’میڈ مین تھیوری‘: ٹرمپ کے غیر متوقع مزاج اور نئی امریکی ڈاکٹرائن نے دنیا کو کیسے بدل دیا

جب گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو انھوں نے کہا ’میں شاید ایسا کروں۔ میں شاید ایسا نہ کروں۔ کوئی بھی نہیں جانتا میں کیا کرنے والا ہوں۔‘ انھوں نے لڑائی میں دو ہفتوں کے وقفے کی یقین دہانی کے بعد ایران پر بمباری کر دی۔ ٹرمپ کے بارے میں سب سے قابلِ پیش گوئی چیز ان کا غیر متوقع مزاج ہے۔
ٹرمپ
BBC

جب گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو انھوں نے کہا 'میں شاید ایسا کروں۔ میں شاید ایسا نہ کروں۔ کوئی بھی نہیں جانتا میں کیا کرنے والا ہوں۔'

انھوں نے دنیا کو یہ یقین دلایا کہ لڑائی میں دو ہفتوں کے وقفے پر اتفاق ہوا ہے تاکہ ایران مذاکرات جاری رکھ سکے۔ لیکن پھر انھوں نے بمباری کر دی۔

ایک رجحان سامنے آیا ہے: ٹرمپ کے بارے میں سب سے قابلِ پیش گوئی چیز ان کا غیر متوقع ہونا ہے۔ وہ اپنا ذہن بدل لیتے ہیں۔ اپنی ہی بات سے متضاد بات کر دیتے ہیں۔ ان کے رویے میں تسلسل نہیں۔

لندن سکول آف اکنامکس میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر پیٹر ٹروبووٹز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا پالیسی ساز آپریشن 'مرکزیت پسند ہے، شاید سب سے مرکزیت پسند۔ جہاں تک بات خارجہ پالیسی کی ہے۔ ایسا رچرڈ نکسن کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ یوں پالیسی کے فیصلے 'ٹرمپ کے کردار، ترجیحات اور مزاج پر منحصر ہیں۔'

ٹرمپ
Getty Images
ٹرمپ نے اس کا سیاسی استعمال کیا ہے۔ انھوں نے غیر متوقع رویے کو اہم سٹریٹیجک اور سیاسی اثاثہ بنا لیا ہے۔

ٹرمپ نے اس کا سیاسی استعمال کیا ہے۔ انھوں نے غیر متوقع رویے کو اہم سٹریٹیجک اور سیاسی اثاثہ بنا لیا ہے۔ ان کی ناقابل پیش گوئی ایک ڈاکٹرائن میں بدل چکی ہے۔ ان کا لایا گیا یہ مزاج وائٹ وائس کی خارجہ اور سلامتی پالیسی چلا رہا ہے اور یہ دنیا کو بدل رہا ہے۔

سیاسیات کے ماہر اسے 'میڈ مین تھیوری' کہتے ہیں۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جس میں ایک عالمی رہنما اپنے حریف کو یہ کہہ کر رضامند کر لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر اسے کامیابی سے اپنایا جائے تو اس سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس سے فائدہ ہو رہا ہے، یعنی وہ امریکی اتحادیوں سے ضرورت کے تحت مراعات حاصل کر رہے ہیں۔

مگر کیا یہ حکمت عملی ہمارے دشمنوں کے خلاف بھی کام کرتی ہے؟ کیا یہ صرف حریفوں کے لیے ایک چکما ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اس کا تعلق ذاتی رویے سے ہوتا ہے؟ اور کیا یہ رویہ بھی قابل پیش گوئی نہیں بن جائے گا؟

حملے، تضحیک اور تعریف

ٹرمپ نے دوسرے دورِ صدارت کا آغاز روسی صدر ولادیمیر پوتن کی تعریف اور امریکی اتحادیوں پر تنقید سے کیا۔ انھوں نے کہا کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے۔

وہ کہتے رہے کہ وہ گرین لینڈ کو امریکہ میں ضم کرنے کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے اتحادی ڈنمارک کا خودمختیار علاقہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پانامہ کینال کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لے گا۔

