’بے قرار‘: وہ مشہور پاکستانی فلم جس کی انڈیا میں بننے والی ’کاپی‘ کامیاب نہ ہو سکی

مشہور فلم محقق سرفراز فرید نیہاش کہتے ہیں کہ ’بے قرار‘ اُن چند پاکستانی فلموں میں سے ہے جو انڈیا میں کاپی ہوئیں تاہم اس فلم میں فیصل اور بابرہ کی کیمسٹری، عامر خان اور مادھوری میں نظر نہیں آئی۔

کیا انڈیا کے سپر سٹار عامر خان کو اپنی پہلی ہی فلم سے ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ کا لقب مل گیا تھا؟ کیا وہ ’قیامت سے قیامت تک‘ کے بعد سے صرف ہٹ فلمیں دیتے رہے اور کیا یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے کبھی ناکامی کا منھ نہیں دیکھا؟

ایسا کچھ نہیں۔ عامر خان کو اپنے کریئر کی ابتدا میں مشکلات بھی ہوئیں اور اُن کی چند فلمیں ناکام بھی ہوئیں۔ اُن پر ’چربہ فلموں میں کام کرنے‘ کی وجہ سے تنقید بھی ہوئی اور بعض فلمی نقادوں کے بقول کہ اپنے کریئر کی ابتدا میں انھوں نے پاکستان میں بنی ایک فلم کی کاپی میں بھی کام کیا، جس کا نام سُننے کے لیے شاید آپ ’بے قرار‘ ہوں گے۔

یہ بات 1991 کے اوائل کی ہے۔

پاکستان میں پہلے نجی ٹی وی چینل ’ایس ٹی این‘ کی نشریات کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس چینل نے میری عمر کے لڑکوں کو پرانی پاکستانی فلموں کی لت لگا دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سکول کے فری پیریڈ میں ہم اُس دور کی دو مشہور فلمیں امیتابھ بچن کی ’ہم‘ اور عامر خان کی ’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ پر کافی بحث کرتے تھے۔

فلم ’ہم‘ اپنے گانے ’جما چُما دے دے‘ کی وجہ سے زیر بحث ہوتی اور عامر خان کی فلم ’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ صرف اس لیے کہ یہ فلم پاکستانی فلم ’بے قرار‘ جیسی تھی۔

فیصل رحمان اور بابرہ شریف کی مارچ 1986 میں آنے والی فلم ’بے قرار‘ اپنے گانوں، کہانی اور سینیماٹوگرافی کی وجہ سے کسی بھی انڈین فلم سے کم نہ تھی۔

فیصل کے والد مسعود الرحمان پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک مستند سینیماٹوگرافر تھے۔ فیصل نے 1980 میں آنے والی فلم ’نہیں ابھی نہیں‘ سے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ایک 14 سال کے لڑکے کا بھرپور اعتماد کے ساتھ شبنم جیسی منجھی ہوئی اداکارہ کے مدمقابل کام کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔

معصوم چہرہ، گال پر ڈمپل اور پھرتیلاپن فیصل کے پلس پوائنٹس تھے۔

’بے قرار‘ کی کہانی سید نور نے لکھی تھی جبکہ اس کے پروڈیوسر ریاض گل تھے اور حسن عسکری اس کے ہدایتکار تھے۔

بے قرار کی روایتی کہانی مگر منفرد انداز

فلم بے قرار کی کہانی پاکستانی ہدایتکار سید نور نے لکھی جن کا کہنا ہے کہ ’میرے سُناتے ہی یہ کہانی (پروڈیوسر) ریاض گل کو پسند آ گئی تھی۔‘

’ہم نے اس فلم کی ڈائریکشن کے لیے حسن عسکری کا انتخاب کیا اور نوجوان ہیرو کے لیے فیصل کا۔‘

حسن عسکری پاکستانی فلم انڈسٹری کے وہ ہدایتکار تھے جن کی اپنے کام پر مکمل گرفت ہوتی تھی اور وہ بہترین سے بہترین کام کروانا جانتے تھے۔ انگریزی میں ماسٹرز تھے اور ’لی مزرابیلز‘ جیسے ناول کو فلما چکے تھے۔

