آڈرے ہیپ برن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جنھوں نے نازیوں کے خلاف جاسوسی کی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نیدرلینڈز پر نازیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور ڈچ باشندے ان کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک خاتون جو ابھی اپنی کم سنی میں تھیں انھوں نے مزاحمت کرنے والے اپنے ہم وطنوں کے لیے خفیہ پیغام رسانی کا بیڑا اٹھایا۔
آڈری ہیپ برن
Getty Images
آڈرے ہیپ برن کو پانچ بار آسکر انعام کے لیے نامزد کیا گيا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نیدرلینڈز پر نازیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور ڈچ باشندے ان کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک خاتون جو ابھی اپنی کم سنی میں تھیں، انھوں نے مزاحمت کرنے والے اپنے ہم وطنوں کے لیے پیغام رسانی کا بیڑا اٹھایا۔

یہ نوجوان خاتون بعد میں ایک معروف اداکارہ بنیں اور جب انڈیا کے معروف فلم ساز و ہدایت کار ستیہ جیت رے کو آسکر انعام سے نوازے جانے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ انھیں یہ ایوارڈ اسی معروف اداکارہ کے ہاتھوں دیا جائے اور ان کی خواہش کا احترام کیا گیا۔

یہ نوجوان خاتون کوئی اور نہیں بلکہ بذات خود آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ آڈرے ہیپ برن تھیں۔

بی بی سی ریڈیو فور پوڈ کاسٹ کے پروگرام ’ہسٹریز ینگسٹ ہیروز‘ یعنی ’تاریخ کے کم عمر ہیروز‘ میں نکولا کوفلن نے دنیا بھر کے ان لوگوں کی غیر معمولی کہانیاں سنائیں جنھوں نے اپنی بے پناہ ہمت سے دنیا کو بدل دیا۔

پروگرام کی ایک تازہ ترین قسط میں معروف اداکارہ آڈرے ہیپ برن پر مبنی تھا۔ ہیپ برن سنہ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں فلم اور فیشن کی دنیا کی ایک مشہور آئیکون بن کر جگمگاتی رہیں۔

انھیں پانچ بار آسکر کے لیے نامزد کیا گيا جو کہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ رہا ہے لیکن انھیں ایک ہی بار یہ ایوارڈ مل سکا۔

سنہ 1953 میں فلم ’رومن ہالیڈے‘ میں اداکاری کے لیے انھیں بہترین اداکارہ کا اکیڈمی ایوارڈ دیا گيا۔

فلمی دنیا میں آنے سے قبل دوسری جنگ عظیم کے دوران نوعمری کے دور میں انھوں نے ایک بہت ہی مختلف کردار ادا کیا تھا۔ وہ نازی قبضے کے خلاف ڈچ مزاحمت کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے خفیہ بیلے پرفارمنسز کا انعقاد کیا کرتی تھیں۔

ہیپ برن اپنی والدہ ایلا وین ہیمسٹرا کے ساتھ سنہ 1946 کی تصویر
Getty Images
ہیپ برن اپنی والدہ ایلا وین ہیمسٹرا کے ساتھ سنہ 1946 کی تصویر

ہیپ برن کی ابتدائی زندگی

ہیپ برن سنہ 1929 میں برسلز میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ ایلا وین ہیمسٹرا اعلیٰ ڈچ خاندان سے تھیں جبکہ ان کے والد جوزف ہیپ برن رسٹن برطانوی نژاد آسٹریائی تاجر تھے۔

ان کے والدین جب لندن میں تھے تو وہ سام مخالف برٹش یونین آف فاشسٹ (بی یو ایف) کے رہنما اوسوالڈ موسلے سے متاثر تھے۔ ہیپ برن کی والدہ وان ہیمسٹرا نے بی یو ایف میگزن کے لیے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نازی جرمنی کے تابناک پہلوؤں کو بیان کیا تھا۔

ہیپ برن جب ابھی چھ سال کی ہی تھیں کہ ان کے والدین کو اپنے خاندان سے علیحدہ ہونا پڑا اور انھیں نیدرلینڈز نقل مکانی کرنا پڑی۔

بعد میں ان کے والد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر ’بیرون ملک فاشسٹوں کے ساتھ تعاون‘ کا الزام لگایا گیا۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی قید میں رہے۔

