچ کی مہلت ہے جہاں زمبابوین کرکٹ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ بڑے حریفوں کے خلاف ایکمیچ جیت جانا محض قسمت کا ہیر پھیر نہیں، بلکہ ان کی اپنی تدبیر کا ثمر ہے۔