’یہ گوانتانامو میں زندہ رہیں گے لیکن عراق میں نہیں‘: امریکی قید خانے کے معمر ترین قیدی کے اہلِخانہ کی اپیل

القاعدہ کے ایک سابق کمانڈر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کے قابل اعتماد ساتھی ہیں،ان کے اہل خانہ نے امریکی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں رہا کریں۔ گوانتانامو بے میں باقی رہ جانے والے قیدیوں میں سے ایک عبدالہادی العراقی کو ان کی جائے پیدائش عراق کی ایک جیل میں منتقل کیا جانا ہے۔
عبدالہادی العراقی 1961 میں عراقی شہر موصل میں پیدا ہوئے تھے اور وہ گوانتانامو میں سب سے عمر رسیدہ قیدی ہیں۔
BBC
عبدالہادی العراقی 1961 میں عراقی شہر موصل میں پیدا ہوئے تھے اور وہ گوانتانامو میں سب سے عمر رسیدہ قیدی ہیں

القاعدہ کے ایک سابق کمانڈر اور اسامہ بن لادن کے قابل اعتماد ساتھی کے اہل خانہ نے امریکی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں رہا کریں۔

گوانتانامو بے میں باقی رہ جانے والے آخری قیدیوں میں سے ایک عبدالہادی العراقی کو ان کی جائے پیدائش عراق کی ایک جیل میں منتقل کیا جانا ہے۔

بی بی سی افغان سروس سے بات کرتے ہوئے اپنے پہلے میڈیا انٹرویو میں ان کی اہلیہسونیا امیری کا کہنا تھا کہ انھیں اب ان کی صحت سے متعلق خداشات ہیں

ان کا کہنا تھا 'میرے اور میرے بچوں کے لیے یہ سننا مشکل تھا کہ انھیں عراق منتقل کیا جا رہا ہے۔ عراق کی جیلوں کی حالت بہت خراب ہے۔ اگر انھیں وہاں منتقل کر دیا گیا تو وہ چند مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔'

العراقی نے اس منتقلی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں دلیل دی گئی ہے کہ وہ عراق میں بدسلوکی کا نشانہ بن سکتے ہیں اور انھیں ریڑھ کی ہڈی کی بیماری کے لیے مناسب طبی امداد نہیں ملے گی۔ '

عبدالہادی العراقی وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں اوران کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گوانتانامو میں ان کی ریڑھ کی ہڈی کے چھ آپریشن کیے جا چکے ہیں۔

سونیا امیری نے مزید کہا کہ 'انھیں عراق نہیں بھیجا جانا چاہیے بلکہ انھیں افغانستان واپس بھیج دیا جانا چاہیے۔ میں افغان ہوں اور ان کے چار بچے افغان ہیں۔ وہ گوانتانامو میں زندہ رہیں گے لیکن عراق میں نہیں۔ '

جب انھیں ترکی میں گرفتار کیا گیا تو ان کی اہلیہ وہاں موجود تھیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے روابط یا اس کے اصل نام کے بارے میں نہیں جانتی تھیں۔

گوانتانامو کی فوجی جیل
Getty Images

ان کے بیٹے عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'جب انھوں نے میرے والد کو گرفتار کیا تو میں چھ سال کا تھا۔ وہ ایکصحت مند آدمی تھے اور اب مفلوج ہیں۔ یہ سب ان کے ساتھ گوانتانامو میں ہوا انھوں نے بہت کچھ برداشت کیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ انھیں ہمارے پاس رہنے کی اجازت دی جائے۔'

63 سالہ عبدالہادی العراقی گوانتانامو میں سب سے عمر رسیدہ قیدی ہیں۔ ان کا اصل نام نشوان الثمر ہے اور وہ 1961 میں عراق کے شہر موصل میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 1980 کی دہائی میں عراقی فوج میں میجر تھے اور 1990 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان میں ایک اہم ملیشیا کمانڈر بن گئے۔

امریکی قیادت میں حملے کے بعد وہ اتحادی افواج کے خلاف سرحد پار حملوں کے انچارج تھا۔ جب انھیںترکی میں گرفتار کیا گیا تو ان کی اہلیہ وہاں موجود تھیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے روابط یا ان کے اصل نام کے بارے میں نہیں جانتی تھیں۔

'مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں انھیں عبدالرحمٰن کے نام سے جانتی تھی اور جب انھیں گرفتار کیا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ عبدالہادی ہیں۔'

سنہ 2022 میں انھوں نے جنگی جرائم کا اعتراف کیا تھا اور ایک امریکی فوجی جج نے انھیں 30 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے 2003 اور 2004 میں اتحادی افواج پر حملوں کے لیے سویلین کور استعمال کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی افواج نے صوبہ بامیان میں مہاتما بدھ کے مشہور بڑے مجسموں کو تباہ کرنے میں طالبان کی مدد کی۔

قیدیوں کی منتقلی

گوانتانامو کی فوجی جیل
Getty Images

گوانتانامو کی فوجی جیل کیوبا میں امریکی بحری اڈے میں واقع ہے۔ یہ نائن الیون کے حملوں کے بعد 2002 میں امریکی صدر بش نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں پکڑے جانے والے مشتبہ افراد کو رکھنے کے لیے کھولی تھی۔

اپنے عروج پر یہاں تقریبا 800 قیدیوں کو رکھا گیا۔ اس وقت متنازع ہو گئی جب یہاں قیدیوں کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا اور پوچھ گچھ کی متنازع طریقے استعمال کیے گئے۔

گذشتہ ہفتے کے اوائل میں امریکہ نے گوانتانامو بے سے گیارہ یمنی قیدیوں کو عمان منتقل کیا تھا۔ اس اقدام کے بعد کیوبا کی جیل میں 15 قیدی رہ گئے ہیں جو اس کی تاریخ میں کسی بھی وقت سب سے کم تعداد ہے۔

سونیا امیری کو امید ہے کہ ان کے شوہر کو عراق کے علاوہ کہیں اور منتقل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'چند روز قبل امریکہ نے کچھ یمنی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ ان سب کے جرائم ایک جیسے تھے۔ جب وہ اپنے ملک جا سکتے ہیں تو وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ وہ انھیں عمان، قطر یا کہیں اور یا کم از کم افغانستان بھیج سکتے ہیں۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.