نہرو کے بعد جناح کا کردار نبھانے والے اداکار جنھیں خدشہ ہے کہ ’اب صرف پاکستانی کردار آفر ہوں گے‘

محمد علی جناح کا کردار ادا کرنے والے معروف اداکار عارف زکریا نے کہا کہ اس ویب سیریز سے قبل بھی انھیں ایک دو بار جناح کے کردار کی پیشکش ہوئی تھی۔

بانی پاکستان محمد علی جناح پر 1998 میں بننے والی جمیل دہلوی کی فلم 'جناح' کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے: ’بہت کم ہی لوگ تاریخ کے دھارے کو نمایاں طور پر بدل پاتے ہیں۔ اس سے بھی کم دنیا کے نقشے میں کوئی ترمیم کر پاتے ہیں۔ اور قومی ریاست بنانے کا سہرا شاید و باید ہی کسی کے سر جاتا ہے۔ اور محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے۔‘

یہاں ہم فلم 'جناح' کی نہیں بلکہ حال ہی میں آنے والی اس ویب سیریز کی بات کر رہے ہیں جس میں محمد علی جناح تقسیم ہند اور آزادی کے چند مرکزی کرداروں میں سے ایک ہیں۔

'فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' نامی یہ ویب سیریز حال ہی میں سونی لِو پلیٹفارم پر سات قسطوں میں پیش کی گئی اور یہ اسی نام کی ایک معروف کتاب پر مبنی ہے جسے انڈیا اور پاکستان سے تعلق نہ رکھنے والے مصنفوں دومنک لاپیئر اور لیری کولنز نے کوئی پچاس سال قبل تحریر کیا تھا۔

انڈین ہدایتکار نکھل اڈوانی کی ویب سیریز نے کئی اعتبار سے پذیرائی حاصل کی ہے اور 75 سال قبل رونما ہونے والے واقعات کو ایک بار پھر سے دنیا بھر کے ناظرین کے سامنے پیش کیا ہے جس کے بارے میں وہی پرانے سوال دہرائے جاتے ہیں۔

کہ کیا یہ انڈین نیشنل کانگریس یا/اور آل انڈیا مسلم لیگ اور ان کے قائدین جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح کی ضد تھی؟ کیا مہاتما گاندھی تقسیم ہند کو روک سکتے تھے؟ کیا انگریزوں نے ایک بار پھر ’بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسی استعمال کی؟ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن ایڈوینا نے اس میں کتنا حصہ ڈالا؟

پُرتشدد اور مشکل تقسیم

یہ کسی ایک شخصیت پر نہیں بلکہ ان سب کا احاطہ کرتی ہے جس کے بارے میں انگریز اخبار دی انڈین ایکسپریس میں فلم کریٹک شبھرا گپتا لکھتی ہیں کہ اگر کولنز اور لا پیئر پر کسی چیز کا الزام لگایا جا سکتا ہے تو وہ ان کا تیز رفتار تحریری انداز ہے جس میں انھوں نے اس سر زمین کی سب سے پرتشدد، مشکل تقسیم میں سے ایک کو آسانی سے ہضم ہونے والے سماجی-سیاسی تھرلر میں بدل دیا ہے، جو موضوع کی پیچیدگی اور باریکیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اور ہندوستان کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کی طرف ان کا واضح جھکاؤ ہے جنھوں نے برطانوی راج کے آخری چند مہینوں میں ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس خطے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے میں مدد کی۔

چونکہ یہ کسی ایک رہنما کی زندگی پر مبنی سوانح حیات نہیں ہے اس لیے مصنفین نے مہاتما گاندھی سمیت مختلف سیاسی شخصیات کو انسانی ہمدردی والے کے طور پر دکھانے کی چھوٹ لی ہے اور کسی کو کم شمار نہیں کیا ہے۔

مولانا آزاد کے کانگریس کے عہدۂ صدارت کا دور ختم ہونے کے بعد گاندھی کا پٹیل کے بدلے نہرو کا انتخاب کرنا اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے جناح کو وزیر اعظم کی کرسی پیش کرنے پر ان کے اصرار جیسے متنازع مسائل کو بہت حد تک چابکدستی سے پیش کیا گیا ہے۔

اس ویب سیریز میں مئی سنہ 1946 کے بعد سے 1947 کی آزادی تک ہندوستان کا احاطہ کیا گيا ہے۔ اس کی ابتدا ایک نیوز بلیٹن سے ہوتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ 'نمسکار، آج مئی 1946 کی صبح ہندوستان کی سرزمین پر بدلاؤ کی ہوا اتنی تیز چل رہی ہے کہ دو سو سال پرانی انگریزی حکومت کی دیواریں گر رہی ہیں۔ برٹش سلطنت کا سورج ڈوبنے کو ہے اور ایک آزاد ہندوستان کیصبح دور نہیں۔'

