غزہ میں جنگ بندی کے تاریخی معاہدے کی اندرونی کہانی: جب مذاکرات میں صرف 10 منٹ باقی تھے

قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں کے توسط سے امید و بیم کے درمیان جنگ بندی کی بات چیت کئی مہینوں سے جاری تھی لیکن پھر ایک مرحلہ وہ آیا جب اس جنگ کے کلیدی کھلاڑی دوحہ کی ایک عمارت کے اندر مختلف منزلوں پر موجود تھے اور ان کی رفتار حد سے زیادہ تیز تھی۔
فلسطینی
Getty Images

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے سلسلے میں اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار کبھی آمنے سامنے نہیں آئے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان میں صرف ایک منزل کا فرق تھا۔

قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں کے توسط سے امید و بیم کے درمیان جنگ بندی کی بات چیت کئی مہینوں سے جاری تھی لیکن پھر ایک مرحلہ وہ آیا جب اس جنگ کے کلیدی کھلاڑی دوحہ کی ایک عمارت کے اندر تھے اور ان کی رفتار حد سے زیادہ تیز تھی۔

ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ قریب تھا اور ایک سٹیج تیار کیا جا رہا تھا تاکہ قطری وزیر اعظم اس کا اعلان کر سکیں۔ لیکن ذرائع میں سے ایک نے بتایا کہ معاملات ذرا خراب ہو گئے تھے اور آخری لمحات میں مذاکرات کے ناکام ہونے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔

ان مذاکرات پر قریب سے نظر رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ 'در حقیقت مذاکرات پریس کانفرنس سے 10 منٹ پہلے تک جاری تھے اور کس طرح آخری لمحات میں معاملات کو سلجھایا گیا۔'

بی بی سی نے مذاکرات کے تمام فریقوں کے متعدد عہدیداروں سے بات کی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ خفیہ عمل کے آخری لمحات کیسے رہے۔

یہ معاہدہ اچانک یوں ہی نہیں ہو گيا۔

15 جنوری کو طے پانے والے معاہدے کا مجموعی فریم ورک وسیع پیمانے پر وہی تھا جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ مئی میں وائٹ ہاؤس کے خطاب کے دوران پیش کیا تھا۔ ان میں وہی تین مراحل نظر آئے، یعنی پہلے جنگ بندی، پھر فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، اور پھر غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا۔

غزہ
Reuters
غزہ ملبوں کا ڈھیر بن چکا ہے

پہلو بدلتے رہے

لیکن بات چیت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ دسمبر کے وسط میں مذاکرات کے ڈئنامکس فیصلہ کن طور پر بدل گئے اور اس کی سمت و رفتار میں بھی تبدیلی آئی۔

حماس دو ماہ قبل غزہ میں اپنے رہنما یحییٰ سنوار کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شدید تنہائی کا شکار ہو گئی جبکہ دوسری جانب لبنان میں قائم اس کی اتحادی حزب اللہ کو ختم کر دیا گیا اور اس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کر لیا۔ شام میں بشار الاسد کی ایران نواز حکومت بھی ختم ہو چکی تھی۔

جیسا کہ ایک امریکی اہلکار کا خیال ہے کہ واشنگٹن میں یہ نظریہ گشت کر رہا ہے کہ حماس کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ کسی 'گھڑ سوار فوج کی آمد' کا انتظار چھوڑ دے کہ وہ آ کر اسے بچائے گی۔

بات چیت سے واقف بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ 'اس بات کو بتانا مشکل ہے کہ بنیادی طور پر حساب کتاب کتنے بدلے اور اس سے حماس کے حساب کتاب میں کتنی تبدیلی آئی۔'

ایک اسرائیلی اہلکار جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حماس معاہدے کرنے کے لیے 'جلدی میں نہیں' تھی اور وہ مذاکرات کے بجائے اپنی شرائط 'لکھوا' رہی تھی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سنوار کی ہلاکت اور خطے میں حماس کے اتحادیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئی۔

علاوہ ازیں اہلکار نے کہا کہ 'امریکی انتظامیہ کی طرف سے رفتار بڑھائی گئی' کیونکہ بائیڈن کی وائٹ ہاؤس اور آنے والی ٹرمپ ٹیم کو اس کی جلدی تھی۔

اہلکار نے مزید کہا کہ 'ہم اس طرح کا معاہدہ اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ حالات تبدیل نہ ہوئے ہوتے۔'

12 دسمبر کو بائیڈن کی مذاکراتی ٹیم نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو سے ملاقات کی۔ اس ٹیم میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، مشرق وسطیٰ کے ایلچی بریٹ میک گرک اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز سبھی موجود تھے۔

'ایک نیا مہرہ'

ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ ملاقات 'کئی گھنٹے تک' جاری رہی اور یہ کہ اس میں 'نئے علاقائی حساب کتاب' پر توجہ مرکوز کی گئی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 'ہم اس طرح لبنان میں جنگ بندی سے غزہ پر گہری بات چیت کے دوسرے مرحلے تک پہنچے۔'

اس مرحلے پر بساط پر ایک اور مہرہ بھی تھا اور وہ مہرہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔

16 دسمبر کو صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی فتح کے چند ہفتوں بعد بی بی سی نے حماس کے ایک اہلکار سے بات کی جو جنگ بندی کی کوششوں کے بارے میں غیر معمولی طور پر پُر امید تھے تو انھوں نے یہ اشارہ دیا وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔

اہلکار نے نومبر 2023 سے بات چیت کے ہر دور میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ آنے والے امریکی صدر کے ایک مشیر نے ثالثوں کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ اپنے افتتاح سے پہلے ایک معاہدہ چاہتے ہیں۔

اس کے ساتھ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر حماس یرغمالیوں کی رہائی پر راضی نہیں ہوتے تو انھیں 'جہنم کا مزا چکھایا جائے گا'۔ لیکن فلسطینی اہلکار پر عزم تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ 'اس بار دباؤ صرف حماس تک ہی محدود نہیں رہے گا، جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ میں رواج تھا۔ نتن یاہو پر بھی دباؤ ہو گا کیونکہ وہی اس معاہدے میں رکاوٹ ہیں، اور لگتا ہے کہ ٹرمپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔'

صدر بائيڈن
Reuters
امریکی صدر بائیڈن کی مدت صدارت ختم ہو رہی ہے

صبح کاذب

تاہم اسی اہلکار کی یہ پیشگوئی کہ کرسمس تک ڈیل ہو سکتی ہے خوش فہمی ثابت ہوئی۔

دسمبر کے دوران یہ عمل مسائل میں گھرا رہا۔ اسرائیل نے عوامی سطح پر بعض ہائی پروفائل قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ وائٹ ہاؤس نے حماس پر یرغمالیوں کی رہائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگایا۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا: 'حماس نے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تھا اور معاہدہ وہیں پر ختم ہو رہا تھا معاہدے کے پہلے حصے میں رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کی فہرست پر ہی وہ اتفاق نہیں کر رہے تھے۔

'یہ بہت بنیادی بات تھی۔ یہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ تھا۔ جب تک آپ یرغمالیوں کی فہرست سے اتفاق نہیں کرتے جو باہر آئیں گے، کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔'

اسی عہدیدار نے کہا کہ حماس نے یرغمالیوں کے مقام کا علم نہ ہونے کے بارے میں 'مکمل طور پر جھوٹے' دعوے کیے۔ انھوں نے مزید کہا: 'ہم اس بات پر قائم رہے کہ جب تک کہ حماس یرغمالیوں کی فہرست پر راضی نہ ہو جائے ہم میز پر نہ بیٹھیں گے۔'

نام نہ ظاہر کرتے ہوئے ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ حماس نے زندہ یرغمالیوں کی تعداد چھپانے کی کوشش کی اور 'یہ دھمکی دینے کی کوشش کی کہ وہ ہمیں صرف لاشیں بھیجیں گے۔'

اپنے طور پر حماس نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے غیر متوقع طور پر یرغمالیوں کی فہرست میں 11 نام شامل کیے جنھیں وہ پہلے مرحلے میں رہا کرنا چاہتا ہے۔ حماس کے نزدیک یہ لوگ ریزرو فوجی تھے کیونکہ نہ تو وہ خواتین تھے نہ زخمی تھے اور نہ ہی معمر یرغمالیوں میں شامل تھے۔

قطری اور مصری ثالثوں کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا اور تین جنوری کو ایک واضح پیش رفت ہوئی جب حماس نے بدلے میں عمر قید کی سزا پانے والے 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی۔

یرغمال
EPA

'کلید'

اس طرح کے سودوں کے لیے پہلے سے ہی نظیر موجود تھی۔ حماس کو ہر یرغمالی کی رہائی کے لیے اسرائیل کو وہ چیز فراہم کرنی ہوگی جو معاہدے کے مسودے کے نام میں 'کلید' کے طور پر مشہور تھی، یعنی ایک متفقہ تعداد یا فلسطینی قیدیوں کی مخصوص شناخت۔

