اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج اور مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان میں جو چیز اس وقت سب سے زیادہ موضوعِ بحث ہے وہ اس دوران ہونے والی ہلاکتیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج اور مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان میں جو چیز اس وقت سب سے زیادہ موضوعِ بحث ہے وہ اس دوران ہونے والی ہلاکتیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد ہے۔
تحریکِ انصاف کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے جماعت کے کارکنوں کی ہلاکتوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تعداد 20 سے 280 کے درمیان ہے جبکہ سینکڑوں کارکن زخمی بھی ہوئے تو دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’گرینڈ آپریشن‘ میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے سرے سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔
سو سوال یہ ہے کہ منگل کی شب ہونے والی کارروائی میں کتنے لوگ جان سے گئے اور کتنے زخمی ہوئے اور کیسے؟
یہی گتھی سلجھانے کے لیے جب بی بی سی کی ٹیم نے اسلام آباد کے پولی کلینک اور پمز ہسپتال کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ پولی کلینک کی انتظامیہ کی جانب سے جمعرات کو ایک بیان میں ہسپتال میں ایسے کسی فرد کی لاش لائے جانے کی تردید کی گئی جس کی ہلاکت مبینہ طور پر مظاہرین کے خلاف آپریشن میں ہوئی لیکن بی بی سی کے پاس موجود ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق وہاں 26 نومبر کی شام کم از کم ایسے تین افراد کی لاشیں موجود تھیں جنھیں گولیاں لگی تھیں اور ان میں سے دو کی ہلاکت بھی ہسپتال میں ہی ہوئی تھی۔
ہسپتال کے عملے نے بھی تصدیق کی کہ ان میں سے ایک لاش بدھ تک پولی کلینک کے مردہ خانے میں ہی موجود تھی جبکہ دو لواحقین کے حوالے کر دی گئیں تھیں۔ اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس حکام نے انھیں میتیں ورثا کے حوالے کرنے سے بھی روکا۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے بعض ورثا کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا تھا کہ میتیں ان کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔
اسی بارے میں بی بی سی نے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ’مظاہرین پر فائرنگ نہیں کی گئی۔ فائرنگ کی گئی ہوتی تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی موجود ہوتا۔‘
تاہم پولی کلینک کے ہی طبی عملے کے دو اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ’پولیس نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روکا تھا۔‘
پمز ہسپتال کی بات کی جائے تو ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ریکارڈ تک رسائی نہیں دی گئی تاہم بی بی سی کی معلومات کے مطابق وہاں تحریکِ انصاف کے دو کارکنوں کی لاشیں لائی گئی تھیں جن کا تعلق شانگلہ اور مردان سے تھا اور ان کے ورثا لاشیں ہسپتال سے لے جا چکے ہیں۔
منگل کو گولیاں لگنے سے ہلاک ہونے والے ان پانچ افراد میں سے چار کی لاشیں تو اب ہسپتالوں میں موجود نہیں لیکن بی بی سی کووہاں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد لائے جانے والے متعدد ایسے زخمی زیر علاج ملے جنھی گولیاں لگی تھیں۔
بی بی سی کوپولی کلینک میں کم از کم تین ڈاکٹروں نے بتایا کہ شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔ ’ہمارے پاس کم از کم 45 اور 55 کے درمیان ایسے شہری لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومتی وزیر عطا تارڑ نے ان الزامات کو پاکستان تحریک انصاف کا پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس یا رینجرز کی جانب سے گولیاں مارنے کے ثبوت موجود ہیں تو پی ٹی آئی ثبوت لائے۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا اور یہ کہ مظاہرین نے بڑی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو زخمی کیا اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
’میرے کانوں سے وہ ساری چیخیں ختم ہی نہیں ہو رہیں‘
پولی کلینک میں ایسے ہی ایک زخمی کے ساتھ ان کی اہلیہ سمعیہ (فرضی نام) بھی موجود تھیں جو منگل کی شب جناح ایوینیو پر پیش آنے والے واقعات کی عینی شاہد بھی تھیں۔
’صرف چیخیں تھیں۔ بس۔ صرف چیخیں! ہر بندہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔‘
