سندھ کی وہ پہیلی جسے حل کرنے والا 10 لاکھ ڈالر جیت سکتا ہے

جنوبی انڈین ریاست تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن نے وادیِ سندھ کے قدیم رسم الخط کا ترجمہ کرنے والے کو 10 لاکھ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
سندھی رسم الخط اشاروں اور علامتوں پر مشتمل ہے جو اس طرح کی پتھر کی مہروں پر پایا جاتا ہے
Getty Images
سندھی رسم الخط اشاروں اور علامتوں پر مشتمل ہے جو اس طرح کی پتھر کی مہروں پر پایا جاتا ہے

کمپیوٹر سائنسدان راجیش پی این راؤ کو ہر ہفتے لوگوں کی جانب سے ای میلز موصول ہوتی ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے قدیم رسم الخط کا ترجمہ کر لیا ہے جس نے کئی نسلوں سے سکالرز کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔

ان خود ساختہ کوڈ بریکرز میں انجینئرز اور آئی ٹی اہلکاروں سے لے کر ریٹائرڈ افراد اور ٹیکس افسروں تک شامل ہیں، ان میں زیادہ تر انڈیا سے ہیں یا بیرون ملک مقیم انڈین نژاد ہیں۔

ان سبھی کو یقین ہے کہ انھوں نے وادی سندھ کی تہذیب کے رسم الخط کو سمجھ لیا ہے، جواشاروں اورعلامتوں کا امتزاج ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں ہوانگ انڈوڈ پروفیسر اور انڈس سکرپٹ (سندھ کے قدیم رسم الخط) پر تحقیق کے مصنف راؤ کہتے ہیں کہ ’وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اسے حل کر لیا ہے اور یہ کہ ’کیس بند ہو چکا ہے۔‘

جنوبی انڈین ریاست تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن نے حال ہی میں اس دوڑ میں اضافہ کرتے ہوئے ان اشاروں کا ترجمہ کرنے والے کو 10 لاکھ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

دنیا کے قدیم ترین شہری معاشروں میں سے ایک سندھ یا ہڑپہ تہذیب 5300 سال قبل موجودہ شمال مغربی انڈیا اور پاکستان میں ابھری تھی۔ پکی اینٹوں کی دیواروں سے بنے شہروں میں رہنے والے اس کے کسان اور تاجر صدیوں سے پھل پھول رہے ہیں۔

ایک صدی قبل اس کی دریافت کے بعد سے اس خطے میں تقریباً دو ہزار مقامات کا انکشاف ہوا ہے۔

اس معاشرے کے اچانک زوال کی وجوہات واضح نہیں ہیں اور یہاں جنگ، قحط یا قدرتی آفت کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے لیکن اس کا سب سے بڑا راز اس کا ناقابل فہم رسم الخط ہے، جس کی وجہ سے اس کی زبان، حکمرانی اور عقائد اب تک پوشیدہ ہیں۔

پاکستان میں وادی سندھ کے کھنڈرات: یہ دنیا کے قدیم ترین شہری معاشروں میں سے ایک ہے
Getty Images
پاکستان میں وادی سندھ کے کھنڈرات: یہ دنیا کے قدیم ترین شہری معاشروں میں سے ایک ہے

ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ماہرین لسانیات، سائنس دان اور ماہرین آثار قدیمہ سندھ کے رسم الخط کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مختلف نظریات میں اسے ابتدائی برہمی رسم الخط، دراوڑی اور آریائی زبانوں، سمیری زبانوں سے جوڑا ہے، اور یہاں تک کہ دعوی کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی یا مذہبی علامتوں پر مشتمل ہے۔

اس کے باوجود اس کے راز اب بھی پوشیدہ ہیں۔ معروف انڈولوجسٹ آسکو پارپولا کا کہنا ہے کہ ’سندھی رسم الخط شاید لکھنے کا سب سے اہم نظام ہے جسے اب تک سمجھا نہیں جا سکا۔‘