ابتدائی سین

شملہ میں کیبنٹ مشن کی میٹنگ میں کانگریس کے نمائندے جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد کی انٹری کے ساتھ یہ ویب سیریز حرکت میں آتی ہے پھر دوسرے فریم میں مسلم ليگ کے رہنما محمد علی جناح کو لیاقت علی خان اور بنگال کی صوبائی اسمبلی کے حسین شہید سہرودی کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

ابتدائی مکالمہ ولبھ بھائی پٹیل ادا کرتے ہیں جس میں وہ گجراتی زبان میں جناح سے حال پوچھتے ہیں جس کا جناح انگریزی میں جواب دیتے ہیں۔ اس پر وہ حیرت ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے تو سنا ہے کہ اب آپ غالب جیسی اردو بولنے لگے ہیں تو نہرو کے طنز کا تیر نکلتا ہے ’اولڈ ہیبٹ ڈائی ہارڈ‘ یعنی پرانی عادت مشکل سے ختم ہوتی ہے۔

پھر دوسری صف میں مولانا آزاد لیاقت علی خان سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو لیاقت علی یہ کہتے ہوئے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ 'دین کے غداروں سے کبھی ہاتھ نہیں ملایا جاتا' جس پر پھر نہرو کی جانب سے ایک اور جملہ پھینکا جاتا ہے 'ایک نواب زادہ ایک مولانا کو اسلام سکھا رہا ہے۔'

اس ابتدائی سین سے پوری سیریز کا ٹون واضح ہو جاتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ شبھرا گپتا نے اس سیریز کے بارے میں لکھا کہ 'ایک ہزار سے زائد صفحات کو 40-45 منٹ کی سات اقساط میں سمیٹنے کے لیے کاٹ چھانٹ اور ایک نقطہ نظر کی ضرورت تھی، آپ اس میں توازن بنانے اور معروضیت کی کوشش دیکھ سکتے ہیں، لیکن جناح (عارف زکریا) کو اٹل شخصیت کے طور پر پیش کرتے وقت کوئی ڈھیل نہیں دی گئی ہے۔ بے وجہ انھیں غیر محفوظ فرد دکھایا جاتا ہے جو گاندھی سے بڑا نہ بھی ہو لیکن 'برابر' نظر آنے کا متمنی ہے۔'

اس میں ایک ایسے جناح کی تصویر کشی کی گئی ہے جسے کسی بھی قیمت پر 'ایک خود مختار اور آزاد پاکستان چاہیے اور اس سے کم کچھ بھی نہیں۔'

جناح کی تصویر کشی

اس ویب سیریز میں انھیں ضدی دکھایا گیا اور دی ہندو کے صحافی انوج کمار لکھتے ہیں کہ 'سنہ 2024 کی ایک پرفارمنس جو کچھ وقت تک ہمارے ذہنوں میں رہے گی وہ ہے نکھل اڈوانی کی فریڈم ایٹ مڈ نائٹ میں عارف زکریا کی محمد علی جناح کی تصویر کشی ہے۔'

بی بی سی اردو نے محمد علی جناح کا کردار ادا کرنے والے معروف اداکار عارف زکریا سے بات کہ وہ اسے کس طرح دیکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ اس ویب سیریز سے قبل بھی انھیں ایک دو بار جناح کے کردار کی پیشکش ہوئی تھی لیکن وہ کسی وجہ سے یہ کردار ادا نہیں کرسکے۔

ان کے نزدیک محمد علی جناح کا کردار ادا کرنا ان کے لیے ایک چیلنج تھا کیونکہ وہ بیک وقت برتری اور کمتری کے احساس کا شکار تھے۔ ان کے اندر کی کشمکش کو باہر لانا اور ان کے لہجے اور انداز کو ابھارنا بہت مشکل تھا۔

لیکن انھوں نے کہا کہ چونکہ اس کے سین اتنی اچھی طرح سے لکھے گئے اور انھیں ان کی مشق کرنے کے لیے کافی وقت ملا جس کے سبب یہ ممکن ہو سکا۔

جب ہم نے پوچھا کہ انھوں اس تاریخی کردار کو ادا کرنے کے لیے کوئی پرانی فلم دیکھی جیسے برطانوی اداکار کرسٹوفر لی کے ذریعے جناح کی پیشکش یا گاندھی فلم میں جناح کی پیشکش وغیرہ تو انھوں کہا کہ انھوں نے اس کے بجائے خود سے جناح کی اصل ویڈیوز دیکھ کر تیاری کی۔

ان کے لیے سب سے مشکل کام جناح کی سگار اور پائپ نوشی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا تھا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے زندگی میں کوئی سگریٹ نوشی نہیں کی اور کردار کی اداکاری سے قبل زندگی میں کبھی پائپ سے پالا نہیں پڑا تھا۔