یہ رات نو بجے کے قریب وہ لمحہ تھا جب سمعیہ کو اچانک فائرنگ کی آواز آئی اور پھر ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہ جناح ایوینیو پر اسی فلائی اوور کے نیچے گاڑی میں بیٹھی اپنے شوہر کی منتظر تھیں جو چند منٹ پہلے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔
’میں نے سوچا یہ آنسو گیس کی شیلنگ والی فائرنگ ہو گی۔ لوگ بھاگ رہے تھے۔ پھر مجھے اپنے شوہر نظر آئے۔ وہ دونوں ہاتھ سڑک پر رکھے گھٹنوں کے بل ایسے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان کی طرف بھاگی۔ ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔‘
جب سمعیہ، بی بی سی کو یہ بتا رہی تھیں، تو وہ اور ان کی بہن ماسک پہنے اسلام آباد کے ایک ہسپتال کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ ان کے سامنے بیڈ پر ان کے شوہر تھے جن کے کندھے پر گولی لگی اور چند گھنٹے قبل ہی ان کی سرجری کی گئی تھی۔
’وہ قیامت تھی، جیسے جنگ ہو رہی ہو۔ میرے ہاتھوں پر ان (شوہر) کا خون ہی خون تھا۔ میرے کانوں سے وہ ساری چیخیں ختم ہی نہیں ہو رہیں۔‘
’میں اب کیسے آپ سے کھل کر بات کروں؟‘ یہ کہتے ہوئے سمعیہ کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور ان کے چہرے پر لگا ماسک آنسوؤں سے نم ہو گیا تھا۔
’جب گھر سے نکلا تھا تو پتا تھا کہ عمران خان کو واپس لائیں گے یا پھر گولی کھائیں گے‘
’چلیں سب باہر جائیں‘، یہ وارننگ پمز میں تعینات سکیورٹی عملے کے ایک اہلکار نے دی۔ وہ یہاں ایک وارڈ میں ڈیوٹی پر تعینات ہیں اور اس وقت جب ہم یہاں زیرِ علاج پی ٹی آئی کے ایک کارکن سے بات کر رہے تھے، وہ بار بار اندر آ کر ہماری باتیں سننے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب ہم پمز پہنچے تو ہر طرف سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات تھے۔ وارڈز، ایمرجنسی رومز اور باہر کے دروازوں پر رینجرز اور پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی جبکہ وارڈز میں اگر پاکستان تحریک انصاف کے زخمی کارکنوں سے بات کرنےکی کوشش کی جاتی تو عملہ اس پر نظر رکھ رہا تھا۔
بی بی سی کو ہسپتال کے احاطے میں ایک سینیئر پولیس آفیسر نے ایک اے ایس پی سے ملوایا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے ماتھے پر گولی لگی تھی۔ پمز میں ہی بی بی سی کو ایک اور پولیس اہلکار بھی ملا جس پر مظاہرین کے پتھراؤ کی وجہ سے چہرے پر چوٹیں آئیں۔
تاہم یہیں بی بی سی نے کم از کم چار ایسے زخمیوں سے ملاقات کی جنھیں جسم کے مختلف حصوں میں دو، دو گولیاں لگی تھیں۔ یہ افراد پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔
ان میں سے ایک زخمی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور صرف اتنا بتا سکے کہ ان کے پیٹ اور کندھے میں گولی لگی ہے۔ ایک اور زخمی نے بتایا کہ انھیں شام پانچ بجے کے قریب ایکسپریس وے پر ہونے والی فائرنگ کے دوران دو گولیاں لگیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان سے پہلے وہیں موجود ایک اور کارکن کو بھی گولی لگی تھی۔
’میں ایکسپریس وے پر تھا۔ اچانک فائرنگ شروع ہوئی اور میرے سامنے کھڑے آدمی کے سر میں گولی لگی۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں نے خود اسے اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد اگلی دو گولیاں مجھے لگیں۔‘
پمز میں ہی گولی لگنے سے زخمی ہونے والے پی ٹی آئی کے ایک اور کارکن امین خان (فرضی نام) نے بتایا کہ شام پانچ بجے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔
’میں ربڑ کی گولیوں کی بات نہیں کر رہا، اصلی گولیوں کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے درجن بھر زخمی لوگوں کو ایمبولینس میں ڈالا اور یہاں اس ہسپتال میں پہنچایا۔ آج یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس زخمی نہیں ہیں؟‘
امین خان ہم سے بات کرنے کے لیے بار بار آکسیجن ماسک اتارتے۔ انھوں نے بتایا کہ رات نو بجے کے بعد جب فائرنگ ہوئی تو انھیں دو گولیاں لگیں۔ ’میں جب گھر سے نکلا تھا تو مجھے پتا تھا کہ یا تو عمران خان کو واپس لائیں گے یا گولی کھائیں گے۔‘
’انتظامیہ ہمیں مریض کی فائل ہی نہیں دے رہی‘
امین خان کے اہلخانہ بھی وہیں موجود تھے جنھوں نے بتایا کہ پمز انتظامیہ مریض کا طبی ریکارڈ فراہم نہیں کر رہی۔ ’ہم اپنے مریض کو بہتر ہسپتال منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن پمز ایڈمنسٹریشن ہمیں ان کا ریکارڈ اور فائل دینے سے انکار کر رہے ہیں۔‘