ہیپ برن کے سب سے چھوٹے بیٹے لوکا ڈوٹی نے رابرٹ میٹزن کو بتایا کہ ان کی والدہ ’بچپن سے ہی بہت باتونی تھیں۔ انھیں ہنسنا ہنسانا، کھیل کود اور اداکاری کرنا بہت پسند تھا۔ میری دادی انھیں منکی پزل (نہ سمجھ میں آنے والی بندریا) کہتی تھیں۔‘

واضح رہے کہ مصنف رابرٹ میٹزن نے ’تاریخ کے کم عمر ہیروز‘ کے لیے ہیپ برن پر ’ڈچ گرل‘ کے نام سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کی زندگی کا احاطہ کیا ہے۔

رابرٹ میٹزن بتاتے ہیں کہ 'آڈرے ہیپ برن کی والدہ کا خیال تھا کہ جنگ کی صورت حال میں انگلینڈ اور خاص طور پر کینٹ ہیپ برن کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے کیونکہ جرمنی اچانک فرانس کو روندتا ہوا آگے بڑھے گا اور پھر انگلینڈ پر حملہ کر دے گا۔‘

روم میں لی جانے والی سنہ 1960 کی تصویر
BBC
روم میں لی جانے والی سنہ 1960 کی تصویر

نقل مکانی

اسی خیال کے پیش نظر ہیپ برن کی والدہ وان ہیمسٹرا نے اپنی بیٹی کو ان کے برطانوی بورڈنگ سکول سے نکالا اور ہالینڈ میں اپنی خاندانی جاگیر پر منتقل ہو گئیں۔

آحدرے پیپ برن کا ایک ڈچ سکول میں داخلہ کرایا گيا۔ یہ ایک ڈانس سکول تھا۔ اس سکول میں ان کا نام اینڈریانٹجے وان ہیمسٹرا لکھوایا گیا تاکہ وہ زیادہ ڈچ نام لگے۔ لیکن بعد میں جب آڈرے نے اداکاری شروع کی تو انھوں نے اپنا نام بدل کر ہیپ برن رکھ لیا۔

نقل مکانی کے بعد بھی ان کی والدہ ایڈولف ہٹلر کی مرید تھیں اور انھیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ کبھی بھی ان کے ملک پر حملہ نہیں کریں گے۔

ہالینڈ میں اپنی والدہ ہیپ برن کے تجربے کے بارے میں ڈوٹی کہتے ہیں کہ ’ہالینڈ منتقل ہونا صرف گھر بدلنا نہیں تھا۔ وہ ڈچ زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی تھی۔ وہ ایک ایسے سکول میں جا رہی تھیں جہاں سب بچے نئے تھے اور انھیں ان کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ سب ان کا مذاق اڑاتے تھے۔‘

ہیپ برن کی والدہ ہیمسٹرا کے خیال کے برعکس ہٹلر نے ان کے ملک نیدرلینڈ پر مئی سنہ 1940 میں حملہ کر دیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔

اس صورت حال کے متعلق میٹزن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مشرقی محاذ ایک بھٹی کی مانند تھا، جہاں اتنے وسائل کو تیزی سے اکٹھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جرمنی کو فوجیوں کے لیے خوراک اور کپڑوں کی ضرورت تھی اور انھوں نے یہ سب کچھ ڈچ لوگوں اور دوسرے مقبوضہ ممالک سے حاصل کیا۔‘

ہیپ برن کے چچا کاؤنٹ اوٹو وین لمبرگ سٹیرم نے نازیوں کے خلاف اصولی موقف اختیار کیا۔ سنہ 1942 میں ایک ڈچ مزاحمتی گروپ نے روٹرڈیم کے قریب ایک جرمن ٹرین کو اڑانے کی کوشش کی۔

اگرچہ وین لمبرگ سٹیرم اس میں ملوث نہیں تھے لیکن انھیں گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ نازی مخالف ایک ممتاز شخصیت تھے۔ نازی ایجنٹوں نے ان کے ساتھ چار دیگر افراد کو جنگل میں لے جا کر گولی مار دی اور ان کی لاشوں کو بے نشان قبروں میں پھینک دیا۔

ہیپ برن اپنے چچا کو اپنے والد کی طرح پیار کرتی تھی اور ان کے قتل سے وہ ٹوٹ گئیں۔

میٹزن نے بتایا کہ ان لوگوں کا مارا جانا ’ایک قومی واقعہ بن گیا، ڈچ لوگوں کو مشتعل کر دینے والا واقعہ بن گیا۔‘