اب ان کی اس کردار کی ادکاری کی جب چاروں جانب تعریف ہو رہی ہے تو عارف زکریا نے ہنستے ہوئے کہا کہ 'مجھے خوف ہے کہ کہیں اب صرف پاکستانی کرداروں کی پیشکش نہ ہونے لگے۔'

جناح کے کردار کی پیشکش

لیکن پھر انھوں نے کہا کہ اس سے قبل انھوں نے 2022 میں آنے والی ویب سیریز 'شور ویر' میں پاکستان کے جنرل ریاض احمد کا کردار ادا کیا ہے جبکہ عالیہ بھٹ کی فلم 'راضی' میں بھی عبدل کا کردار ادا کیا ہے جو کہ ایک مثبت کردار ہے۔

اس کے ساتھ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ شاہ رخ خان کی فلم 'مائی نیم از خان' میں بھی تو تھے، تو وہ کہتے ہیں کہ 'اس میں تو میں نے مین ولن کا کردار ادا کیا تھا۔'

عارف زکریا نے اس سے قبل انڈیا اور چین کی جنگ پر مبنی ویب سیریز '1962: دی وار ان ہلز' میں جواہر لعل نہرو کا کردار ادا کیا ہے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ ایک طرف انھوں نے جناح کا اور دوسری طرف نہرو یعنی تاریخ کے دو باہم مخالف اور دو متضاد شخصیتوں کا کردار ادا کیا ہے تو ان میں انھوں نے کیسے توازن برقرار رکھا۔

اس کے جواب میں عارف زکریا نے کہا کہ 'دونوں پڑھی لکھی اور سافسٹیکیٹڈ شخصیتیں ہیں۔ ان دونوں میں صرف لہجے کا فرق ہے ایک کا قدرے نرم ہے تو دوسرے کا مستحکم۔ مجھے اپنے لہجے اور ان کے نشیب و فراز پر مشق کرنے کی ضرورت تھی باقی دونوں ہی عظیم شخصیتیں ہیں۔'

اس کردار کے لیے انھیں کس طرح اپروچ کیا گیا کے جواب میں مسٹر زکریا نے کہا کہ کوئی دو سال قبل نکھل اڈوانی کے دفتر سے فون آیا تھا کہ انھیں ایک کردار کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور 'پھر جب میں ان سے ملا تو انھوں نے ایک دو سین سنائے اور پھر ہم نے خود کو جناح سے ہم آہنگ سمجھا کیونکہ ہم بھی بمبئی کے ہیں جناح بھی بمبئی کے تھے۔ وہ اچھی زبان بولتے تھے اور اس طرح نکھل کے ذہن میں آیا کہ میں یہ کردار ادا کر سکتا ہوں۔'

'پہلے بھی جناح کا رول آفر ہوا تھا'

انھوں نے مزید کہا: 'اتفاق کی بات ہے کہ شیام بینیگل کے دو پروجیکٹس میں مجھے اس کردار کی پیش کش ہوئی تھی، ان کے مینیجر اتل تیواری نے مجھ سے رابطہ کیا تھا لیکن میں کسی وجہ سے وہ کردار ادا نہ کر پایا۔ پھر ایک اور ویب سیریز میں پیشکش ہوئی۔ اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ گذشتہ چند سالوں میں میرا جناح کے ساتھ کوئی تعلق بن رہا تھا۔ لیکن ان کہانیوں میں جناح کا اس قدر اہم رول نہیں تھا۔'

انڈیا میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ جس نے بھی جناح کی تعریف کی ہے اسے حاشیے پر لا دیا گیا ہے جیسے کہ بی جے پی رہنما لا کرشن اڈوانی ہوں یا پھر جسونت سنگھ ہوں جنھوں نے جناح پر کتاب لکھی تھی انھیں اس کا خمیازہ بھگتا پڑا۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہ 'سیاست ایک الگ چیز ہے اور پرفارمنس علیحدہ چیز ہے اور اسے آپ ایک چلنج سمجھ کر کرتے ہیں، وہ اتنے کمپلیکس آدمی تھے، ان کا اپنا ایک نظریہ اور ان کی اپنی فکر تھی، اب چاہے وہ غلط ہو یا سہی یہ الگ بات ہے، آپ راون کا کردار یا ولن کا کردار تو ادا کرتے ہی ہیں ناں!'