’بے قرار‘ میں اداکارہ بابرہ نے ’عینی‘ جبکہ فیصل نے ’سنی‘ کا کردار ادا کیا۔ فلم کی کہانی کچھ یوں تھی کہ عینی ایک ماڈل ہیں اور سنی فوٹو گرافر۔

چشمہ لگائے سنی سے سب ہی پیار کرتے ہیں مگر وہ عینی کے لیے بے قرار رہتا ہے، جسے عینی مذاق سمجھتی رہتی ہے۔

عینی کی بڑی بہن کا کردار اداکارہ زمرد نے ادا کیا جو اپنی چھوٹی بہن کو کافی سمجھاتی ہیں۔ آگے چل کر فلم میں وہ عینی کی منگنی ’رئیس‘ نامی کردار سے کر دیتی ہیں جسے ماڈل اور اداکار شیری ملک نے ادا کیا تھا۔

یہ وہ شیری ملک ہی تھے جنھوں نے بابرہ کے ساتھ پاکستان کی پہلی سائنس فکشن فلم ’شانی‘ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

فلم میں سنی کو اس کی ساتھی رخشی (اداکارہ سونیا) بھی پسند کرتی ہیں مگر سنی انھیں گھاس نہیں ڈالتا۔

سنی کی بے قراری سے سب پریشان رہتے ہیں اور فلم میں چلنے والا مذاق کا ماحول اُس وقت سنجیدہ ہو جاتا ہے جب سنی اپنی پسند ’عینی‘ کی شادی توڑنے پر آ جاتا ہے۔

مار کٹائی، ڈرامہ اور گانوں کے بعد وہی سب ہوتا ہے جو روایتی طور پر ایسی فلموں میں ہوتا ہے، یعنی ایک ’ہیپی اینڈنگ‘ جس میں سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

فلم ’بے قرار‘ میرے والد جون 1986 میں جدہ میں ایک ویڈیو شاپ سے لائے تھے جسے ہم نے ’وی سی آر‘ پر دیکھا۔ شاید یہ فلم پاکستان سے جیسے جدہ پہنچی ویسے ہی انڈیا بھی پہنچ گئی ہو گی۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں ندیم کی فلموں نے انڈیا میں راجیش کھنہ کو زندہ کر دیا تھا جبکہ سید نور ہی کی لکھی فلم ’فیصلہ‘ بھی فریم بائی فریم ’پاپ کی دنیا‘ کے نام سے اٹھائی جا رہی تھی۔

’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ کے لیے انڈین پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ناصر حسین کے بھتیجے عامر خان کو چُنا گیا جو اُس وقت اپنی پہلی فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ اس فلم میں سنی بن گئے تھے اجے، عینی بنی تھیں انیتا (مادھوری ڈکشٹ)، دوست کا کردار ہیروئن خوشبو نے نبھایا۔ بڑی بہن کے لیے رنجیتا کور جبکہ منگیتر کا کردار جے نندرا نے ادا کیا۔

’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ ہو بہو ’بےقرار‘ کی کاپی لگتی تھی۔ اگر اس فلم میں ایک، دو چیزیں اٹھائی ہوئی ہوتیں تو بات اور ہوتی مگر سکرین پلے، ڈائیلاگ اور یہاں تک کہ گیٹ اپ تک میں انتہائی یکسانیت تھی۔

ہیرو کا صبح اٹھ کر محبوبہ کی تصویروں سے باتیں کرنا، ہیرو کے والدین کی نوک جھونک، بڑی بہن کا ہیروئن پر رعب ڈالنا یہاں تک کہ ہیروئن کو مرعوب کرنے کے طریقے بھی ایک تھے۔

منگنی کی خبر سُن کر عامر خان نے وہی انداز اپنایا جو فلم ’بےقرار‘ میں فیصل کا تھا البتہ سنی کے آٹھ روز کے الٹی میٹم کے برعکس اجے ایک مہینے کا ٹائم لیتا ہے۔

اس وقت کے فلمی نقادوں کے مطابق عامر خان کی چوٹیں، دیوانہ پن، ماں سے محبت اوردوست سے بے رخی سب بالکل ’بےقرار‘ کے فیصل جیسا تھا۔ یہاںتک کہ عینک بھی انھوں نے فیصل جیسی ہی استعمال کی تھی۔