یہی دعویٰ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہاں موجود دیگر مریضوں نے بھی کیا۔ بی بی سی نے میڈیکل ریکارڈ فراہم نہ کرنے سے متعلق اس الزام کے بارے میں جب پمز کی ترجمان ڈاکٹر انیزہ جلیل سے بات کی تو انھوں نے محض یہی کہا کہ ’تمام مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔‘
اس سوال پر کہ پمز میں گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے عام شہریوں اور اہلکاروں کی تعداد کیا ہے اوروہاں کتنی لاشیں لائی گئی ہیں، ترجمان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم انہوں نے پمز کی جانب سے جاری ہونے والا ایک بیان شیئر کیا جس کے مطابق ’پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 66 ارکان جبکہ 33 عام شہری پمز میں لائے گئے جن میں سے زیادہ تر کو معمولی نوعیت کے زخم ہونے کی وجہ سے علاج کے بعد خارج کر دیا گیا جبکہ چند ایک کا علاج جاری ہے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اموات کی تعداد اور مظاہرین کے زخموں کی نوعیت سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
’آج تک ایک رات میں اتنی سرجریز نہیں کیں، جتنی آپریشن کی رات کی گئیں‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولی کلینک اور پمز کے ڈاکٹرز نے کہا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کر سکتے تاہم ایک ڈاکٹر نے آپریشن کی رات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے ’آج تک ایک رات میں اتنی سرجریز نہیں کی ہیں، جتنی آپریشن کی رات کی گئیں۔‘
پولی کلینک میں ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ’بعض زخمی اس قدر تشویشناک حالت میں آئے کہ انھیں انیستھیزیا دینے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں سرجریز شروع کرنی پڑیں۔ بہت سے مریض ایسے تھے جن کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ ’ہمارے پاس رش اس قدر زیادہ تھا کہ ہم نے ایک بیڈ پر دو دو سرجریز کیں اور گولیاں نکالی ہیں۔ جو میں نے رات کو یہاں دیکھا، وہ میں کبھی بھول نہیں سکوں گی۔‘
’ہمارا نام ریکارڈ میں نہ ڈالیں‘
ان ہسپتالوں میں زیر علاج یہ زخمی ملاقات کے لیے آنے والوں کو اس وقت تک یہ نہیں بتاتے کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکنان ہیں، جب تک انھیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ پوچھنے والا حکومتی اہلکار یا پولیس اور رینجرز سے نہیں ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
بی بی سی نے اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں متعدد ڈاکٹرز اور عملے کے افراد سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ ’پولیس کی جانب سے ان پر دباؤ تھا کہ زخمی افراد کو ان کے حوالے کیا جائے۔‘
بی بی سی نے ہسپتال کے ریکارڈ میں وہ دستاویزات دیکھی ہیں جن میں ایسے مریضوں کے نام اور زخموں کی نوعیت درج ہے جنھیں ایک یا ایک سے زائد گولیاں لگیں اور انھوں نے ڈاکٹروں سے ہسپتال سے خارج ہونے کی درخواست کی۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر اور عملے کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ درجنوں زخمی ایسے بھی تھے جنھوں نے درخواست کی کہ ان کا نام ریکارڈ کا حصہ ہی نہ بنایا جائے۔ ’زخمی یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا نام ریکارڈ کا حصہ بننے کی صورت میں انھیں حراست میں لیے جانے کا خوف تھا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولی کلینک میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب سے عہدیدار نے بتایا کہ انھوں نے آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنوں کو ہسپتال سے خارج ہونے میں مدد کی۔ وہ اس وقت بھی ہسپتال میں ان مریضوں کی معلومات حاصل کر رہے تھے جو تاحال زیرِ علاج ہیں۔
بی بی سی کو دونوں ہسپتالوں کے طبی عملے نے بتایا کہ ان پر انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ معلومات نہیں دے سکتے۔
پولی کلینک کے متعدد ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ بتایا کہ شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔ ’ان میں سے کئی ایسے تھے جو کہتے کہ ان کا نام کاٹ دیں اور کئی ایسے تھے جنھوں نے درخواست کی کہ ان کا نام ریکارڈ میں نہ ڈالا جائے۔‘