ایک وقت تھا جب فلموں میں محمد رفیع کا مطلب ہوتا تھا ہٹ گانے۔۔ ان کی وفات کے برسوں بعد بھی لوگ ان کی آواز اور دل جیتنے والے انداز کے قصے سناتے نہیں تھکتے۔
برفانی پہاڑیوں پر کھل کر اپنی محبت کا اظہار کرنے والے شمی کپور کو جب ’یاہو۔۔۔ چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے۔۔۔‘ گانے کے لیے آواز کی ضرورت پڑی تو انھوں نے محمد رفیع کی آواز میں وہ الہڑ پانکپن پایا۔
وہیں جب بات عشق کی روحانی شکل کی آئی تو محمد رفیع ہی ایک قوالی کو آواز دیتے نطر آئے ’یہ عشق عشق ہے، عشق عشق۔۔۔ عشق آزاد ہے ، عشق آزاد ہے، عشق نہ ہندو ہے نہ مسلمان۔‘
اسی طرح مذہبی عقیدت کے گیت ہوں یا ملی نغمے، رفیع کی آوازہر رنگ میں مداحوں کے دل موہ لیتی تھی۔
رواں برس محمد رفیع کا 100 واں جنم دن منایا جا رہا ہے۔
محمد رفیع اور شمی کپور کا ساتھ
ایک وقت تھا جب محمد رفیع کا مطلب فلموں میں ہٹ گانے ہوتا تھا۔ ان کی عدم موجودگی کے برسوں بعد بھی لوگ ان کی آواز اور دل جیتنے والے انداز کے قصے سناتے نہیں تھکتے۔
اس کی مثال شمی کپور کی کہانیوں میں ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح مکیش راج کپور کی آواز تھے اسی طرح محمد رفیع شمی کپور کی آواز تھے۔
شمی کپور سوجاتا دیو کی کتاب ’محمد رفیع - اے گولڈن وائس‘ میں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ہمیں ’تعریف کروں کیا اُس کی‘ گانا ریکارڈ کرنا تھا، میں پوری رات سو نہیں سکا۔ میں چاہتا تھا یہ جملہ بار بار دہرایا جائے مگر پھر گانا ختم ہو گیا، لیکن موسیقار او پی نیئر کو میرا مشورہ پسند نہیں آیا۔
’میری مایوسی کو دیکھ کر رفیع نے او پی نیئر سے کہا ’پاپا جی آپ ایک موسیقار ہیں۔ میں ایک گلوکار ہوں لیکن سکرین پر صرف شمی کپور کو اداکاری کرنی ہے، اسے کرنے دیں۔‘ رفیع صاحب نے پھر وہی کہا جیسے میں نے سوچا تھا۔‘
شمی کپور کہتے ہیں ’او پی نیئر نے جب گانا سنا تو مجھے اپنی بانہوں میں لے کر مبارکباد دی۔ رفیع صاحب نے اپنی شرارتی مگر دھیمی آواز میں کہا ’اب ختم ہو گیا، ہے نا؟‘ رفیع صاحب پل بھر میں دل جیت لیتے تھے۔ میں محمد رفیع ہوں کے بغیر ادھورا ہوں۔‘
’رفیع میاں آپ نے بہت خوبصورت گایا ہے‘
مجھے مشہور گلوکار منا ڈے کا ایک بہت پرانا انٹرویو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
اس میں اس وقت کے صحافی راجیو شکلا کے سوال پر انھوں نے کہا تھا، ’رفیع صاحب پہلے نمبر پر تھے، مجھ سے بہتر۔۔ میں اپنا موازنہ صرف رفیع سے کرتا ہوں، جس طرح وہ گاتے تھے شاید ہی کوئی گا سکتا ہو۔ اگر رفیع نہ ہوتے تب ہی میں گا سکتا تھا ہم دو گلوکار تھے جو ہر طرح کے گانے گا سکتے تھے۔‘
محمد رفیع نے ایسے وقت میں گانے گائے جب مکیش اور کشور کمار بھی بطور گلوکار فلموں میں نمایاں تھے۔ تاہم ان کے باہمی تعلقات منفرد تھے۔
مکیش کے بیٹے نتن مکیش نے بی بی سی ہندی کو بتایا، ’ان کے درمیان تعلقات بہت خوبصورت تھے۔ میں حیران ہوتا تھا جب مکیش جی فون اٹھاتے اور رفیع صاب سے کہتے، ’رفیع میاں، آپ نے یہ گانا بہت خوبصورت گایا ہے۔ کاش!میں آپ کی طرح گا سکتا۔ کبھی کبھی رفیع صاحب فون کرتے کہ مکیش تم نے بہت خوبصورت گایا ہے۔‘
رفیع نے کہا ’میرے گلے میں مٹھاس بھر دو‘
اتنے مقبول ہونے کے باوجود محمد رفیع کی ریاض اور خود کو بہتر بنانے کی خواہش کی کہانی کئی بار موسیقار خیام نے مختلف مقامات پر سنائی ہے۔