آج کل زیادہ مقبول شاندار نظریات رسم الخط کو ہندو صحیفوں کے مواد سے تشبیہ دیتے ہیں اور تحریروں کو روحانی اور جادوئی معنی دیتے ہیں۔

راؤ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کوششوں میں اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اشاروں اور علامتوں پر مشتمل رسم الخط زیادہ تر تجارت اور کاروبار کے لیے استعمال ہونے والی پتھر کی مہروں پر ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان میں مذہبی یا اساطیری مواد موجود ہے۔

سندھی رسم الخط کو سمجھنے میں بہت سے چیلنجز ہیں۔ سب سے پہلے، سکرپٹس کی نسبتا کم تعداد ان میں سے تقریبا چار ہزار تقریباً سبھی چھوٹی اشیا جیسے مہروں، مٹی کے برتنوں اور ٹیبلٹس پر ہیں۔

اس کے بعد ہر تحریر کا خلاصہ ہے تقریباً پانچ اشاروں یا علامتوں کی اوسط لمبائی۔ جس میں دیواروں، تختیوں یا سیدھے پتھر کی سلاخوں پر کوئی لمبا متن نہیں ہے۔

مثلاً اگر عام طور پر پائے جانے والی مربع شکل مہروں پر غور کریں تو اوپری حصے میںاشاروں کی لکیریں ہیں، اس میں ایک مرکزی جانور کی شکل ہوتی ہے جو اکثر یونی کارن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک شے ہے جس کا مطلب اب تک نامعلوم ہے۔

UNSPECIFIED - CIRCA 1988: Indus Art - 2.500 b.C. - Stone (steatite) seal of the Indus Valley
Getty Images
بہت سی مہروں میں ایک یونی کارن اور اس کے ساتھ ایک نامعلوم چیز ہوتی ہے۔

روزیٹا سٹون کی طرح کوئی دو زبانی فن پارہ بھی موجود نہیں ہے جس نے محققین کو مصری ہائروگلف کو ڈی کوڈ کرنے میں مدد کی۔

اس طرح کے نوادرات میں دو زبانوں میں متن ہوتا ہے جو ایک معلوم اور نامعلوم رسم الخط کے درمیان براہ راست موازنہ پیش کرتا ہے۔

سندھی رسم الخط کو سمجھنے میں حالیہ پیش رفت نے اس قدیم معمے سے نمٹنے کے لیے کمپیوٹر سائنس کا استعمال کیا ہے۔

محققین نےتحریروں کا تجزیہ کرنے کے لیے مشین لرننگ تکنیک کا استعمال کیا ہے نمونوں اور ڈھانچوں کی شناخت کرنے کی کوشش کی ہے جو اس کی تفہیم کا باعث بن سکتے ہیں۔

ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ کی محقق، نشا یادو ان میں سے ایک ہیں۔ راؤ جیسے سائنس دانوں کے تعاون سے ان کے کام نے غیر واضح تحریروںکا تجزیہ کرنے کے لیے شماریاتی اور کمپیوٹیشنل طریقوں کو لاگو کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

ان تحریروں سے حاصل کردہ سندھی تہذیب کے اشاروں کےڈیجیٹل ڈیٹا سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے دلچسپ نمونے تلاش کیے ہیں۔

نشہ یادو کہتی ہیں کہ ’یقینی طور پر ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ اشارے مکمل الفاظ ہیں، یا الفاظ کا ایک حصہ یا جملے کا حصہ ہیں۔‘

ایک مجسمہ، ممکنہ طور پر کسی پادری کا، ایک قدیم سندھ کے کھنڈر سے دریافت ہوا، جو اب پاکستان میں ہے
Getty Images
ایک مجسمہ، ممکنہ طور پر کسی پادری کا، ایک قدیم سندھ کے کھنڈر سے دریافت ہوا، جو اب پاکستان میں ہے