انھوں نے بتایا کہ بچپن میں جب وہ اپنے والد کے ساتھ مالابار ہلز کی طرف جاتے تھے تو ان کے والد ان کی حویلی کی طرف اشارہ کرکے ان کے بارے میں بتاتے تھے۔ اب تو وہاں جنگل اگ آئے ہوں گے۔

جناح کے کردار کی تیاری کے سلسلے میں عارف زکریا نے بتایا کہ انھوں نے ان کے لہجے پر ریاض کیا کہ وہ کسی بات کو زور دے کر بولتے تھے چاہے ان کے خیالات غلط ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ اسے اس طرح بولتے تھے کہ ان کی بات ہی صحیح ہے۔

'مجھے ایک ایسے جناح کا کردار ادا کرنا تھا جو بیمار ہے تاہم پرعظم ہے، آنکھوں سے بیماری اور عزم دونوں کا اظہار ہونا چاہیے۔

صداقت پر کتنی مبنی؟

'جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ نکھل کی اس کردار کے بارے میں بہت واضح سوچ تھی کہ ان کی اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ کیسا رشتہ ہے، لیاقت علی کے ساتھ کیسا رشتہ ہے، نہرو اور گاندھی کے ساتھ کیسا رشتہ ہے یہ سب بہت واضح تھا اور کہا جاتا کہ لکھا اچھا ہو تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔'

اس کردار نے آپ کو کتنا متاثر کیا یا یہ کردار آپ میں کتنا زندہ ہے تو انھوں نے کہا کہ 'کردار کوئی بھی ہو اس سے آپ کو باہر آنا پڑتا ہے۔ جب آپ کوئی کردار کر رہے ہیں ہوتے ہیں اس کے ساتھ سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن پھر آپ کو دوسرا کردار ادا کرنا ہے۔ اب اس کا دوسرا سیزن آنے والا ہے اس کی ڈبنگ ہو رہی اس لیے میں کہوں گا اس نے مجھے دلیپ کمار کی طرح یا پرتھوی راج کپور کی طرح متاثر نہیں کیا جیسے انھیں چند ٹریجڈی فلموں اور مغل اعظم نے متاثر کیا تھا۔'

'ڈر صرف یہ کہ اس کے بعد کہیں صرف پاکستانی کیرکٹرز کے رولز نہ آفر ہوں۔ میں نے راضی میں مثبت کردار ادا کیا جبکہ شور ویر میں مین ولن رہا۔ لیکن ڈر یہ ہے کہیں چھاپ نہ پڑجائے کہ لہجہ اچھا ہے، اردو اچھی بولتا ہے تو اسے پاکستانی کردار دیا جائے۔ اس کردار کے ساتھ ایک اطمینان کا احساس ہے کہ لوگوں نے اسے سراہا اور لوگوں کو اچھا لگا۔'

انھوں نے کہا ویسے فلموں کا کامیاب ہونا آپ کے بس میں نہیں ہوتا۔ انھوں نے بتایا کہ سکھوں کے پہلے گرو گرو نانک پر مبنی فلم 'نانک شاہ فقیر' بہت اچھی فلم تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ ان کی فلم 'درمیاں' کو پزیرائی ملی جس میں انھیں نے خواجہ سرا کا کام کیا ہے جبکہ ان کی فلم 'ڈانس لائک اے مین' کو اتنی پزیرائی نہ مل سکی۔

جب ان سے یہ پوچھا کہ یہ سیریز لاپیئر اور کولنز کی کتاب پر کتنی صداقت سے اتاری گئی ہے تو انھوں نے کہا کہ جنتا ممکن تھا اتنا اس کا حق ادا کیا گيا ہے۔

تنقید

جبکہ بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ اس میں تخلیقی آزادی لی گئی ہے اور اس کے تحت فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آنے والے نوا کھالی کے علاقے میں گاندھی کا کردار دو برادریوں کے درمیان ٹوٹے ہوئے تعلقات کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے بلکہ مہاتما کی اخلاقی طاقت کو بھی پیش کرتا ہے جہاں چاروں طرف نفرت کی حکمرانی نظر آتی ہے۔

اس میں شروع سے مسلمانوں کو علیحدگی پسندانہ جذبات کو بھڑکانے والا دکھایا گيا ہے جبکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور ہندو مہاسبھا کے کردار کو بالکل اخیر تک باہر رکھا گیا ہے۔

انوج کمار دی ہندو میں لکھتے ہیں کہ 'ایک بڑے حصے کے لیے، سینیما کی نگاہوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غیر متناسب طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلی تھی اور کانگریس کو مجبور کر دیا تھا۔'

جبکہ بعضے دیگر کو کالنز اور لاپیئر کی کتاب سے ہی پریشانی ہے جس نے اس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو صاف صاف بچا لیا ہے۔ اس کا دوسرا سیزن شاید ان کمیوں کو دور کر سکے لیکن یہ متنازع موضوع نظریاتی کشمکش کی ڈور میں الجھا کبھی ادھر تو کبھی ادھر جھولتا نظر آتا رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.