نیٹو چارٹر کے آرٹیکل پانچ کے مطابق ہر رکن دوسروں کے دفاع کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کے عزم پر شک و شبہات کو جنم دیا۔ سابق برطانوی وزیر دفاع بین والس کہتے ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے آرٹیکل پانچ لائف سپورٹ پر ہے۔'

قدامت پسند اٹارنی جنرل ڈومینک گریو نے کہا کہ یہ اتحاد ابھی کے لیے ختم ہو گیا ہے۔

لیک ہونے والے پیغامات میں دیکھا گیا کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں یورپی اتحادیوں کے لیے نفرت پائی جاتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ 'یورپی مفت خور ہیں، میں ان کے لیے آپ کی نفرت سمجھ سکتا ہوں۔'

رچرڈ نکسن
Getty Images
رچرڈ نکسن بھی ’میڈمین تھیوری‘ استعمال کر چکے ہیں

رواں سال میونخ میں ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس نے کہا کہ امریکہ یورپی سلامتی کا ضامن نہیں رہے گا۔ یہ ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے 80 برسوں کا نیا باب تھا۔

پروفیسر ٹروبووٹز کا کہنا ہے کہ 'ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی وعدوں کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اور شکوک اٹھائے ہیں۔'

'یورپی ملکوں کے امریکہ کے ساتھ جو بھی سمجھوتے تھے، سلامتی، معیشت یا دیگر معاملوں پر، اب وہ مذاکرات کی میز پر ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'ٹرمپ کے قریبی حلقے میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا غیر متوقع ہونا اچھی چیز ہے۔ کیونکہ اس سے ٹرمپ امریکہ کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔'

'ریئل اسٹیٹ کی دنیا میں مذاکرات کے تجربوں سے یہ چیز حاصل ہوتی ہے۔'

ٹرمپ کی حکمت عملی کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ چار ماہ قبل برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر نے پارلیمان کو بتایا کہ دفاع اور سلامتی کا بجٹ بڑھایا جا رہا ہے۔

گذشتہ ماہ نیٹو اجلاس کے دوران اس میں مزید اضافہ ہوا اور نیٹو اتحاد میں ہر ملک یہی راستہ اختیار کر رہا ہے۔

ٹرمپ
Getty Images
نیٹو سربراہ نے ٹرمپ کی خوشامد کرتے ہوئے پیغام بھیجا جو ٹرمپ نے لیک کر دیا

کیا غیر متوقع ہونا بھی قابلِ پیشگوئی بن جاتا ہے؟

ٹرمپ یہ حکمت عملی اپنانے والے پہلے امریکی صدر نہیں۔ سنہ 1968 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن ویتنام جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر شمالی ویتنامی دشمن ہتھیار نہیں ڈال رہا تھا۔

بین الاقوامی امور کے ماہر مائیکل ڈش کہتے ہیں کہ 'ایک موقع پر نکسن نے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر سے کہا کہ 'آپ شمالی ویتنامی ثالثوں کو بتائیں کہ نکسن پاگل ہے اور آپ کو نہیں معلوم وہ کیا کرنے والا ہے۔ اس لیے آپ معاہدہ کر لیں، اس سے پہلے کہ حالات خراب ہوں'۔'

وہ اسے 'میڈ مین تھیوری' کا نام دیتے ہیں۔

یونیورسٹی کالج لندن میں سیاسیات کی پروفیسر جولی نورمین اس بات سے متفق ہیں کہ غیر متوقع ہونے کی ڈاکٹرائن پر عملدرآمد جاری ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'روزمرہ معاملات میں کیا ہونے جا رہا ہے، آپ اس کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ سے ٹرمپ کی حکمت عملی رہی ہے۔'

ٹرمپ نے ٹرانز اٹلانٹک دفاعی تعلقات کو بدلنے کے لیے اپنے غیر متوقع مزاج کا سہارا لیا۔ کچھ یورپی رہنماؤں نے ٹرمپ سے قریب رہنے کے لیے ان کی خوشامد بھی کی۔