فلم ’بے قرار‘ میں فیصل کی سورای سائیکل تھی۔ فلمساز سعید رضوی کے تخلیق کردہ ناز پان مصالحہ کے اشتہار میں بھی فیصل سائیکل پر ہی آتے نظر آئے۔ سائیکل کے بدلے موٹر سائیکل کے علاوہ ’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔

ایک اور فرق یہ تھا کہ ’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ میں خوشبو کے کردار کو پاکستانی فلم ’بے قرار‘ کے مقابلے میں تھوڑا لمبا کر دیا گیا تھا جبکہ اُن پر ایک گانا بھی فلموایا گیا تھا۔

فلم ’بے قرار‘ کے گانے بہت ہی عمدہ تھے۔ ریاض الرحمان ساغر کی شاعری اور ایم اشرف کی موسیقی نے کمال کیا تھا۔

سب سے مشہور گیت کی دھن موسیقار میاں شہریار کے صوفی گیت ’بھاری تانے چڑھیاں‘ سے لی گئی تھی۔ اے نئیر کا ’یار کی گلیوں‘ اور نور جہاں کا ’سارے لڑکوں کی دھن‘ میں فوک ٹچ تھا جبکہ ناہید اختر کا ’جادو تیرے پیار نے کیا‘ مشہور کاؤ بوائے فلم ’میکنزا گولڈ‘ کے ٹائٹل سے لیا گیا۔ انور رفیع کے گیت ’میری وفا میرے وعدے‘ نے بھی مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔

باقی گانوں کی موسیقی ایم اشرف کی تھی جو زیادہ تر فوک دھنوں پر مبنی تھے۔ ’بےقرار‘ میں اے نئیر کی آواز میں ’سب کچھ کہنا یہ مت کہنا، پیچھے آنا چھوڑ دے‘ بن گیا ادت نرائن کا ’سب کچھ کہنا مگر یہ نہ کہنا کہ میرے پیچھے آنا نہیں۔‘

’سارے لڑکوں کی دھن‘ پہلے ’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ میں چھاپی گئی پھر امیتابھ کی فلم ’انسانیت‘ میں۔

’دیوانہ مجھ سا نہیں‘ سنہ 1989 کے وسط میں تیار ہو گئی تھی مگر اس کا کوئی خریدار نہ تھا۔ عامر خان اور مادھوری ڈکشتکی فلم ’دل‘ کی کامیابی کے بعد اسے جولائی 1990 میں ریلیز کیا گیا مگر ناکامی اس کا مقدر بنی۔

جلدی میں تیار کردہ سکرپٹ، بے جان اداکاری اور کمزور ڈائریکشن اس فلم کو لے ڈوبی۔

مشہور فلم محقق سرفراز فرید نیہاش کہتے ہیں کہ ’بے قرار‘ اُن چند پاکستانی فلموں میں سے ہے جو انڈیا میں کاپی ہوئیں تاہم اس فلم میں فیصل اور بابرہ کی کیمسٹری، عامر خان اور مادھوری میں نظر نہیں آئی۔

انھوں نے کہا کہ حسن عسکری کی یہ پہلی فلم نہیں تھی جو انڈیا میں کاپی ہوئی تھی۔

سید نور کے خیال میں ’انسپیریشن‘ ہی سے کام چلتا ہے اور کمرشل سنیما میں اس کی تھوڑی گنجائش ہوتی ہے۔

تاہم حیرت کی بات ہے کہ جب انھوں نے اپنی ہی لکھی اس فلم ’بےقرار‘ کو 2017 میں ’چینآئے ناں‘ کے نام سے خود بنایا تو وہ فلم کو اس طرح اپ ڈیٹ نہ کر سکے۔

فیصل کی جگہ انھوں نے شہروز سبزواری کو، ہیروئین کے لیے نئی اداکارہ سارش خان اور شیری ملک کے رول کے لیے وحید مراد کے بیٹے عادل مراد کو کاسٹ کیا۔

فلم میں ندیم اور شاہد بھی تھے مگر بڑے نام ہونے سے فلم کامیاب نہیں ہوتی، شاید ڈائریکٹر کا حسن عسکری ہونا ہی ضروری ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.