خیام نے بتایا تھا کہ ’رفیع مجھے بار بار پارٹیوں میں بلایا کرتے تھے، میں نے سوچا کہ کیا معاملہ ہے، پھر میرے پاس رفیع صاحب کی طرف سے ایک درخواست آئی کہ برائے مہربانی میری آواز میں مٹھاس پیدا کریں۔ یہ تب تھا جب رفیع اپنے عروج پر تھے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ان دنوں رفیع ہائی پچ میں گانے گاتے تھے۔‘
خیام کا کہنا ہے کہ ’میں نے ان کے سامنے کچھ شرائط رکھی ہیں۔ جیسے بھول جائیں کہ وہ بہت بڑے گلوکار ہیں۔ ریہرسل کے دوران ان کے آس پاس کوئی نہیں ہوگا۔ اس دوران وہ کسی سے فون پر بات بھی نہیں کریں گے۔ رفیع صاحب نے مکمل ارتکاز کے ساتھ مجھ سے تربیت لی، نتیجہ یہ نکلا کہ جب انھوں نے غزل گائی تو وہ مٹھاس ملی جو رفیع چاہتے تھے۔‘
ان کی گلوکاری کے علاوہ جس چیز کے لیے لوگ اکثر محمد رفیع کی تعریف کرتے ہیں وہ ان کا پرسکون اور شائستہ انداز تھا۔
موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں بتاتے ہیں کہ ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک سکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔۔بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘
جب چین میں رفیع کے گانے بجائے گئے
محمد رفیع کے گانوں کی مقبولیت کا اندازہ ایک سابق فوجی کی کہانی سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے سال 2020 میں انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بیان کی تھی۔
1962 کی جنگ میں لڑنے والے انڈین سپاہی پھنچوک تاشی نے کہا تھا کہ ’گلوان کے علاقے میں انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی چل رہی تھی، چینی فوجی وہاں بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر لگا کر ہندی میں اعلان کرتے تھے ’یہ جگہ تمہاری نہیں ہے، تم واپس جاؤ‘ اس کے بعد وہ رفیع کا گانا ’تم سا نہیں دیکھا‘ چلا دیتے۔
اب تھوڑی سی بات رفیع کے بچپن کے بارے میں۔
محمد رفیع 24 دسمبر 2024 کو امرتسر کے قریب کوٹلہ سلطان سنگھ میں اللہ رکھی اور حاجی علی محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ انھیں پیار سے فیکو کہا جاتا تھا۔
حاجی علی محمد ایک بہترین باورچی تھے۔ وہ 1926 میں لاہور چلے گئے۔ فیکو کوٹلہ سلطان سنگھ کے سکول میں پڑھتے رہے۔
بارہ سال کی عمر میں رفیع بھی خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ لاہور چلے گئے۔ اس کے بعد رفیع کبھی سکول نہیں گئے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بال کاٹنے شروع کر دیے۔
رفیع موسیقی کے دیوانے تھے۔ والد موسیقی کے سخت خلاف تھے۔ جس کی وجہ سے وہ چھپ چھپ کر گاتے تھے۔
یہ قصہ بہت مشہور ہے کہ ایک فقیر جو اکتارہ بجاتا تھا لاہور آیا کرتا تھا۔ رفیع اس کے گانے سنتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑتے۔ وہ اکثر حضرت داتا گنج بخش کی درگاہ پر بھی جاتے تھے۔
ایک دفعہ لاہور میں آل انڈیا ریڈیو کے افسر جیون لال مٹو نور محلہ سے گزر رہے تھے۔ تبھی ایک بہت ہی سریلی آواز ان کے کانوں تک پہنچی۔ آواز منفرد تھی۔ آواز کے تعاقب میں وہ دکان پر گئے جہاں رفیع کسی کے بال کاٹ رہے تھی۔ ان کی گلوکاری سے متاثر ہو کر اس افسر نے انھیں ریڈیو میں کام کرنے کا موقع دیا۔