ایک امریکی اہلکار نے کہا: 'یہ ایک حساب ہے کہ کتنے فلسطینی قیدی باہر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین فوجیوں کے لیے ایک چابی ہے تو بوڑھے مردوں کے لیے ایک دوسری چابی ہے۔ اور خواتین عام شہریوں کے لیے، ایک الگ چابی ہے۔ سب کچھ کیا گیا اور قیدیوں کے نام درج کر لیے گئے اور سینکڑوں قیدی اس فہرست میں شامل ہیں۔'

مذاکرات میں قدیوں کے تبادلے کی فائل میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے قیدی 'چابیوں' کے نام سے مشہور ہوئے۔

مذاکرات کے اس مرحلے کے دوران حماس نے دو دیرینہ مطالبات سے بھی دستبرداری اختیار کی جس میں پہلے مرحلے میں غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء اور مکمل جنگ بندی کے لیے رسمی اسرائیلی عزم کا اعادہ شامل تھا۔

ایسے میں ایک پیش رفت کا احساس کرتے ہوئے مصری ثالث نے فوری طور پر میجر جنرل احمد عبدالخالق کو دوحہ روانہ کیا کیونکہ وہ مصری انٹیلی جنس میں فلسطینی پورٹ فولیو کی نگرانی کرتے ہیں۔ حماس کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ گروپ وہی کرے گا جسے حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے 'تکلیف دہ رعایت' قرار دیا ہے۔

لیکن 6 جنوری کو اسرائیل نے حماس کی طرف سے 11 یرغمالیوں کے متعلق پیش کش کو مسترد کر دیا۔ یہ بات ایک فلسطینی اہلکار نے بتائی۔ حماس نے بی بی سی اور دیگر میڈیا اداروں کو 34 اسرائیلی یرغمالیوں کے نام اور عمروں کی فہرست بھیج کر جواب دیا۔ دو دن بعد اس فہرست میں شامل افراد میں سے ایک یوسف الزیادنی کی لاش غزہ کے اندر ملی۔

اس فہرست میں ریزرو فوجی بھی شامل تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس پہلے مرحلے میں انھیں رہا کرنے پر آمادہ ہو گيا ہے۔

یہ نتن یاہو کو شرمندہ کرنے اور اسرائیل اور دنیا بھر میں یرغمالیوں کے لیے کوشش کرنے والے خاندانوں کو اس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔

یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ حماس مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔

فلسطین
Reuters

چند میٹر کے فاصلے پر

مذاکرات کے آخری مرحلے کے دوران دوحہ کی گرم شاموں میں چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں عام ہو گئیں۔

تفصیلات سے واقف متعدد حکام کے جائزوں کے مطابق پچھلے مہینے یہ ملاقاتیں ایک ہی دو منزلہ عمارت میں دونوں فریقوں کے درمیان نام نہاد 'نزدیکی بات چیت' میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ حماس کا وفد پہلی منزل پر تھا اور اسرائیلی وفد اوپر کی منزل پر۔ ثالث ان کے درمیان دستاویزات لے کر دوڑتے رہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کی تجاویز کے نقشے اور رہائی کے لیے تیار کیے گئے یرغمالیوں یا قیدیوں کے بارے میں تفصیلات ادھر سے ادھر آتی جاتی رہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ اس میں بہت زیادہ کام درکار ہوتا ہے اور یہ کہ سب کچھ آخری مرحلے تک مکمل طور پر طے نہ ہو سکا تھا۔'

اسی عمارت کے اندر وفود نے قطر اور مصر کی سینیئر شخصیات سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان مذاکرات میں قریب سے شامل افراد میں قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی بھی شامل تھے۔

مذاکرات کے آخری مراحل میں دو اہم شعبوں پر کام کیا گیا۔ ایک حماس اور اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی فہرستوں اور دوسرا پہلے مرحلے کے دوران غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی پوزیشن پر۔

نو جنوری تک دباؤ بڑھ گیا تھا۔ ٹرمپ کے ایلچی، بائیڈن کے ایلچی، اور مصری انٹیلی جنس چیف نے دوحہ میں آٹھ گھنٹے تک سنجیدہ مذاکراتی اجلاس کیے۔

ایک سینیئر مصری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا: 'ہم ایک معاہدے تک پہنچنے کے قریب ترین مقام پر تھے۔ 90 فیصد تصفیہ طلب امور پر معاہدہ ہو چکا تھا تاہم مزید بات چیت کی ضرورت تھی۔'

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے حال ہی میں تعینات کیے گئے ایلچی سٹیو وٹکوف کو نتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب روانہ کیا گیا۔ اگرچہ ابھی تک باضابطہ طور پر وہ اپنے عہدے پر فائز نہیں ہوئے ہیں لیکن نیویارک کے پراپرٹی ٹائیکون بات چیت میں زیادہ سے زیادہ شامل ہو چکے ہیں اور ٹرمپ اس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔

انھیں ایک ایسے کام پر بھیجا جانے والا تھا جو اہم ثابت ہوا۔

کھیل کا اختتام

جب 11 جنوری کو مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کا آدمی اسرائیل پہنچا تو یہ سبت کا دن تھا۔

وِٹکوف کو نتن یاہو سے ملنے سے پہلے سبت کے ختم ہونے تک انتظار کرنے کو کہا گیا لیکن رسم و رواج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایلچی نے انکار کر دیا اور وزیر اعظم سے فوری ملاقات کا مطالبہ کیا۔

ایسا لگا کہ نیتن یاہو میٹنگ کے دوران شدید دباؤ میں تھے اور ٹرمپ کیمپ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو اپنے حتمی تحفظات کو دور کرنے کے لیے کی جانے والی مداخلت بہت اہم تھی۔

یہ ملاقات مبینہ طور پر فتنہ انگیز تھی اور آنے والے صدر کی طرف سے نتن یاہو کو پیغام واضح تھا کہ 'ٹرمپ ایک ڈیل چاہتے ہیں، اب اس ڈیل کو مکمل کریں۔'

ان مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایک 'انتہائی اہم ملاقات' تھی۔

جب وٹکوف دوحہ واپس آئے تو وہ بات چیت کرنے والوں کے ساتھ کمرے میں ہی رہے، بائیڈن کے ایلچی مسٹر میک گرک کے ساتھ وقت گزارا اور اسے دو امریکی عہدیداروں کے درمیان امریکی سفارت کاری میں ہونے والی 'تقریبا بے مثال' منتقلی کی کوشش قرار دیا گيا۔

رواں ہفتے حماس کے اہلکار باسم نعیم نے نیوز چینل العربیہ کو بتایا کہ وہ 'سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں آنے والی انتظامیہ کے دباؤ کے بغیر یہ معاہدہ ممکن ہو سکتا تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں خاص طور پر بات چیت میں وٹکوف کی موجودگی کا حوالہ دیا۔

اب تک یہ حقیقت سامنے آ چکی تھی کہ ایک معاہدہ سامنے آ چکا ہے اور عوام کی توقعات بڑھ رہی تھیں اور کم از کم غزہ کے اندر یرغمال بنائے گئے اور بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کی توقعتات تو بڑھ ہی گئی تھیں۔

وٹکوف صدر ٹرمپ کے ساتھ
Reuters
مسٹر وٹکوف صدر ٹرمپ کے ساتھ

ایک اہلکار کے مطابق آخری 72 گھنٹوں کی بات چیت میں باریک بینی سے بات چیت کی گئی کہ اس معاہدے کو کیسے نافذ کیا جائے گا۔

مذاکرات کے ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ غزہ میں یرغمالیوں کو کس طرح رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی نقل و حرکت کے لیے کیا 'انتظامات' ہوں گے اور 'رسد' کیا ہوگی ان پر زیادہ زور دیا گيا۔

12 جنوری کو مذاکرات سے واقف ایک سیننیئر فلسطینی اہلکار نے کہا کہ 'تمام اہلکار یہاں ایک ہی عمارت میں ہیں' اور 'آج کی رات فیصلہ کن ہے۔ ہم ایک معاہدے سے صرف چند قدم دور ہیں۔'

یہ ملاقات چھ گھنٹے تک جاری رہی اور پہلے کی طرح کئی بار تعطل کا شکار بھی ہوئی۔

اس بار جو اختلاف پیدا ہوا وہ جنوبی غزہ سے شمال کی طرف بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کے طریقہ کار پر تھا۔

اسرائیل واپس آنے والوں اور ان کی گاڑیوں کی تلاشی لینا چاہتا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی عسکریت پسند یا فوجی سازوسامان نہیں لے جایا جا رہا ہے، جسے حماس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

ثالثوں نے تجویز پیش کی کہ قطری اور مصری تکنیکی ٹیمیں اس کی بجائے تلاشی لیں۔ دونوں فریقوں نے اتفاق کیا اور باقی ماندہ تعطل میں سے ایک کو حل کر لیا گیا۔

15 جنوری کو شام چھ بجے کے فوراً بعد حماس کے ایک مذاکرات کار نے بی بی سی کو ایک پیغام میں لکھا: 'سب کچھ ہو گیا ہے۔'

پوڈیم تیار ہو رہا تھا۔

ایک ایسا معاہدہ جو کبھی ناممکن نظر آتا تھا وہ ہو رہا تھا۔

شان سیڈن کی اضافی رپورٹنگ


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.