"لڑائی کروانا سب سے آسان کام ہے، لیکن صلح کروانا ایک عظیم انسان کی نشانی ہے،" ناصر ادیب نے معین اختر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "معین اختر نبض شناس تھے، وہ سمجھ گئے تھے کہ دلیپ کمار اور راج کمار کہاں کہاں غلط ہیں۔ انہوں نے دونوں کو صرف احساس دلایا کہ وہ غلطیاں کہاں کر رہے ہیں، اور ان کی عظمت یہ تھی کہ دونوں نے اپنی غلطی مان لی اور صلح کرلی۔"
پاکستانی شوبز کی تاریخ کے ستارے معین اختر کو کسی ایک عنوان میں قید کرنا ممکن نہیں۔ وہ محض ایک کامیڈین نہیں تھے بلکہ اداکاری، میزبانی، گلوکاری، صداکاری، ہدایتکاری اور لکھنے جیسے کئی شعبوں میں اپنی مہارت کا جادو جگاتے رہے۔ ان کا فن ان کے اخلاق کی طرح بے مثال تھا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی مقبول تھے۔
بھارت کی فلم انڈسٹری کے لیجنڈز دلیپ کمار اور راج کمار کے درمیان برسوں کی کشیدگی کو ختم کرنے کا سہرا بھی معین اختر کے سر جاتا ہے۔ ناصر ادیب کے بقول، بھارت کے ایک مشہور پروڈیوسر نے معین اختر کو اس تنازع کو ختم کرنے کی دعوت دی تھی۔ دونوں اداکار اپنی عظمت کے باوجود ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔
معین اختر نے اپنی غیر معمولی فہم اور شائستگی کا استعمال کرتے ہوئے ان دونوں کو ان کی غلطیاں دکھائیں، اور ان کی عظمت کا اندازہ کروایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے اپنی غلطیاں تسلیم کیں اور ایک دوسرے سے گلے مل کر پرانی دشمنی ختم کر دی۔
معین اختر کی اس کہانی کا ایک بڑا سبق یہ ہے کہ صلح کروانا کسی عظیم شخصیت کا کام ہوتا ہے۔ ان کی یہ خاصیت انہیں دیگر فنکاروں سے الگ کرتی ہے۔ دلیپ کمار، راج کمار اور معین اختر، تینوں آج دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کے کردار اور کارنامے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
بھارت میں اپنی شہرت کے عروج پر انہوں نے اسٹیج پر مادھوری ڈکشٹ اور لتا منگیشکر جیسے سپر اسٹارز کے سامنے پرفارم کیا اور دل جیتے۔ دلیپ کمار کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات بھی گہرے تھے، اور یہی رشتہ ان کے اخلاقی بلندی کی ایک اور جھلک ہے۔
معین اختر کی شخصیت اور فن کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ وہ صرف ایک اداکار نہیں بلکہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کی علامت تھے۔ ان کی کہانیاں، واقعات اور کارنامے آج بھی نہ صرف دلوں کو گرماتے ہیں بلکہ انسانیت اور اخلاقیات کے سبق دیتے ہیں۔