ایک بار لاہور میں اس وقت کے مشہور گلوکار کے ایل سہگل کے پروگرام کے دوران لائٹ چل گئی۔ نوجوان رفیع وقت گزارنے اور مجمعے کو مصروف رکھنے کے لیے سٹیج پر آ گئے۔
اس محفل میں موجود میوزک ڈائریکٹر شیام سندر ان سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے رفیع کو بمبئی (آج کا ممبئی) آنے کا مشورہ دیا۔
رفیع گاتے رہے، پاؤں سے خون نکلتا رہا
ان کے والد کے علاوہ، رفیع کے خاندان کے باقی افراد ان کے ہنر کو پہچانتے تھے۔ انھیں لگا کہ رفیع کا مستقبل بمبئی میں ہے۔ رفیع بمبئی چلے گئے۔ اسی میوزک ڈائریکٹر شیام سندر نے رفیع کو پنجابی فلم 'گل بلوچ' میں ایک گانا دیا۔
رفیع کو شروع میں 1944 کی فلم ’پہلے آپ‘ اور پھر ’گاؤں کی گوری‘ میں گانے کا موقع ملا۔ ’پہلے آپ‘ گانا ایسا تھا کہ گانے والوں کو بھی ریکارڈنگ کے دوران فوجیوں کی طرح چلنا پڑا۔
ریکارڈنگ کے بعد نوشاد نے دیکھا کہ رفیع کی ٹانگوں سے خون نکل رہا ہے۔ پوچھنے پر محمد رفیع نے بتایا کہ ان کے جوتے بہت تنگ ہیں۔ گانا چل رہا تھا اس لیے انھوں نے کچھ نہیں کہا۔
محمد رفیع کی شہرت اور کامیابی کی بات موسیقار نوشاد کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ دونوں نے ’بیجو باورا، کوہ نور، مدر انڈیا، مغل اعظم، آن، گنگا جمنا، میرے محبوب، رام اور شیام اور ’پاکیزہ‘ جیسی کئی فلموں میں ساتھ کام کیا ہے۔
نوشاد کے بیٹے راجو نوشاد کے مطابق، ’نوشاد رفیع جی کو گھنٹوں ریاض کراتے اور رفیع جی بیٹھ کر پریکٹس کرتے۔ پھر نوشاد ہنستے ہوئے کہتے کہ جاؤ اور دوسرے گانوں کی مشق کرو ورنہ تم کبھی امیر نہیں بن سکو گے۔‘
یہ رشتہ صرف موسیقی کا نہیں تھا۔ نوشاد نے رفیع صاحب کی بیٹیوں کی شادی کی رسومات بھی ادا کی تھیں۔
جب رفیع کو دوبارہ گانا گانے کے لیے کہا گیا
ایسا نہیں تھا کہ محمد رفیع کبھی ناراض نہیں ہوئے لیکن ان کا انداز بھی الگ تھا۔
سینیئر موسیقار اومی نے کتاب 'محمد رفیع - اے گولڈن وائس' میں اپنی یادیں شیئر کی ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولےکیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘
اومی کے مطابق، ’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘
’میں امریکہ سے سپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟
’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے سپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ سپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور سپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ایسے تھے رفیع صاحب‘۔
رفیع کے کیریئر کا زوال
ایسا نہیں ہے کہ کامیاب ہونے کے باوجود ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ رفیع صاحب پر 'داستانِ رفیع' کے نام سے دستاویزی فلم بنائی گئی ہے۔
دستاویزی فلم میں موسیقار مدن موہن کے بیٹے سنجیو کوہلی کہتے ہیں، 'بعض اوقات گلوکاری میں تنوع رکاوٹ بھی بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رفیع صاحب 60 کی دہائی میں 'جنگلی'جیسے گانے گاتے تھے۔ ان کا اپنا انداز تھا لیکن ایک بار مدن موہن جی نے کہا کہ اگر آپ نے 'یاہو' جیسا گانا گایا تو میں اپنی ریکارڈنگ منسوخ کر دوں گا۔۔ اس موڈ سے باہر نکلو میرا گانا انتہائی سنجیدہ ہے۔‘