اگرچہ ان کا خاندان خوشحال اور مراعات یافتہ تھا لیکن نازیوں نے ان سے خوراک اور وسائل کو دور کر دیا جس کی وجہ سے وان ہیمسٹرا کے خاندان کو فاقہ کشی کی نوبت رہنے لگی۔

جب ہیپ برن 15 سال کی ہوئیں تو انھیں حکم دیا گیا کہ وہ نازی کُلٹورکامر یعنی فنکاروں کی یونین میں شامل ہو جائیں یا پھر عوامی طور پر رقص چھوڑ دیں۔ انھوں نے عوامی سطح پر پرفارم کرنا چھوڑنے کا انتخاب کیا۔

رقص اور آرٹ کے متعلق اپنی ماں کے جذباتی لگاؤ کے بارے میں ڈوٹی کہتے ہیں کہ ’رقص کے ذریعے وہ خواب دیکھ سکتی تھیں، اڑان بھر سکتی تھیں اور اس کے ذریعے وہ دنیا کے سارے رنج و غم کو بھول سکتی تھیں۔‘

ہیپ برن نے بند کھڑکیوں والے کسی محفوظ گھر میں صرف ایک موم بتی کے ساتھ رقص کیا، تاکہ ان کا پتہ نہ چل سکے۔ جب وہ پرفارمکر رہی ہوتیں تو صرف ایک پیانو بہت مدھم سروں میں بجایا جاتا۔ لیکن ان کے پرفارمنسز پر تالیاں نہیں بج سکتی تھیں۔ شو کے اختتام پر مزاحمت کرنے والوں کے لیے رقم جمع کی جاتی۔‘

ہیپ برن اپنی کامیابی کے عروج کے زمانے میں
Getty Images
ہیپ برن اپنی کامیابی کے عروج کے زمانے میں

بیلے رقص سے جاسوسی تک

سنہ 1944 کے موسم بہار میں ہیپ برن نے ایک ڈاکٹر ہینڈرک ویزرٹ ہوفٹ کے معاون کے طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دینا شروع کیا۔ وہ ڈاکٹر مزاحمتی گروپ کے رکن تھے۔ اگرچہ ہیپ برن کی والدہ کو بڑے پیمانے پر نازیوں کے ساتھی کے طور پر دیکھا جاتا تھا، لیکن ویزرٹ ہوفٹ کو نازیوں سے چھپنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے مدد کی اشد ضرورت تھی۔ ایسے میں انھوں نے ہیپ برن پر بھروسہ کیا اور انھیں اپنی ٹیم میں شامل کیا۔

یہ 17 ستمبر 1944 کی بات ہے جب ہیپ برن چرچ میں تھیں کہ اچانک حمدیہ ترانے میں انجنوں کی آواز سے خلل پڑنے لگا۔ وہ باہر نکلیں تو دیکھا کہ آپریشن مارکیٹ گارڈن شروع ہو چکا ہے۔

اس کے تحت اتحادی افواج نے دریائے رائن پر پھیلے ہوئے نو پلوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ آسمان ںے اتحادی افواج کے ہزاروں دستے پیراشوٹ کے ذریعے اتر رہے تھے۔

بدقسمتی سے نازی ٹینک وان ہیمسٹرا کے گھر کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ہیپ برن اور ان کے خاندان کو اس دوران تہہ خانے میں چھپنا پڑا اور یہ لڑائینو دنوں تک جاری رہی۔

جب وہ نو روز بعد اپنے گھر کے تہہ خانے سے باہر نکلے تو انھیں یہ خبر ملی کہ نازیوں کی جیت ہو گئی ہے۔ انھوں ایک عمارت سے چیخیں سنیں جہاں نازی انتقامی کارروائیاں کر رہے تھے اور ڈچ مزاحمت کے ارکان کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے اور انھیں قتل کر رہے تھے۔

جب جرمنی کی طرف جانے والی اتحادی فضائیہ کو ہالینڈ میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی تو ویزرٹ ہوفٹ نے ہیپ برن کو ایک کوڈ ورڈ کے ساتھ ایک برطانوی پیراشوٹر سے ملنے کے لیے جنگل میں بھیجا اور ان کی جراب میں ایک خفیہ پیغام پہنچایا گيا۔

برطانوی فوجی سے ملاقات کے بعد جنگل سے باہر نکلتے ہوئے انھوں نے ڈچ پولیس کو قریب آتے دیکھا۔ وہ جنگلی پھول توڑنے کے لیے جھک گئیں اور پھر دلربائی سے ان پھولوں کو پولیس کو پیش کر دیا۔ وہ ان کے انداز سے مسحور ہو گئے اور ان سے مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔

اس کے بعد وہ اکثر مزاحمت کے لیے پیغامات لے کر جانے لگیں۔

سنہ 1990 میں آڈری ہیپ برن ہنوئی میں یونیسیف کے خیرسگالی کے سفیر کے طور پر
Getty Images
سنہ 1990 میں آڈری ہیپ برن ہنوئی میں یونیسیف کے خیرسگالی کے سفیر کے طور پر

’آپ کو اچھائی یا برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے‘

ڈوٹی کا کہنا ہے کہ ’وہ اس بات پر بہت زیادہ یقین رکھتی تھی کہ اچھائی اور برائی کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے اور آپ کو اس میں سے ایک کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔‘

میٹزن نے کہا کہ ’جرمن بچوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ وہ بس ان سے یہ کہتے کہ بچے میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اور ڈچ نے اس بات کا فائدہ اٹھایا کیونکہ ان پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ مزاحمت کاروںکے لیے پیغام رسانی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ان کے لیے خطرناک تھا لیکن انھیں اس میں مزا آتا تھا۔ اور یہی بچے مزاحمت کرنے والوں کے ہیرو بن گئے۔‘

فروری سنہ 1945 تک یہ خبر سامنے آنے لگی کہ ہر ہفتے 500 ڈچ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ہیپ برن کے خاندان کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ وہ خون کی کمی، یرقان اور ورم کے مرض میں مبتلا ہو کر شدید بیمار ہو گئیں۔

ان کے گھر کے باہر ایک بار پھر خونریز جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ہیپ برن اور ان کے خاندان کو تین ہفتوں تک تہ خانے میں چھپنا پڑا۔

آخر کار 16 اپریل 1945 کو گھر کے باہر خاموشی چھا گئی اور انھیں اپنے گھر سے تمباکو کی بو آنے لگی جو کہ جنگ کے دوران ہالینڈ میں حاصل کرنا ناممکن تھا۔

انھوں نے تہہ خانے کے زینے چڑھ کر دروازہ کھولا تو انھوں نے اپنے گھر میں پانچ کینیڈین فوجیوں کو سگریٹ پیتے اور مشین گنوں کی نال ان کی طرف کرتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی وہ ان سے انگریزی میں بات کرنے لگیں۔ ایک نے چیخ کر کہا: 'ہم نے نہ صرف ایک شہر کو آزاد کرایا ہے بلکہ ایک انگریز لڑکی کو بھی آزاد کرایا ہے!'

فلم پوسٹر
BBC
ہیپ برن کی معروف فلم بریک فاسٹ ایٹ ٹفینی کا پوسٹر

ماں کو کبھی معاف نہیں کیا

ہیپ برن نے بعد میں اپنے بیٹے کو بتایا کہ انھوں نے اپنی والدہ کو فاشسٹوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔

جب جنگ ختم ہوئی تو انھیں لندن میں بیلے رمبرٹ کے لیے سکالرشپ ملی۔ اگرچہ وہ باصلاحیت تھیں لیکن غذائیت کی کمی کی وجہ سے ان کے جسم کو مستقل طور پر نقصان پہنچا، اور ان کے پاس بیلے ڈانسر بننے کی صلاحیت نہیں رہی۔ اس کے بعد وہ ویسٹ اینڈ تھیٹر اور دی لیوینڈر ہل موب جیسی فلموں میں چھوٹے کرداروں کے ساتھ اداکاری کی طرف متوجہ ہوئیں۔

سنہ 1953 میں انھیں ’رومن ہالیڈے‘ میں پہلا مرکزی کردار ملا۔ یہ ایک زبردست تنقیدی اور تجارتی کامیابی تھی، اور اس فلم کے لیے انھیں آسکر کے ساتھ ساتھ ایمی، گریمی اور ٹونی ایوارڈز سے بھی نوازا گيا۔

اپنے پورے کیریئر کے دوران انھوں نے خیراتی کاموں کو جاری رکھا اور یونیسیف کی خیر سگالی کی سفیر کے طور پر بھی کام کیا۔

سنہ 1993 وہ اس دنیا سے چل بسیں۔

میٹزن کا کہنا ہے کہ ’جنگ اور ہر اس چیز نے جس سے وہ گزریں اس نے ہیپ برن کو بہت اعلی مقام پر فائز کیا۔ ان کے پاس اتنا تجربہ تھا کہ وہ خود کو ان مختلف کرداروں میں ڈھالسکتی تھیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.