گذشتہ ماہ نیٹو اجلاس کے دوران نیٹو کے سربراہ جنرل مارک روٹے نے ٹرمپ کو ایک پیغام بھیجا جسے ٹرمپ نے لیک کر دیا۔ اس پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ 'میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ایران میں صحیح فیصلہ لیا۔ یہ غیر معمولی تھا۔'

اگرچہ نیٹو ارکان نے دفاعی اخراجات کو پانچ فیصد تک لے جانے کا اعلان کیا تھا مگر روٹے نے کہا کہ 'آپ نے وہ کر دکھایا جو کوئی صدر دہائیوں تک نہ کر پایا۔'

ٹرمپ کے پہلے دور میں شعبہ مواصلات کے ڈائریکٹر انتھونی سکاراموشی کا کہنا ہے کہ 'مسٹر روٹے آپ کو شرمندہ کر رہے ہیں، سر۔ وہ ایئر فورس ون پر بیٹھے آپ پر ہنس رہے ہیں۔'

ٹرمپ کی اس حکمت عملی میں شاید یہی کمزوری ہے: ان کے اقدام کی بنیاد ایسے خیالات ہوں گے جو ٹرمپ کو پسند آئیں۔ یا شاید وہ طویل اور پیچیدہ عمل کی بجائے قلیل مدتی فائدہ دیکھ رہے ہیں۔

اگر ایسا درست ہے تو ٹرمپ کی چال محض حریفوں کو چکما دینے کے لیے ہے۔ ٹرمپ کے رویے سے ان کے حریف بھی بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔

ٹرمپ
Reuters
زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں وینس اور ٹرمپ نے تنقید کا نشانہ بنایا

توجہ اور دھمکیوں کو نظر انداز کرنے والے مخالفین

پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک غیر متوقع نظریہ یا 'پاگل نظریہ' مخالفوں کے خلاف کارآمد ہو سکتا ہے۔

یوکرین کے صدر اور امریکی اتحادی ولادیمیر زیلنسکی کو اوول آفس میں ٹرمپ اور وینس نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعد میں وہ امریکہ کو یوکرین کے معدنی وسائل دینے پر رضامند ہو گئے۔

دوسری طرف پوتن ٹرمپ کی دھمکیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جمعرات کو ایک ٹیلی فون کال کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ 'مایوس' ہیں کہ پوتن یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اور ایران؟ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کی 'ہمیشہ کے لیے جنگوں' میں امریکی مداخلت کو ختم کر دیں گے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا ان کا فیصلہ شاید ان کی دوسری مدت کا اب تک کا سب سے غیر متوقع پالیسی انتخاب تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا مطلوبہ اثر ہوگا؟

سابق برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے مطابق یہ بالکل اس کے برعکس کرے گا: اس سے ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہوں گے، کم نہیں۔

پروفیسر ڈش اس سے متفق ہیں۔ 'میرے خیال میں اب بہت زیادہ امکان ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرے گا۔'

'میرے خیال میں صدام حسین اور معمر قذافی کے انجام کا سبق امریکہ اور حکومت کی ممکنہ تبدیلی کا سامنا کرنے والے دوسرے آمروں نے بھی لیا ہو گا۔'

'لہذا ایرانیوں کو حتمی ڈیٹرنٹ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوگی اور وہ صدام اور قذافی کو منفی مثال کے طور پر اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کو مثبت مثال کے طور پر دیکھیں گے۔'

جنوبی فلوریڈا یونیورسٹی میں سیاست کے پروفیسر محسن میلانی کے مطابق ممکنہ منظرناموں میں سے ایک اسلامی جمہوریہ کا استحکام ہے۔

'1980 میں جب صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا مقصد اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ تھا۔ لیکن بالکل اس کے برعکس ہوا۔ اسرائیلی اور امریکی بھی یہی چاہتے تھے کہ اگر ہم نے سرکردہ لوگوں سے جان چھڑائی تو ایران جلد ہتھیار ڈال دے گا یا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔'

ایران
Reuters
مبصرین کا خیال ہے کہ ایران اب جوہری ہتھیاروں کی پہلے سے زیادہ کوشش کرے گا