نشا یادو اور ان کے ساتھی محققین کو 67 علامات ملی ہیں جوتحریروں کا 80 فیصد ہیں۔ ایک نشان جو دو ہینڈل والے جار کی طرح نظر آتا ہے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشان ثابت ہوا۔

اس کے علاوہ سکرپٹس بڑی تعداد میں علامات کے ساتھ شروع ہوئے اور ان میں سے کم کے ساتھ ختم ہوئے۔ کچھ اشاروں کے نمونے توقع سے زیادہ بار ظاہر ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سکرپٹ کا ایک مشین لرننگ ماڈل تیار کیا گیا تھا تاکہ ناقابل فہم اور تباہ شدہ متن کو بحال کیا جاسکے جس سے مزید تحقیق کی راہ ہموار ہوئی۔

'نشا یادو کہتی ہیں 'ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رسم الخط ترتیب دیا گیا ہے اور تحریر میں ایک بنیادی منطق ہے۔'

یقینی طور پر، بہت سے قدیم رسم الخط اب بھی ناقابل فہم ہیں، جنہیں سندھی رسم الخط سے ملتے جلتے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

راؤ نے پروٹو ایلمیٹ (ایران)، لینیر اے(کریٹ) اور ایٹرسکین (اٹلی) جیسے رسم الخط کا حوالہ دیا ہے، جن کی بنیادی زبان نامعلوم ہے۔

رونگورنگو (ایسٹر جزیرہ) اور زپوٹیک (میکسیکو) جیسے دیگر لوگ زبانیں جانتے ہیں، ’لیکن ان کی علامتیں غیر واضح ہیں۔‘

مینوان تہذیب کی ایک پراسرار جل ہوئی مٹی کی ڈسک – ’کریٹ فائسٹوس ڈسک‘ سندھی رسم الخط کے چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی زبان نامعلوم ہے اور صرف اس کی واحد مثال موجود ہے۔‘

کوہان والے بیلوں اور پرندوں کے ساتھ مٹی کے برتن سندھ کے مقام سے برآمد ہوئے
Getty Images
کوہان والے بیلوں اور پرندوں کے ساتھ مٹی کے برتن سندھ کے مقام سے برآمد ہوئے

نشا یادو اور ان کے ساتھی محققین کو 67 علامات ملی ہیں جو تحریروں کا 80 فیصد ہیں۔

ایک نشان جو دو ہینڈل والے جار کی طرح نظر آتا ہے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشان ثابت ہوا۔

اس کے علاوہ سکرپٹس بڑی تعداد میں علامات کے ساتھ شروع ہوئے اور ان میں سے کم کے ساتھ ختم ہوئے۔ کچھ اشاروں کے نمونے توقع سے زیادہ بار ظاہر ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سکرپٹ کا ایک مشین لرننگ ماڈل تیار کیا گیا تھا تاکہ ناقابل فہم اور تباہ شدہ متن کو بحال کیا جا سکے جس سے مزید تحقیق کی راہ ہموار ہوئی۔

نشا یادو کہتی ہیں ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رسم الخط ترتیب دیا گیا ہے اور تحریر میں ایک بنیادی منطق ہے۔‘

یقینی طور پر بہت سے قدیم رسم الخط اب بھی ناقابل فہم ہیں، جنھیں سندھی رسم الخط سے ملتے جلتے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

راؤ نے پروٹو ایلمیٹ (ایران)، لینیر اے (کریٹ) اور ایٹرسکین (اٹلی) جیسے رسم الخط کا حوالہ دیا ہے، جن کی بنیادی زبان نامعلوم ہے۔

رونگورنگو (ایسٹر جزیرہ) اور زپوٹیک (میکسیکو) جیسے دیگر لوگ زبانیں جانتے ہیں، ’لیکن ان کی علامتیں غیر واضح ہیں۔‘

مینوان تہذیب کی ایک پراسرار جلی ہوئی مٹی کی ڈسک – ’کریٹ فائسٹوس ڈسک‘ سندھی رسم الخط کے چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی زبان نامعلوم ہے اور صرف اس کی واحد مثال موجود ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.