جہاں محمد رفیع نے اپنے کیرئیر کی بلندیوں کو دیکھا تو وہیں ایسا وقت بھی آیا جب اسے زوال آنے لگا۔
یہ واقعہ ستر کی دہائی کے اوائل میں پیش آیا۔ اسی دوران رفیع حج سے واپس آئے تھے۔ وہاں کسی نے انھیں بتایا تھا کہ ان کے مذہب میں موسیقی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے بعد رفیع نے کچھ عرصہ گانا چھوڑ دیا۔
دلیپ کمار، شمی کپور جیسے تجربہ کار اداکار، جن کے لیے رفیع گایا کرتے تھے، آہستہ آہستہ کم ہو رہے تھے۔
یہ راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کا دور تھا۔ بہت سے موسیقار اور گیت نگار جنھوں نے رفیع کے لیے گیت ترتیب دیے تھے، وفات پا چکے تھے یا آر ڈی برمن جیسے نئی نسل کے موسیقار ایس ڈی برمن کی جگہ لے رہے تھے۔ انھوں نے نئی قسم کی موسیقی اور کشور کمار جیسے گلوکاروں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔
’لوگوں نے کہا کہ رفیع کا دور چلا گیا‘
رفیع نے اس مرحلے کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ کئی موسیقاروں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
جب فلم 'لیلیٰ مجنوں' کا میوزک تیار ہو رہا تھا تو مدن موہن اس بات پر بضد تھے کہ اداکار رشی کپور کے لیے صرف رفیع ہی گائیں گے، ورنہ وہ فلم نہیں کریں گے۔
جب یہ فلم 1976 میں ریلیز ہوئی تو ان کے گائے ہوئے گانے کافی ہٹ ہوئے۔ تاہم حالانکہ مدن موہن اس سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔
رفیع کا گانا ’کیا ہوا تیرا وعدہ۔۔۔‘ سال 1977 میں آیا تھا۔ اس کے لیے انھیں قومی ایوارڈ بھی ملا۔
سال 1977 میں رفیع نے منموہن دیسائی کی 'امر اکبر انتھونی' کے لیے نوجوان رشی کپور کے لیے ایک قوالی گائی ’پردہ ہے پردہ۔۔۔‘ یہ بھی کافی مشہور ہوئی۔
بہت سے لوگ حیران تھے کہ لکشمی کانت پیارے لال نے نئے اداکار کے لیے رفیع کا انتخاب کیوں کیا جن کے والد نے راج کپور کے لیے بھی رفیع گایا تھا۔ لیکن رفیع نے ان گانوں سے زبردست واپسی کی۔
لکشمی کانت پیاری لال نے بھی رفیع کے ساتھ اپنی پہلی فلم 'پارسمنی' کی تھی۔ اتفاق سے لکشمی کانت پیارے لال کی فلم آس پاس (1980) میں محمد رفیع نے اپنا آخری گانا گایا 'تیرے آنے کی آس ہے دوست، شام کیوں پھر اداس ہے دوست'۔
’خدا مجھے اس وقت اٹھا لے جب میں ٹاپ پر ہوں‘
محمد رفیع کا ہر دور کے گلوکاروں پر اثر رہا ہے۔ اس میں سونو نگم بھی شامل ہیں۔
بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے سونو نگم نے کہا تھا کہ ’جب میں گلوکار بننے کے لیے ممبئی آیا تھا تو میری صرف یہی کوشش تھی کہ رفیع صاحب کی آواز لاؤں اور ان کی طرح گاؤں، محمد رفیع صاحب میرے لیے بھگوان ہیں۔ میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا لیکن میں نے ان سے متاثر ہوکر گانا جاری رکھا اور بعد میں اپنا انداز بنایا۔
محمد رفیع کی بیٹی نسرین کے مطابق رفیع صاحب کہا کرتے تھے کہ ’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جب میں ٹاپ پر ہوں تو وہ مجھے اٹھا لے اور ان کی دعا قبول ہوئی۔ 1980 میں جب ان کی وفات ہوئی تو وہ ٹاپ پر تھے۔‘
منا ڈے اور محمد رفیع ایک بار سٹیج شو میں ایک ساتھ پرفارم کر رہے تھے۔ تب منّا ڈے نے سٹیج پر کہا تھا، ’دوستو، اس دور میں منّا ڈے تو ہزاروں ہوں گے لیکن دوسرا محمد رفیع کبھی نہیں ہوگا۔‘