مذاکرات میں اعتماد کا فقدان؟

غیر متوقع صلاحیت دشمنوں پر کام نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اتحادیوں کے درمیان اس کی حالیہ تبدیلیوں کو برقرار رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔

جہاں تک ممکن ہو تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو زیادہ تر خودکار انداز میں چل رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ امریکہ کو ایک ناقابل بھروسہ ثابت کے طور پر دیکھا جائے۔

پروفیسر نورمین کا کہنا ہے کہ 'لوگ امریکہ کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہیں گے اگر وہ مذاکرات میں امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے۔ اگر انھیں یقین نہیں ہے کہ امریکہ دفاع اور سلامتی کے معاملات میں ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔'

'ہوسکتا ہے ٹرمپ کے حامی جس تنہائی کے خواہاں ہیں وہ ان کے اپنے گلے پڑ جائے۔'

جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ یورپ کو اب باقاعدہ طور پر امریکہ سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر ٹروبووٹز کہتے ہیں کہ 'چانسلر کے تبصرے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ کی سٹریٹجک ترجیحات بدل رہی ہیں۔۔۔ تو ہاں یورپ کو زیادہ آپریشنل طور پر خود مختار ہونا پڑے گا۔'

پروفیسر ڈش کا کہنا ہے کہ اس کے لیے یورپی ممالک کو ایک بہت بڑی یورپی دفاعی صنعت تیار کرنے کی ضرورت ہوگی، جو فی الحال صرف امریکہ کے پاس ہے۔ مثال کے طور پر یورپیوں کے پاس عالمی انٹیلی جنس کی کچھ جدید صلاحیت ہے لیکن اس میں سے بہت کچھ امریکہ فراہم کرتا ہے۔

'یورپ کو ہتھیاروں کی آزاد پیداواری صلاحیت میں بھی نمایاں اضافہ کی ضرورت ہوگی۔ افرادی قوت بھی ایک مسئلہ ہے۔ مغربی یورپ کو افرادی قوت کی سطح کو دیکھنے کے لیے پولینڈ کی طرف دیکھنا پڑے گا جس کی انھیں ضرورت ہے۔'

اس سب میں برسوں لگیں گے۔

تو کیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے مغربی دنیا کے سکیورٹی فن تعمیر میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی لانے کے لیے کیا واقعی یورپ ٹرمپ کی غیر متوقع صلاحیت سے گھبرا چکا ہے؟

پروفیسر ٹروبووٹز کا کہنا ہے کہ 'اس نے ضرور ایک اثر ڈالا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر ٹرمپ نے کچھ بے نقاب کیا ہے۔۔۔ امریکی سیاست بدل گئی ہے۔ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اتحاد کے لیے چین روس سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ شاید یورپیوں کے لیے درست نہیں ہے۔'

اور پروفیسر میلانی کے مطابق ٹرمپ عالمی نظام میں امریکی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

'اس بات کا بہت امکان نہیں ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی ترتیب کو تبدیل کرنے والے ہیں۔ وہ اس ترتیب میں امریکہ کی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ چین اس ترتیب میں امریکہ کی پوزیشن کو چیلنج کر رہا ہے۔'

لیکن اس سب کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کو درپیش دفاعی اور سلامتی کے تقاضے مختلف ہو رہے ہیں۔

یورپی اتحادی مطمئن ہو سکتے ہیں کہ چاپلوسی اور حقیقی پالیسی میں تبدیلی کے ذریعے انھوں نے ٹرمپ کو بڑے پیمانے پر اپنے ساتھ رکھا ہے۔ آخر کار انھوں نے نیٹو کے حالیہ سربراہی اجلاس میں آرٹیکل پانچ سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔

لیکن غیر متوقع ہونے کا مطلب ہے کہ اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لیے اس کی تاریخی وابستگی کا احترام کرنے کے لیے امریکہ پر مزید انحصار نہیں کر سکتے۔

اگر غیر متوقع نظریہ ایک باقاعدہ پالیسی ہے اور یہ ٹرمپ کے ذاتی مزاج پر مبنی ہے تو بعض اتحادیوں پر یہ کارآمد ثابت ہوئی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts